• 17 مئی, 2024

یہ تحریر شیخ عطّار اور امام غزالی وغیرہ سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجرؓ بیان کرتے ہیں (بیعت 1891ء کی ہے) کہ رہتاس میں ہم اپنے بھائی منشی گلاب دین صاحب سے کتابیں سنا کرتے تھے، مرثیہ اور دیگر نظمیں وغیرہ، کیونکہ ہم غالی شیعہ تھے۔ ماتم وغیرہ کیا کرتے تھے۔ مرأۃ العاشقین وغیرہ پڑھتے تھے۔ بعض وقت فقراء: امام غزالی اور شیخ عطّار وغیرہ کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ اگر سراج السالکین مصنفہ امام غزالی جیسی تحریر لکھنے والا آج پیدا ہو جائے توچاہے ہمیں سو، دوسو، چار سو میل پیدل جانا پڑے ہم ضرور جائیں گے۔ اتفاقاً یہاں سے (یعنی قادیان سے) توضیح مرام، فتح اسلام دونوں رسالے وہاں پہنچ گئے۔ یہ اشتہار بابا قطب الدین آف مالیر کوٹلہ فقیر لائے تھے۔ اُن کو ایک خواب آیا تھا کہ میں سیالکوٹ گیا ہوں اور وہاں حضرت صاحب سے جا کر ملا ہوں۔ چنانچہ اُس نے وا قعی جانے کا عزم کر لیا اور جس طرح خواب میں لباس اور حضور کا نکلنا دیکھا تھا، ویسا ہی پایا اور یہ کتابیں ساتھ لایا۔ آخر منشی گلاب دین صاحب سے ملا اور کتابیں دے کر کہا کہ مَیں نے اپنی لڑکی کے پاس جانا ہے۔ آپ ایک دو روز میں یہ کتابیں دیکھ لیں۔ (یعنی ادھار کتابیں اُن کو دے گئے کہ مَیں نے آگے سفر پر جانا ہے، دو تین دن ہیں، آپ یہ کتابیں دیکھ لیں۔) وہ رسالے منشی صاحب نے ہمیں پڑھ کر سنائے اور کہا کہ یہ تحریر شیخ عطّار اور امام غزالی وغیرہ سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ (پہلے ان کی کتابیں پڑھا کرتے تھے ناں، جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھیں تو کہتے ہیں یہ تحریر تو اُن سے بہت اعلیٰ ہے) ان دنوں بیعت کا اشتہار حضور نے دیا تھا۔ خاکسار (یعنی یہ روایت کرنے والے) اور منشی گلاب الدین صاحب اور میاں اللہ دتہ صاحب تینوں نے اُسی وقت بیعت کا خط لکھ دیا۔ یہ غالباً 1891ء کی بات ہے۔ جب وہ رسالے سنا چکے تو مَیں نے کہا کہ تمہارا وعدہ تھا کہ اگر اس وقت اس قسم کا آدمی ملے تو چاہے چار سو میل جانا پڑے ہم جائیں گے۔ اب بیعت ہم کر چکے ہیں اور جلسہ سالانہ 1892ء کا بالکل قریب ہے۔ اشتہار شائع ہو چکا ہے۔ چلو زیارت بھی کر آئیں اور جلسہ بھی دیکھ آئیں۔ چنانچہ ہم تینوں نے عزم کر لیا۔ میں ایک جگہ پانچ چھ میل کے فاصلے پر دکان کیا کرتا تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پرسوں چلیں گے۔ لیکن وہ لوگ میرے آنے سے پہلے چل پڑے وہاں ’’کریالہ‘‘ ایک سٹیشن تھا وہ کریالہ والے سٹیشن پر چلے گئے۔ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ میں جہلم سے سوار ہو گیا۔ کریالہ میں ہم تینوں اکٹھے ہو گئے۔ اگلے دن لاہور پہنچے۔ کسی نانبائی کی دکان سے روٹی کھائی۔ لوگ کہنے لگے کہ گاڑی چھ بجے شام کو چلے گی۔ چنانچہ ہم نے عجائب گھر، چڑیا گھر وغیرہ کی سیر کی۔ شام کو سٹیشن پر آ کر بٹالہ کا ٹکٹ حاصل کیا۔ رات گیارہ بجے بٹالہ ایک سرائے میں پہنچے۔ چارپائی بھی کوئی نہ تھی اور وہاں گند پڑا ہوا تھا۔ وہاں رہنے کو دل نہیں چاہا۔ شہر میں ایک مسجد میں پہنچے۔ مسجد میں رات کو آرام کیا۔ خدا کی قدرت کہ وہ مسجد مولوی محمد حسین بٹالوی کی تھی۔ جب صبح نماز پڑھ کر بیٹھ گئے تو مولوی محمد حسین صاحب پوچھنے لگے کہ مہمان کہاں سے آئے ہیں؟ہم نے منشی گلاب الدین صاحب کو کہا کہ آپ تعلیم یافتہ ہیں اور یہ مولوی معلوم ہوتے ہیں۔ آپ ہی بات کریں۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ ہم رہتاس ضلع جہلم سے آئے ہیں۔ مولوی صاحب نے مہمان سمجھ کر گنے کے رَس کی کھیر کھلائی۔ پھر پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے۔ منشی صاحب نے کہا قادیان۔ مولوی صاحب کہنے لگے ادھر کیا کام ہے؟ منشی صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب نے دعویٰ کیا ہے اور جلسہ کا بھی اعلان کیا ہے۔ کہتے ہیں لکھتے ہوئے کہ ایک بات رہ گئی کہ جب رہتاس میں منشی صاحب نے رسالے سنائے تو بھائی اللہ دتہ تیلی نے کہا کہ یہ جو مرزا صاحب نے کہا ہے کہ مسیح مر گیا ہے اور میں آنے والا مسیح ہوں، یہ معمولی بات نہیں ہے اور نہ ایسا کہنے والا معمولی انسان ہے جو تیرہ سو سال کی اتنی بڑی غلطی کو نکالے۔ خیر کہتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب سے ہماری باتیں ہو رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری عقل ماری ہوئی ہے۔ اگر مرزا اچھا ہوتا (یعنی صحیح ہوتا) تو کیا ہم نہ جاتے؟ (مَیں نہ بیعت کر لیتا جا کے؟) پس تم واپس چلے جاؤ۔ کہنے لگا کہ مرزا صاحب ہمارے واقف ہیں۔ مَیں اُن کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ انہوں نے تو ایک دوکان کھولی ہوئی ہے جو چلے گی نہیں۔ خوامخواہ تم بھی پیسے برباد کر رہے ہو۔ اُن کے پاس جانے کاکیا فائدہ۔ وہ کہتے ہیں میرے ساتھی بات سن کے خاموش ہو گئے۔ مَیں نے کہا کہ جو پیسے صَرف کرنے تھے، وہ تو خرچ ہو گئے۔ اب تو ہم ضرور جائیں گے۔ دیکھ کر واپس آ ئیں گے۔ خیر اُس نے روٹی منگوائی اور روٹی کھا کر ہم پیدل چل پڑے۔ قادیان پہنچے، جلسہ شروع تھا۔ پچیس تیس آدمی تھے1))۔ جلسہ فصیل پر ہوا۔ ایک تخت پوش تھا اور چند صفیں تھیں۔ کھانے کے لئے پلاؤ زردہ اور پُھلکے آ گئے۔ ہم نے کھا لئے۔ ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب بسترے اور جگہ دیا کرتے تھے۔ ہمیں بھی اس نے جگہ بتلائی۔ رات گزری۔ صبح سویرے کھانا کھا کر دس بجے جلسہ میں شامل ہوئے۔ حضرت صاحب تشریف لائے۔ حضور کبھی رومی ٹوپی سر پر رکھا کرتے تھے، کبھی اُس پر ہی پگڑی باندھ لیا کرتے تھے اور ٹوپی پگڑی میں سے نظر آتی تھی۔ حضور جب تخت پوش پر کھڑے ہوئے تو میں نے ساتھیوں کو کہا کہ دیکھو ایسی نورانی شکل بھلا اور کوئی نظر آ سکتی ہے۔ اگر مولوی محمد حسین کی باتوں پر جاتے تو کیسے بدنصیب ہوتے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر10صفحہ 314تا317۔ از روایات حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجرؓ)

حکیم عبدالصمد صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ (بیعت 1905ء کی ہے) کہ حضرت صاحب نے تقریر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور فرمایا کہ جو لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتے وہ اس دعا کو کثرت سے پڑھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کی پنجوقتہ نمازوں میں بتلائی ہے۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ (الفاتحہ: 6-7) چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت کثرت سے پڑھیں۔ زیادہ سے زیادہ چالیس روز تک اللہ تعالیٰ اُن پر حق ظاہر کر دے گا۔ کہتے ہیں مَیں نے تو اُسی وقت سے شروع کر دیا۔ مجھ پر تو ہفتہ گزرنے سے پہلے ہی حق کھل گیا۔ مَیں نے دیکھا (خواب بتا رہے ہیں) کہ حامد کے محلہ کی مسجد میں ہوں۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں۔ مَیں حضرت صاحب کی طرف مصافحہ کرنے کے لئے بڑھنا چاہتا تھا کہ ایک نابینا مولوی نے مجھ کو روکا۔ دوسری طرف میں نے بڑھنا چاہا تو اُس نے اُدھر سے بھی روک لیا۔ پھر تیسری مرتبہ مَیں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہا تو اُس نے مجھ کو پھر روکا۔ تب مجھے غصہ آ گیا اور میں نے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں غصہ نہ کرو، مارو نہیں۔ (خواب کا ذکر فرما رہے ہیں۔) مَیں نے عرض کیا کہ حضور! مَیں تو حضور سے مصافحہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ مجھ کو روکتا ہے۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ مَیں نے صبح میر قاسم علی صاحب اور مولوی محبوب احمد صاحب، مستری قادر بخش صاحب کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ (خواب بیان کی۔) میر صاحب نے کہا کہ اسے لکھ دو۔ مَیں نے لکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نیچے لکھ دو کہ مَیں اپنے اس خواب کو حضور کی خدمت میں ذریعہ بیعت قرار دیتا ہوں۔ مَیں نے لکھ دیا۔ مولوی محبوب احمد صاحب جو غیر احمدی تھے انہوں نے کہا کہ تم کو اپنے والد کا مزاج بھی معلوم ہے۔ وہ ایک گھڑی بھر بھی تم کو اپنے گھر نہیں رہنے دیں گے۔ میں نے کہا مجھے اُن کی کوئی پرواہ نہیں۔ خیر حضرت صاحب نے بیعت منظور کر لی اور مجھے لکھا کہ تمہاری بیعت قبول کی جاتی ہے۔ اگر تم پر کوئی گالیوں کا پہاڑ کیوں نہ توڑے، نگاہ اُٹھا کر مت دیکھنا۔

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد12 صفحہ18-17۔ از روایات حضرت حکیم عبدالصمد صاحبؓ ولد حکیم عبدالغنی صاحب)

(خطبہ جمعہ 28؍ دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 فروری 2022