• 4 مئی, 2024

مرا مطلوب و مقصود و تمنا خدمت خلق است

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:

وَاعۡبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَالۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَمَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿۳۷﴾

(النساء: 37)

ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔

پھر اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے:

وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّیَتِیۡمًا وَّاَسِیۡرًا ﴿۹﴾

(الدھر: 9)

ترجمہ: اور وہ کھانے کو، اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے، مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔

ایک روایت میں ہے:
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: کہ اللہ عزوجل قیامت کے روز فرمائے گا اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا۔ اے میرے رب! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو ساری دنیا کا پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کیا تجھے پتہ نہیں چلا کہ میر افلاں بندہ بیمار تھا تو تُو نے اس کی عیادت نہیں کی تھی۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ اس پر ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جب کہ تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا تو تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم میرے حضور اس کا اجر پاتے۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا۔ ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا۔ مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضور پاتے۔

(مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض)

ایک اور روایت ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنے مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کر تاہے اور ان کی ضروریات کاخیال رکھتا ہے۔

(مشکوٰۃ باب الشفقۃوالرحمۃ علی الخلق)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے او روہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے (سبحانہ تعالیٰ شانہ)…… پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔ وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّیَتِیۡمًا وَّاَسِیۡرًا (الدھر: 9) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے۔ اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے۔ میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی۔ مجھے صحت ہو جاوے تومیں اخلاقی تعلیم پر ایک مستقل رسالہ لکھوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میرا منشا ہے وہ ظاہر ہو جاوے اور وہ میری جماعت کے لئے ایک کامل تعلیم ہو اور ابتغاء مرضات اللہ کی راہیں اس میں دکھائی جائیں۔ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ۔ میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی۔ میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اٹھاتا ہے تو چار قدم گرتا ہے۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کر دے گا۔ اس لیے تم بھی کوشش ، تدبیر، مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیرکچھ بنتا ہی نہیں۔ جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ218۔219)

جماعت میں خدمت خلق اور بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے جتنا زور دیا جاتاہے اور ہر امیر غریب اپنی بساط کے مطابق اس کوشش میں ہوتاہے کہ کب اسے موقع ملے اور وہ اللہ کی رضاکی خاطرخدمت خلق کے کام کو سرانجام دے۔ کیوں ہر احمدی کا دل خدمت خلق کے کاموں میں اتنا کھلاہے اس لئے کہ اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کو ہم بھول چکے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہوتو پھر اس کی مخلوق سے اچھا سلوک کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو۔ یہ بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قرب سے نوازے گا۔ اس خوبصورت تعلیم کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی شرائط بیعت کی ایک بنیاد ی شرط قرار دیاہے کہ میرے ساتھ منسلک ہونے کے بعد اپنی تمام تر طاقتوں اور نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی نہ صرف ہمدردی کرو بلکہ ان کو فائدہ بھی پہنچاؤ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں اول یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں نہ عبادات میں اور دوسرے نوع انسان سے ہمدردی کرو اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو۔ آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو۔ مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی۔ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو۔ جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدر تم سے خوش ہوگا۔ اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو۔ قیامت نزدیک ہے تمہیں ان تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہئے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو ان سے بہت دکھ اٹھانا پڑے گا کیونکہ جو لوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہو جاتے ہیں ان کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پھوٹ نکلتا ہے۔ پس دیندار کو چاہئے کہ اپنی زبان کو سنبھال کر رکھے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ130)

پھر فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو !حقوق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حق اللہ دوسرے حق العباد۔حق اللہ میں بھی امراء کو دقّت پیش آتی ہے اور تکبر اور خود پسندی ان کو محروم کر دیتی ہے مثلاً نماز کے وقت ایک غریب کے پاس کھڑا ہونا بُرا معلوم ہوتا ہے۔ اُن کو اپنے پاس بٹھا نہیں سکتے اور اس طرح پر وہ حق اللہ سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ مساجد تو دراصل بیت المساکین ہوتی ہیں۔ اور وہ ان میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اسی طرح وہ حق العباد میں خاص خاص خدمتوں میں حصّہ نہیں لے سکتے۔ غریب آدمی تو ہر ایک قسم کی خدمت کے لئے تیار رہتا ہے۔ وہ پاؤں دبا سکتا ہے۔ پانی لا سکتا ہے۔ کپڑے دھو سکتا ہے یہاں تک کہ اُس کو اگر نجاست پھینکنے کا موقعہ ملے تو اس میں بھی اُسے دریغ نہیں ہوتا، لیکن امراء ایسے کاموں میں ننگ و عار سمجھتے ہیں اور اس طرح پر اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔ غرض امارت بھی بہت سی نیکیوں کے حاصل کرنے سے روک دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ مساکین پانچ سو برس اوّل جنت میں جائیں گے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ368)

فرمایا:
’’دراصل خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟ کبھی نہیں۔ حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی، مگر نہیں۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حُسنِ سلوک گویا مالک کے ساتھ حُسنِ سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چِڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سردمہری برتے کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ215۔ 216 جدید ایڈیشن)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ایسا ہی ہمارے دلی محب مولوی محمد احسن صاحب امروہی جو اس سلسلہ کی تائید کے لئے عمدہ عمدہ تالیفات میں سرگرم ہیں اور صاحبزادہ پیر جی سراج الحق صاحب نے تو ہزاروں مریدوں سے قطع تعلق کرکے اس جگہ کی درویشانہ زندگی قبول کی۔ اور میاں عبداللہ صاحب سنوری ؔ اور مولوی برہان الدین صاحب جہلمی، اور مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی اور منشی چوہدری نبی بخش صاحب بٹالہ ضلع گورداسپوراورمنشی جلال الدین صاحب یلانی وغیرہ احباب اپنی اپنی طاقت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ مَیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتاہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال دین اور امام دین کشمیری میرے گاؤں کے قریب رہنے والے ہیں۔ یہ تینوں غریب بھائی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیاکہ مَیں چاہتاہوں کہ یہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ وہ سو روپیہ اس غریب نے شاید کئی برسوں میں جمع کیاہوگا مگر للّہی جوش نے خدا کی رضا کاجوش دلایا‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد نمبر11 صفحہ313-314)

ایک واقعہ ہے ایک احمدی حضرت نور محمد صاحب کا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ اور آپ کے پاس نہ کوٹ تھا نہ کمبل۔ صرف اوپر نیچے دو قمیصیں پہن رکھی تھیں کہ گاڑی میں سوار تھے۔ ایک معذور بوڑھا ننگے بدن کانپتا ہوا نظر آیا۔ اسی وقت اپنی ایک قمیص اتار کر اسے پہنادی۔ ایک سکھ دوست بھی ساتھ سفر کر رہاتھا وہ یہ دیکھ کر کہنے لگا ’’بھائیاجی ہُن تہاڈاتے بیڑا پار ہوجائے گا، آپاں داپتہ نئیں کی بنے‘‘؟ پھر چند دن بعد یوں ہوا کہ یہی نور محمد صاحب ایک نیا کمبل اوڑھ کر بیت الذکر مغلپورہ میں نماز فجر کے لئے آئے تو دیکھا کہ فتح دین نامی ایک شخص جو کسی وقت بہت امیر تھا بیماری اور افلاس کے مارے ہوئے سردی سے کانپ رہے تھے۔ تو نور محمد صاحب نے فوراً اپنا نیا کمبل اتارا اور اسے اوڑھا دیا۔

(روح پرور یادیں صفحہ687)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
پس ہمیں ہر وقت یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ آجکل کی دنیا میں جہاں ہر وقت اور ہر جگہ فتنہ و فساد کی حالت طاری ہے ہم جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ایک حصار میں آیا ہوا سمجھتے ہیں اور اس بات پر شکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی عمومی فساد کی حالت سے محفوظ رکھا ہوا ہے حقیقت میں ہم اس وقت محفوظ ہو سکتے ہیں جب ہر وقت ہم یہ احساس رکھیں کہ اپنے جائز معاملات میں بھی دوسروں سے معاملات پڑنے پر نرمی کا رویہّ رکھنا ہے اور صلح کی بنیاد ڈالنی ہے۔ ورنہ ہماری باتیں صرف باتوں کی حد تک رہیں گی اور ہمارا دعویٰ صرف دعوے کی حدتک ہی ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر کوئی فائدہ ہوا ہے۔ یہ ہمارا دعویٰ تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں۔ فائدہ اُسی وقت ہو گا جب اعلیٰ اخلاق کا ہر خُلق ہم میں اپنی چمک دکھا رہا ہو گا۔ ہمدردیٔ خَلق اور صُلح ایک ایسا خُلق ہے جس کو اپنانے کی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار نصیحت فرمائی ہے۔ پس ہر احمدی کو اس پہ بہت توجہ دینی چاہئے۔ آپ کے بعض اور اقتباسات بھی ہیں۔ اپنی مختلف کتابوں میں، اپنی ملفوظات میں آپ نے بار بار اس کا تذکرہ کیا ہے۔

(خطبہ جمعہ 18؍اگست 2017ء)

(بلال حسن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی