• 6 مئی, 2024

رشیا۔ یوکرین جنگ اور انسانیت کا مستقبل

حالات کو جاننے اور ان کی بنیاد پر مستقبل کے اندازے لگانا ہمیشہ سے نسلِ انسانی کا محبوب مشغلہ رہا ہے کہیں یہ شوق وہموں کی چادر میں لپٹ کر ڈر اور خوف پیدا کر دیتا ہے اور کہیں یہ علم کے پردے میں اتنا نڈر اور بے پرواہ بنا دیتا ہے کہ مستقبل کنٹرول میں دکھائی دیتا ہے۔ کبھی ہم مستقبل کو سائنس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی مذہب کی، کبھی تاریخ کے جھروکوں سے جھانکنا دل کو بھاتا ہے تو کبھی گرد میں دبی باتوں اور اشاروں کو من پسند معنی دے کر عجیب و غریب نظریات تخلیق کرنے سے سکون حاصل کیا جاتا ہے۔

یہی حال حکومتوں، تھنک ٹینکس اور سٹریٹیجی بنانے والے مختلف اداروں کا بھی ہے، یہ مختلف حالات، خیالات اور امیدوں کی بنا پر آ ئندہ کچھ سالوں یا دہائیوں کی منصوبہ بندی تو کر سکتے ہیں لیکن بہت سے پوشیدہ پیش آ ئندہ واقعات و تباہ کاریوں یا کسی بھی واقعے کے مکمل نتائج کا پیش خیمہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ اس میں خدائی دخل ہوتا اور غیب کے علم پر سوا ئے خدا کے اور کسی کی دسترس نہیں (جو خدا پر یقین نہیں رکھتے وہ بھی علم الغیب جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے) ہے اور ایسی چیزوں کی نشاندہی یا ان خطرات کی پیش بندیوں کے لیےکسی خدائی وجود کی ہی ضرورت ہوتی ہے جو خدا سے ملنے والے علم سے راہنمائی کرے۔

ہر ایک اپنے مفاد چاہتا ہے

موٴرخہ 30؍دسمبر 2022ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے دنیا کے حالات سے متعلق جو فرمایا اسے بہت غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے، حضور نے فرمایا ’’اِسی طرح دنیا کے لئے عمومی طور پر دعا کریں کہ جنگوں سے الله تعالیٰ اِن کو بچائے، حالات خطرناک سے خطرناک ہوتے جا رہے ہیں اور تباہی منہ کھولے کھڑی ہے، کچھ پتا نہیں ہر ایک اپنے مفادات چاہتا ہے، الله تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔‘‘

اس کے دو دن بعد ہی یوکرین کی طرف سے 89 روسی فوجی مارنے کے دعویٰ اور روس کا اس حملے کو تسلیم کرنے نیز روس میں کرسمس کے موقع پر (جو کہ 7؍جنوری کومنائی گئی) روسی صدر کے آرتھوڈوکس چرچ کی روسی فوجیوں کی سپورٹ پر تعریفی بیان حالات کی سنگینی پر مہر ثبت کرتا نظر آتا ہے۔ علاوہ ازیں چین و تائیوان میں بڑھتی کشیدگی، فن لینڈ و سویڈن کے نیٹو میں شامل ہونے کی تگ و دو، انڈیا و چین کا تنازع، پاکستان کی سیاسی سورتحال اور پوری دنیا کی معاشی ابتر حالت حضور کے خدشات کے گواہ ہیں۔

کچھ عرصہ سےمیڈیا و سوشل میڈیا کے جائزےکے بعد یہ اندازہ لگایا کہ دنیا کس طرح کنفیوژن کا شکار ہے، کوئی حالات حاضرہ کے تناظر میں امریکہ و یوروپ کی پالیسوں کی طرف داری کرتا نظر آتا ہے تو کوئی روس و چین سے امن عالم اورمستقبل کو جوڑتا اور امید لگائےنظر آتا ہے۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں جو اس کنفیوژن سے محفوظ ہیں۔ہم حضور انور کے الفاظ کو دیکھیں تو حضورفرما رہے ہیں کہ ’’کچھ پتا نہیں ہر ایک اپنے مفادات چاہتا ہے، الله تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔‘‘ یعنی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں اب سب اپنے مفادات کے حصول میں سرگرداں ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ خدا کے بندے نے ان سب کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی یا راہنمائی نہیں کر رہے۔

انسانیت کی بقا کی خاطر تنازعات کو ختم کریں

آگے بڑھنے سے پہلے حضورانور کی پریس ریلیز موٴرخہ 24؍فروری 2022ء درج کرتا ہوں:
’’یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ یوکرائن میں جنگ چھڑ گئی ہے اور حالات انتہائی سنگین صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں۔ نیز یہ بھی عین ممکن ہے کہ روسی حکومت کے آئندہ اقدامات اور اس پر نیٹو (NATO) اور بڑی طاقتوں کے ردّعمل کے باعث یہ جنگ مزید وسعت اختیار کر جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے نتائج انتہائی خوف ناک اور تباہ کن ہوں گے۔ لہٰذا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مزید جنگ اورخون ریزی سے بچنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے۔ اب بھی وقت ہے کہ دنیا تباہی کے دہانے سے پیچھے ہٹ جائے۔ مَیں روس، نیٹو (NATO) اور تمام بڑی طاقتوں کو پُرزور تلقین کرتاہوں کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں انسانیت کی بقا کی خاطر تنازعات کو ختم کرنے میں صَرف کریں اور سفارتی ذرائع سے پُرامن حل تلاش کریں۔‘‘

اب دوبارہ اگر حضور کے پچھلے الفاظ کو پڑھیں تو صاف معلوم ہو گا کہ جو بھی حضور نے سمجھایا اس پر کسی نے (دونوں اطراف کے ممالک) کان نہیں دھرے۔

خدا کے بندے خدا سے علم پا کر جو راہنمائی کرتے ہیں اور خطرات بتاتے ہیں وہ ان زمینی حقائق کے ساتھ مل کر کیا نتیجے ہمیں دکھاتے ہیں یہ اس کی کھلی اور واضح مثال ہے۔

اقوامِ عالم کی راہنمائی

بات آگے بڑھانے سے پیشتر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ جماعت احمدیہ کے بانی علیہ السلام اور تمام خلفاء اپنے اپنے وقتوں میں دنیا کی دنیاوی معاملات میں بھی بہت اچھی راہنمائی کرتے رہے ہیں چنانچہ حکومت برطانیہ کی بادشاہت کے زمانے کی جھڑپوں سے لے کے پہلی جنگِ عظیم اور پھر دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں میں یہ کوششیں بدرجہ اولیٰ نظر آتی ہیں پھر اقوام متحدہ کے قیام پر راہنمائی پھر چاہے انڈیا پاکستان کی جنگ ہو، بوسنیا کے حالات ہوں خلیج کا بحران ہو یا عراق افغانستان پر حملے ہوں جب جب ایسے واقعات و حالات ہوئے ہیں خلفاء کی امن کی کوششیں انتہاء کو پہنچی ہیں۔ اسی طرح ہمارے پیارے موجودہ امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی عرصہ دراز سے ملکوں کی پارلمنٹس میں خطابات و سیاستدانوں و دانشوروں سے ملاقاتوں میں ایک نادیدہ آفت سے ڈراتے رہے ہیں اور انصاف اور امن کی پالیسوں کو اختیار کرنے کی ترغیب دیتے رہے ہیں اس کے علاوہ حضور دنیا کے ہر خطہ میں لیڈران کو خطوط لکھ کر اس طرف توجہ دلاتے رہے کہ موجودہ حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور یہ مستقبل میں بہت سنگین بحران نیز تیسری جنگ کا سبب بن سکتے ہیں۔ حضور نے یہ باتیں تب دنیا کو بتائیں جب دنیا اپنی مستی میں اسے سمجھنے سے قاصر رہی اور حضور کی باتوں پر دھیان نہ دیا، اب یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ چاہے کوئی کسی مذہب کا بھی پیرو کار ہو یا چاہے خدا کا انکاری بھی ہو وہ اس کے لیئے اس حقیقت کو تسلیم کیئے بغیر چارہ نہیں کہ حضور کی باتیں صد فیصد پوری ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔

قومی اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھیں

حضور نے ایک موقع پر فرمایا:
’’میری دلی دعا ہے کہ دنیا کےحکمران ہوش سے کام لیں اللہ تعالیٰ تمام معصوم اور نہتے لوگوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔‘‘

مزید فرمایا ’’گزشتہ کئی سال سے مَیں دنیا کی بڑی طاقتوں کو متنبہ کرتا چلا آیا ہوں کہ انہیں تاریخ سے، بالخصوص بیسویں صدی میں ہونے والی دو تباہ کن عالمی جنگوں سے، سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مَیں نے مختلف اقوام کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر پرزور توجہ دلائی کہ وہ اپنے قومی اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر معاشرے کی ہر سطح پر حقیقی انصاف کوقائم کرتے ہوئے دنیا کے امن و سلامتی کو ترجیح دیں۔‘‘

(پریس ریلیز:24؍فروری 2022ء)

ہر قوم کے لئے ایک (خاتمہ کا) وقت مقرر ہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(پھر ہم نے اسے کہا) اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ حکم کر اور اپنی خواہش کی پیروی مت کر۔ وہ تجھے اللہ کے راستہ سے بھٹکا دے گی۔ وہ لوگ جو کہ اللہ کے راستہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کو سخت عذاب ملتا ہے کیونکہ وہ حساب کے دن کو بھلا بیٹھتے ہیں۔

(صفحہ:27)

یعنی اللہ حکمرانوں کو انصاف کے ساتھ حکومت کرنے اور اپنی خواہشات کی پیروی پر عمل سے منع فرماتا ہے اور اس کے قدرتی نتیجے کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ جو اس اصول کو بھول جائے گا وہ آخر عذاب میں مبتلا ہو گا۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ اقوام کی تقدیر بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ ﴿۳۵﴾

(الاعراف: 35)

اور ہر قوم کے لئے ایک (خاتمہ کا) وقت مقرر ہے پس جب ان (کے خاتمہ) کا وقت آجائے تو وہ نہ اس سے ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ (ایک گھڑی) آگے بڑھ سکتے ہیں۔

یعنی ہر قوم نے ایک نہ ایک دن اپنے انجام کو پہنچنا ہی ہے چاہے وہ مشرق کی ہو یا مغرب کی شمال کی ہو یا جنوب کی لیکن اس کے خاتمے کی گھڑی صرف اللہ کو پتا ہے۔ دنیاوی قومیں اور قوتیں ایک دوسرے کے خلاف اکثر یہ زبان استعمال کرتی رہتی ہیں کہ ہم اس ملک کو یا قوم کو تباہ کر دیں گے یا قوم کو ہستی سے مٹا دیں گے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ سب خدا کے اذن کے بغیر نہیں ہو سکتا اور خدا اور اس کے رسول ﷺ نے اس آخری زمانے میں یاجوج و ماجوج کی قوت کو ایسی ہی قوت قرار دیا ہے کہ جو اس کے مقابلے پر آئے گا اس کو خاک ہی چاٹنی پڑے گی۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ (موعود) عیسٰیؑ کو وحی کرے گا کہ میں نے ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن کے ساتھ کسی کو جنگ کی طاقت نہیں پس میرے بندوں کو طور پہاڑ کی طرف لے جا اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو کھڑا کرے گا اور وہ ہر بلندی سے چڑھ دوڑیں گے….. نبی اللہ عیسیٰ اور اس کی جماعت دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی ہلاکت کے لئے طاعون پیدا کرے گا۔‘‘

(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)

چنانچہ ہم تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی جان سکتے ہیں کہ جب جب کوئی ملک امریکہ و روس وغیرہ کے مقابل آیا ہے وہ تباہ ہی ہوا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یاجوج ماجوج آمنے سامنے آگئے تو کیا ہو گا؟

یہ سوال ہی دل میں بے چینی پیدا کر دیتا ہے، یقیناً یہ ٹکراوٴ بہت بڑی تباہی پر منتج ہو گا اور اسی نتیجے کو اسلامی پیشگوئیوں میں تیسری عالمی جنگ پر منتج کیا گیا ہے اور یہی صورتحال ہمیں اب درپیش ہے کہ ایک طرف امریکہ و اس کے اتحادی اور ان کانظام ہے جبکہ دوسری طرف روس، چین ان کے اتحادی و ان کا نظام ہے۔

انگریز و رُوس = یاجوج ماجوج

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’ایسا ہی یاجوج ماجوج کا حال بھی سمجھ لیجیے۔ یہ دونوں پرانی قومیں ہیں جو پہلے زمانوں میں دوسروں پر کھلے طور پر غالب نہیں ہو سکیں اور اُن کی حالت میں ضعف رہا لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخری زمانہ میں یہ دونوں قومیں خروج کریں گی یعنی اپنی جلالی قوت کے ساتھ ظاہر ہوں گی۔ جیسا کہ سورہ کہف میں فرماتا ہے……. یعنی یہ دونوں قومیں دوسروں کو مغلوب کر کے پھر ایک دوسرے پر حملہ کریں گی اور جس کو خدائے تعالیٰ چاہے گا فتح دے گا۔ چونکہ ان دونوں قوموں سے مراد انگریز اور رُوس ہیں اس لیے ہریک سعادتمند مسلمان کو دعا کرنی چاہیے کہ اس وقت انگریزوں کی فتح ہو کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں اور سلطنت برطانیہ کے ہم پر بہت احسان ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ373)

یاجوج ماجوج کے ٹکراوٴ کے نتائج

یہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ کی ایک پیشگوئی درج کرتا ہوں، حضور فرماتے ہیں:
’’نئی تہذیب کا قصر عظیم زمین پر اۤرہے گا۔ دونوں متحارب گروہ، یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست، ہر دو تباہ ہو جائیں گے، ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی، ان کی تہذیب و ثقافت برباد اور ان کا نظام درہم برہم ہوجائے گا…. شاید اۤپ اسے افسانہ سمجھیں مگر جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے، وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں، کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔‘‘

(امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ صفحہ9)

جنگ عظیم، آفتوں اور ممالک و اقوام کی تقدیر سے متعلق چند مزید پیش گوئیاں

’’کیا تم خیال کرتے ہوکہ تم ….امن میں رہو گے یاتم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہو گا…… اے یوروپ توبھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کریگا۔ میں شہروں کوگرتے دیکھتاہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدّت تک خاموش رہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے وہ چپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ269)

’’اس زلزلہ کی جو قیامت کا نمونہ ہوگا یہ علامتیں ہیں کہ کچھ دن پہلے اس سے قحط پڑے گا اور زمین خشک رہ جائے گی نہ معلوم کہ معاً اسکے بعد یا کچھ دیر کے بعد زلزلہ آ ئے گا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی صفحہ94 مطبوعہ 1906ء)

’’پہلے یہ وحی الٰہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونۂ قیامت ہوگا بہت جلد آنے والا ہے….. مگر بعد اس کے میں نے دعا کی کہ اس زلزلہ نمونہ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے اور اس دعا کا اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں خود ذکر فرمایا اور جواب بھی دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذا اَخٖرَہُ اللّٰہ اِلیٰ وَقْتٍ مُسَمی یعنی خدا نے دعا قبول کر کے اس زلزلہ کو کسی اور وقت پر ٹال دیا ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ103)

’’یاد رہے کہ… جس قدر خدا نے تباہی کاارادہ کیا ہے وہ پورا ہوچکے گا۔ تب خدا کارحم پھر جوش مارے گا اور پھر غیر معمولی اور دہشت ناک زلزلوں کا ایک مدّت تک خاتمہ ہو جائے گا……. اور جیسا کہ نوحؑ کے وقت میں ہوا کہ ایک خلق کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا….. یعنی پھر لوگوں کی دعائیں سنی جائیں گی اور وقت پر بارشیں ہونگی اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آ جائے گا اور غیرمعمولی آفتیں دور ہو جائیں گی تا لوگ یہ خیال نہ کریں کہ خدا صرف قہار ہے رحیم نہیں ہے اور تا اس کے مسیحؑ کو منحوس قرار نہ دیں۔‘‘

(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ399)

’’طلوع شمس کاجو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اس پر ….. ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جوایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتاہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر وضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم ص، روحانی خزائن جلد3 صفحہ376-377)

’’جب ممالک مغربی کے لوگ فوج درفوج دین اسلام میں داخل ہوجائیں گے تب ایک انقلابِ عظیم ادیان میں پیدا ہوگا اورجب یہ آفتاب پورے طور پر ممالک مغربی میں طلوع کرے گا تووہی لوگ اسلام سے محروم رہ جائیں گے جن پر دروازہ تو بہ کا بند ہے۔ یعنی جن کی فطرتیں بالکل مناسبِ حال اسلام کے واقعہ نہیں ……. اُن کے دل سخت ہوجائیں گے اور ان کو توبہ کی توفیق نہیں دی جاوے گی۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ377-378)

’’دیکھتا ہوں کہ زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں ہے۔‘‘

(اخبار البدر 6؍فروری 1903ء صفحہ23)

’’اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں۔‘‘

(تذکرہ صفحہ813)

خلاصہ و حاصل کلام

یہ تمام پیش خبریاں بتا رہی ہیں کہ ایک وقت میں تمام اقوام و دنیا میں احمدیت اسلام کا سایہ ہو گا اور ہر قوم کی اکثریت اس میں داخل ہو چکی ہو گی جبکہ دوسری طرف یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آخری وقت کی تباہی مقدر ہے کہ جس میں دنیا کے کونے کونے میں عذاب اور تباہیاں آنی ہیں اور نہ جانیں محفوظ ہوں گی نہ مکانات۔ یاجوج و ماجوج کے آپس کا ٹکراوٴ نا گزیر ہے اوراگر ہم حضور انور کی باتوں کو دھیان سے سنیں اور دنیا کے موجودہ حالات کا مشاہدہ کریں تو یہ وقت بہت قریب معلوم ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اب اس تباہی کا وقت قریب ہے جب خون کی ندیاں جاری ہوں گی مگر ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ کے وہ پیش خبری دل کی تسلی کرتی ہے جس میں آپؑ کی دعا کے بعد اللہ نے آپ کو بتایا کہ یہ گھڑی ٹال دی گئی ہے اور حضور انور بھی بار بار ہم احمدیوں کو یہ فرما رہے ہیں کہ اب صرف ہمارے توسط سے ہی یعنی جماعت احمدیہ کے توسط سے ہی امن وابستہ ہے اور اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی اور اپنا حق لوگوں کو سمجھانے کا ادا نہ کیا تو یہ گھڑی قریب ہے۔

کیونکہ آخری زمانہ میں دجال اور یاجوج ماجوج کی شکست تو مقدر ہے ہی اور اس زمانے میں لوگوں نے ابتر حالت میں تو ہونا ہی تھا اس لیے اس حالت میں ان لوگوں اور قوموں سے جو دجال ہیں یا دجالی اثر میں ہیں یہ امید رکھنا کہ وہ تکبر اور حرص چھوڑ کر دنیا کے امن کے لیے متحد ہو جائیں گی تو یہ باطل خیال ہے اور جیسا کہ حضور نے امسال جلسہ سالانہ جرمنی کے اختتامی خطاب میں بھی فرمایا کہ یہ ہم احمدیوں کا کام ہے کہ ہم دنیا میں تبدیلی لائیں اور اس تبدیلی کےلیے اپنی تبدیلی ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ ہمارا مستقبل محفوظ ہے نہ یوروپ کا مستقبل محفوظ ہے اور نہ ہی کسی اور قوم کا محفوظ ہے اور جنگ عظیم کے خطرات ہمیشہ ہمارے سروں پر منڈلاتے رہیں گے، قحط و زلازل آتے رہیں گے اور قومیں آپس میں لڑتی رہیں گی۔

وہ جو تھے اُونچے محل اور وہ جو تھے قصرِ بریں
پست ہو جائینگے جیسے پست ہو اِک جائے غار
ایک ہی گردش سے گھر ہو جائیں گے مٹی کا ڈھیر
جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار
کب یہ ہوگا؟ یہ خدا کو علم ہے پر اس قدر
دی خبر مجھ کو کہ وہ دِن ہوں گے ایّامِ بہار
اُس گھڑی شیطاں بھی ہوگا سجدہ کرنے کو کھڑا
دل میں یہ رکھ کر کہ حکمِ سجدہ ہو پھر ایک بار

(کلام حضرت مسیح موعود دُرِّثمین اُردو)

کلید فتح و ظفر تھمائی تمہیں خدا نے اب آسماں پر
نشانِ فتح و ظفر ہے لکھا گیا تمہارے ہی نام کہنا
بساطِ دنیا الٹ رہی ہے حسین اور پا ئیدار نقشے
جہانِ نو کے ابھر رہے ہیں بدل رہا ہے نظام کہنا

(کلامِ طاہر)

مٹا کے نقش و نگارِ دیں کو یونہی ہے خوش دشمنِ حقیقت
جو پھر کبھی نہ مٹ سکے گا اب ایسا نقشہ بنا ئیں گے ہم

(کلامِ محمود)

یہاں روس کے آنجہانی مشہور فلسفی کونٹ ٹالسٹا ئی کا ایک بیان درج کرتا ہوں:
’’میرے ذہن میں ایک عظیم اور شاندار خیال ہے کہ انسانیت کی فلاح کے لیے ایک نیا مذہب عملی مذہب بنایا جائے جو صرف آخرت کی نوید ہی نہ دیتا ہو بلکہ موجودہ زمینی زندگی میں خوشیاں لائے جو پورے عالم انسان کو ایک لڑی میں پرودے۔‘‘

(ڈائری کونٹ ٹالسٹائی 5؍مارچ 1855ء)

ٹالسٹائے جس خیال کو اپنے خداداد فلسفے سے سمجھا وہ اللہ کا اس آخری وقت کا منصوبہ تھا اور جس کے مطابق دنیا کے امن کا دارومدار اب صرف اور ایک لڑی میں ہی پروئے جانے میں ہے جو کہ صرف خلافت احمدیہ اور جماعت کی لڑی میں پرونے سے ہی ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انور کے ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور ہماری تضرعات کو سنے اور دنیا سے اس بلا کو ٹال دے اور ان سب اقوام کو عقل دے جو اپنے اپنے مفادات پر انسانیت کی قربانی دینے کو تیاربیٹھے ہیں۔ آمین

(طاہر احمد۔ نمائندہ الفضل آن لائن فن لینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی