• 29 اپریل, 2024

ایمان کا زیور اور دین کا سنگھار۔تقویٰ

رنگِ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر
ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگھار

خدا تعا لیٰ نے قرآن کریم میں تقویٰ کی اہمیت، تقویٰ کی وجہ سے ہونے والے انعامات اور غیرمتقیوں کے انجام غرض ہر پہلو پر روشنی ڈال دی ہے تقویٰ کا ذکر قرآن کریم میں کم و بیش 242 بار آیا ہے ان میں سے چند آیات کے اردو ترجمے مندرجہ ذیل ہیں چنانچہ خدا تعالیٰ تقویٰ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

اے مومنو! تم اللہ کا تقوی ٰاختیار کرو گے تو وہ تمہارے لئے ایک بڑا امتیاز کا سامان پیدا کر دے گا اور تمہاری کمزوریوں کو دور کرے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

(الانفال: 30)

بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔

(الحجرات: 14)

اور زادِسفر جمع کرتے رہو پس یقیناً اچھا زادِسفر تقویٰ ہے۔

(البقرہ: 198)

تقویٰ کا لباس تو سب سے بہتر ہے۔

(الاعراف: 27)

اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔

(المائدہ: 3)

اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔

(الحجرات: 11)

انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ ہمیشہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیساکہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔

(آلِ عمران: 103)

اللہ تعالی متقیوں سے محبت کرتا ہے۔

(التوبہ: 7)

(نیک) عاقبت یقینا متقیوں کی ہی ہوتی ہے۔

(ہود: 50)

اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا تم رحم کئے جاؤ۔

(الانعام: 159)

اے لوگو!جو ایمان لائے ہو اگر اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہارے لئے ایک امتیازی نشان بنا دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔

(الانفال: 30)

اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اس کے لئے نجات کی کوئی راہ بنا دے گاا ور وہ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتا۔

(طلاق: 4 ،3)

اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اللہ اپنے حکم سے اس کیلئے آسانی پیدا کردے گا۔

(طلاق: 5)

یقیناً متقی باغوں اور چشموں میں (متمکن) ہوں گے۔

(الحجر: 46)

اور ان لوگوں سے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا کہا جائے گا کہ وہ کیا ہے جو تمہارے رب نے اتارا ہے؟ وہ کہیں گے سراپا خیر ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اس دنیا میں نیک اعمال کئے بھلائی مقدر ہے اور آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے اور کیا ہی عمدہ ہے متقیوں کا گھر۔ ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی اور ان کے لئے اس میں وہ کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے اسی طرح اللہ متقیوں کو جزاء دیا کرتا ہے۔

(النحل:61۔62)

اور جو بھی اپنے ربّ کے مقام سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔

(الرحمٰن: 47)

اور جنت متقیوں کے قریب کر دی جائے گی۔

(الشعراء: 91)

یقیناً متقی پُر امن مقام میں ہوں گے۔

(الدخان: 52)

اورمتقی کے انجام کے ساتھ ساتھ غیر متقی کا انجام بھی خداتعالیٰ نے بتا دیا چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
یقیناً کامیاب ہو گیا جس نے اس (تقویٰ) کو پروان چڑھایا اور نا مراد ہو گیا جس نے اسے مٹی میں گاڑدیا۔

(الشمس: 10۔11)

اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کو وقتاً فوقتاً اس طرف توجہ دلائی چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ

’’اے ابو ہریرہ! تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کر، تو سب سے بڑا عبادت گزار ہو جائے گا۔‘‘

اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے جو پرہیز گار ہو، بے نیاز ہو، گمنامی اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے والا ہو۔‘‘

(مسلم کتاب الزہد والرقاق حدیث نمبر:7621)

جیساکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورہ الحجرات میں اپنے نزدیک سب سے زیادہ سب سے معزز تقویٰ والے کو قرار دیا ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ نے بھی خدا کے نزدیک معزز ہونے کا معیار تقویٰ ہی بیان کیا ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا لوگوں میں سب سے زیادہ عزت والا کون ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا ’’اتقاھم‘‘ یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ متقی‘‘

(بخاری کتاب الانبیاء باب کان یوسف و اخوتہ ایات للسائلین)

بلکہ آنحضرت ﷺ نے تو حصول تقویٰ کی دعا بھی سکھلائی جو آپؐ اکثر پڑھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ بالعموم یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقیٰ

’’اے اللہ میں تجھ سے ہدایت و تقویٰ کا طالب ہوں اور عفت اور غنا چاہتا ہوں۔‘‘

(مسلم کتاب الذکر باب الورع والتقویٰ)

حضرت مسیح موعودؑ نے نہ صرف نثر بلکہ اپنے منظوم کلام میں بھی تقویٰ کے مضمون کو کمال خوبصورتی سے بیان فرمایا ہے۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں : ؎

ہمیں اس یار سے تقویٰ عطا ہے
نہ یہ ہم سے کے یہ احسانِ خدا ہے
ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی تو سب کچھ رہا ہے
یہی اک فخر شانِ اولیاء ہے
بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے
مجھے تقویٰ سے اس نے جزا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ
مبارک وہ جس کا کام تقویٰ
سنو! ہے حاصل اسلام تقویٰ
خدا کا عشق مے اور جام تقویٰ
مسلمانو! بناؤ تام تقویٰ
کہاں ایمان اگر ہے خام تقویٰ
یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

اللہ تعالیٰ ہم کو تقویٰ کے بلند معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)


(ندیم احمد فرخ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2020