• 8 مئی, 2024

ڈاکٹر عمر احمد شہید

28 مئی 2010ء ایک بہت ہی اداس کر دینے والا دن۔ اس دن آسمان پر سرخ آندھی سی آئی ہوئی تھی۔ میں نے اپنے بچوں کو بھی ایک بار باہر دیکھنے کو کہا کہ دیکھو آسمان کیسا ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جمعہ کی نماز ادا کرنے چلے گئے۔ لیکن اچانک ہی آپ گھر واپس آ گئے۔ اور کہنے لگے کہ ٹی وی لگاؤ۔ دار الذکر میں کچھ ہو گیا ہے۔ میں نے جلدی سے ٹی وی لگایا تو قیامت کا منظر تھا۔ میرے اپنے بھائی اور کزن اور چچا وغیرہ سب دارالذکر میں تھے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس کو فون کروں۔ اتنی دیر میں میری بھتیجی کا لاہور سے فون آیا کہ پاپا سے بات ہوئی ہے وہ خیریت سے ہیں لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی فون نہ کرے کیونکہ جس کے بھی فون کی بیل ہوتی ہے دہشت گرد اس کو گولی مار دیتے ہیں۔ ہم لوگوں کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے دعائیں کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرما دے۔

اتنے میں ایک بیٹی جس کی لاہور شادی ہوئی تھی اور ابھی تقریباً ڈیڑھ سال ہی ہوا تھا اس وقت اس کی آٹھ ماہ کی پیاری سی بیٹی تھی اس کا فون آیا اور کہا کہ عمر (اس کا خاوند) بھی دارالذکر میں ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ وہ توسمن آباد کی مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں بیٹی کہنے لگی کہ وہ آج دارالذکر ہی گئے ہیں۔ کیونکہ ان کا آفس وہاں سے قریب ہے۔ وہ بہت زیادہ رو رہی تھی۔ اور مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں، اور دل کر رہا تھا کہ جلدی سے لاہور پہنچ جاؤں لیکن سفر بھی زیادہ تھا، بچیوں کی بھی فکر تھی کہ کیسے ان کو اکیلا گھر چھوڑ جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے حوصلہ دیا۔ وہ بیٹی شدید دکھ اور پریشانی میں تھی۔ چار بجے کے قریب بیٹی نے بتایا کہ کافی لوگ دارالذکر سے باہر آرہے ہیں لیکن ڈاکٹر عمر احمد کا کوئی پتہ نہیں چل رہا۔ عمر احمد کا بھائی اور میرے بھائی بھی دارالذکر کے گیٹ پر بہت پریشانی میں کھڑے تھے۔

آخر خدا خدا کر کے میرے بھائی کا فون آیا کہ ہم نے عمر احمد کو ایمبولنس میں دیکھا ہے۔ شاید اس کی ٹانگ میں گولی لگی ہے اور وہ ہمیں دیکھ کر وکٹری کا نشان بنا رہا ہے۔ ہمارے دل کو تھوڑی سی ڈھارس ہوئی۔ بیٹی عمر احمد کو دیکھنے دیور کے ساتھ ہسپتال گئی۔ وہاں پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ عمر احمد کے ساتھ کون ہے دونوں بھابھی اور دیور بھاگے کہ ہم لوگ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کو بڑے پیار سے بتایا کہ میں تمہیں جھوٹی تسلی نہیں دے سکتا کیونکہ پانچ، چھ گولیاں لگی ہیں جو گردے، معدے اور پھیپھڑوں میں سوراخ کر گئی ہیں۔ اور ایک گردہ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ معجزہ دکھا سکتا ہے اور وہی شفاء دینے والا ہے۔ اور سب کچھ اس کے اختیار میں ہے۔

اتنی دیر میں ہم بھی پہنچ گئے۔ان لوگوں کو دیکھ کر ہمارے دماغ ماؤف ہو چکے تھے۔ عمر احمد کے تمام گھر والے خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز تھے۔ اور رو رو کے دعائیں کر رہے اور عمر احمد کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ترس رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہ دن کسی کو نہ دکھائے۔ ڈاکٹروں نے بہت خیال رکھا ہمارا سارا دن ہسپتال میں کھڑے رہ کر گزرتا کہ شاید عمر احمد بہتری کی طرف آجائے۔ چھوٹی ثمرین احمد (ڈاکٹر عمر کی بیٹی) بھی ہمیں دیکھ کر بہت حیران ہو رہی تھی اس کو کیا معلوم کہ اس کا پیارا باپ زندگی اور موت سے لڑ رہا ہے۔ اپنی جماعت کے بچوں، بڑوں نے اس قدر پیار کا سلوک کیا۔ کھانا پانی وغیرہ سب ٹائم پر آتا اور سب نے بھرپور ڈیوٹی دی۔

اسی طرح علاج کرتے کرتے 3 جون آگیا۔ 3 جون سے ایک روز قبل عمر احمد کو کافی خون کی بوتلیں لگی تھیں۔ اپنے احمدی نوجوانوں نے بہت خون دیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اب حالت بہتر ہو چکی ہے۔ اس لئے ہم نے بھی سوچا کہ گھر کا چکر لگا آئیں۔ ہم نے بیٹی کو کہا کہ ہم صرف کچھ دیر کے لئے جا رہے ہیں لیکن وہ مانی نہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم چھوٹی بیٹی کو بھی ساتھ لے جاتے اور آپ آرام سے عمر احمد کے پاس بیٹھنا اس پر وہ راضی ہو گئی۔

ہم جا ہی رہے تھے کہ ثمرین احمد نے رونا شروع کر دیا ہم نے بہت کوشش کی مگر وہ چپ نہ ہو سکی آخر ہم گھر پہنچے تو میں نے اس کی خالہ کو کہا کہ اس کو گرمی نہ لگ رہی ہو اس کو نہلا دو۔ مگر اس سے بھی کوئی فرق نہ پڑا۔ پوری رات وہ اسی حالت میں رہی۔ لیکن جونہی صبح کی اذان ہوئی نہ جانے بچی کو کیسے سکون آگیا اور وہ سو گئی۔ اس رات خواب میں دیکھا کہ ہمارا گیٹ کھلا ہے اور کالونی کے بہت سے لوگ کھڑے ہیں لیکن ان کے چہروں پر بہت پریشانی ہے فون کی بیل ہوئی ہم سب صحن میں چلے گئے۔ بیٹی کے دیور نعمان احمد کا فون تھا۔ کہ ’’عمر بھائی چلے گئے‘‘ ہمارے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے گویا جسم سے جان نکل گئی ہو۔

اللہ تعالیٰ نے 4 جون کو ڈاکٹر عمر احمد کو بھی شہادت کا اعلیٰ درجہ عطا فرمایا۔ ہمارا بہت ہی پیارا داماد اللہ تعالیٰ کو پسند آگیا۔ میری بیٹی کو اتنا بڑا صدمہ ملا مگر ہمت دینے والا تو خدا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جنہوں نے بہت ہی پیار سے زخمی دلوں کو مرہم لگایا جس سے دل کو بہت تسلی ہوئی۔

آخر میں ڈاکٹر عمر احمد شہید کے والدین جن کا ذکر ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ خوشیاں عطا فرمائے، انہوں نے عمر احمد کی بیوی کے بارے میں کہا کہ پہلے یہ ہماری بہو تھی اب ہماری بیٹی ہے، یہ جو کہے گی وہ کریں گے اور انہوں نے یہ کر کے دکھایا۔ ہماری بیٹی کو بھی اللہ تعالیٰ نے صبروتحمل عطا فرمایا اس پر بے شمار فضل کئے حضور کی دعائیں رنگ لائیں اور اس بیٹی کی بفضل خدا دوبارہ شادی ہو گئی اور وہ اپنے میاں اور دو بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔


(انجینئر محمد انعام)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2020