• 14 جولائی, 2025

ماہِ شعبان

ماہِ شعبان
شب ِبرأت اور اُمت مسلمہ کی بے اعتدالیاں

شعبان کی لغوی بحث اور اس کے معنی

شعبان اسلامی کیلنڈر کا آٹھواں قمری مہینہ ہے۔ اس کا تلفظ یوں ہے ش مفتوح (شَ) ع ساکن (عْ) اور ب مفتوح (بَ) یعنی شَعْ، بَان یہ لفظ ہمیشہ مذکر ہی استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کی جمع شعبانات اور شعابین آتی ہے۔

لفظ شعبان شعب سے مشتق ہے۔ شعب باب فَتَحَ یَفْتَحُ اور سَمِعَ یَسْمَعُ سے مصدر ہے۔

شعبان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لغت لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ عرب لوگ ماہِ رجب (شعبان سے پچھلا مہینہ) میں آرام و سکون کرنے کے بعد شعبان میں کاروبار تجارت اور دیگر امور کی انجام دہی کے لئے ملک کےاطراف و اکناف میں پھیل جاتے اور دوسرے علاقوں میں نکل جاتے اسی مناسبت سے یہ مہینہ شعبان کہلایا۔ دورِ جاہلیت یعنی اسلام سےقبل شعبان کو عاذل، وعل اور موھب بھی کیا جاتا تھا۔

ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے ہے کہ ’’شعبان‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’شَعْبْ‘‘ سے بنا ہے، جس کے معنی پھیلنے کے آتے ہیں اور چونکہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لئے خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ’’شعبان‘‘ رکھا گیا۔

ماہ شعبان اور کثرتِ صیام

شعبان میں آنحضرت ﷺ کا یہ طریق مبارک تھا کہ آپ دوسرے مہینوں کی بہ نسبت زیادہ نفلی روزہ رکھا کرتے تھے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

مَا رَأَیْتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَھْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِيْ شَعْبَانَ

(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

یعنی میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺنے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺکسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔

ایک اور حدیث میں فرماتی ہیں:

کَانَ اَحَبُّ الشُّھُورِ اِلٰی رسولِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أن یَّصومَہ شَعْبَان ثُمَّ یَصِلُہ بِرَمَضَانَ

(کنزالعمال حدیث 24584)

یعنی رسول اللہ ﷺ کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملادیں۔

اسی طرح ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ یَصُوْمُ مِنَ السَّنَۃِ شَھْرًا تَامًّا اِلاَّ شَعْبَانَ یَصِلُہُ بِرَمْضَانَ

(ابو داؤد کتاب الصیام)

میں نے رسول اللہ ﷺ کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دومہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے پورے مہینے کے ساتھ ساتھ شعبان کے بھی تقریباً پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھابیان کرتی ہیں کہ

کَانَ اَحَبُّ الشَّھُوْرِ الیٰ رَسُوْ لِ اللّٰہِ ﷺ اَنْ یَصُوْمَہُ شَعْبَانَ ثُمَّ یَصِلُہُ بِرَمَضَانَ

(ابو داؤد کتاب الصیام)

رسول اللہ ﷺ کو روزے رکھنے کے لئے شعبان کا مہینہ سب سے زیادہ پسند تھا۔ پھر آپ اسے گویا رمضان ہی سےملا دیتے تھے۔

ان تمام احادیث سے یہ علم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ دوسرے مہینوں کی بہ نسبت شعبان میں زیادہ نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔

شعبان میں کثرتِ صیام کی حکمت

ماہ شعبان میں آپ ﷺ کے زیادہ روزے رکھنے کی بہت سی حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ تاہم ان میں سےسے اولیٰ حکمت وہ ہے جس کا ذکر سنن نسائی میں ایک روایت میں آیا ہے۔

(1)اللہ تعالیٰ کی طرف اعمال کا اٹھایا جانا۔

حضرت اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نےآپ ﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کےرسول ﷺ! میں نے آپ کو کسی مہینے میں اتنے (نفلی) روزے رکھتے ہوئےنہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتےہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا

ذَلِکَ شَھْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ وَ رَمَضَانَ، وَ ھُوَ شَھْرٌ تُرْفَعُ فِیْہِ الْأَعْمَالُ إِلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، فَأحِبُّ أَنْ یُرْفَعُ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ

(نسائی کتاب الصیام)

شعبان وہ مہینہ ہے جس میں لوگ رجب اور رمضان کے درمیان روزےسے غافل ہو جاتےہیں۔ حالانہ کہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرےاعمال روزے کی حالت میں اوپر اٹھائے جائیں۔

(2) رمضان کی تعظیم اور روحانی تیاری

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺسے سوال کیا گیا کہ:

اَیُّ الصَّوْمِ افضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ قالَ شعبانُ لِتَعْظِیْمِ رمضَانَ

(ترمذی شریف باب فضل الصدقہ)

ترجمہ: رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کا روزہ۔

یعنی رمضان المبارک کی عظمت، اس کی روحانی تیاری، اس کا قرب اور اس کے خاص انواروبرکات کے حصول اور ان سے مزید مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور ادعیہ ماہِ شعبان میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کا سبب بنتا تھا اور شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں سے وہی نسبت ہے جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے۔

(3) ہر مہینے کے تین دن کے روزوں کا جمع ہونا۔

ایک حکمت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ نبی کریمﷺ تقریباً ہر مہینے تین دن یعنی ایامِ بیض (تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ) کے روزے رکھتے تھے، (نسائی شریف) لیکن بسا اوقات سفر وضیافت وغیرہ کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جاتے اور وہ کئی مہینوں کے جمع ہوجاتے، تو ماہِ شعبان میں ان کی قضا فرماتے تھے۔

احادیث کے مطالعہ سے بھی معلوم پڑتا ہے کہ آنحضرت ﷺ شعبان کےدنوں کی دوسرے مہینوں کی بہ نسبت بہت زیادہ حفاظت کرتے تھے۔ انہیں شمار کرتے رہتے اور صحابہ کرام کو بھی حکم دیتے تا کہ رمضان کی روزے شعبان کے ساتھ غلط ملط نہ ہو جائیں۔

ماہ شعبان اور شب برأت

شعبان کی پندرھویں رات کو لیلۃ البراءت۔ لیلۃ الصک، لیلۃ الرحمۃ، اور لیلۃ المبارکہ بھی کہا جاتا ہے۔ مگر عرف عام میں یہ رات ’’شب برأت‘‘ کے نام سےمشہور و معروف ہے۔ عام بول چال میں لوگ اسے ’’شب برات‘‘ بھی کہتےہیں

شب برأت دراصل فارسی اور عربی کے دو لفظوں کامجموعہ ہے۔ شب، فارسی میں رات کو کہتے ہیں۔ اور برات اگر الف اور ت کے درمیان ہمزہ (ء) ہو تو عربی کا لفظ ہے یعنی براءت۔ جس کے معنی بری ہونے اور نجات پانے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے۔

بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾

(التوبہ: 1)

ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری (کا پیغام بھیجا جا رہا) ہے اُن مشرکین کی طرف جن سے تم نے معاہدہ کیا ہے۔

اگر لفظ برات کے الف اور ت کے درمیان ہمزہ نہ ہو تو یہ سنسکرت سے ماخوذ ہوگا۔ فارسی اور اُردو دونوں میں الگ الگ معنی کے لئے بولا جاتا ہے۔ فارسی میں برات بمعنی حصہ، نقد، تقدیر وغیر ہے۔ اور اُردو میں وہ جلوس جو دولہا کی شادی میں اس کے ساتھ جاتا ہے۔

شب برأت کے قائلین کے استدلال

احادیث کا مطالعہ کرنے سے شعبان اور 15 شعبان کی اہمیت و فضیلت کےحوالہ سے بعض احادیث ملتی ہیں۔ چنانچہ ان میں سب سے مشہور حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔

عَنْ عَائِشَةَ قالت فَقَدتُّ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَیْلَةً فَخَرَجْتُ فَاِذَا ھُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللہُ عَلَیْکِ؟ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وتَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ

(جامع ترمذی)

ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے، فرماتی ہیں: میں نے ایک رات نبی کریم ﷺ کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپﷺ کی تلاش میں نکلی، تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ بقیع (مدینہ طیبہ کا قبرستان) میں ہیں، آپ ﷺنے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا: کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں ہوتی تھیں۔)

اسی طرح ایک دوسری حدیث حضرت علی ؓ سے مروی ہے۔ مندرجہ ذیل ہے۔

عَنْ عَلِیِّ بنِ اَبِیْ طالبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ اِذَا کانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوا لَیْلَھَا وصُوْمُوْا نَھَارَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فیَقُولُ اَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہ اَلاَ مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ اَلاَ مُبْتَلاً فَاُعَافِیْہِ کَذَا اَلاَ کَذَا حتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ

(ابن ماجہ)

ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن (پندرہویں تاریخ) کا روزہ رکھا کرو؛ اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہےکہ کیا ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں؟، کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں؟ کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتا رہتا ہے؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔

ان احادیث کے بارے میں علماء کا ایک بڑا طبقہ یہ مانتا ہے کہ ان کے بعض راوی ضعیف ہیں۔ اور یہ احادیث موضوع ہیں۔ بہر حال اس قسم کی روایت کی موجودگی میں وقت کےسا تھ شب برأت کےساتھ مفروضے اور قصے بھی شامل ہو گئےہیں۔ گو ان قصوں کا شب برات سے کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا۔

(الف) جیسے مشہور ہے کہ جنگ اُحد میں آنحضرت ﷺ نے اپنے دندان مبارک شہید ہونے کے بعد آج کے روز سخت غذا کھانے کےقابل ہوئے تھے۔ اس خوشی میں مٹھائیاں اور حلوے تیار کر کے تقسیم کئے جاتے ہیں۔

(ب) شیعہ حضرات اس روز کو امام غائب کی پیدائش کا دن تصور کرتے ہیں۔

(ج) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جس طرح زمین پر انسانوں کے لئے دو خوشیاں یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ مقرر ہیں اسی طرح آسمان پر فرشتوں کی دو عیدیں یعنی شب برأت اور شب قدر ہیں۔

جہاں تک روایات میں اس رات کی فضیلتوںکا تعلق ہے وہ مختلف زاویوں سے بیان ہوئی ہیں۔ مثلاً

  1. اس رات انسانوں کا رزق تقسیم کیا جاتا ہے۔
  2. انسان کی تقدیر لکھی جاتی ہے۔
  3. اس رات کی عبادت سےسال بھر کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں
  4. اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ بنی کلب کی بکریوں ( یہ قبیلہ بکریاں پالا کرتا تھا) کے بالوں سےبھی زیادہ بندوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
  5. اس رات انسانوں کےاعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتےہیں۔
  6. اس رات اللہ تعالیٰ مختلف حاجات کا نام لے لے کر بلاتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سےسوال کرنے والا یا کچھ مانگنےوالا۔ میں اس کی مراد پوری کروں گا۔ مثلاً کوئی مجھ سےبخشش طلب کرنے والا ہےاس بخش دوں۔ کوئی مجھ سےرزق طلب کرنےوالا ہےاسے میں رزق دوں۔ کوئی ہے جو مصیبت سےنجات مانگے میں اسے نجات دوں۔
  7. اس رات آئندہ پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کی فہرست تیار ہوتی ہے۔

شب برات کےبارہ میں احادیث کی صحت اور ضعف پر تو یہاں تبصرہ کرنا مقصود نہیں تا ہم یہ بات مسلم ہےکہ سیدنا حضرت محمد ﷺ اس رات خصوصی عبادت فرمایا کرتے تھے۔ جیسا کہ آپؐ نے ایک دفعہ جنت البقیع میں عبادت کی۔

لیلۃ المبارکہ سے مراد شب برأت نہیں

شب برات منانے کے قائلین قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں شب برأت کا ذکر ہے:

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۴﴾ فِیۡہَا یُفۡرَقُ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ ﴿۵﴾

(الدخان آیت4۔ 5)

یقیناً ہم نے اسے (یعنی قرآن کو) ایک بڑی مبارک رات میں اتارا ہے۔ ہم بہر صورت اِنذار کرنے والے تھے۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

شب برات کے قائلین ’’لیلہ مبارکہ‘‘ سے شب برات مراد لیتے ہیں۔ انہوں نے ’’لیلہ مبارکہ‘‘ یعنی برکت والی رات کو الگ رات قرار دے کر ’’لیلۃ القدر‘‘ کی تمام فضیلتیں شب برات کے ساتھ منسوب کر دی ہیں جو درست نہیں ہے۔ لیلۃ القدر کو ہی دوسری جگہ لیلہ مبارکہ یعنی خیر وبرکت والی رات کہا گیا ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔ قرآن کریم ماہ رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ۔ (البقرہ: 186) کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔

لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے۔ اور اس میں عبادت کرنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ صحابہ کرام میں قرآن کریم سمجھنے کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ صحابہ رسول ﷺ میں سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابن عمرؓ اور دیگر مفسرین میں سے حضرت قتادہؓ، حضرت مجاہد ؒ، حضرت حسن بصری ؒکے نزدیک ’’لیلہ مبارکہ‘‘ سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے۔ کیونکہ دونوں راتوں میں قرآن کریم کا نزول قدرِ مشترک ہے۔ لہٰذا ’’لیلہ مبارکہ‘‘ سے ’’شب برات‘‘ مراد لینا درست نہیں ہے۔ ’’لیلہ مبارکہ‘‘ اور لیلۃ القدر ایک ہی رات کے دو نام ہیں۔

حضرت امام رازیؒ تفسیر کبیر میں سورۃ الدخان کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ:۔
’’لیلہ مبارکہ کے متعلق مفسرین نے اختلاف کیا ہے۔ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دراصل لیلۃ القدر ہی ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے جو لیلہ مبارکہ کو لیلۃ القدر قرار دیتی ہے اپنے قول کی تائید میں درج ذیل دلائل سے استنباط کیا ہے:

اول۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعلق سورۃ القدر میں فرمایا ہے کہ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ کہ ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اور سورہ دخان کی اس آیت میں فرمایا اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ کہ ہم نے اس قرآن کو لیلہ مبارکہ میں نازل کیا۔ پس اس سے لازم آتا ہے کہ لیلہ مبارکہ کو ہی لیلۃ القدر کا نام دیا گیا ہے تاکہ دونوں آیات میں تناقض نہ رہے۔

دوسری دلیل یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ

(البقرہ: 186)

یعنی: رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔

یہاں خداتعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ قرآن کا نزول رمضان کے مہینہ میں ہوا اورسورۃ دخان کی اس آیت میں فرمایا کہ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ کہ ہم نے قرآن کو لیلہ مبارکہ میں نازل کیا۔ پس اس سے لازم آیا کہ یہ رات رمضان کے مہینوں میں سے ایک رات ہے (نہ کہ شعبان کی رات)۔ اور جس کسی نے لیلہ مبارکہ کو رمضان کے مہینہ میں تسلیم کیا ہے اس نے اسے لیلۃ القدر ہی قرار دیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ لیلۃ القدر ہی ہے۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کی صفت میں بیان فرمایا ہے

تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ مِّنۡ کُلِّ اَمۡرٍ سَلَامٌ

کہ اس رات میں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں اور یہاں لیلہ مبارکہ کی صفت میں فرمایا فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ کہ اس میں ہر حکمت والے امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اور یہ خداتعالیٰ کے اس قول سے مناسبت رکھتا ہے کہ تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا کہ اس رات میں فرشتے اور روح القدس نازل ہوتے ہیں۔

لیلہ مبارکہ کی صفت میں فرمایا اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۔ اور لیلۃ القدر کی صفت میں فرمایا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ مِّنۡ کُلِّ اَمۡرٍ۔ یہاں فرمایا: رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّکَ اور سورہ القدر میں فرمایا سَلَامٌ ھِیَ۔ پس جب اس قدر اوصاف مشترک ہیں تو ثابت ہوا کہ دونوں راتیں دراصل ایک ہی رات کے دو نام ہیں۔

جہاں تک اس گروہ کا تعلق ہے جو شعبان کی پندرھویں رات کو لیلہ مبارکہ قرار دیتا ہے تو میں نے ان کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں پائی جس پر اعتماد کیا جاسکے۔ انہوں نے عام افراد سے نقل کرنے پر ہی قناعت کی ہے۔

شب برأت کو عربی میں ’’لیلۃ البراءۃ‘‘ یعنی بریت کی رات کہتے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس طرح ٹیکس collector جب کسی سے ٹیکس لے لیتا ہے تو اس کے حق میں بریت لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں کے لیے جہنم سے بریت لکھتا ہے۔

علامہ زمخشریؒ تفسیر کشاف میں لیلہ مبارکہ والی آیت کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ:۔
لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔ البتہ بعض لوگ اس سے نصف شعبان کی رات مراد لیتے ہیں جس کے چار نام بیان کیے جاتے ہیں۔ 1۔ لیلہ مبارکہ۔ 2۔ لیلۃ البراءۃ 3۔ لیلۃ الصک (دستاویز والی رات)۔ 4۔ لیلۃ الرحمت۔ کہا جاتا ہے کہ اس رات اور لیلۃ القدر کے درمیان چالیس راتیں ہیں۔ لیلۃ البراءۃ یعنی شب برات اور لیلۃ الصک کی وجہ تسمیہ میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جس طرح ٹیکس collector جب کسی سے ٹیکس لے لیتا ہے تو اس کے حق میں بریت والی دستاویز لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں کے لیے جہنم سے بریت لکھتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس رات کی پانچ خصوصیات ہیں:

(1) اس میں ہر حکمت والے امر کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس رات عبادت کی بہت فضیلت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اس رات 100 رکعات ادا کیں اللہ تعالیٰ اس کی طرف 100 فرشتے بھیجے گا جن میں سے 30 فرشتے اسے جنت کی بشارت دیں گے، 30 فرشتے اسے آگ کے عذاب سے امن میں رکھیں گے، 30 فرشتے اس سے دنیا کی آفات دور کریں گے اور 10 فرشتے اس سے شیطان کی تدبیروں کو دور کریں گے۔

(2) اس رات رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: اس رات اللہ تعالیٰ میری امت پر بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کے برابر رحم کرے گا۔

(3) اس رات حصول مغفرت ہوتی ہے۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس رات سب مسلمانوں کو بخش دیتا ہے سوائے کاہن، جادوگر، کینہ پرور، شراب کا عادی، والدین کا نافرمان اور زنا پر اصرار کرنے والے کے۔

(4)رسول اللہ ﷺ کو اس رات مکمل شفاعت کا حق دیا گیاہے۔ وہ اس طرح کہ آپ نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے بارے میں یہ حق مانگا تو آپ کو تیسرے حصے کی شفاعت کا حق دیا گیا پھر چودھویں رات کو یہ حق مانگا تو آپ کو امت کے دو تہائی حصے کے بارہ میں شفاعت کا حق دیا گیا پھر آپ نے پندرھویں شعبان کو یہ حق مانگا تو آپ کو ساری امت کی شفاعت کا حق دے دیا گیا سوائے ایسے شخص کے جو اللہ کی اطاعت سے ایسے بدک کر نکل جائے جیسے اونٹ اپنے مالک کے سامنے بدک کر بھاگ جاتا ہے۔

(5) اس رات اللہ تعالیٰ زمزم کے پانی کو ظاہری طور پر زیادہ کر دیتا ہے۔

تاہم اکثریت لیلہ مبارکہ سے لیلۃ القدر ہی مراد لیتی ہے۔ کیونکہ لیلۃ القدر اور لیلۃ البراءۃ کے متعلق خداتعالیٰ کے اقوال باہم مطابقت رکھتے ہیں جیسے فرمایا: إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر۔ پھر فرمایا: فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ یہ قول تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ مِّنۡ کُلِّ اَمۡرٍ والے قول کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔ مطابقت رکھتا ہے اس سے کہ لیلۃ القدر ماہ رمضان میں آتی ہے۔

(تفسیر کشاف علامہ زمخشری زیر آیت الدخان: 1-8)

مندرجہ احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ رمضان کےعلاوہ دیگر مہینوں سےزیادہ ماہ شعبان میں روزے رکھا کرتےتھے۔ لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ ماہِ شعبان کے اکثر حصے کے روزے رکھے جائیں، یہ نہ ہوسکے تو ماہ شعبان کے نصف اوّل کے روزے رکھے جائیں، یہ بھی نہ ہوسکے تو ایام بیض (15، 14، 13شعبان) کے روزے رکھے جائیں اور اتنا بھی نہ ہوسکے تو کم ازکم پندرہ شعبان کا روزہ تو رکھ ہی لے، یہ روزہ بھی ان شاء اللہ موجب اجر ہوگا۔

ایک غلط خیال: شب برأت کی رات عبادت کرنے والے کو سارا سال عبادت کی ضرورت نہیں۔

شب برأت کے متعلق مسلمانوں کےایک بڑے طبقہ میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اس ایک رات کی عبادت سے ہر اس شخص کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں جو سال بھر تو عبادت نہ کرے اور اور مختلف بدیوں میں ملوث رہے۔

یہ خیال اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو صر ف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا وہ صرف میری عبادت کریں‘‘ لیکن عبادت کےلئے اللہ تعالیٰ نے زندگی کا کوئی خاص زمانہ یا سال کا کوئی مہینہ یا ہفتے کا کو ئی خاص دن یا کوئی خاص رات متعین نہیں کی کہ بس اسی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور باقی زمانہ عبادت سے غفلت میں گزار دیا جائے بلکہ انسان کی خلقت کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔ سن بلوغ سے لے کر زندگی کے آخری دم تک اسے ہر لمحہ عبادت تسلسل کےساتھ بلا ناغہ انسان پر فرض ہے۔ یہاں تک کے بیماری کے حالت میں بیٹھ کر لیٹ کر یا شدید بیماری کے حالت میں اشاروں کے ساتھ ادا کرنے کاحکم ہے۔ لیکن اس وقت مسلمانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہے اور بعض مسلمانوں نے سال کے مختلف مہینوں میں صرف مخصوص دنوں کو ہی عبادت کےلیے خاص کررکھا ہے اور ان میں طرح طرح کی عبادات کو دین میں شامل کر رکھا ہے جن کا کتاب وسنت سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لیکن افسوس کے آج کل بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں علماء نے یہ چیز ڈال دی ہے کہ شعبان کی 15ویں رات کو مسجد میں آؤ اور تمام رات عبادت میں گزارو گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔ جب کہ اسلام کی تعلیمات میں خصوصی طور پر عبادات میں مستقل طور پر عبادار میں مستقل مزاجی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جب تک کوئی کام استقامت اور مدامت کےساتھ نہ کیا جائےاس میں حسن پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے سال بھر عبادت کرنےوالا اگر اپنے پیارے رسول حضرت محمد ﷺ کی اقتداء میں اس رات خصوصی عبا دت بجا لاتا ہےتو لازماً وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلہ پائے گا اور اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔

شعبان میں کی جانے والی بدعتیں

جس کا ثبوت کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ سے نہ ملتا ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ انہی بدعات میں سے ماہ شعبان میں شب برأت کے سلسلے میں من گھڑت موضوع احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے کی جانے والی بدعات ہیں۔ مسلمانوں نے شب برأت کو ایک مذہبی اور روائتی حیثیت دے رکھی ہے اس خیالی اور تصوراتی رات کو اس طرح اہمیت دی جاتی ہے جس طرح لیلۃ القدر کو دی جاتی ہے۔

ذیل میں پندرھویں شعبان میں کی جانے والی بعض بدعتوںکا ذکر کیا جا رہا ہے۔ جن کاکتاب و سنت اور نہ ہی صحابہ کرام کے تعامل سے ثبوت ملتا ہے بلکہ یہ بدعتیں بعد کی ایجاد ہیں۔

آتش بازی

ان بدعات وخرافات میں سب سے بدترین اور ملعون رسم ’’آتش بازی‘‘ ہے، جو آتش پرستوں اور کفار ومشرکین کی نقل ہے، اس شیطانی رسم میں ہرسال مسلمانوں کی کروڑوں کی رقم اورگاڑھی کمائی آگ میں جل جاتی ہے، بڑی دھوم دھام سے آگ کا یہ کھیل کھیلا جاتا ہے، گویا ہم خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی نیازمندی اور عبادت واستغفار کا تحفہ پیش کرنے کے بجائے اپنے پٹاخے اور آگ پیش کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ آتش بازی کی یہ بدترین رسم تین بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے:

(الف) اسراف وفضول خرچی۔

قرآنِ کریم میں اپنی کمائی فضولیات میں خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیاگیاہے، ارشادِ خداوندی ہے:

’’ اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوٰنَ الشَّیٰطِیۡنِ ‘‘

(بنی اسرائیل: 28)

بے شک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں۔

(ب) کفار ومشرکین کی مشابہت۔

ہمارے نبیﷺ نے کفار ومشرکین اور یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ (مشکوٰۃ شریف) یعنی جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریق اختیار کرے گا اس کا شمار انھیں میں ہوگا۔

(ج) دوسروں کو تکلیف دینا۔

جب پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں تو اس کی آواز سے کتنے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس کو ہر شخص جانتا ہے، جب کہ ہمارا مذہب اسلام ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک مومن آدمی سے کسی بھی شخص کو (مسلم ہو یا غیرمسلم) تکلیف نہیں ہونی چاہیے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَلْمُوٴمِنُ مَنْ اَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ۔

(ترمذی شریف)

یعنی صحیح معنی میں مومن وہ شخص ہے جس سے تمام لوگ اپنی جانوں اور مالوں پر مامون اور بے خوف وخطر رہیں، یہاں تک کہ جانوروں کو تکلیف دینا بھی انتہائی مذموم، شدید گناہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب قرار دیاگیا ہے۔

(صحیح بخاری نیز صحیح مسلم حدیث 1958، کتاب الصید والذبائح)

حاصل یہ ہے کہ صرف ’’آتش بازی‘‘ کی ایک رسم کئی بدترین بدعتوں کا مجموعہ ہے، جو کسی بھی طرح مسلم معاشرے میں رواج پانے کے لائق نہیں بلکہ پہلی فرصت میں قابلِ ترک ہے۔

چراغاں کرنا

شبِ براءت کے موقع پر بعض لوگ گھروں، مسجدوں اور قبرستانوں میں چراغاں کرتے ہیں، یہ بھی اسلامی طریقے کے خلاف ہے اور غیرمسلموں کے تہوار دیوالی کی نقل اور مشابہت ہے۔

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ شرح بخاری میں ’’شب برات‘‘ کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ:۔
’’نصف شعبان کی رات کو چراغاں کرنے کے بارے میں بھی بعض روایات ہیں جو عندالتحقیق وضعی ثابت ہوئی ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ اِس بدعت کا پس منظر ایران کے آتش پرست مجوسیوں کی رسم تھی جو وہ پندرہویں شعبان کو منایا کرتے تھے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اہل عراق کا زردشتیوں کے رسم و رواج سے متاثر ہونا یا اُسے اختیار کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ خود ہمارے ملک میں دیوالی وغیرہ ہندوانہ رسوم اور پیدائش، شادی و غمی وغیرہ کی رسوم سے مسلمان جس قدر متاثر ہیں وہ محتاج بیان نہیں۔ انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں اُن کی تقلید کی جاتی تھی۔‘‘

(شرح بخاری جلد سوم صفحہ 646 زیر عنوان کتاب الصوم باب صوم شعبان)

حلوہ پکانا

شبِ براء ت میں بعض لوگ حلوہ بھی پکاتے ہیں حالانکہ اس رات کا حلوے سے کوئی تعلق نہیں۔ آیات کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرامؓ کے آثار، تابعین و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ اکرم ﷺ کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم ﷺ کے دندانِ مبارک غزوہٴ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوئہ احد ماہِ شوال میں پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے۔

گھروں کا لیپنا پوتنا،
نئے کپڑے بدلنا اوراگربتی وغیرہ جلانا

شبِ براء ت کے موقع پر گھروں کی لپائی پوتائی اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، نیز گھروں میں اگربتی جلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس رات میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں، ان کے استقبال میں ہم ایسا کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں؛ لہٰذا ان بدعتوں سے بھی احتراز لازم ہے۔

  • قوالیوں کی مجلسیں قائم کرنا جن میں شرکیہ اور بدعیہ نظمیں پیش کی جاتی ہیں۔
  • انواع اقسام کے کھانوںپر فاتحہ خوانی کرنا
  • مردوں کی روحوں کی حاضری کا عقیدہ رکھنا۔
  • مردوں سے دعا اور فریاد کرنا
  • اس رات مسجد میں جمع ہونا اور ہزار نفل پڑھنا۔ اور تین سو بار سورۃ یٰسین پڑھنا۔
  • مسور کی دال پکانا۔
  • خصوصی طور پر اس دن کے لئے نئے نئے کپڑے بنوانا۔
  • روحوں کوملانے کا ختم۔

بعض مسلم معاشرے میں یہ غیر اسلامی عقیدہ پایا جاتا ہےکہ جو شخص شب برأت سے پہلے مر جاتا ہے اس کی روح روحوں میں نہیں ملتی بلکہ آوارہ بھٹکتی رہتی ہے۔ پھر جب شب برأت آتی ہے تو روح کو روحوں میں ملانے کا ختم دلایا جاتا ہے، عمدہ قسم کے کھانے، میوے پھل وغیرہ پر ختم پڑھ کر روحوں کو دوسری روحوں سےملایا جاتا ہے۔ اور یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ اگر روحوں کو رشتہ داروں کی روحوں سے نہیں ملایا جاتا تو اس کی بد دعاء سے گھر والوں پر تباہی آتی

حکم و عدل امام الزمان سیدنا حضرت مسیح وموعود علیہ السلام کا فیصلہ

شب برات کے متعلق ہمیں قرآن کریم اور مستند احادیث سے کوئی ثبوت نہیں مل سکاکہ آنحضرت ﷺ اس دن خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھتے ہوں۔ اس سلسلہ میں جتنی بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں ان کی اسناد ضعیف ہیں۔ اس رات کے ساتھ منسلک کام (حلوہ پکانا، آتش بازی کرنا وغیرہ) جو بڑی دھوم دھام سے کیے جاتے ہیں ان کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے نہیں ملتا۔

ماہ شعبان کے بارہ میں مستند احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اس مہینہ میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھا کرتے تھے لیکن آپ نے اپنی امت کو اس مہینہ میں بکثرت نفلی روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ ماہ رمضان کے روزے پوری مستعدی کے ساتھ رکھ سکیں اور ایسا نہ ہو کہ ماہ شعبان میں بکثرت نفلی روزے رکھنے کے نتیجہ میں ماہ رمضان کے فرض روزوں کے سلسلے میں انہیں دشواری ہو۔

بانی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے نصف شعبان کی نسبت فرمایا کہ:
’’یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں۔‘‘

(بدر 26ستمبر 1907ء صفحہ7، ملفوظات جلد پنجم صفحہ297)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ جو دن نصف شعبان کاہے جس میں حلوہ سیویاں کھائی جاتی ہیں اور آتش بازی چلائی جاتی ہے آیا کہ اور دنوں سے فضیلت والا ہے یا نہیں؟ حضورؓ نے فرمایا:۔
’’یہ سب باتیں لغو ہیں۔ شریعت میں اس کا کوئی اصل نہیں۔ احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں۔‘‘

(بدر نمبر49، 48 جلد9، 13اکتوبر 1910ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ:۔
’’شبرات کی عید۔ گیارہویں۔ بارہ وفات محرم کے معاملاتِ موجود، شرع اسلام میں ثابت نہیں۔‘‘

(بدر نمبر12 جلد9، 13جنوری 1910ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ کیا شب برات کے روز حلوہ مانڈہ وغیرہ تیار کرنا احمدیوں کے لئے جائز ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں بدعت ہے‘‘

(الفضل30؍اپریل 1954ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ بعض لوگ شب برأت بڑے زوروشور سے مناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس رات اللہ میاں رزق تقسیم کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضور ؓ نے فرمایا:۔
’’غلط ہے۔ رزق تو روزانہ تقسیم ہورہا ہے۔ یہ وہم ہیں لوگوں کے۔ غیر احمدی لوگوں کو پاگل بنا رہے ہوتے ہیں یعنی غیر احمدی مولوی۔ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت رزق دیتا ہے۔ زمین و آسمان کا رازق ہے۔ سمندر کی تہہ میں کوئی کیڑا نہیں جس کو خدا رزق نہ دے رہا ہو۔ اس کا رزق تو بے انتہا ہے کیا وہ صرف شب برأت پر دیتا ہے۔ باقی راتیں بھوکے مر جاتے ہیں سب، باقی دنوں میں؟ غلط باتیں بنائی ہوئی ہیں لوگوں نے۔‘‘

(لجنہ سے ملاقات۔ الفضل 7جولائی 2000ء ریکارڈنگ 16جنوری 2000ء)

شعبان کا رمضان سے گہر اتعلق

آنحضرت ﷺ نے شعبان کے بارہ میں فرمایا ہے کہ ’’شعبان بادل کی مانند ہے اور رمضان بارش کی طرح‘‘ جس طرح آسمان پر ایک معمولی سی بدلی ظاہر ہوتے ہے جو بڑھتے بڑھتے گھٹا ٹوپ بادلوں میں تبدیل ہوجاتی ہےاور موسلادھار بارش برساتی ہے۔ اسی طرح شعبان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے برسنے کے لئے ایک بدلی کی طرح ہے جو دراصل تیاری ہے رمضان کی اور رحمتوں کے نزول کی۔ یہ بدلی بادل بن کر آنے والے مہینہ رمضان میں خوب برستی ہے۔

اسلامی عبادت کا فلسفہ یہ ہرگز نہیں کہ عبادت کا وقت ہو اور سمجھ بوجھ کر ادا کر دی جائےیا ٹرخا دی جائے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ تیاری کی جاتی ہے۔ اور عبادت کر چکنے کے بعد بھی نوافل کا نظام رکھا گیا ہے۔ تاکہ عبادت اس کی مغز اور روح کوسمجھ کر بجالائی جائے۔ جیسے نماز ہے اس کے لئے تیاری کا حکم ہے۔ جو ’’وضو‘‘ کی صورت میں بسا اوقات غسل کی صورت میں ہوتی ہے۔ اور پھر فرض عبادات سے پہلے اور بعد میں سنتیں اور نوافل ادا کرنے کا حکم ہے۔ اسی طرح حج کی عبادت کے لئے تیاری درکار ہے۔ کپڑے سلانے، احرام کی حالت میں ہونا اور طواف کرنا سب تیاری ہے اور الوداعی طواف، حج کا تتمہ ہے جواسلامی عبادات کے فلسفے کو مدنظر رکھ کر رکھا گیاہے۔ رمضان کے روزےبھی ایک اسلامی عبادت ہے اس کے لئے بھی تیاری کرنے کا حکم ہے۔ برأت کی رات روزے کی عبادات بجا لانے کےلئےدراصل تیاری کی رات ہے، ایک الارم ہے رمضان کی آمد کا۔ اس روز سے انسان پہلے سے زیادہ عبادات بجا لاکر رمضان کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ انسان کی طرف پہلے سے زیادہ بڑھ کر اس کی مناجات کو سنتا اور جواب دیتا ہے گویا دونوں اطراف سے رمضان کی تیاری کا آغاز ہوتا ہے اور رمضان میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں سمیٹنے کے بعد بھی بیٹھ جانے کا حکم نہیں بلکہ اسلامی فلسفہ کو مد نظر ر کھ کرشوال کے روزے بطور نوافل رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔

شعبان کا لفظ بھی اسی مفہوم کو اجاگر کر رہا ہے۔ اگر یہ ’’شعب‘‘ سے مشتق لیا جائے جس کے معنی گھاٹی کے ہیں یعنی پہاڑ کو جانے کا راستہ۔ جو ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ رمضان کی عبادات بھی عام عبادات سے زیادہ کھٹن ہوتی ہیں اس لئے شعبان ان عبادات تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ اور اگر شعبان ’’شعبہ‘‘ سے مشتق لیا جائے جس کے معنی شاخ کے ہیں تو تب بھی رمضان کی تیاری کا مفہوم نمایاں ہوتا ہے۔ جس طرح فصل بہار میں شاخیں نکلتی اور پھر بالآخر پھلوں اور پھولوں سے ثمر آور ہوتی ہیں۔ اسی طرح نیکیاں شعبان میں درخت کی شاخوں کی طرح بڑھتی اور پھیلتی ہیں اور رمضان کے مہینہ میں پھل لگتے اور ساتھ ساتھ پکتے ہیں اور مومن اپنی استعدادوں کے مطابق اپنی جھولیاں ان ثمرات سے بھرتا ہے۔

آئیں! اس اسلامی نقطہ نظر سے رمضان کے مبارک مہینہ کی تیاری کریں تا رمضان میں نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے پوری طرح فیضیاب ہوں۔ آمین۔

(اس مضمون کی تیاری میں قرآن مجید احادیث کی کتب کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے۔ (1) تفسیر کبیر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ (2) اسلامی مہینے اور اُن کا تعارف مصنف محمد ارشد کامل (3) شب برأت کی حقیت مصنف عبد العلیم (4) کچھ کلیاں کچھ پھول مصنف حنیف محمود)

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ قادیان)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 11؍مارچ 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ