• 14 جولائی, 2025

حضرت مسیح موعودؑ کے مبارک دور کی ایک جھلک

جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے اور محبوب بندے سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ جمعہ کی ابتدائی آیات نازل کر کے آخری زمانے میں ایک غلام صادق کے آنے کی خبر دی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ وہ کون شخص ہوگا جو آپ کے ظل کے طور پر آئے گا اور احیائے اسلام کرے گا تو آپ نے اس مجلس میں بیٹھے تمام قریشی، سید، عربی اور عباسی کو چھوڑتے ہوئے ایک فارسی الاصل صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا

لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِّنْ ھٰٓؤُلَآءِ

یعنی وہ شخص اس قوم سے تعلق رکھنے والا ہو گا اور ایمان کو ثریا سے بھی واپس لے آئے گا

(صحیح بخاری حدیث نمبر 4897)

سرور کائنات فخر موجودات حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنی امت کے متعلق فرمایا امتیں دو ہی بہتر ہیں ایک وہ جس میں مجھے بھیجا گیا اور دوسری وہ جس میں مسیح ابن مریم نازل ہوگا۔ چنانچہ ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یقیناً پتہ چلتا ہے کہ جس قوم اور بستی اور جگہوں میں خدا کے برگزیدہ اور محبوب اپنے قدم رکھتے ہیں وہ جگہیں، وہ بستیاں مبارک کر دی جاتی ہیں اور وہ وجود خود بھی مبارک کہلاتے ہیں۔

جمعۃ المبارک کے دن 13 فروری 1835ء کو برصغیر کے ایک گاؤں قادیان میں ایک آفتاب اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ طلوع ہوا جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منور ہوتے ہوئے کل عالم کو روشن کردیا۔ اس مبارک وجود کا نام حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام ہے۔ آپ 14 شوال 1250ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد کا نام حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور والدہ ماجدہ کا نام چراغ بی بی صاحبہ ہے۔

آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم قرآن کریم کے علاؤہ عربی، فارسی کی گرائمر اپنے اساتذہ سے حاصل کی۔ آپ نے ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ کچھ دوسری تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنا پاکیزہ بچپن گزارا۔

16 برس کی عمر میں آپ کی شادی آپ کی ماموں زاد محترمہ حرمت بی بی صاحبہ سے کر دی گئی۔ آپ کے بطن سے دو صاحبزادوں نے جنم لیا ایک حضرت مرزا فضل احمد صاحب جو کم عمری میں ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور دوسرے خان بہادر، مرزا سلطان احمد صاحب جنہوں نے انتظامی امور میں ملک و قوم کی خدمت کی اور آپ نے اپنی آخری عمر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے وطن سیالکوٹ کے رہائشی آپ کی صداقت کا ایک نشان ہیں کیونکہ آپ نے سیالکوٹ میں 1860ء سے 7 سال کا عرصہ ملازمت کرتے ہوئے بسر کیا۔ اپریل 1867ء کو آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا جس کے باعث آپ کو سیالکوٹ سے رخصت ہونا پڑا۔

پھر الہی منشاء کے تحت آپ کے والد ماجد کا انتقال 1876ء میں ہوا۔ یاد رہے کہ آپ کے والد ہی اس خاندان کے کفیل تھے۔ وفات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی معاشی کمزوریوں کی فکر ہونے لگی لیکن خدا تعالیٰ کبھی بھی اپنے برگزیدہ کو اکیلا نہیں چھوڑا کرتا بلکہ ان کا کفیل آپ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس برگزیدہ کو دلاسہ دیتے ہوئے الہام فرمایا

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

چنانچہ ہم صداقت کے نشان کے طور پر دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کس طرح اپنے اس وعدے کو نبھایا کہ آج ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی جماعت پھلتی پھولتی جارہی ہے اور دشمن ہزار کوششیں بھی کر لے لیکن وہ اس الہی جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج اس جماعت کے لیڈر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس الہام کی شان و شوکت کا علم تھا اسی لئے آپ نے اس الہام کو ایک انگوٹھی پر لکھوا کر ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھا اور آج یہ انگوٹھی آپ علیہ السلام کے ایک الہام انی معک یا مسرور کے مصداق ہمارے پیارے موجودہ امام کے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تائید و نصرت فرمائے۔ آمین

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد صاحب نے اپنی ہی زندگی میں مسجد اقصی قادیان میں تعمیر فرمائی اور آپ ہی کی وصیت کے مطابق آپ کی تدفین اسی مسجد کے صحن میں ہوئی۔

اسلام کے دور اول میں دفاعی جنگیں لڑی گئیں جنھیں جہاد اصغر کا نام دیا گیا لیکن اسلام کے اس دور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قلمی جہاد کے ذریعہ قرآن کریم کی عظمت اور توحید باری تعالیٰ کے ذریعے اسلام کے جھنڈے کو پوری دنیا میں بلند کیا اور اسی قلمی جہاد کے ذریعہ آج اسلام احمدیت کا پیغام 213 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔ آپ علیہ السلام نے 80 سے زائد کتب تحریر فرمائیں۔ آپ کی پہلی کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت 1880 میں ہوئی۔

اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم میں فرمایا کہ

وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی

(النجم: 4-5)

یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات میری بات ہوا کرتی ہے۔ قرآن کریم کی صداقت کو اس زمانہ میں بھی پورا ہوتے ہم نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری ہوئی کہ فَيَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُ لَهُ (مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر 10418) کہ آنے والا امام مہدی جب شادی کرے گا تو اس کی عظیم الشان اولاد ہوگی۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1884ء میں اس زمانے کی خدیجہ، سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے شادی کی اور آپ سے وہ عظیم الشان اولاد ہوئی جس نے اسلام کے جھنڈے کو پوری دنیا میں گاڑھ دیا۔ اس اولاد میں کوئی مصلح موعود ٹھہرا اور کوئی قمر الانبیاء اور کوئی وہ باشاہ آیا کا مصداق ٹھہرا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نظریہ 1886ء کا سال وہ مبارک سال ثابت ہوا جس میں آپ نے ہوشیار پور میں چلا کشی کی اور اللہ تعالیٰ نے بہت سے انعامات اور خوشخبری سے نوازا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے مظفر تجھ پر سلام۔

23 مارچ 1889ء وہ مبارک دن ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چالیس افراد سے بیعت لی اور سلسلہ احمدیہ کا آغاز فرمایا اس کے بعد 1890ء میں آپ نے اللہ سے خبر پا کر فرمایا کہ مسیح ابن مریم وفات پا چکا ہے۔ مسیح ابن مریم کی وفات کے عنوان کو لیتے ہوئے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1890ء کے بعد کے سالوں میں بہت سی کتب تحریر فرمائیں اور بہت سے علماء کو چیلنج بھی کیا مگر کوئی مخالف آپ کے روبرو نہ آیا اور جو آیا وہ شکست اور ذلت سے دوچار ہوا۔

1891ء کا سال جماعت احمدیہ کے لیے برکتوں اور فضلوں کی بہاریں لے کر آیا جب 27 دسمبر 1891 کو پہلی بار جلسہ سالانہ ہوا اور 75 افراد نے اس جلسے میں شرکت فرمائی اور آج جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ الحمد للّٰہ

حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کے متعلق فرمایا کہ یکسر الصلیب کہ وہ صلیب کو توڑ دے گا۔ یہ پیشگوئی اس وقت جلوہ گر ہوئی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عبداللہ آتھم جیسے مخالف کے ساتھ مباحثہ کیا بعد میں اس مباحثہ کو جنگ مقدس کا نام دیا گیا اور آپ نے دلائل عقلیہ و نقلیہ کے ذریعے دشمنوں کے منہ بند کرتے ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کے عقیدہ کو غلط ثابت کیا۔

جان و دل فدا اس وجود اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ اس نے خدا سے خبر پا کر آنے والے مسیح موعود کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا آیا کہ اس کے زمانے میں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں گرہن لگے گا یہ پیشگوئی مارچ اور اپریل 1894 میں اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ پوری ہوئی۔ خاکسار یہاں ضمنا عرض کرنا چاہتا ہے کہ خاکسار کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی بدولت ہوا کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد سکھ مذہب کو ماننے والے تھے اور ان کی کتب میں لکھا ہے کہ آنے والے مہدی کی نشانی کسوف و خسوف کا ظاہر ہونا ہے۔

یہاں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ اس کتاب میں اسلام کی سچائی بیان ہوئی ہے اور اس میں مذکور مضامین نے اس زمانہ میں اسلام کو تقویت بخشی ہے۔ خدا نے اس کتاب کے لکھنے سے قبل ہی آپ علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ یہ مضمون بالا رہے گا اور یہ الہام اپنی پوری شان کے ساتھ پورا ہوا جب جلسہ مذاہب عالم میں اس مضمون اور کتاب کو پڑھ کر سنایا گیا۔

1897ء میں جماعت احمدیہ کا پہلا رسالہ الحکم جاری ہوا اور اس کے بعد رسالہ البدر کی اشاعت بھی شروع ہو گئی۔ ان اخباروں نے ایسی اعلیٰ خدمت کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام نے فرمایا کہ یہ میرے بازو ہیں۔

1901 میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی پیاری جماعت کا نام مسلمان فرقہ احمدیہ رکھا۔

جماعت احمدیہ میں بہت سے وفا شعار اور صدق کے نمونے دکھلانے والے جانثار موجود ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی ہی میں جن جان نثاروں نے صدق کے نمونے دکھلائے ان میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی ہیں جن کو 1903ء میں کابل کی سر زمین پر شہید کر دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے والوں نے جہاں صدق کے نمونے دکھلائے وہاں اپنے علمی معیار کو بلند کیا اور اپنے علم کو تبلیغ کی ضرورت سمجھتے ہوئے استعمال کیا۔ 1905 میں جب دو جید صحابہ، علمائے دین حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور حضرت برہان الدین صاحب جہلمی کی وفات ہوئی تو آپ علیہ السلام نے اس چیز کی ضرورت محسوس کی کہ اس جماعت میں علماء کی کثیر تعداد ہونی چاہیے اور ایک مدرسہ قائم ہونا چاہیے۔ چنانچہ آپ نے مدرسہ احمدیہ کا قیام فرمایا جو بعد میں جامعہ احمدیہ کے نام سے موسوم ہوا اور آج جامعہ احمدیہ دنیا کے کئی ممالک میں قائم ہو چکے ہیں۔

ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں آنے والے مسیح کی خبر دی وہاں خلافت علی منہاج النبوة کی خوشخبری بھی دی 1905ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کووفات کی خبریں دینا شروع کر دیں تو آپ علیہ السلام نے رسالہ الوصیت تحریر فرمایا اور بہشتی مقبرہ کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی آپ نے ہمیں خلافت علی منہاج النبوہ کی نوید بھی سنائی۔

27 اپریل 1908ء کو آپ نے اپنا آخری سفر لاہور کی طرف اختیار فرمایا اور وہاں آپ ایک ماہ تک قیام پذیر رہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بلاوا آگیا اور آپ 26 مئی 1908ء کو یہ کہتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے کہ اللہ میرے پیارے اللہ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی ﷺ خاتم النبین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا ۔۔۔۔ اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے۔

(ازالہ و اوہام صفحہ69)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو دنیا کے کناروں تک پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(منصور احمد)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 11؍مارچ 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2022