• 17 جولائی, 2025

میری دادی سیّدہ دولت بی بی مرحومہ

آج صبح (یکم ستمبر 2021ء بروز بدھ) خاکسار جب مسجد محمود ڈیٹرائٹ سے نماز فجر پڑھنے کے بعد نکلا تو آسمان کی طرف آنکھیں لگائے دیکھ رہا تھا کہ آسمان پر بادل ہیں یا ستارے نکلے ہوئے ہیں۔ ستارے تونظر نہ آئے لیکن ایک طرف ہٹ کر چاند ضرور تھا۔ یہ غالباً محرم الحرام کی 22-23 تاریخ تھی۔

اس وقت مجھے اپنی دادی جان سیدہ دولت بی بی مرحومہ بہت یاد آئیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم اپنے گاؤں میں رہتے تھے۔ تو آپ رات کو جلدی اٹھتی تھیں نماز تہجدپڑھتیں پھر دودھ دھوتیں اور پھر سب کے لئے ناشتہ تیار کرتیں اور پھر اس کے بعد دیگر گھریلو کاموں میں مصروف ہوجاتیں۔

اصل میں اس وقت گھڑیاں ایجاد تو ہوچکی تھیں۔ مگر ہمارے گھر میں کسی کے پاس نہ تھی۔ نہ ہی الارم وغیرہ یا ٹائم پیس تھا۔ دادی مرحومہ کو ستاروں کے ساتھ وقت شناخت کرنے کا ملکہ تھا۔ وہ بتایا کرتی تھیں کہ جب یہ ستارہ یہاں ہو تو میں اٹھتی ہوں۔ اور جب فلاں ستارہ وہاں پر ہو تو نماز فجر پڑھ لیتی ہوں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ رمضان میں بھی وہ ستاروں کی مدد سے ہی سحری پکاتیں اور روزے سب کو رکھواتی تھیں۔ یہ میرے بچپن کی یادداشت ہے اپنی دادی جان مرحومہ کے بارے میں اور آج ستاروں کو دیکھتے ہی ان کی یاد آئی۔ تو سوچا کہ اپنی دادی جان کے بارے میں کچھ مزید بھی لکھوں اور ان کی چند نیکیوں کا تذکرہ کروں۔ اور حدیث نبویﷺ پر عمل ہو کہ اُذكُرُوا مَحاسِنَ موتاكم

جب میرے دادا جان اور دادی جان، ابا جان اور میری والدہ اور ہم تین بہن بھائی ہجرت کر کے گولیکی ضلع گجرات سے یہاں چنی گوٹھ میں عاشق آباد جو کہ ایک موضع ہے جہاں میرے دادا جان سید امیر احمد شاہ صاحب مرحوم نے کچھ زمین خریدی تھی آکر آباد ہوئے۔ تو دادا جان نے سب سے پہلے گھر کے بالکل دروازے کے ساتھ ایک کچی مسجد گارے کی اینٹوں کے ساتھ بنائی جس میں بمشکل 8، 10 نمازی نماز پڑھ سکتے ہوں گے۔ شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا خاندان ہی چھوٹا سا تھا اور پھر صرف ہم نے ہی اس میں نماز پڑھنی تھی۔ میری دادی جان بھی اسی مسجد میں نماز پڑھتی تھیں، سوائے تہجد کے۔ باقی نمازیں میں نے انہیں اس مسجد میں ہی پڑھتے دیکھا ہے۔

قرآن شریف کی اس طرح باقاعدہ تلاوت تو کرتے نہیں دیکھا لیکن ایک پنج سورۃ گھر میں انہوں نے اپنے لئے رکھا ہوا تھا وہ ضرور پڑھتیں اور تلاوت کرتی تھیں۔ میری دادی جان ایک غیر احمدی سید فیملی سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور میرے دادا جان نے حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں 1932ء میں بیعت کی تھی۔ اور دادی جان نے ابھی بیعت نہیں کی تھی انہوں نے 1953ء میں جا کر بیعت کی۔ اور پھر انہیں احمدیت سے یا احمدیت کے عقائد کے بارہ میں کچھ انہیں زیادہ علم بھی نہ تھا۔ ہندوستان میں ہمارے ابا جان کے پڑدادا سید محمد پناہ صاحب کی گدی تھی۔ جیسا کہ آج کل پاکستان یا ہندوستان میں مزارات ہیں۔ وہاں عرس بھی لگتا، نذریں، نیاز بھی آتیں اور چڑھاوے بھی چڑھتے تھے۔ یہ باتیں میری دادی جان کی زندگی پر اثر انداز رہیں۔

میری دادی جان کوئی پڑھی لکھی نہ تھیں بس یہ ان کو پتہ تھا کہ وہ احمدی ہیں اور احمدیت سچی ہے۔ عقائد کیا ہیں اس کا کچھ پتہ نہ تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بیعت کی تھی۔ جب یہ جانا کہ ہم احمدی ہیں اور احمدیت سچی ہے بس پھر دل و جان سے احمدیت کی ہی ہو رہیں۔

ان کے نماز سے شغف کے بارے میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ وہ مسجد ہی میں نماز پڑھتی تھیں اور وہ صرف خود ہی نماز کی پابند نہ تھیں بلکہ گھر میں بھی ہم سب کی نمازوں کا بہت خیال رکھتیں۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے جب میں مبلغ بن گیا۔ پاکستان میں خدمت کی توفیق ملی۔ پھر افریقہ میں 8 سال خدمت کی توفیق ملی پھر امریکہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق کی سعادت پارہا ہوں۔ میں جب بھی امریکہ، افریقہ سےچھٹی پر ربوہ جاتا تو دادی جان کو گاؤں سے ربوہ ہی بلا لیتا تھا کہ جو چھٹی ہے ان کے ساتھ ہی یہاں ربوہ میں گذاروں۔ تو میں جب بھی باہر سے گھر میں داخل ہوتا تو دادی جان کا سب سے پہلے سوال مجھے یہ ہوتا کہ شمشاد نماز پڑھ لی ہے؟شمشاد نماز پڑھ لی ہے؟مجھے یاد ہے کہ انہوں نے یہ بات سینکڑوں مرتبہ مجھے پوچھی ہوگی۔ باوجود اس کے کہ وہ جانتی تھیں میں مربی بن گیا ہوں۔ دوسروں کو بھی سکھاتا ہوں مگر وہ مجھ سے جب بھی میں باہر سے گھر میں داخل ہوتا تھا یہی ایک بات پوچھتی تھیں۔ کیوں کہ نہ تو ان کے پاس گھڑی تھی۔ اور نہ وقت کا زیادہ حساب رکھتی تھیں لیکن سوال یہی ہوتا اور اگر میں کہتا کہ میں تو بازار گیا تھا یا ابھی نماز کا وقت نہیں ہے۔ تو انہیں تسلی ہوجاتی تھی۔ اور میں انہیں بتا کر جاتا کہ اب نماز کا وقت ہے مسجد جارہا ہوں اس سے بھی بہت خوش ہوتی تھیں۔

نڈر اور بہادر خاتون

ہماری دادی جان بہت نڈر اور بہادر خاتون تھیں۔ 1974ء کا زمانہ بہت مشکل زمانہ اور مشکل حالات تھے۔ اُن دنوں میرے ابا جان ربوہ میں آئے ہوئے تھے کہ اچانک حالات بگڑ گئے اور دادی جان اکیلی گاؤں میں تھیں۔ ہمارے موضع کے اور شہر کے لوگوں کو پتہ تھا کہ یہ احمدی گھرانہ ہے تو انہوں نے شہر سے بلوائی حملہ کے لئے اکٹھے کئے اور ان کا خیال تھا کہ ہمارے گھر کو اور جائیداد کو لوٹ لیں اور آگ لگائیں اور ابا جان کو قتل کر دیں وغیرہ۔ جو بھی اس وقت احمدیت کے دشمنوں سے ہوتا تھا وہ کرتے تھے۔ اس صورت میں سب نے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیئے۔ کس طرح دادی جان کو وہاں سے ربوہ لایا جائے۔ جب اس کا پروگرام بنا لیا تو دادی جان نے کہا کہ آپ ربوہ آرام سے رہیں۔ میں یہاں اکیلی رہتی ہوں دیکھ لوں گی کہ کون حملہ آور ہوتا ہے میں خود سنبھال لوں گی۔ چنانچہ دادی جان 3 ماہ تک اکیلی وہاں گھر پر رہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کو حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ 3 ماہ بعد جب خدا تعالیٰ کے فضل سے حالات بہتر ہوگئے تو ابا جان واپس چنی گوٹھ آگئے۔ لیکن دادی جان نے یہ 3 ماہ کا عرصہ بلا خوف و خطر گذارا۔ الحمدللّٰہ

ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک

جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہمارا تو اکیلا گھر تھا احمدیوں کا لیکن دو تین گھر ہمارے گھر کے بالکل ساتھ تھے۔ درمیان میں صرف ہمسایوں کی دیوار تھی۔ جو کہ ہماری ہی زمین پر ان کے مکانات تھے ہمیشہ دادی مرحومہ نے ان کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کیا۔ ہمسایوں کے بچوں کے لئے اور ان کے صبح کے ناشتہ کے لئے گھر سے روزانہ دودھ بھیجتی تھیں۔ اور پھر دوپہر کو لسّی بھجواتی تھیں۔ گھر میں جب گوشت یا کوئی اور اچھا سالن پکتا چاول وغیرہ پکتے تو بھی ہمسایوں کا حق بھجواتیں۔ جب پتہ چلتا کہ کسی کو دودھ کی ضرورت ہے تو اس کی ضرورت بھی پوری کرتیں۔ اس زمانے میں دودھ بیچنا شائد گناہ سمجھا جاتا تھا۔ یعنی اس حد تک وہ خیال کرتیں کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نعمت دی ہے اور اس کا ایک قسم کا شکرانہ یہ ہوگا کہ ہم دوسروں کو بھی اس نعمت سے فیض پہنچائیں۔

نوکروں کے ساتھ حسن سلوک

جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ہمارا گھرانہ زمیندار گھرانہ ہے۔ اور دادی جان مرحومہ کے پاس گھر میں ایک یا دو نوکر ہوتے تھے جو باہر کے کام کاج میں مدد کرتے تھے۔ ان کو تین وقت کھانا چولہے کے ساتھ بٹھا کر پکاکر تازہ کھلاتی تھیں۔ مجھے ایک واقعہ کبھی نہیں بھولتا۔ ایک دفعہ میں بھی دادی جان اور دادا جان کو ملنے گاؤں گیا ہوا تھا( یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم تعلیم کی خاطر چنی گوٹھ سے احمد پور شرقیہ آکر آباد ہوگئے تھے) سردیوں کے دن تھے۔ دوپہر کا کھانا تھا۔ میں نے دادی جان سے کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے روٹی دیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چولہے پر لکڑیاں جلائیں اور آٹا لے کر بیٹھ گئیں۔ دال یا سالن جو بھی تھا وہ پہلے سے پکا ہوا تھا۔ جب پہلی روٹی پکائی تو میں نے سمجھا مجھے ملے گی۔ انہوں نے مجھے کہا جاؤ مجید کو بلا کر لاؤ۔ مجید ہمارا نوکر تھا جو باہر گھاس کاٹ رہا تھا۔ میں اسے بلا کر لایا۔ اتنے میں دوسری روٹی بھی پک چکی تھی۔ دادی جان نے وہ روٹیاں اور سالن پہلے اسے دیا اور پھر بہت سارا مکھن روٹی پر لگا کر دیا۔ میں اس بات پر حیران ہوا۔ اتنے میں ابا جان بھی باہر سے آگئے۔ میں نے سوچا شائد اب ابا جان کو کھانا ملے گا لیکن نہیں دادی جان نے پھر مجھے دیا اور جتنا مکھن مجید کو دیا تھا روٹی پر اس سے کم مجھے دیا۔ پھر تیسرے نمبر پر ابا جان کی باری آئی۔ اور انہیں مجھ سے بھی کم مکھن روٹی پر دیا۔ میں نے بعد میں وجہ پوچھی کہ ایسا کیوں کیا؟ کہنے لگیں کہ وہ نوکر ہے اس کا حق پہلےہے۔ پھر وہ تو کام کر رہا تھا اس کو زیادہ ضرورت تھی۔ آپ تو گھر میں تھے۔ اور کام بھی کچھ نہیں تھا۔ اس لئے نوکر کا حق پہلے ہے۔

واقف زندگی کا احترام

میں نے پہلے بتایا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد گدی نشین اور پیر تھے۔ ہندوستان میں رجولی کے مقام ضلع انبالہ میں ہماری گدی تھی۔ اور اس کی 500 ایکٹر زمین بھی ہمارے استعمال میں تھی۔ بے شمار نذر نیاز، مال و دولت، اجناس اور چڑھاوے کی چیزیں آتی تھیں۔ گھر بھرا رہتا تھا۔ اس کے باوجود میری دادی جان سے ہمیشہ میں نے یہی سنا وہ کہتی تھیں کہ شمشاد اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی ہمارے گھر میں برکت بالکل نہ تھی۔ اور اب خدا کے فضل سے جب سے احمدیت ہے برکت ہی برکت ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے ہمارے تھوڑے میں بہت برکت ڈالی ہوئی ہے۔

میری تو دادی جان کے مقابلہ میں کچھ حیثیت اور مقام نہیں ہے۔ وہ میری بزرگ تھیں لیکن جب میں نے وقف کیا اور جامعہ میں داخل ہوا تو میرا بے حد احترام کرتی تھیں میں نے جو کہہ دیا وہ انہوں نے پورا کرنا ہوتا تھا۔

میری دادی جان نے اپنی زندگی میں بہت کم سفر اختیار کئے تھے اور جب بھی کوئی انہیں کہتا کہ چلو کچھ عرصہ کے لئے ہمارے پاس آکر رہ جائیں تو فوری انکار کر دیتی تھیں کہ میں گھر بار چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ لیکن میں نے جب بھی کہا کہ میں چھٹی پر آیا ہوں آپ یہاں ربوہ ہی آجائیں تو فوراً چلی آتیں اور دو دو ماہ جب تک میری چھٹی ہوتی میرے ساتھ ہی گزارتی تھیں۔

بیعت اور ایمان میں پختگی کا اظہار

میں نے اپنے ابا جان سے محترمہ دادی جان کی بیعت کا پوچھا تو انہوں نے کہا میرے دادا جان مرحوم نے بیعت 1932ء میں کی تھی۔ دادی جان نے اس وقت بیعت نہیں کی تھی۔ بلکہ 1953ء میں جا کر بیعت کی۔

دادی جان مرحومہ کے اپنے کوئی رشتہ دار نہ تھےبلکہ جس گھرانے میں ان کی پرورش اور تربیت ہوئی تھی وہی ان کے رشتہ دار تھے۔ والدین بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔ جب دادی جان مرحومہ نے بیعت کی تو گاؤں کے لوگ اور وہ رشتہ دار جن کے ساتھ ان کے روابط تھے وہ وفد کی صورت میں دادی جان کے پاس گولیکی ضلع گجرات میں آئے۔ اور کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے تم لوگ کافر ہوگئے ہو۔ پہلے تمہارا خاوند (میرے دادا جان سید امیر احمد شاہ صاحب مرحوم) کافر ہوئے اور اب تم نے بھی وہی مذہب اختیار کر لیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ اپنے خاوند اور اس نئے مذہب کو چھوڑ دو ہم تمہیں اپنے ساتھ اپنے گاؤں لئے چلتے ہیں۔ تو میری دادی جان نے یہ جواب دیا کہ ہاں میرے میاں نے بقول تمہارے نیا مذہب اختیار کر لیا ہے لیکن ایک بات ہے کہ جب وہ مسلمان تھے تونہ نمازیں پڑھتے تھے اور نہ ہی کوئی اور نیکی کا کام میں نے کرتے انہیں دیکھا۔ تعویذ دیتے اور لکھتے تھے نیز مزار پر دھمال وغیرہ ڈلواتے تھے اور مشرکانہ رسوم کرتے رہتے تھے۔ لیکن جب سے انہوں نے وہ اسلام چھوڑا ہے اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ پانچوں نمازیں پڑھ رہے ہیں اور جن فضولیات میں وہ تھے وہ بھی ختم کر دی ہیں۔ آپ لوگ واپس چلے جائیں۔ مجھے یہ منظور ہے جو انہوں نےکام کیا ہے۔ پہلے والا اسلام ان کا ٹھیک نہیں تھا بلکہ جب سے وہ مسلمان نہیں رہے تمہارے کہنے کے مطابق وہ نیکی پر قائم ہوگئے ہیں۔ الحمد للہ۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔

اپنے پوتی اور پوتوں کے ساتھ محبت کا اظہار

میرے ابا جان سید شوکت علی صاحب ان کی بڑی اولاد تھیں۔ قدرتاً ابا جان کی اولاد کے ساتھ دادا اور دادی کے طور پر انہیں ہم سے بھی محبت تھی۔ میری بڑی بہن محترمہ سیدہ تنظیم النساء عمر میں مجھ سے ایک سال بڑی ہیں۔ اس وقت جرمنی میں اپنے میاں اور دیگر بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ ان کے ساتھ دادا جان اور دادی جان کو بہت پیار تھا۔ جب ہماری عمر سکول میں جانے کی ہوئی تو مجھے تو دادا جان نے خود سکول جا کر داخل کرایا۔ لیکن جب میری بہن کو انہوں نے کہا تو وہ رونے لگ گئیں کہ میں نے سکول نہیں جانا۔ وہاں پر سکول میں استاد مارتے ہیں۔ بس اس نے رونا شروع کر دیا۔ دادا جان کو رحم آگیا کہنے لگے کہ ٹھیک تم میرے ساتھ گاؤں چلو اور وہیں رہنا کیوں کہ ہماری والدہ مرحومہ کہتی تھیں کہ میں نے اس کو سکول میں ضرور داخل کرانا ہے۔ پس دادا جان آڑے آگئے اور کہنے لگے کہ نہیں جو بچی کہتی ہے میں نے وہی کرنا ہے۔ پس پھر کیا تھا ہماری بہن تنظیم دادا جان کے ساتھ گاؤں چلی گئیں وہیں دادی کے پاس ان کی پرورش ہوئی اور پھر سکول نہیں گئیں ان کی جب شادی ہونے والی تھی میں جامعہ میں پڑھتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اسے کچھ تھوڑا بہت تو پڑھنا آنا چاہیئے چنانچہ میں نے اپنی بڑی بہن کو ا، ب، پ والا قاعدہ سکھایا اور تھوڑا بہت لکھنا سکھایا۔ الحمدللّٰہ کہ وہ کتاب پڑھ لیتی ہیں۔ اور اگر کچھ تھوڑا بہت لکھنا پڑ جائے تو وہ لکھ بھی لیتی ہیں۔ ان سے میں نے فون پر پوچھا کہ دادی جان کی کوئی بات سناؤ تو آواز بھرّا گئی محبت سے جذبات غالب آگئے کہنے لگیں کہ کیا بتاؤں انہوں نے مجھ سے کس قدر پیار کیا ہے میں نے کہا کچھ ان کی کوئی نیکی کی بات یا خصوصیت بتائیں۔ تو کہنے لگیں کہ گھر میں ہمارے ایک نوکر ہوتا تھا جن کا نام مقبول تھا انہیں میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے کھانا ان کو ملتا تھا۔ اور روٹی پر گھی لگا کر دیتی تھیں۔ ہمسایوں کے ساتھ بھی بہت نیک سلوک کرتی تھیں۔ ہمسایوں کے گھر دودھ بھی بھجواتی تھیں اور عید پر بھی ان کے بچوں کو عیدی وغیرہ دیتی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب ہمارے دونوں چچاؤں کی شادی ہوئی۔ چچا سید شبیر احمد صاحب آسٹریلیا اور چچا سید عاشق علی صاحب ربوہ، ہر دو کی بیویوں کو بیٹیوں کی طرح گھر میں رکھا۔ ان کے آرام کا خیال رکھا۔ اور بہت عزت و احترام سے ان کے ساتھ پیش آتی تھیں۔

ایک باہمت خاتون

میں نے اپنے شعور میں اپنی دادی جان کو بیمار نہیں دیکھا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی باہمت خاتون تھیں۔ گاؤں میں ہمارا گھر خدا کے فضل سے بڑا تھا۔ سارے گھر کی روزانہ دو دفعہ صفائی کرتیں۔ پھر ہمارے گھر ہر قسم کے جانور تھے۔ کچھ تو ضرورت کے تحت تھے اور کچھ شوقیہ رکھے ہوئے تھے مثلاً 3، 4 گائیں تھیں۔ بیل تھے کیوں کہ زمیندارہ کی وجہ سے ہل چلانے کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ پھر ایک دفعہ ابا جان نے بھینس بھی خرید لی۔ دادا جان بکری کا دودھ پسند کرتے تھے۔ اچھی خاصی بکریاں تھیں۔ ایک بکری کا نام مجھے اب تک یاد ہے کہ ’’جگنی‘‘ رکھا ہوا تھا دادی نے۔ گائیوں کے پھر بچے تھے۔ گھوڑا دادا جان کی ضرورت کے لئے تھا۔ وہ گھوڑے کی سواری ہی پسند کرتے تھے۔ ایک گدھا بھی تھا۔ جس پر گندم وغیرہ لاد کر شہر لے جاکر آٹا پسوایا جاتا تھا۔ ہرن بھی رکھا ہوا تھا۔ ایک دفعہ سردیوں کی رات ہرن اپنی جگہ سے آزاد ہوگیا اور اس نے ایک بکری کے پیٹ میں اپنا سینگ گھسیڑ دیا۔ جس کی وجہ سے اگلے دن ہرن کو ذبح کر لیا گیا۔

بھیڑیں بھی تھیں اور چکی والے دنبے بھی۔ ابا جان نے کچھ عرصہ کے لئے اونٹ بھی رکھا تھا۔ اس کے علاوہ طوطا، بلی، کتے (4، 5 رکھے ہوئے تھے حفاظت کے لئے) مرغیاں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سب کچھ تھا۔ ان سب جانوروں کا خیال رکھنا کوئی معمولی کام نہ تھا۔ اور ہماری دادی جان ان سب چیزوں کا خیال رکھتی تھیں۔ میں نے کبوتر بھی رکھے ہوئے تھے۔ ان کی بھی دیکھ بھال کرتی تھیں۔

بعض اوقات نوکر چھٹی پر چلا جاتا یا کچھ عرصہ کے لئے غائب ہوجاتا تو پھر دادی جان اکیلی ہی گھر میں، اتنے جانوروں کے لئے گھاس کا، پانی پلانے کا اور پھر گوبر وغیرہ کی صفائی روزانہ کی بنیاد پر، پھر رات کے وقت سارے جانور گھر کی چار دیواری میں باندھے جاتے تھے۔ جب کہ صبح سویرے باہر درختوں کے نیچے، ہر دو جگہ ان کے لئے کھیتوں میں سے گھاس خود کاٹ کر لاتیں۔ اور خود مشین میں اکیلی ہی ان کا چورا کرتیں۔ پھر خود ہی سب جانوروں کو گھاس ڈالتیں۔ اور سب کو پانی پلاتیں تھیں۔ لکھنے میں یہ شائد سادہ لگ رہا ہے لیکن بہت ہی مشکل کام ہے اور تھا۔ مگر انہوں نے کبھی اس میں ناغہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی کسی تکلیف اور تھکان کا کبھی کسی سے اظہار کیا۔

پھر دوسری بات یہ ہے کہ گھر کے اندر پانی کا نلکا نہ تھا۔ باہر کنویں سے ہی صبح و شام پانی گھر کے سارے استعمال کے لئے خود لے کر آتی تھیں۔ اس وجہ سے میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ میں نے ان جیسی بہادر اور باہمت خاتون نہیں دیکھی۔ آدمیوں سے بھی زیادہ وہ کام کرلیتی تھیں۔ کھانا پکانا اس کے علاوہ تھا۔ رات کو بہت کم آرام کرتی تھیں۔ اور پھر سارا دن اوپر والے درج شدہ کاموں میں دن گذار تی تھیں۔

انتہائی سادہ خاتون تھیں۔ مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے کبھی نیا کپڑا پہنا ہو۔ ہاں صاف، دھلے ہوئے کپڑے پہنتی تھیں اور نئے کپڑوں کی بجائے اپنی بہوؤں کے کپڑے پہن کر گذارہ کرتی تھیں۔ کبھی کسی قسم کی کوئی فرمائش نہیں کی۔ آخری عمر میں صرف مجھے یہ کہا تھا کہ مجھے عینک لگوا دیں۔ اور مجھے موٹے حروف والا قرآن شریف لے دیں۔ جب میں نے ان کی آنکھوں کا معائنہ کرایا تو پتہ چلا کہ موتیا ہے۔ پھر اس کا آپریشن ربوہ ہی میں کرایا۔ بس مجھے ان کی ساری عمر میں یہی فرمائش یاد ہے۔ اور خداتعالیٰ کے فضل سے پورا کرنے کی توفیق بھی ملی۔ الحمد للّٰہ

سخت پردہ کی وجہ سے پہچانی نہ گئیں

اتنے سارے گھریلو اور باہر کے کاموں کی وجہ سے بھی پردہ سے کبھی غافل نہ ہوئیں۔ اول تو ہمارے ڈیرے پر باہر کا کوئی آدمی ایسے آتا ہی نہ تھا۔ لیکن اگر کوئی آجاتا تو بھرپور پردہ کرتی تھیں۔ برقعہ وغیرہ تو میں نےانہیں کبھی پہنے نہیں دیکھا لیکن قرآنی حکم کے ماتحت اپنی اوڑھنی اور چادر اس طرح لیتی تھیں کہ پہچانی بھی نہ جاتی تھیں۔

ایک دفعہ تو لطیفہ ہی ہوگیا۔ اور وہ یہ کہ میں جب پہلی یا دوسری مرتبہ امریکہ سے چھٹی پر گیا تو دادی جان وہاں چنی گوٹھ ہی تھیں۔ ابا جان تو مجھے کراچی ائیر پورٹ لینے آتے تھے اور پھر ربوہ تک آتے۔ پھر واپس چنی گوٹھ دادی جان کے پاس چلے جاتے۔ میں نے ابا جان سےکہا کہ بجائے اس کے کہ میں چنی گوٹھ دادی جان کو ملنے جاؤں۔ تو وہ دو چار دن کے لئے ہی ہوگا۔ اور میں چاہتا ہوں کہ جتنا عرصہ میں ربوہ رہوں وہ میرے پاس یہاں ہی رہیں۔ ابا جان کہنے لگے کہ ٹھیک ہے۔ ان دنوں چناب ایکسپریس چنی گوٹھ سٹیشن پر ٹھہرتی تھی اور ادھر سے سیدھی ربوہ تک آتی تھی۔ ابا جان نے دادی جان کو مقررہ تاریخ پر چنی گوٹھ سے چناب ایکسپریس پر بٹھا دیا۔ اب فون نمبر وغیرہ تو تھے نہیں بس خط کے ذریعہ پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ فلاں تاریخ کو چناب پر سوار کر ا دوں گا آپ ربوہ اتار لیں۔

میں نے سوچا کہ ربوہ تو ایک دو منٹ کا سٹاپ ہے۔ پتہ نہیں کس ڈبے میں ہوں گی۔ تلاش کرتے کرتے کہیں گاڑی ہی نہ روانہ ہوجائے۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لیا اور فیصل آباد ہم دونوں چلے گئے کہ وہاں گاڑی 15 منٹ ٹھہرتی ہے۔ تلاش کرنے میں آسانی رہے گی۔ ہم نے ساری گاڑی دیکھ لی۔ خواتین کے ڈبے بھی اور مردوں کے ڈبے بھی مگر ہمیں کچھ پتہ نہ چلا۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ دعا بھی بڑی کی۔ اچانک ایک ڈبے میں دیکھا ایک خاتون ایک سیٹ پر سکڑ کر اور کپڑے میں لپٹ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ اور ان کے پاؤں کی انگلیاں باہر نظر آرہی تھیں۔ میں ان کی پاؤں کی انگلیوں کو پہچانتا تھا۔ چونکہ سارے جسم پر چادر اس طرح لپٹی ہوئی تھی کہ نظر ہی نہ آتی تھیں۔ میں نے ان کے پاؤں کی انگلیوں سے پہچانا اور پوچھا آپ دولت بی بی ہو؟ کہنے لگیں ہاں۔ پھر پتہ چلا اور ہم ان کو اس طرح ربوہ لے کرآئے۔ اندازہ کریں کہ چناب ایکسپریس پر وہ دس سے گیارہ گھنٹے کا سفرتھا انہوں نے سارا سفر اسی طرح چادر میں لپٹے، بغیر کچھ کھائے پیئے گزارا۔

میں نے جب اپنی سب سے چھوٹی بہن سیدہ ناصرہ شفقت صاحبہ حیدر آباد سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ دادی جان کی کوئی بات بتاؤ جو تمہیں یاد ہے تو اس نے بھی یہی لکھ کر بھیجا کہ ’’مجھے دادی جان کے گھریلو ملازم کے ساتھ اچھا سلوک یاد ہے کہ ان کو کھانا ہمیشہ پہلے دینا اور وہی دینا جو سب کے لئے ہوتا تھا۔ اور رات کو جس طرح سب کو دودھ کا گلاس دینا ویسے ان کو بھی دینا۔ اس کے علاوہ ہمسائے بھی جس گھر میں دودھ نہیں ہوتا تھا صبح و شام ان کے گھر دودھ بھیجنا اور یہ کوئی ایک دو دن تک نہیں بلکہ جب تک ان کے گھر کے دودھ کا انتظام نہ ہوجاتا۔ یعنی ان کے گھر جو گائے یا بکری وہ دودھ دینے کے قابل نہیں ہوجانی۔ اس پر بعض اوقات 5، 6 ماہ کا عرصہ اور کبھی زائد بھی گذر جاتا تھا۔ لیکن دادی جان بغیر کسی تکلیف اور دقت کے خوشی خوشی یہ خدمت انجام دیتی تھیں‘‘

میری ایک چچی نے بتایا جو ربوہ میں ہیں ’’بڑی پیار کرنے والی، اور خیال کرنے والی تھیں۔ ہمارے ساتھ بیٹیوں کا سا سلوک کرتی تھیں۔‘‘

میرے چچا سید عاشق احمد طاہر صاحب ربوہ نے بتایا کہ ہماری والدہ نے ہمارے والد کی آخری بیماری میں جو کہ تقریباً 6-7 ماہ کا عرصہ ہے اتنی خدمت، اتنی خدمت کی کہ انہیں ہاتھوں میں اٹھا کر رفع حاجت کے لئے لے جایا کرتی تھیں اور پھر خود ہی انہیں نہلاتی بھی تھیں۔ حد درجہ خدمت کی ہے اور احسن طریقے سے کی ہے۔ اس میں اخلاص اور محبت تھی۔ اور وفا داری سے بیماری میں خدمت انجام دی ہے۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔

میرے ایک کزن عزیزم مبارک احمد صاحب جو میرے منجھلے چچا سید شبیرعلی صاحب کے بڑے بیٹے ہیں، نے جرمنی سے مجھے بتایا کیونکہ عزیزم مبارک احمد نے بھی ایک لمبا عرصہ دادی جان کے پاس گاؤں میں گذارا تھا انہوں نےبتایا کہ ایک چیز کا میری طبیعت پر بہت اثر ہے کہ کبھی کسی فقیر کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ یا آٹا دے دیتی تھیں یا گڑ یا کوئی اور اجناس۔ گاؤں میں زیادہ انہی چیزوں کا رواج ہوتا تھا۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے کبھی کسی فقیر اور مانگنے والے کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھجوایا۔

اس کے علاوہ اگر ہمسایوں سے کوئی خاتون یا بچہ کوئی چیز مانگنے آگیا ہے کہ آج ہمارے گھر آٹا نہیں ہے یا دال نہیں ہے یا نمک مرچ، گھی وغیرہ تو بلا تامل اور بلا تاخیر ان کی ضرورت پوری کر دیتی تھیں۔ اور پھر اگر وہ واپس بھی لے کر آتے تو نہ لیتی تھیں کہ بس اللہ نے آپ کی ضرورت پوری کر دی ہے۔ الحمد للّٰہ

نماز میں شغف

میری ایک کزن سیدہ پروین منصور جو جرمنی میں رہتی ہیں سے میں نے دادی جان کے بارے میں پوچھا۔ کیوں کہ یہ بھی ایک لمبا عرصہ ان کے پاس رہتی رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’دادی جان کی سب سے زیادہ بات جو مجھے یاد ہے اور دل پر نقش ہے کہ وہ نماز کی بہت پابند تھیں۔ جب کام کرتے ہوئے نماز کا وقت آجاتا تو فوراً کام درمیان ہی میں چھوڑ دیتیں اور کپڑے بدل کر پہلے نماز ادا کرتیں۔ اور پھر اپنا کام دوبارہ شروع کر دیتیں۔‘‘

میں دادی جان کے کام پہلے گنوا آیا ہوں کہ زمیندارہ گھر میں کس قدر کام ہوتا تھا۔ سارے گھر والوں کے لئے کھانا پکانا پھر گھر کی صفائی کے علاوہ ہمارے گھر خدا تعالیٰ کے فضل سے کتنے جانور تھے۔ انکی دیکھ بھال اور چارہ وغیرہ ڈالنا۔ اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے نماز کو وقت پر ادا کرتیں۔

بیماری اور وفات

میں جب امریکہ آیا تو میری اہلیہ اور بچے پاکستان ہی میں تھے۔ جنہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کوارٹر تحریک جدید ملا ہوا تھا۔ میری والدہ کوارٹر تحریک جدید ہی میں فوت ہوئیں۔ دادی جان مرحومہ اس وقت گاؤں میں تھیں۔ وہ فوراً آگئیں۔ اور پھر اس کے بعد کہنے لگیں کہ میں بھی اب ربوہ ہی میں رہوں گی۔ چنانچہ آپ ربوہ میں رہائش پذیر ہوگئیں۔

میرے بچوں کے امریکہ چلے آنے کے بعد میرے چھوٹے بھائی نے ایک مکان کرایہ پر لیا اور وہاں پر آگئیں۔ ایک دن نہانے کے لئے غسل خانہ گئیں تو گر گئیں جس سے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس کا علاج ہوا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا اور اسی بیماری میں چند ماہ بستر پر رہیں اور پھر ایک دن اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوگئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

میرے والد سید شوکت علی صاحب اور میرے چچا سید عاشق احمد طاہر صاحب ہر دو دسمبر 1993ء کے جلسہ قادیان میں شامل ہونے کے لئے گئے ہوئے تھے۔ جلسہ کے بعد واپسی تھی۔ ابا جان نے بتایا کہ جس دن ہم ربوہ واپس پہنچے ہیں اور یہ غالباً جنوری 1994ء کی پہلی یا دوسری تاریخ تھی جب دادی جان کا انتقال ہوا۔

عمررکھنے کا کوئی حساب نہیں تھا۔ جس سے بھی پوچھا سب نے یہی بتایا کہ 80 سال سے اوپر ان کی عمر تھی۔ خاکسار نے اپنی دادی مرحومہ کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں وفات کی اطلاع دی۔ حضور کی طرف سے تعزیت کا خط آیا اور دیگر عزیز و اقارب کو بھی حضور نے فرمایا کہ ان کی طرف سے تعزیت کروں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ میں نے ہوسٹن میں ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

بہرحال یہ چند خوبیاں ان کی لکھی ہیں۔ بات ستاروں کے دیکھنے سے چلی تھی حقیقت میں میرے لئے وہ ایک ’’ستارہ‘‘ ہی تھیں جس نے ہمارے سارے گھر کو روشن کر رکھا تھا اورہمارے لئے ہدایت کا موجب تھیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمت کی مجھے بھی توفیق دی۔ میری اہلیہ کو بھی اور ہاں ہمارے ابا جان کو بھی ان کی خدمت کی بہت توفیق ملی۔ اپنی آخری عمر میں ربوہ میں ہی جہاں میرے بچے کوارٹر تحریک جدید میں رہتے تھے آگئی تھیں اور یہاں ہی وفات پائی اور ربوہ میں ہی ان کی تدفین ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق دے۔ (آمین)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ