• 17 جولائی, 2025

حاصلِ مطالعہ (قسط 10)

حاصلِ مطالعہ
قسط 10

ارشاد نبیؐ

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ، بیماری، بے چینی، تکلیف اور غم پہنچتا ہے، یہاں تک کہ اگر اس کو کوئی کانٹا بھی لگتا ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کی بعض خطائیں معاف کر دیتا ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب المرضی باب ما جاء فی کفارۃ المرض)

ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ‘‘کوئی دن بھی ایسا نہیں کہ جس میں دو فرشتے جبکہ بندے صبح کو اُٹھتے ہیں نازل نہ ہوتے ہوں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے: اَے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا کر اور دوسرا کہتا ہے: بخیل کا مال رائیگاں جائے۔ ’’ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے کہا : یا نبی اللہ! جو شخص طاقت نہ رکھے ؟ آپؐ نے فرمایا : وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے۔ خود بھی فائدہ اُٹھائے اور صدقہ بھی دے۔ انہوں نے کہا: اگر یہ بھی نہ ہو سکے؟ آپؐ نے فرمایا: حاجت مند مصیبت زدہ کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا۔ اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو؟ آپؐ نے فرمایا: چاہئے کہ اچھی بات پر عمل کرے اور بدی سے باز رہے۔ یہی اس کیلئے صدقہ ہے۔

(صحیح بخاری، جلد 3، کتاب الزکاۃ، مطبوعہ 2008ء قادیان)

ارشادات سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام

اسلام نے بڑے بڑے مصائب کے دن گزارے ہیں اب اس کا خزاں گذر چکا ہے اور اب اس کے واسطے موسم بہار ہے

(ملفوظات، جلد5، صفحہ168)

’’میرا صدہا مرتبہ کا تجربہ ہے کہ خدا ایسا کریم و رحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دعا منظور کر لیتا ہے جو اس کے مثل ہوتی ہے۔‘‘

(حقیقة الوحی، روحانی خزائن، جلد22، صفحہ340)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مکتوب گرامی سے اقتباس جو حضور علیہ السلام نے قاضی عبد المجید صاحب مرحوم سالٹ انسپکٹر کے نام رقم فرمایا تھا اور الفضل قادیان دار الامان، 22 جولائی 1943ء میں شائع ہوا تھا۔

’’ہر ایک امر خدا تعالیٰ کی توفیق پر موقوف ہے۔ جس کسی شخص پر خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے تو اس کی یہ علامت نہیں ہےکہ وہ بہت دولت مند ہوجاتا ہے۔ یا دنیوی زندگی اس کی بہت آرام سے گزرتی ہے۔ بلکہ اس کی یہ علامت ہےکہ اس کا دل خدا تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ اور وہ خدا سے پر فعل اور قول کے وقت ڈرتا ہے۔ اور سچی تقویٰ اس کے نصیب ہوجاتی ہے۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضی کی راہوں پر چلاوےاور دنیا و آخرت کے عذاب سے بچاوے آمین۔‘‘

تلاوت کی اصل غرض

حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے بار ہا اپنے درس القرآن میں فرمایا کہ:
’’قرآن کریم کی تلاوت انسان کی سعادت ہے اور تلاوت کی اصل غرض عمل ہے اور یہ غرض پوری نہیں ہوسکتی جب تک انسان قرآن مجید کے مطالب اور مفہوم سے آگاہی حاصل نہ کرے اور یہ آگاہی قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر سے ہوتی ہے۔‘‘

(الحکم 7 اکتوبر 1937ء)

میاں بیوی دونوں ہی جنت میں!

یہ ستمبر 1948ء کی بات ہے اُن دنوں ہمارا قیام نواں کوٹ ملتان روڈ لاہور میں تھا۔ ابَّا جان حضرت مرزا قدرت اللہ صاحب ؓ کی طبیعت علیل تھی، آپ کمرے میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ ہماری اُمّی برکت بی بی، دونوں بہنیں صادقہ اکمل، سعیدہ اور مظفر رفیق اور بڑے بھائی مرزا محمد سعید اور اُن کی بیٹی مبارکہ سب موجود تھے۔ آپ نے نصیحت کرتے ہوئے ہم سب کو کہا کہ آپ نے نماز ہمیشہ با قاعدگی سے ادا کرنی ہے۔ گو کہ آپ آہستہ آہستہ ٹھہر کر بات کر رہے تھے۔ مگر آپ کے الفاظ پوری طرح سمجھ آرہے تھے۔ پھر مخاطب ہوئے اور کہا مجھے میرے بہت ہی پیارے اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہےاور میں نے لبیک کہتے ہوئے کل اُس کے حضور حاضر ہو جانا ہے۔ میں اُس کی رضا پر راضی ہوں اس کے سلوک اور اس کی شفقت سے میرا دل بہت مطمئن ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس عاجز پر کیا ہے، میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ میں اپنے رحیم و کریم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر سکوں۔ جدائی کا سن کر ہم سب اور اُمّی بہت افسُردہ ہوئے، قدرتی امر ہے کہ ایسی شفیق ہستی کی جدائی کیونکر برداشت ہو سکتی ہے؟ آپ نے بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرے بہت ہی رحیم و کریم اللہ تعالیٰ نے اس عاجز پر اپنی شفقت اور رحم کرتے ہوئے الہاماًیہ بشارت دی ہے کہ:

یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔

میری اُمّی یہ سن کر مطمئن ہو ئیں مگر پھر اسی سو گوار عالم میں کہا کہ آپ میرے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرا انجام بھی بخیر کرے۔ آپ نے اسی وقت اپنے دونوں ہاتھ دعا کیلئے اُٹھائے۔ تضرّع اور عاجزی سے کافی دیر تک دعا کرتے رہے۔ دعا ختم کر چکنے کے بعد گویا ہوئے کہ ابھی الہام ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ:

اُسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ

اُمّی کی آنکھیں نم تھیں اور ہم سب کا بھی یہ عالم تھا۔ ایک بار پھر اُمّی نے کہا کہ سعیدہ کا کیا بنے گا؟ ہماری چھوٹی بہن سعیدہ اس وقت میٹرک میں تھی اور رفیق چھوٹا بھائی 13/ 14 سال کا تھا۔ ماں کو بچوں کا فکر کھائے جا رہا تھا۔ ابّا جان نے اپنا دایاں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھایا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ:
’’میرا قادر و قدیر خدا کرے گا ان شاء اللہ ’’ یا کچھ ایسے ہی الفاظ تھے۔ اس کے بعد دعا کرتے کرتے خاموش ہوگئے۔ آپ کمزور ضرور تھے مگر بعد میں بھی بات چیت کرتے رہے۔ ہم سب کو تسلی اور تشفی دیتے رہے۔ اگلے دن جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی تھی، آپ 20 ستمبر 1948ء کو اپنے پیارے ربّ کے حضور حاضر ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

(ماخوذ از کتاب کاروانِ حیات مؤلف مظفر احمد مرزا۔ لندن صفحہ100 تا 101)

تبلیغ کا ایک دلچسپ واقعہ

ایک دفعہ موضع ’’چاوہ‘‘ میں جہاں حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی ؓ نہر کے پٹواری تھے۔ حکیم شیر محمد صاحب (جو حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ کے چچا تھے) اپنی زمین دیکھنے کے سلسلہ میں گئے اور بوتالوی صاحب کو تبلیغی شوق کے نشہ میں احمدیت کے مسائل نہایت عمدگی سے سمجھانے لگے۔ حکیم صاحب کو یہ علم نہیں تھا کہ مولوی بوتالوی صاحب احمدی ہیں۔ جب واپس جانے لگے تو مولوی صاحب ان کی مشایعت کے لیے چند قدم آگے تک گئے اور اس حقیقت کو ظاہر کیا کہ میں تو خدا کے فضل سے پہلے ہی احمدی ہوں۔ آپ کی تبلیغ کے دوران میں اس لیے چپ رہا تا کہ دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے اور آپ کے خاص رنگ سے خدا ان کے سینوں کو کھول دے۔ اس پر حکیم صاحب بےحد خوش ہوئے اور مولوی صاحب سے بغل گیر ہوکر رخصت ہوئے۔

(اصحابِ احمد جلد7)

گھروں میں روزانہ تلاوت کا اہتمام ہونا چاہئے

سیّدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’انصار کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ انہیں قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا شغف ہو۔ حدیث شریف میں آیا ہے خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُراٰنَ وَ عَلَّمَہٗ یعنی تم میں سے بہتر ین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور اسے لوگوں کو سکھائے۔ پھر سیکھنا ہی کافی نہیں بلکہ گھروں میں روزانہ تلاوت کا اہتمام بھی ہونا چاہئے اس نیک عادت کو جاری رکھیں اور اہلِ خانہ کی بھی اس پہلو سے نگرانی کرتے رہیں۔ اسی طرح اپنی اولاد کی ہر پہلو سے نیک تربیت پر خاص دھیان دیں۔ ان کے رحجانات پر نظر رکھیں۔ ان کی دوستیوں پر نگاہ رکھیں اور انہیں معاشرے کے بداثرات سے بچاکر رکھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے انذار کے رنگ میں بدرفیق کو چھوڑ نے کی نصیحت فرمائی ہے۔‘‘

(پیغام سیدنا حضور انور بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ بھارت 2014ء)

(مولانا عطاءالمجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ