• 3 مئی, 2024

آنحضرتؐ کا صحابہؓ کو دین سکھانا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطلحہؓ سے فرمایا کہ اپنے لڑکوں میں سے میرے لیے کوئی لڑکا تلاش کرو جو میری خدمت کرے تا میں خیبر کا سفر کروں۔ حضرت ابوطلحہؓ سواری پر مجھے یعنی حضرت انسؓ کو پیچھے بٹھا کر لے گئے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں میں اس وقت لڑکا تھا اور بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ جب آپؐ اترتے مَیں اکثر آپؐ کو یہ دعا مانگتے سنا کرتا تھا کہ

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ

کہ اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں غم و اندوہ سے درماندگی اور سستی سے اور بخل اور بزدلی سے اور قرض داری کے بوجھ سے اور لوگوں کی سختی سے۔

ایک دوسری روایت میں اس طرح بھی آیا ہے۔ یہ حضرت انسؓ کی روایت ہے۔ پہلی بھی بخاری کی تھی اور یہ بھی بخاری کی ہی ہے ۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ مدینہ میں آئے۔ آپؐ کا کوئی خادم نہ تھا۔ حضرت ابوطلحہؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر رسول اللہؐ کے پاس گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! انس سمجھدار لڑکا ہے۔ یہ آپؐ کی خدمت کرے گا۔ حضرت انسؓ کہتے تھے چنانچہ میں نے سفر میں بھی آپؐ کی خدمت کی اور حضر میں بھی۔ جو کام بھی میں کرتا آپؐ مجھے کبھی نہ فرماتے تُو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا اور جو کام میں نے نہ کیا ہوتا اس کی نسبت آپؐ مجھے کبھی نہ فرماتے کہ تم نے اس کو اس طرح کیوں نہیں کیا یعنی کبھی کوئی روک ٹوک نہیں کی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب آپؐ عُسفان (عُسفان مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔) وہاں سے لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور آپؐ نے حضرت صفیہ بنت حُیَی کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ آپؐ کی اونٹنی نے ٹھوکر کھائی اور دونوں گر پڑے۔ حضرت ابوطلحہؓ یہ دیکھ کر فوراً اونٹ سے کُودے اور بولے یا رسول اللہؐ! میں آپؐ پر قربان۔ آپؐ نے فرمایا پہلے عورت کی خبر لو۔ حضرت ابوطلحہؓ نے اپنے منہ پر کپڑا ڈال لیا اور حضرت صفیہؓ کے پاس آئے اور وہ کپڑا ان پر ڈالا یعنی ان کو پردے کا اتنا لحاظ تھا اور ان دونوں کی سواری درست کی جس پر وہ سوار ہو گئے اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد حلقہ بنا لیا۔ جب ہم مدینے کی بلندی پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ۔

ہم لوٹ کر آنے والے ہیں۔ ہم اپنے رب کے حضور توبہ کرنے والے ہیں۔ اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی ستائش کرنے والے ہیں۔

آپؐ جس وقت تک کہ مدینے میں داخل ہوئے یہی کلمات فرماتے رہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ایک دفعہ جبکہ آپؐ غزوۂ خیبر سے واپس تشریف لا رہے تھے اور آپؐ کی بیوی حضرت صفیہؓ بھی آپؐ کے ساتھ تھیں تو راستے میں اونٹ بدک گیا اور آپؐ اور حضرت صفیہؓ دونوں گر گئے۔ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کا اونٹ آپؐ کے پیچھے ہی تھا۔ وہ فوراً اپنے اونٹ سے کود کر آپؐ کی طرف گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! میری جان آپؐ پر قربان آپؐ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟ جب ابو طلحہؓ آپؐ کے پاس پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوطلحہ! پہلے عورت کی طرف، پہلے عورت کی طرف۔‘‘ دودفعہ فرمایا ’’وہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے ’’جب آپؐ کی جان کا سوال ہو تو اس وقت انہیں کوئی اَور کیسے نظر آسکتا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور پہلے عورت کو اٹھاؤ۔‘‘

(خطبہ جمعہ 31جنوری 2020ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2020