• 4 مئی, 2024

وہ قرآنی اور شرعی وحی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کرتی تھی

وہ قرآنی اور شرعی وحی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کرتی تھی
وہ یقیناً بند ہو گئی تھی اور ہو چکی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
مولوی صاحب (حضرت مولوی محمد عبدالعزیز صاحبؓ کے والد مولوی محمد عبداللہ صاحب۔ ناقل) نے کہا۔ ان وحیوں کا تو قرآنِ کریم میں ذکر آیا ہے۔ کیا یہ بھی کہیں ذکر آتا ہے کہ اس امت محمدیہ میں بھی وحی ہو گی؟ اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جبکہ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی امتوں میں وحی ہوتی رہی ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں دعا سکھلائی ہے جس کے بغیر آپ کا یقین ہے کہ نماز ہی نہیں ہوتی اور ہر رکعت میں اس کا پڑھنا فرض ہے۔ فرمایا صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحہ: 6)۔ یعنی خدایا تو ہمیں اُن لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا اور وہ ایمان ہمیں بھی عطا فرما۔ پس جب اُن لوگوں میں وحی کا انعام موجود ہے، تو دعا کے نتیجے میں اس امت میں کیوں وحی نہ ہو گی۔ دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ آپ نے آیت کا حوالہ دیاکہ اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۱﴾ (حم سجدہ: 31)۔ یعنی جن لوگوں نے کہہ دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر مستقیم ہو گئے، استقامت اختیار کی، ثابت قدم ہوئے، اُن پر خدا کے ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ مت خیال کرو اور مت غم کرو اور تمہیں اُس جنت کی بشارت ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس آیت سے نزولِ وحی بوساطت ملائکہ ضروری ہے جو اس امت کے مومنین اور اہلِ استقامت کے لئے ضروری ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تیسری بات، تیسری آیت کہ لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (یونس: 65) کہ مومنین خیر اُمّت کے لئے اس حیاتی دنیا میں بھی بشارتیں ملتی ہیں اور آخرت میں بھی ملیں گی۔ پس یہ بشارتیں وحی نہیں تو اور کیا ہے؟پس اس ضمن میں حضور نے بہت سی اور بھی قرآنی آیات نزول وحی کے ثبوت کے طور پرپیش کیں۔ یہ مناظرہ جب ہو رہا تھا تو مولوی صاحب نے کہا کہ حضور! یہ تو سچ ہے کہ ان آیات سے نزول وحی ثابت ہوتی ہے اور اس امت کے لئے ہے۔ جب قرآنِ کریم میں ثبوت وحی فی ھذہ الامۃ موجود تھا تو پھر حضرت امّاں جان نے یہ کیوں فرمایا کہ اِنْقَطَعَتِ الْوَحْیُ کہ آج وحی بند ہو گئی۔ کیا آپ کو ان آیات کا علم نہ تھا؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! یہ تو بتلائیے کہ اس جگہ اَلْوَحْی پر اَل (الف لام) کیسا ہے۔ یہ اَلْ اُس وحی کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کرتی تھی۔ اور حضور ہر روز اماں جان کو سنایا کرتے تھے۔ پس وہ قرآنی اور شرعی وحی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کرتی تھی وہ یقینا بند ہو گئی تھی اور ہو چکی ہے۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہے کہ اس قسم کی وحی قیامت تک کے لئے بند ہے جبکہ آیات قرآنیہ میں نزول وحی بالتصریح موجود ہے۔ مولوی صاحب اس پر ساکت ہو گئے اور آگے کوئی نیا سوال نہ کیا۔ (اکیس سوالوں میں سے بس ایک ہی سوال کیا اور بس پھر اُن کی تسلی ہو گئی) حضرت اقدس نے اس کے بعد پھر ایک بڑی مبسوط تقریر فرمائی۔ (بڑی لمبی اور دلائل سے پُر تقریر فرمائی) جس سے اُن جملہ اعتراضات کا خود ہی حل فرما دیا جو کہ مولوی صاحب نوٹ کرکے لائے تھے۔ (اب مولوی صاحب نے باقی سوال نہیں پوچھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس کے بعدجو تقریر فرمائی اُس میں ان سارے سوالوں کے جواب آگئے کہ وہ جو نوٹ کر کے لائے تھے اور آپ کے ایک کھیسے میں (یعنی جیب میں) موجود تھے۔ اس ملاقات سے پہلے (انہوں نے ان سوالوں کا) کسی سے ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ مولوی صاحب اُس وقت متعجب ہوئے اور سوچا کہ اگر اس شخص پر وحی کا نزول نہیں ہوتا تو آپ کو ان باتوں اور سوالات سے کس نے علم دیا جو آپ کے پاس لکھے ہوئے تھے، (یعنی جیب میں پڑے ہوئے تھے)۔ جب یہ دیکھا کہ میرے تو سارے سوال جو میری جیب میں پڑے ہوئے ہیں، ان کا جواب بھی بغیر پوچھے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دے دیا تو تھوڑی دیر خاموش رہے۔ پھر حضور کو عرض کی کہ حضور ہاتھ کریں۔ مَیں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔ پس آپ نے اُسی وقت خدا کے فضل سے بیعت کی اور اس کے بعد آپ کو کبھی بھی کوئی اعتراض حضور کی ذات پر پیدا نہیں ہوا اور آپ کے ایمان اور عرفان میں دن بدن ترقی ہوتی گئی۔ ازاں بعد حضرت خلیفہ اولؓ کی بیعت میں بلا چون و چرا داخل ہوگئے۔ خلافت ثانیہ میں بھی (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی بھی بیعت کی) تب بھی کسی قسم کا شبہ پیدا نہیں ہوا۔ الحمد للّٰہ علی ذالک۔

پھر یہ بیٹے لکھتے ہیں کہ آپ جس وقت بیعت کر کے واپس تشریف لے گئے تو دوآبہ باری اور چناب کے اکثر لوگ جو آپ کے معتقدین میں سے تھے، (اُس علاقے میں جہاں آپ رہتے تھے۔ آپ کے معتقدین میں سے تھے) اور پہلے اُن کا خیال تھا کہ اگر مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر لی تو ہم سب سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں گے۔ لیکن ہوا کیا کہ جب آپ نے بیعت کر لی تو سب کے سب آپ کے دشمن ہو گئے اور آپ کے قتل کے منصوبے کرنے لگے۔ مگر آپ نے نہایت ثبات اور استقلال سے اُن کا مقابلہ کیا اور تبلیغ کا سلسلہ عاشقانہ رنگ میں جاری رکھا اور قریباً اٹھارہ سال تک آپ آنریری مبلغ رہے اور آپ کی معرفت خدا کے فضل سے قریباً تین سو آدمی یا اُس سے زیادہ سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد4 صفحہ7 تا 17۔ روایات حضرت مولوی محمد عبدالعزیز صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 19؍اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

شعراء (مرد حضرات) متوجہ ہوں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2022