• 7 مئی, 2024

اولاد کی تعلیم و تربیت

اللہ تعالی نے قرآن میں متعدد مقامات پر اولاد کے لیے طیب اور صالحین جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں اسی اثناء میں مختلف دعائیں انبیاء کرام علیہ السلام کو سکھائی گئیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورة الصافات کی آیت نمبر 100 میں فرماتا ہے:

ترجمہ: اے میرے رب! مجھے نیکو کار اولاد عطا فرما۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَاَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَیَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۷﴾

(التحریم: 7)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔ جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہیں۔

یہاں مومنین کو بالخصوص گھروں کے سربراہوں کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ چونکہ وہ اپنے اہلِ خانہ کی ہر طرح کی مادی ضروریات کے متکفل اور اُن کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہونے کی وجہ سے گھروں کے نگران مقرر کیے گئے ہیں۔

اولاد کے حق میں باپ کی دعا کو خاص قبولیت بخشی گئی ہے جیسا کہ

آنحضور ﷺ فرماتے ہیں تین دعائیں مقبول ہیں (1) والد کی دعا (2) مسافر کی دعا (3) مظلوم کی دعا۔

(ترمذی)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اِس آیت کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’اوپر عورتوں کا ذکر ہوا۔ اب اللہ تعالیٰ تاکید فرماتا ہے کہ اپنے اہلِ خانہ کو وعظ و نصیحت کرتے رہو اور اُنہیں نیک باتوں کی طرف متوجہ کرتے رہو تاکہ وہ عذاب سے بچیں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ (النساء: 35) مَرد عورتوں کے موُدِب ہوا کرتے ہیں کہ اُن کو ہر قسم کے آدابِ شرعیہ و اسلامیہ سکھاویں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ150 مطبوعہ 2005ء)

آنحضرتﷺ نے بچے کی پیدائش پر دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کی تلقین فرمائی۔ جس سے ’’اُم الصبیان‘‘ (اس میں بچوں کو سوکھے کا مرض لاحق ہوجاتاہے اور بچہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ عموماً تشنج کا دورہ پڑتا ہے۔) کی بیماری نہیں ہوتی۔

(الجامع الصغیر)

ان الفاظ سے قرآنی تعلیم کا خلاصہ بچے کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے گویا بچے کے دل میں تعلیم کا پختہ نقش قائم ہوجاتا ہے۔

آنحضورﷺ نے اذان کے متعلق فرمایا: اَلْاَ ذَانُ یَتَرَدَّدُ الشَّیْطٰنُ کہ اذان شیطان کو دھتکار کر دیتی ہے۔

(بخاری)

بچپن کا ابتدائی دور پروش کے لحاظ سے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اسے فحشاء و منکر سے بچانے کے لئے ہدایت دی کہ مُرُوْا اَوْلَادَکُمْ بِالصَّلٰوۃِ وَھُمْ اَبْنَاءَ سَبْعٍ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَ ھُمْ اَبْنَاءَ عِشْرِیْنَ وَ فَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعٍ

(ابوداؤد)

کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اُسے نماز کا حکم دو اگر تین سال کی کوشش کے بعد بھی نماز نہ پڑھے تو اس کو سرزنش کی جائے اور دس سال کی عمر میں اس کو علیحدہ سلائیں اور جب بڑا ہوجائے تو اس کو گھر میں اجازت لے کر داخل ہونا چاہیے۔

پھر فرمایا کہ جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو اُسے لا الہ الا اللّٰہ سکھا دو اور جب دودھ کے دانت گر جائیں تو نماز کا حکم دیں۔

(زاد المعاد)

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب آدمی مرجاتاہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین ایسے اعمال ہیں کہ ان کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے: (1) صدقہ جاریہ کرجائے۔ (2) ایسا علم چھوڑ جائیں جس سے لوگوں کو فائدہ ملتا رہے اور (3) صالح اولاد جو والدین کے لئے دعا کرتی رہے۔

بچوں کی سب سے پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے ماں اگر دین دار تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ اپنی اولاد کی عمدہ رنگ میں تربیت کرسکےگی لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں والد کا تربیت میں کوئی حصہ نہیں دونوں ہی بچوں کی تربیت کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے پڑھ لکھ جائیں ذہین لائق ہوں ایک کامیاب انسان بنیں تو ماں باپ کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو اچھے نمونے دیکھائیں۔

بچے موم کا پتلا ہوتے ہیں وہ کسی بھی سانچے میں ڈھل جاتے ہیں اس لیے ان کو صحیح اور عمدہ سانچے میں ڈھالیں۔ سب سے عمدہ اور بہترین راستہ خدا اور اسکے رسولؐ کا بتایا ہوا راستہ ہے۔

آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کی ایسے رنگ میں تربیت کرو کہ یہ تین خوبیاں بطور عادت و خصلت ان میں راسخ ہوجائیں۔

  • اپنے نبی سے محبت
  • اہلِ بیعت سے محبت
  • تلاوت قرآن اور اس سے محبت

پھر فرمایا:

اَعِیْنُوااَوْلَادَکُمْ عَلَی الْبِرِّ

(الجامع الصغیر ابن سیوطی، ابن ماجہ)

کہ نیکی کے کاموں میں اپنے بچوں کی مدد کیا کرو۔

بچوں میں اس سے احساسِ ذمہ داری پیدا ہوگی اور دوسروں کے کام آنے نیکیوں میں سبقت لے جانے کا جذبہ پیدا ہو اور وہ ایک مفید کار آمد شہری ثابت ہوں۔

بچوں کو پانچ وقتہ نمازوں اور قرآن پاک کی تلاوت کا عادی بنائیں آپ خود قرآن سیکھیں اوربچوں کو سکھائیں۔

بچوں کو روزمرہ کی دعائیں صحیح تلفظ سے یاد کرائیں، ان کے معنی بھی بتائیں اور موقع پرپڑھنے کی عادت ڈالیں۔ MTA اپنے بچوں کے ساتھ مل کر دیکھیں۔

خلافت سے محبت کا بیج ان کے دلوں میں بوئیں تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک ایسا مضبوط اور توانا درخت بن جائیں کہ آندھیاں بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ ان کے سامنے اپنے عملی نمونے پیش کریں تاکہ وہ اس کی اہمیت سمجھیں۔

ماں باپ جب خود نیکی کے میدان میں قدم اٹھائیں گے توان کے بچے بھی ان کے دیکھا دیکھی انہیں راہوں پر چلنے لگیں گے۔

نیک اور صالح اولاد کا حصول

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
بعض دفعہ مائیں دینی امور کی طرف توجہ دینے والی ہوتی ہیں عبادت کرنے والی ہوتی ہیں تو مرد نہیں ہوتے۔بعض جگہ مردہیں تو عورتیں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہیں۔ اولاد کے نیک ہونے اور زمانے کے بداثرات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اولاد کی خواہش اور اولاد کی پیدائش سے بھی پہلے مرد عورت دونوں نیکیوں پر عمل کرنے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ 14؍جولائی 2017ء)

تربیت میں نرم مزاجی ایک اہم اصول ہے بچوں کے دلوں پر نرمی شفقت و محبت کے ساتھ حکمرانی کریں۔

حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جسے نرم مزاجی سے نواز دیا گیا اسے خیر سے نواز دیا گیا، اور جسے نرم مزاجی سے محروم کردیا گیا اسے خیر سے محروم کردیا گیا‘‘۔

(صحیح سنن الترمذی للالبانی:2؍195 صحیح الجامع:6055)

والدین کو بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنا چاہیے تاکہ آپ کے بچے آپ سے ہر بات بغیر کسی خوف کے کہہ سکیں۔ کہ آپ کے بچے کیا کررہے ہیں ان کا ملنا جلنا کن کے ساتھ ہےآپ کو خبر ہو ان کو صحیح اور غلط کی پہچان کرنا سکھائیں۔

بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کریں تاکہ ان کے اندر حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کی قوت پیدا ہوسکے اگر کبھی کوئی غلط فیصلہ ہو جائے تو ان کا ساتھ دیں ناکہ لعن طعن کرنا شروع کردیں اس سے ان کی شخصیت مسخ ہوجائے گی۔انسان ہمیشہ ہی تجربات سےسیکھتا آیا ہے۔

بچوں پر بے جا پابندیاں نہ لگائیں کہ وہ باغی ہوجائیں اور نہ ہی اتنی آزادی دیں کہ آپ غافل اور وہ تباہ ہوجائیں۔

بچوں سے بےجا لاڈ پیار کرنا ہر خواہش کو پورا کردینا ان کو ضدی اور خود سر بنا دیتا ہے اعتدال بہت ضروری ہے۔

بچوں کے دلوں میں جھوٹ سے نفرت پیدا کریں۔ جھوٹ بہت ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ان کو سچ بولنے کی تاکید کریں ناصرف قولی طور پر عملی طور پر عمل کرتے ہوئے۔

ایک مرتبہ آپ کے سامنے ایک عورت نے اپنے کم سن بچہ سے کہا: ’’یہاں آؤ میں تم کو کچھ دوں گی‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم نے اس کو کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟‘‘، اس عورت نے عرض کیا: ’’کھجور‘‘، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اس کو کچھ نہ دیتی تو تمہارے حساب میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔‘‘

(سنن ابی داود:4991 صحیح الجامع:1391)

بچوں کے سامنے آپسی جھگڑوں سے اجتناب کرنا چاہیے والدین کے مابین مسلسل تصادم سے بچے مایوسی، کمتری کاشکار اور حسنِ اخلاق سے عاری ہوجاتے ہیں ایسے میں بچے باوقار شخصیت کا مالک بننا ممکن نہیں رہتا بچوں کو پر سکون ماحول مہیا کریں تاکہ بچوں کی اچھی ذہنی نشوو نما ہوسکے۔

جیسا کہ
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ہر بچے کی نظر میں ان کے ماں باپ ان کے رول ماڈل ہوتے ہیں اگر ان دونوں کے تعلقات آپس میں بہتر نہیں ہوں گے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کی چھاوٴں تلے جو اولاد پروان چڑھ رہی ہے وہ ذہنی دباوٴ اور نفرتوں سے پاک ہے۔

(انوارالعلوم جلد9 منہاج الطالبین)

بچوں کو باہر کے لوگوں کے سامنے برا بھلا کہنے سے گریز کریں اس سے بچوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔بہت ساری منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کے سامنے بچوں کی خوبیاں بیان کریں جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔

دورے حاضر سب سے خطر ناک دور ہے جس میں بچوں پر نظر رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ موبائل، آئی پیڈ، لیپ ٹاپ جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔ جن سے دور رہنا بھی مشکل ہے۔والدین کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں کہ ان کے بچے کون سی ویپ سائٹ پرجاتے ہیں اور کون کون سی گیمز کھیل رہے ہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
گاڑی کے پہیوں کی طرح اپنے آپ کو بیلنس رکھنا ہوگا دونوں کو ایک ساتھ چلناہوگا تبھی آپ کے بچے اپنی زندگی کا سفر بغیر کسی حادثے کے گزارنے کے قابل ہوسکتے ہیں اور اپنی زندگیوں کومعاشرے کامفید وجود بنانے کے قابل ہوسکیں گے …گھروں کے ماحول کو جب آپ پاک کرلیں گی تو پھر آپ اس کوشش میں بھی رہیں گی کہ زمانے کی لغویات فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پراثر انداز نہ ہوں کیونکہ یہی چیزیں جو ان پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں۔جس طرح لکڑی کو گھن کھا جاتا ہے…آزادی ضمیر کے نام پر سڑکوں گلیوں بازاروں میں بیہودہ حرکتیں ہورہی ہیں… فیشن سے منع نہیں کیا جاتا لیکن فیشن کی بھی کوئی حدود ہوتی ہیں ان کا بھی خیال رکھیں۔

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد سوم حصہ دوم صفحہ22-25)

جس طرح ایک درخت میں پھول لگتے ہیں تو ارد گرد کی فضا میں ان پھولوں کی خوشبو رچ بس جاتی ہے، پھر پھل نکلتے ہیں اور درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح مذہب کی سچائی کا علم اس مذہب کے ماننے والوں کے اعلیٰ اخلاق سے ثابت ہوتا ہے۔

سو ہم سب کو اپنا اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اخلاقی حالاتوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ تعلیم و تربیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے گھروں میں دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کا ماحول بنانا اور پھر اس پر عملی طور پر کار بند ہونے کی کوشش کرتے رہنا ہر احمدی عورت کی اصل ذمہ داری ہے۔

آپ کا کام بچوں کو صحیح اور درست راستے کی رہنمائی کرناہے ان کے حق میں دعائیں کرنا ہے۔ راہ راستی کے لئے بہت ضروری ہے کہ آپ بچوں کو بتائیں کہ ہم سب نے یوم آخرت میں اپنے اپنے عملوں کا جواب دے ہونا ہے اگر ہم اس کی رضا کی راہوں پہ نہیں چلیں گے تو کیسے سرخرو ہو پائیں گے یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو اپنی بتائی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(فہمیدہ بٹ۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی