• 28 اپریل, 2024

نسیم سیفی سابق ایڈیٹر الفضل کی یاد میں

مورخہ 2فروری 1997ء کے الفضل اخبار پر نظر ڈالی تو ایک تحریر میری نظر سے گزری اس میں محترم نسیم سیفی کی ایک نظم چھپی تھی ۔یہ ان کی زندگی کی آخری نظم لگتی تھی وہ کچھ یوں تھی۔

پرچم میرے ہاتھ میں میدان قلم کا
حاصل ہے نصیب مجھے احباب کرم کا
تنقید کرو یا میری تائید میں بولو
ملتا ہے صلہ مجھ کو میرے اپنے ستم کا
امید کے بل بوتے پہ میں آگے بڑھا ہوں
سودا نہ کرو مجھ سے محبت کے بھرم کا
شائد کوئی آ جائے میری آگ بجھانے
دروازہ کھلا رکھتا ہوں میں زیست کے غم کا
کر دیتا ہوں میں گھر کی منڈیروں پہ چراغاں
شائد کہ مداوا ہو میرے ہجر کے غم کا
جانے کو چلے جاؤ مگر لوٹ بھی آنا
مرہم ہے یہی ہجر کے ہررنج و الم کا
تم نقش قدم چھوڑ کے جانے کی نہ سوچو
مٹتے ہوئے ماضی پہ بھی سایہ ہے عدم کا
گم سم ہے نسیم آج تو حیرت کی نہیں بات
یہ دیکھ کہ کیا حال ہے اب نوک علم کا

جب میں نے محترم نسیم سیفی کی اوپر والی نظم کو پڑھا مجھے ان کےساتھ گزرا ہوا زمانہ یاد آیا جو میں نے ان کے ساتھ وکالت تصنیف میں گزارا تھا جبکہ وہ تحریک جدید رسالہ کے ایڈیٹر بھی تھے۔ میں نے ان کو بہت قریب سے دیکھا اور میں جانتا ہوں کہ وہ صحافت کی الف۔ب سےخوب واقف تھے اگر ان کے بارے یہ کہا جائے کہ صحافت کے باباتھےغلط نہ ہوگا۔


(کرامت رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2020