• 12 مئی, 2025

آئیں !آج الفضل کے حوالے سے باتیں کریں

آج سنہ ہجری کے اعتبار سے 1443ھ کا 12 رجب ہے اور آج سے ٹھیک 112 اسلامی سال قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی نے الفضل جاری فرمایا ۔ آئیں اس کی مبارک سالگرہ پر الفضل ہی کے حوالہ سے کچھ باتیں کریں اور اس کی ترقی و ترویج کے لئے نئے عہد و پیمان باندھیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دیتا چلا جائے۔

سیدنا حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ 27دسمبر1938ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
روزنامہ الفضل سلسلہ احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والے اخبارات میں سے سب سے مقدم الفضل ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کی اخبارات اور لٹریچر کی اشاعت کی طرف اتنی توجہ نہیں جتنا متوجہ ہونے کی ضرورت ہے،اتنی وسیع جماعت میں جو سارے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کی سینکڑوں انجمنیں ہیں صرف دو ہزار کے قریب الفضل کی خریداری ہے حالانکہ اتنی وسیع جماعت میں الفضل کی اشاعت کم از کم پانچ سات ہزار ہونی چاہئے۔ایک علمی اور مذہبی جماعت میں الفضل کی اس قدر کم خریداری بہت ہی افسوسناک ہے۔

(الفضل 16نومبر 1960ء)

الفضل خرید کر پڑھنے کی تحریک

سیدنا حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں۔
میرے سامنے جب کوئی کہتا ہے کہ الفضل میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے خریدا جائے تو میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو اس میں کئی باتیں نظر آجاتی ہیں آپ کا علم چونکہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی بات نظر نہ آتی ہو۔

اصل بات یہ ہے کہ جب کسی کے دل کی کھڑکی بند ہوجائے تو اس میں کوئی نور کی شعاع داخل نہیں ہو سکتی پس اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے اپنے دل کا سوراخ بند ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا۔

اس سستی اور غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری اخباری زندگی اتنی مضبوط نہیں جتنی کہ ہونی چاہئے حالانکہ یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اس زمانہ میں اشاعت کے مراکز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہئے۔

(انوارالعلوم جلد14 صفحہ543)

خریداروں میں اضافہ کی ضرورت

حضرت مصلح موعود نے 7؍نومبر1954ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
ہمارے ملک میں اخبارات اور رسائل پڑھنے کا شوق بہت کم ہے۔ الفضل ہمارا مرکزی اخبار ہے لیکن اس کی اشاعت بھی ابھی دو ہزار ہے حالانکہ ہماری جماعت بہت بڑھ چکی ہے۔ اگر جماعت کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ فیصدی بھی اخبار کی اشاعت ہوتی تو دس ہزار اخبار چھپنا چاہئے تھا اور صرف مردوں میں اس کی خریداری ہوتی تب بھی پانچ ہزار خریدار ہونے چاہئے تھے۔ مگر الفضل کا خطبہ نمبر24سو چھپتا ہے اور یہ تعداد بھی بڑا زور مارنے کے بعد ہوئی ہے ورنہ پہلے تو بہت ہی بدتر حالت تھی۔صرف گیارہ بارہ سو اخبار چھپتا تھا۔میں نے زور دیا تو چھبیس سو تک اس کی خریداری پہنچ گئی لیکن پارٹیشن کے بعد چونکہ میں نے ذاتی طور پر اس کی اشاعت میں دلچسپی نہیں لی اس لئے پھر اس کی خریداری بیس سو تک آگئی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اگر جماعت توجہ کرے تو چار پانچ ہزار تک اس کی بِکری ہوسکتی ہے اور پھر ایسی صورت میں الفضل کا حجم بھی بڑھایا جاسکتا ہے اور اس کے مضمون میں بھی تنوع پیدا کیا جاسکتا ہے۔

(مشعل راہ جلد اول صفحہ701)

الفضل بطور تریاق

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:
ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست تھے جو اب فوت ہوچکے ہیں۔ان کے لڑکے نے ایک دفعہ مجھے لکھا کہ میرے والد صاحب میرے نام الفضل جاری نہیں کرواتے۔ میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام الفضل جاری نہیں کراتے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل رہے اور وہ آزادانہ طور پر اس پر غور کرسکے۔ میں نے انہیں لکھا کہ الفضل پڑھنے سے تو آپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اور مذہبی آزادی نہیں رہے گی۔ لیکن کیا اس کا بھی آپ نے کوئی انتظام کر لیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں۔ اس کی کتابیں اس پر اثر نہ ڈالیں۔ اس کے دوست اس پر اثر نہ ڈالیں اور جب یہ سارے کے سارے اثر ڈال رہے ہیں تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر تو کھانے دیں اور تریاق سے بچایا جائے۔

(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ329)

الفضل کی ضرورت

بحیثیت قوم ترقی کرنے کے لئے الفضل کا مطالعہ ضروری ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرماتے ہیں:
لوگ کہہ دیتے ہیں الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا ہونا چاہئے۔ میں بھی کہتا ہوںالفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کاہونا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں (بعض لوگ) کہ اگر الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا نہیں ہوگا تو اس کو لے کے پڑھنے کی کیا ضرورت۔ میں کہتا ہوں کہ اگر الفضل کا ایک مضمون بھی اعلیٰ پایہ کا ہے تو اسے لے کے اسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ میں اس سے بھی آگے جاتا ہوں میں کہتا ہوں اگر الفضل میں ایک ایسا مضمون ہے جس میں ایک بات ایسی لکھی ہے جو آپ کو فائدہ پہنچانے والی ہے تو اس فائدہ کو ضائع نہ کریں آپ۔ اگر آپ نے بحیثیت قوم ترقی کرنی ہے۔

(خطاب جلسہ سالانہ 27دسمبر 1979ء)

(الفضل 24فروری 1980ء)

شکر گزاری کے لئے الفضل پڑھیں

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث 15؍ اکتوبر 1971ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:
بڑا افسوس ہے کہ جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو الفضل کو پڑھتے نہیں ایک نظر ڈالا کریں شاید اس میں دلچسپی کی کوئی چیز مل جائے اور خصوصاً اللہ تعالیٰ کے جو فضل جماعت پر نازل ہورہے ہیں ان کو پڑھا کریں،اس کے بغیر آپ شکر نہیں ادا کرسکتے کیونکہ جس شخص کویہ احساس ہی نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کتنی رحمتیں اور برکتیں اس پر نازل کررہا ہے وہ اللہ کا شکر کیسے ادا کرے گا اور احساس کیسے پیدا ہوگا جب تک آپ اپنے علم کو up to date نہ کریں یعنی آج تک جو فضل نازل ہوئے ہیں اس کا پورا علم نہ ہو۔

(خطبات ناصر جلد3 صفحہ463)

الفضل کا پہلا صفحہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ احمدیہ یو۔کے کی کلاس سے 17 مارچ 2007ء کو خطاب کرتے ہوئے دریافت فرمایا:۔
الفضل ربوہ آتا ہے؟ اور تلقین فرمائی کہ الفضل کا پہلا صفحہ ملفوظات والا پڑھا کرو۔ اگر کوئی کتاب نہیں پڑھ رہے تو وہی پڑھو، رسالوں میں کوئی نہ کوئی اقتباس چھپا ہوتا ہے۔ اس میں سے پڑھا کرو۔ ابھی سے یادداشت میں فرق پڑ جائے گا اور عادت پڑ جائے گی۔

(الفضل 18جون 2008ء)

الفضل کا ایک مضمون

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 8مئی 2009ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
گزشتہ دنوں مَیں الفضل میں ایک مضمون دیکھ رہا تھا۔مالی قربانی پہ کسی لکھنے والے نے لکھا۔ ربوہ میں کسی احمدی کا واقعہ تھا کہ وہ صاحب گوشت کی دکان پر کھڑے گوشت خرید رہے تھے۔ وہاں سے سیکرٹری مال کا سائیکل پرگزر ہوا تو اس شخص کو دیکھ کر جو سودا خرید رہا تھا، سیکرٹری مال صاحب وہاں رک گئے اور صرف یاددہانی کے لئے بتایا کہ آپ کا فلاں چندہ بقایا ہے۔ تو اس شخص نے پوچھا کہ کتنا بقایا ہے؟ جب سیکرٹری مال نے بتایاتو وہ کافی رقم تھی۔ تو انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے وہ سیکرٹری مال کو ادا کر دی اور رسید لے لی۔ اور قصائی سے جو گوشت خریدا تھا وہ اس کو واپس کر دیا کہ آج ہم گوشت نہیں کھا سکتے۔ سادہ کھانا کھائیں گے۔

(الفضل 23جون 2009ء صفحہ4)

الفضل کی سعادت

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے جلسہ سالانہ 2009ء کے انتظامات کا معائنہ کرتے ہوئے 19جولائی 2009ء کو فرمایا:
چند دن ہوئے میں نے الفضل میں ایک مضمون پڑھا، پروازی صاحب کا تھاکہ جلسہ کے دنوں میں ایک خاتون بڑی مستعدی سے اپنے ٹائلٹ میں جو بھی کوئی جاتا تھا اس کے بعد فوری طور پر صفائی کرتی تھیں اور بڑا صاف رکھا ہوا تھا۔ Gloves پہنے ہوئے اور دیکھنے میں بڑی رکھ رکھائو والی خاتون لگتی تھیں۔ تو خیر ایک خاتون جو اندرگئی Washroom استعمال کرنے کے بعد ان کو بڑا خیال آیا پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ کیونکہ یہ لگتا ہے بڑی رکھ رکھائو والی خاتون ہیں۔ لیکن مستعدی سے یہ کام کر رہی ہیں عورتوں کے لئے میں خاص طور پر یہ بات کر رہا ہوں۔ بتانے والے نے ان کو بتایا کہ چوہدری شاہنواز صاحب کی بیگم ہیں اور ہر سال یہ کہہ کر یہاں ڈیوٹی لگواتی ہیں۔ کہ میری ڈیوٹی جو ہے وہ صفائی میں لگائی جائے …… لکھنے والے نے لکھا کہ کئی دفعہ ان کو کہا بھی گیا کہ کہیں اور ڈیوٹی دے دیں لیکن وہ زور دے کر صفائی کے اوپر ڈیوٹی لگواتی تھیں اور بڑی مستعدی سے کام کیا کرتی تھیں۔

(الفضل 18جون2010ء)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 فروری 2022