خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍فروری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
پیشگوئی مصلحِ موعود کے مصداق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز بیان
’’خدا نے مجھے علمِ قرآن بخشا ہے اور اِس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔ خدا نے مجھے اِس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم سے ایسا پُر کیا کہ آپ کی باون سالہ زندگی اس پر گواہ ہے کہ چاہے وہ دینی مضامین کا سوال ہو یا کسی دنیاوی مضمون کا، جب بھی آپ کو کسی موضوع پر لکھنے اور بولنے کا کہا گیا آپ نے علم و عرفان کے دریا بہا دیے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
ہر سال ہم 20؍فروری کو
پیشگوئی مصلح موعود
کے حوالے سے جلسے بھی کرتے ہیں ا ور اس دن کو یاد بھی رکھتے ہیں۔ ایک بیٹے کی پیدائش کی یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دشمنوں کے اسلام پر اعتراضات کے جواب میں اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر کی تھی کہ دشمنان اسلام کہتے ہیں کہ اسلام کوئی نشان نہیں دکھاتا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر کہتا ہوں کہ ایک بڑا نشان اسلام کی صداقت کا جو میرے ذریعہ سے پورا ہوگا وہ میرے ایک بیٹے کی پیدائش ہے جو لمبی عمر پائے گا۔ اسلام کی خدمت کرے گا۔ اور بتایا کہ یہ یہ خصوصیات اس میں ہوں گی اور تقریباً باون، ترپن خصوصیات بیان فرمائیں اور یہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں تھی۔ ایک معین عرصہ بھی بتایا اور بہرحال اس معینہ عرصہ میں وہ بیٹا پیدا ہوا اور اس نے لمبی عمر بھی پائی اور اسے اسلام کی غیر معمولی خدمت کی توفیق بھی ملی۔ ہر سال اس پیشگوئی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر جماعتی جلسوں میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس سال بھی ان شاء اللہ یہ سب کچھ ہوگا۔ مختلف جماعتوں کے جلسے ہوں گے۔ اسی طرح ایم ٹی اے پر بھی پروگرام آتے ہیں۔ تفصیلات تو وہاں سے پتا لگتی جائیں گی۔ اس وقت میں حضرت مصلح موعودؓ کے اپنے الفاظ میں آپ کی ابتدائی زندگی کیسی تھی اور آپ کی صحت کا کیا حال تھا اور آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیا سلوک تھا، اس بارے میں چند حوالے پیش کروں گا۔
یہ پیشگوئی لمبی عمر پانے والے بچے کے بارے میں تھی۔
پیشگوئی تھی کہ ایک بچہ لمبی عمر پائے گا
اس لمبی عمر پانے والے بچہ کی صحت کی حالت کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ خود ہی فرماتے ہیں کہ بچپن میں میری صحت نہایت کمزور تھی۔ پہلے کالی کھانسی ہوئی اور پھر میری صحت ایسی گر گئی کہ گیارہ بارہ سال کی عمر تک مَیں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور عام طور پر یہی سمجھا جاتارہا کہ میری زیادہ لمبی عمر نہیں ہو سکتی۔ اِسی دوران میں میری آنکھیں دکھنے آگئیں اور اِس قدر دکھیں کہ میری ایک آنکھ قریباً ماری گئی۔ یعنی اس میں سے نظر آنا بند ہو گیا۔ چنانچہ اس میں سے مجھے بہت کم نظر آتاہے۔ جب آپؓ یہ فرما رہے تھے تو آپؓ نے فرمایا کہ ابھی بھی بہت کم نظر آتا ہے۔ پھر جب مَیں اَور بڑا ہوا تو متواتر چھ سات ماہ تک مجھے بخار آتا رہا۔ اور سِل اور دِق کا مریض مجھے قرار دیا گیا۔ یعنی ٹی بی کا مریض بتایا گیا اور فرماتے ہیں کہ اِن وجوہ سے باقاعدہ پڑھائی بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سکول نہیں جاتا تھا۔ لاہور کے ہی ماسٹر فقیر اللہ صاحب ہیں، لاہور میں ہی آپؓ یہ لیکچر دے رہے تھے جن کی مسلم ٹاؤن میں کوٹھی ہے فرماتے ہیں کہ ہمارے سکول میں حساب پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کی کہ یہ پڑھنے نہیں آتا اور اکثر سکول سے غائب رہتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں ڈرا کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام ناراض ہوں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے کہ ماسٹر صاحب اِس کی صحت کمزوررہتی ہے ہم اتنا ہی شکر کرتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی مدرسہ میں چلا جاتاہے اور کوئی بات اِس کے کانوں میں پڑجاتی ہے۔ زیادہ زور اس پر نہ دیں۔ فرماتے ہیں کہ بلکہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے حساب سکھا کر اسے کیا کرنا ہے۔ کیا ہم نے اِس سے کوئی دکان کرانی ہے؟
تو یہ تھی آپؓ کی بچپن کی صحت کی حالت اور سکول جانے کی حالت۔
کون ایسی حالت میں لمبی عمر کی ضمانت دے سکتا ہے! لیکن نہ صرف لمبی عمر پائی بلکہ یہ بھی اس میں پیشگوئی تھی کہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔
ایسے حالات میں کون کہہ سکتا ہے کہ علوم بھی اس کو حاصل ہوں گے۔ بہرحال آپؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ قرآن اور حدیث پڑھ لے گا تو کافی ہے۔ کہتے ہیں کہ غرض میری صحت ایسی کمزور تھی کہ دنیا کے علم پڑھنے کے تعلق میں بالکل نا قابل تھا۔ میری نظر بھی کمزور تھی۔ مَیں پرائمری، مڈل اور انٹرنس کے امتحان میں فیل ہوا۔ کسی امتحان میں پاس نہیں ہوا مگر خدا نے میرے متعلق خبر دی تھی کہ میں علومِ ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جاؤں گا۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ دنیوی علوم میں سے کوئی علم میں نے نہیں پڑھا اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان علمی کتابیں میرے قلم سے لکھوائیں کہ دنیا اِن کو پڑھ کر حیران ہے اور وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اِس سے بڑھ کر اسلامی مسائل کے متعلق اَور کچھ نہیں لکھا جا سکتا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ابھی تفسیر کبیرکے نام سے میں نے قرآن کریم کی تفسیر کا ایک حصہ لکھا ہے اسے پڑھ کر بڑے بڑے مخالفوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اِس جیسی آج تک کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔ پھر ہمیشہ میں لاہور میں آتا رہتا ہوں اور یہاں کے رہنے والے جانتے ہیں کہ مجھ سے کالجوں کے پروفیسر ملنے آتے ہیں۔ سٹوڈنٹس ملنے آتے ہیں۔ ڈاکٹر ملنے آتے ہیں۔ مشہور پلیڈر اور وکیل ملنے آتے ہیں۔ مگر آج تک ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بڑے سے بڑے مشہور عالم نے میرے سامنے اسلام اور قرآن پر کوئی اعتراض کیا ہو اور میں نے اسلام اور قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ہی اسے ساکت اور لاجواب نہ کر دیاہو اور اسے یہ تسلیم نہ کرنا پڑا ہو کہ واقعہ میں اسلام کی تعلیم پر کوئی حقیقی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہے ورنہ میں نے دنیوی علوم کے لحاظ سے کوئی علم نہیں سیکھا لیکن میں اِس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا نے مجھے اپنے پاس سے علم دیا اور خود مجھے ہر قسم کے ظاہری اور باطنی علوم سے حصہ عطا فرمایا۔
پھر آپؓ
علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیے جانے کے بارے میں
کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے علوم سکھائے، فرماتے ہیں کہ میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اس میں سے ٹَن کی آواز پیداہوئی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک تصویر کے فریم کی صورت اختیار کر گئی۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ اس فریم میں سے ایک تصویر نمودار ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد تصویر ہلنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اس میں سے کود کر ایک وجود میرے سامنے آگیا اور اس نے کہا میں خدا کا فرشتہ ہوں اور تمہیں قرآن کریم کی تفسیر سکھانے کے لیے آیا ہوں۔ میں نے کہا سکھاؤ۔ تب اس نے سورت فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کردی۔ وہ سکھاتا گیا، سکھاتا گیا اور سکھاتا گیا۔ یہاں تک کہ جب وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تک پہنچا تو کہنے لگا کہ آج تک جتنے مفسر گزرے ہیں ان سب نے صرف اِس آیت تک تفسیر لکھی ہے لیکن میں تمہیں اِس کے آگے بھی تفسیر سکھاتا ہوں۔ چنانچہ اس نے ساری سورت فاتحہ کی تفسیر مجھے سکھا دی۔
اِس رؤیا کے معنی درحقیقت یہی تھے کہ فہمِ قرآن کا ملکہ میرے اندر رکھ دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ ملکہ میرے اندر اِس قدر ہے کہ
میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ جس مجلس میں چاہو میں یہ دعویٰ کرنے کے لیے تیار ہوں کہ سورت فاتحہ سے ہی میں تمام اسلامی علوم بیان کر سکتا ہوں۔
آپؓ کھل کے پبلک میں یہ تقریر کر رہے ہیں، دنیا کو بتا رہے ہیں، چیلنج دے رہے ہیں لیکن کبھی نہیں ہوا کہ آپؓ کے مقابلے میں اس طرح کوئی آیا ہو۔ پھر فرماتے ہیں کہ میں ابھی چھوٹا ہی تھاسکول میں پڑھا کرتا تھا کہ ہمارے سکول کی فٹ بال ٹیم امرتسر کے خالصہ کالج کی ٹیم سے کھیلنے کے لیے گئی۔ مقابلہ ہوا اور ہماری ٹیم جیت گئی۔ اس پرباوجود اس مخالفت کے جو مسلمان ہماری جماعت کے ساتھ رکھتے ہیں چونکہ ایک رنگ میں مسلمانوں کی عزت افزائی ہوئی تھی اِس لیے امرتسر کے ایک رئیس نے ہماری ٹیم کو چائے کی دعوت دی۔ جب ہم وہاں گئے تو مجھے تقریر کرنے کے لیے کھڑاکر دیا گیا۔ میں نے اس تقریر کے لیے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ جب مجھے کھڑا کیا گیا تو معاً مجھے فرشتہ کی تفسیر سکھانے والا یہ رؤیا یاد آگیا۔تو پہلے میں نے اس کے اوپر خداتعالیٰ سے دعاکی کہ اے خدا! تیرا فرشتہ مجھے خواب میں سورت فاتحہ کی تفسیر سکھا گیاتھا۔ آج میں اس بات کا امتحان لینا چاہتا ہوں کہ یہ خواب تیری طرف سے تھا یا میرے نفس کا دھوکا تھا۔
اگر یہ خواب تیر ی طرف سے تھا تو تُو مجھے سورہ فاتحہ کا آج
کوئی ایسا نکتہ بتا جو اِس سے پہلے دنیا کے کسی مفسر نے بیان نہ کیا ہو۔
چنانچہ اِس دعا کے معاً بعد خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ایک نکتہ ڈالا اور میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ۔ اے مسلمانو! تم پانچ نمازوں میں اور اپنی نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کیا کرو کہ ہم مغضوب اور ضال نہ بن جائیں۔ مغضوب کے معنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثوں میں خود بیان فرمائے ہیں۔ چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں کہ مغضوب کے معنی ہیں الیہود اور ضالّ کے معنی ہیں نصاریٰ۔ پس غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ سے مراد یہ ہے کہ الٰہی ہم یہودی نہ بن جائیں اور وَ لَا الضَّآلِّيْنَ سے مراد یہ ہے کہ ہم نصاریٰ نہ بن جائیں۔ اِس امر کی مزید وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِس امت میں ایک مسیح آئے گا۔ پس جو لوگ اس کا انکار کریں گے وہ لازماً یہود صفت بن جائیں گے۔ دوسری طرف آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ عیسائیت کافتنہ ایک زمانہ میں خاص طورپر بڑھ جائے گا۔ لوگ روٹی کے لیے، ملازمت کے لیے، سوسائٹی میں عزت حاصل کرنے کے لیے عیسائیت اختیار کر لیں گے یا دھوکا کھا کر اور اپنے مذہب کی تعلیم کو نہ سمجھ کر عیسائیت قبول کر لیں گے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ سورۂ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی اور اس وقت نہ عیسائی اسلام کے زیادہ مخالف تھے اور نہ یہودی اسلام کے زیادہ مخالف تھے۔ اس وقت سب سے زیادہ مخالفت مکہ کے بت پرستوں کی طرف سے کی جاتی تھی مگر یہ دعا نہیں سکھائی گئی کہ الٰہی ہم بت پرست نہ بن جائیں بلکہ دعا یہ سکھائی گئی ہے کہ الٰہی ہم یہودی یا نصاریٰ نہ بن جائیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اِس سورہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمادی تھی کہ مکہ کے بت پرست ہمیشہ کے لیے مٹادیے جائیں گے اور ان کا نام ونشان باقی نہیں رہے گا۔ پس اِس بات کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کے متعلق مسلمانوں کو کوئی دعا سکھائی جائے۔ ہاں یہودیت اور عیسائیت، دونوں باقی رہیں گی اور تمہارے لیے ضروری ہو گا کہ ان کے فتنہ سے بچنے کے لیے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو۔ جب میری یہ تقریرختم ہو چکی تو بعد میں بڑے بڑے رؤسا مجھے ملے اور کہنے لگے کہ آپ نے قرآن خوب پڑھا ہوا ہے۔ ہم نے تو اپنی ساری عمر میں یہ نکتہ پہلی دفعہ سنا ہے۔ چنانچہ واقعہ یہی ہے کہ ساری تفسیروں کو دیکھ لو کسی مفسر قرآن نے آج تک یہ نکتہ بیان نہیں کیا۔ حالانکہ میری عمر اس وقت بیس سال کے قریب تھی جب اللہ تعالیٰ نے یہ نکتہ مجھ پر کھولا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے کہ جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے اِسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے۔ دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی فضیلت اس پر ظاہر نہ کر سکوں۔ یہ لاہور شہر ہے۔ لاہور میں آپؓ تقریر فرما رہے تھے یہاں یونیورسٹی موجود ہے۔ کئی کالج یہاں کھلے ہوئے ہیں، بڑے بڑے علوم کے ماہراِس جگہ پائے جاتے ہیں۔ میں اِن سب سے کہتا ہوں کہ دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آجائے، دنیا کا کوئی پروفیسر میرے سامنے آجائے، دنیا کا کوئی سائنسدان میرے سامنے آجائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے مَیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اس کے اعتراض کا ردّ ہوگیا اور مَیں دعویٰ کرتا ہوں کہ مَیں خدا کے کلام سے ہی اس کو جواب دوں گا اور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو ردّ کر کے دکھا دوں گا۔
(ماخوذ از میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوار العلوم جلد17 صفحہ213 تا 217)
یہ واقعہ جیسا کہ آپؓ نے بتایا اُس وقت کا ہے جب آپؓ کی عمر بیس سال کی تھی اور اس وقت آپؓ کا خدا پر یقینِ کامل ہو چکا تھا لیکن یہ یقین کامل کس عمرمیں ہوا، اس بارے میں خود حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں جس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ خود بچپن سے آپؓ کو مصلح موعود بننے کا مصداق بنا رہا تھا۔
چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں کہ سال 1900ء میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا ہے۔ اس وقت میں گیارہ سال کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک جبہ لایا۔ میں نے آپؑ سے وہ جبہ لے لیا۔ کسی اَور خیال سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اس کا رنگ اور اس کا نقش مجھے پسند تھے۔ میں اسے پہن نہیںسکتا تھا کیونکہ اس کے دامن میرے پاؤں کے نیچے لٹکتے رہتے تھے۔ جب میں گیارہ سال کا ہوا اور انیس سو سال نے دنیا میں قدم رکھایعنی انیس سو عیسوی نے دنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں؟ اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟
میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلے پر سوچتا رہا۔
آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے۔
وہ گھڑی میرے لیے کیسی خوشی کی گھڑی تھی۔ کتنا خوشی کا وقت تھا۔ جس طرح ایک بچے کو اس کی ماں مل جائے تو اس سے اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا۔ گیارہ سال کی عمر میں یہ سوچ تھی۔ سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا۔ یعنی سنا ہوا جو ایمان تھا وہ علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا۔ بہر حال کہتے ہیں میں اپنے جامہ میں پھولا نہیں سماتا تھا۔ میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہاکہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ اس وقت میں گیارہ سال کا تھا، آج میں پینتیس سال کا ہوں مگر آج بھی مَیں اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا! تیری ذات کے متعلق مجھے کوئی شک پیدا نہ ہو۔ ہاں اس وقت میں بچہ تھا اب مجھے زیادہ تجربہ ہے۔ اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔ بہرحال آپؓ فرماتے ہیں کہ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ میں لکھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک جبہ میں نے مانگ لیا تھا، جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں جن کا مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور متبرک ہے پہن لیا۔ یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادے کے مقدس ہونے کا تھا۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت پھر دروازہ بند کر لیا اور خوب رو رو کر دعا کی، نفل پڑھے۔
(ماخوذ از یادِ ایام، انوار العلوم جلد8 صفحہ365-366)
اس کی ایک اَور جگہ اس طرح آپ نے تفصیل بیان فرمائی ہے
گیارہ سال کی عمر میں خدا تعالیٰ کی پہچان کس طرح ہوئی۔
فرماتے ہیں کہ میں گیارہ سال کا تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے یہ توفیق عطا فرمائی کہ میں اپنے عقیدے کو ایمان سے بدل لوں۔ مغرب کے بعد کا وقت تھا۔ میں اپنے مکان میں کھڑا تھا کہ یکدم مجھے خیال آیا کہ میں اس لیے احمدی ہوں کہ بانی سلسلہ احمدیہ میرے باپ ہیں یا اس لیے احمدی ہوں کہ احمدیت سچی ہے اور یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے۔ یہ خیال آنے کے بعد مَیں نے فیصلہ کیا کہ میں اس بات پر غور کر کے یہاں سے نکلوں گا اور اگر مجھے یہ پتہ لگ گیا کہ احمدیت سچی نہیں تو میں اپنے کمرے میں داخل نہیں ہوں گا بلکہ یہیں صحن سے باہر نکل جاؤں گا۔ یہ گیارہ سال کے بچے کی ایک سوچ تھی۔ کہتے ہیں بہرحال یہ فیصلہ کر کے مَیں نے غور کرنا شروع کیا اور قدرتی طور پر اس کے نتیجہ میں بعض دلائل میرے سامنے آئے جن پر مَیں نے جرح کی۔ کبھی ایک دلیل دوں اسے توڑ دوں۔ پھر دوسری دلیل دوں اسے ردّ کر دوں۔ پھر تیسری دلیل دوں اور اسے توڑوں یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ سوال میرے سامنے آیا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول تھے اور کیا مَیں ان کو اس لیے سچا مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ سچے ہیں یا مَیں ان کو اس لیے سچا مانتا ہوں کہ مجھ پر دلائل کی رو سے یہ روشن ہو چکا ہے کہ واقع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم راستباز رسول ہیں۔ جب یہ سوال میرے سامنے آیا تو میرے دل نے کہا اب مَیں اس امر کا بھی فیصلہ کر کے رہوں گا۔ اس کے بعد قدرتی طور پر خدا تعالیٰ کے متعلق میرے دل میں سوال پیدا ہوا اور مَیں نے کہا یہ سوال بھی حل طلب ہے کہ آیا مَیں خداتعالیٰ کو یونہی عقیدے کے طور پر مانتا ہوں یا سچ مچ کی حقیقت مجھ پر منکشف ہو چکی ہے کہ دنیا کا ایک خدا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کے سوال پر بھی مَیں نے غور کرنا شروع کیا اور میرے دل نے کہا کہ اگر خدا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی سچے ہیں اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں تو پھر احمدیت بھی یقینا ًسچی ہے اور اگر دنیا کا کوئی خدا نہیں پھر ان میں سے کوئی بھی سچا نہیں۔ بہرحال کہتے ہیں مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ آج میں اس سوال کو حل کر کے رہوں گا اور اگر میرے دل نے یہی فیصلہ کیا کہ خدا نہیں تو پھر میں اپنے گھر میں نہیں رہوں گا بلکہ فوراً باہر نکل جاؤں گا۔ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کر کے مَیں نے سوچنا شروع کر دیا اور سوچتا چلا گیا۔ اپنی عمر کے لحاظ سے چھوٹی عمر تھی مَیں اس سوال کا کوئی معقول جواب نہ دے سکا مگر پھر بھی مَیں غور کرتا چلا گیا یہاں تک کہ میرا دماغ تھک گیا۔
اس وقت مَیں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ اس دن بادل نہیں تھے۔ اب اللہ تعالیٰ آپ کو اس طرح سکھانا چاہتا تھا۔ کہتے ہیں آسمان جو نہایت مصفیٰ تھا اور ستارے نہایت خوش نمائی کے ساتھ آسمان پر چمک رہے تھے۔ ایک تھکے ہوئے دماغ کے لیے اس سے زیادہ فرحت افزا اور کون سا نظارہ ہو سکتا ہے۔ مَیں تھکا ہوا تھا۔ آسمان دیکھتا رہا۔ ستاروں کو انجوائے کر رہا تھا۔ تو مَیں نے بھی ان ستاروں کو دیکھنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ میں ان ستاروں میں کھو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پھر میرے دماغ کو تروتازگی حاصل ہوئی تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ کیسے اچھے ستارے ہیں مگر ان ستاروں کے بعد کیا ہو گا؟ میرے دماغ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ان کے بعد اَور ستارے ہوں گے پھر میں نے کہا ان کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا جواب بھی میرے دل نے یہی دیا کہ اس کے بعد اَور ستارے ہوں گے۔ پھر میرے دل نے کہا اچھا تو پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ میرے دماغ نے پھر یہی جواب دیا کہ ان کے بعد اَور ستارے ہوں گے۔ مَیں نے کہا اچھا تو پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کا بھی وہی جواب میرے دل اور دماغ نے دیا کہ کچھ اور ستارے ہوں گے۔ تب میرے دل نے کہا کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے ستارے ہوں۔ کیا یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہو گا۔ اگر ختم ہو گا تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہی وہ سوال ہے جس کے متعلق اکثر لوگ حیران رہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم جو کہتے ہیں کہ خدا غیرمحدود ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ اور ہم جو کہتے ہیں کہ خدا ابدی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ آخر کوئی نہ کوئی حد تو ہونی چاہیے۔ یہی سوال میرے دل میں ستاروں کے متعلق پیدا ہوا اور مَیں نے کہا کہ آخریہ کہیں ختم بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔ا گر ہوتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہے اور اگر ختم نہیں ہوتے تو یہ کیا سلسلہ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ جب میرا دماغ یہاں تک پہنچا تو میں نے کہا خدا کی ہستی کے متعلق محدود اور غیر محدود کا سوال بالکل لغو ہے۔ تم خدا تعالیٰ کو جانے دو ان ستاروں کے متعلق کیا کہو گے میری آنکھوں کے سامنے یہ پڑے ہیں۔ اگر ہم ان کو محدود کہتے ہیں تو محدود وہ ہوتا ہے جس کے بعد دوسری چیز شروع ہو جائے۔ پس سوال یہ ہے کہ اگر ایک یہ محدود ہیں تو ان کے بعد کیا ہے۔ پھر اگر وہ محدود ہے تو اس کے بعد کیا ہے اور اگر کہیں کہو کہ یہ غیر محدود ہیں تو اگر ستاروں کی غیر محدودیت کا انسان قائل ہو سکتا ہے تو خدا تعالیٰ کی غیر محدودیت کا کیوں قائل نہیں ہو سکتا؟ تب میرے دل نے کہا کہ ہاں واقع میں خدا موجود ہے کیونکہ اس نے قانون قدرت میں وہی اعتراض رکھ دیا ہے جو اس کی ذات پر پیدا ہوتا ہے اوراس نے بتا دیا ہے کہ تم مجھے غیر مرئی چیز سمجھ کر اگر یہ اعتراض کرتے ہو تو پھر وہ چیزیں جو تمہیں نظر آ رہی ہیں ان کے متعلق تمہارا کیا جواب ہے جبکہ وہی اعتراض جو تم مجھ پر کرتے ہو ان پر بھی عائد ہوتا ہے اور تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ تم خدا تعالیٰ کے متعلق تو بے تکلفی سے یہ کہہ دو گے کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ غیر محدود ہے۔ دوسری جگہ آپؓ نے فرمایا کہ اس دلیل سے جب خدا تعالیٰ کا وجود مجھ پر ثابت ہو گیا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت بھی مجھ پر واضح ہو گئی۔
(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد19 صفحہ689تا 692)
بہرحال یہ بھی اللہ تعالیٰ کا آپ کو علوم سے پُر کرنے کا ایک ثبوت ہے۔ ایک معمولی پڑھے ہوئے بچے کے دل میں اس طرح سوال پیدا کیے اور پھر خود راہنمائی بھی فرمائی۔
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں کیا خیالات رکھتے تھے۔
اس کا اظہار حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے فرمایا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ آپؓ یہی سمجھتے تھے کہ یہ بچہ مصلح موعود ہو گا، مصلح موعود کا مصداق بنے گا۔ حضرت مصلح موعودؓ ایک دوواقعات کا ذکر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عرصہ ہوا جبکہ پہلے پہل مَیں نے چند ایک دوستوں کے ساتھ مل کر رسالہ تشحیذ الاذھان جاری کیا تھا۔ اس رسالے کو روشناس کرانے کے لیے جو مضمون میں نے لکھا جس میں اس کے اغراض و مقاصد بیان کیے گئے وہ جب شائع ہوا تو حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اس کی خاص تعریف کی اور عرض کیا کہ یہ مضمون اس قابل ہے کہ حضورؑ اسے ضرور پڑھیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد مبارک میں وہ رسالہ منگوایا اور غالباً مولوی محمد علی صاحب سے وہ مضمون پڑھوا کر سنا اور تعریف کی لیکن اس کے بعد جب میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا۔ پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے تعریف کر دی تھی لیکن بعد میں ذاتی طور پر پھر فرمایا کہ میاں تمہارا مضمون بہت اچھا تھا مگر میرا دل خوش نہیں ہوا اور فرمایا کہ ہمارے وطن میں ایک مثل مشہور ہے کہ اونٹ چالیس کا اور ٹوڈا بتالیس۔ یعنی ایک اونٹ کی قیمت کم ہے اورٹوڈے کی، اس کے بچے کی اس سے دو روپے زیادہ ہے۔ تم نے یہ مثل پوری نہیں کی۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں میں تو اتنی پنجابی نہیں جانتا تھا۔ اس کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اس لیے میرے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھ کر حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا: شاید تم نے اس کا مطلب نہیں سمجھا۔ فرمایا کہ ہمارے علاقے کی مثال ہے کہ کوئی شخص اونٹ بیچ رہا تھا اور ساتھ اونٹ کا بچہ بھی تھا جسے اس علاقے میں ٹوڈا کہتے ہیں۔ کسی نے اس سے قیمت پوچھی تو اس نے کہا کہ اونٹ کی قیمت تو چالیس روپے ہے مگر ٹوڈے کی بیالیس روپے ہے۔ اس نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ ٹوڈا اونٹ بھی ہے اور بچہ بھی ہے۔ اسی طرح تمہارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف براہین احمدیہ موجود تھی۔ جب یہ تصنیف کی گئی تو اس وقت آپؑ کے سامنے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے کوئی ایسا اسلامی لٹریچر موجود نہ تھا مگر تمہارے سامنے یہ موجود تھی اور امید تھی کہ تم اس سے بڑھ کر کوئی چیز لاؤ گے، اس سے فائدہ اٹھاؤ گے۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں مامورین سے بڑھ کر علم تو کوئی کیا لا سکتا ہے۔ (یہ سوال نہیں تھا۔) سوائے اس کے کہ ان کے پوشیدہ خزانوں کو نکال نکال کر پیش کرتے رہیں۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ
بعد میں آنے والی نسلوں کا کام یہی ہوتا ہے کہ گذشتہ بنیاد کو اونچا کرتے رہیں۔
اب حضرت خلیفہ اولؓ آپ کی صحت کی حالت کو بھی جانتے تھے، علم کو بھی جانتے تھے۔ اس کے باوجود آپ کے بارے میں اتنے اعلیٰ خیالات رکھنا بتاتا ہے کہ یقیناً آپ سمجھتے تھے اور آپ کو پتہ تھا کہ یہ بچہ ایسا ہے۔ اور اس لڑکے میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ اعلیٰ ترین مضامین لکھ سکتا ہے۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے آئندہ نسلیں اگر ذہنوں میں رکھیں خود بھی برکات اور فضل حاصل کر سکتی ہیں اور قوم کے لیے بھی برکات اور فضلوں کا موجب ہو سکتی ہیں مگر اپنے آبا سے آگے بڑھنے کی کوشش نیک باتوں میں ہونی چاہیے۔ یہ نہیں کہ چور کا بچہ یہ کوشش کرے کہ باپ سے بڑھ کر چور ہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ نمازی آدمی کی اولاد کوشش کرے کہ باپ سے بڑھ کر نمازی ہو۔
(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد3 صفحہ484-485)
حضرت مصلح موعوؓد کی بچپن کی صحت کی حالت کا ایک واقعہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ آپؓ کی صحت کی حالت اور علمی حالت کا ایک اَور واقعہ ہے۔ دراصل یہ بھی حضرت خلیفہ اولؓ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آپؓ سے محبت اور شفقت کا واقعہ ہے جو یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ
آپؑ اس یقین پر قائم تھے کہ یہ بچہ مصلح موعود ہونے والا ہے۔
بہرحال حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اِس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اِس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں۔ اِس لیے آپ کا طریق تھا کہ آپؓ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں! میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔پھر آپ اپنی صحت کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں ککرے پڑ گئے تھے۔ پہلے بھی آنکھوں کے بارے میں بیان ہو چکا ہے۔ اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف ککروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اِس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میری صحت کے لیے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ نے میرے لیے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپؑ نے کتنے روزے رکھے۔ بہرحال تین یا سات روزے آپؑ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لیے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم مَیں نے آنکھیں کھول دیں اور مَیں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب افطاری کرنے لگے تھے تو اس وقت حضرت مصلح موعود نے کہامیں نے آنکھیں کھولیں اور میں نے آنکھیں کھول کے کہا مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ لیکن اِس بیماری کی شدت اور اِس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی۔ اس کی تفصیل آپؓ بیان کرتے ہیں کہ چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے۔ میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر اس سےکتاب نہیں پڑھ سکتا۔ دو چار فٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا جانا پہچانا ہوا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آ سکتی۔ صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگراس میں بھی ککرے پڑ گئے اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا۔
تو یہ صحت کی حالت ہے اور پھر دیکھیں آپؓ کے علمی کام۔ کس طرح
خدا تعالیٰ کی تائیدات نے آپؓ کو نوازا۔
بہرحال آپؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ پڑھائی اِس کی مرضی پر ہو گی۔ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اِس پرزورنہ دیا جائے کیونکہ اِس کی صحت اِس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار ہا مجھے صرف یہی فرماتے تھے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لو یعنی حضرت خلیفہ اولؓ سے پڑھ لو۔ اِس کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لوکیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔
بہرحال آپؓ فرماتے ہیں غرض اِس رنگ میں میری تعلیم ہوئی اور میںدرحقیقت مجبور بھی تھا کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ بےشمار بیماریاں تھیں۔چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یاساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا۔ پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی تھی۔ ریڈآئیو ڈائیڈ آف مرکری (MERCURY) کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی۔ اِسی طرح گلے پر اِس کی مالش کی جاتی کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی۔ غرض آنکھوں میں ککرے، جگر کی خرابی، عظم طحال (تلی کی بیماری) کی شکایت پھر اِس کے ساتھ بخار کا شروع ہونا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھ لے اِس پر زیادہ زور نہ دیا جائے۔ اِن حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہو گا۔
ایک دفعہ ہمارے نانا جان
حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا اردو کا امتحان لیا۔
فرمایا کہ اب بھی میرا خط اچھا نہیں ہے مگر اس زمانہ میں میرا اتنا بدخط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھاکہ میں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتا لگائیں میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتا نہ چلا۔ میر صاحب کی طبیعت میں بڑی تیزی تھی۔ غصہ میں فوراً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچے۔ میں بھی اتفاقاً اس وقت گھر میں ہی تھا۔ ہم تو پہلے ہی ان کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں نانا تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اَور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نہ معلوم کیا ہو۔ خیر میر صاحب آگئے اور حضرت صاحبؑ سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں ہے۔ میں نے اِس کا اردو کا امتحان لیا تھا۔ آپ ذرا پرچہ تو دیکھیں اِس کا اتنا برا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑ ھ سکتا۔ پھر اِسی جوش کی حالت میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے آپ بالکل پروا نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب میر صاحب کو اِس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا بلاؤ مولوی صاحب کو۔ جب آپ کو کوئی مشکل درپیش آتی تو آپ ہمیشہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا لیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے بڑی محبت تھی۔ آپ تشریف لائے اور حسب معمول سرنیچے ڈال کر ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا مولوی صاحب میں نے آپ کو اِس غرض کے لیے بلایا ہے کہ میر صاحب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اِس کا امتحان لے لیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قلم اٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اِس کو نقل کرو۔ بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے لیا۔ میں نے بڑی احتیاط سے اور بڑی سوچ سمجھ کر اس کو نقل کر دیا۔ اول تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی۔ دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اَور بھی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے اور پھر مَیں نے آہستہ آہستہ نقل کیا۔ الف اور با وغیرہ احتیاط سے ڈالے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اِس کاخط تومیرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول تو پہلے ہی میرے حق میں تھے اور میری تائید میں ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ فرمانے لگے کہ حضور! میر صاحب کو یونہی جوش آ گیا ورنہ اِس کا خط تو بڑا اچھا ہے۔ تو یہ حالات تھے میرے۔ کہتے ہیں ایسے حالات میں دیکھ لو کہ میں نے ظاہری علم کیا حاصل کرنا تھا۔
پھر
اپنی تعلیمی قابلیت کے بارے میں ایک موقع پر آپؓ فرماتے ہیں
کہ حضرت خلیفہ اولؓ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں! تمہاری صحت ایسی نہیںکہ تم خود پڑھ سکو۔ میرے پاس آجایا کرو۔ میں پڑھتا جاؤں گا اور تم سنتے رہا کرو۔ چنانچہ انہوں نے زور دے دے کر پہلے قرآن پڑھایا پھر بخاری پڑھا دی۔ یہ نہیںکہ آپؓ نے آہستہ آہستہ مجھے قرآن پڑھایا بلکہ آپؓ کا طریق یہ تھاکہ آپ قرآن پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ اِس کا ترجمہ کرتے جاتے۔ کوئی بات ضروری سمجھتے تو بتا دیتے ورنہ جلدی جلدی پڑھاتے جاتے۔ آپؓ نے تین مہینہ میں مجھے سارا قرآن پڑھا دیا۔ اِس کے بعد پھر کچھ ناغے ہونے لگ گئے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے بعد آپؓ نے پھر مجھے کہا کہ میاں! مجھ سے بخاری تو پوری پڑھ لو۔ فرماتے ہیں کہ دراصل میں نے آپؓ کو بتا دیا تھا یعنی خلیفہ اول کو بتا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب سے قرآن اور بخاری پڑھ لو۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی مَیں نے آپؓ سے قرآن اور بخاری پڑھنی شروع کر دی تھی گو ناغے ہوتے رہے۔ اِسی طرح طب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی ہدایت کے ماتحت میں نے آپؓ سے شروع کر دی تھی۔
بہرحال فرماتے ہیں کہ غرض مَیں نے آپؓ سے طب بھی پڑھی اور قرآن کریم کی تفسیر بھی۔ قرآن کریم کی تفسیر آپؓ نے دو مہینے میں ختم کرا دی۔ آپؓ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور کبھی نصف اور کبھی پورا پورا پارہ ترجمہ سے پڑھ کر سنا دیتے۔ کسی کسی آیت کی تفسیر بھی کر دیتے۔ اِسی طرح بخاری آپؓ نے دو تین مہینہ میں مجھے ختم کرا دی۔ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں آپؓ نے سارے قرآن کا درس دیا تو اس میں بھی میں شریک ہو گیا۔ چند عربی کے رسالے بھی مجھے آپؓ سے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ غرض یہ میری علمیت تھی۔
(ماخوذ از الموعود، انوار العلوم جلد17 صفحہ532تا 537)
اپنی پہلی تقریر اور اس پر حضرت خلیفة المسیح الاول ؓکی پسندیدگی کا اظہار
اس کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے ایک استاد تھے میں نے ان کو دیکھا ہے کہ جب میں درس دیتا تو وہ باقاعدہ میرے درس میں شامل ہوتے تھے لیکن اس کے مقابلے میں میرے ایک اَور استاد تھے۔ جب کبھی وہ درس دے رہے ہوتے تو پہلے صاحب مسجد میں آ کر انہیں درس دیتے ہوئے دیکھتے تو چلے جاتے اور کہتے کہ اس کی باتیں کیا سننی ہیں یہ تو سنی ہوئی ہیں۔ مگر میرے درس میں باوجود اس کے کہ میں ان کا شاگرد تھا بوجہ اس کے کہ مجھ پر حسن ظنی رکھتے تھے ضرور شامل ہوتے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس کے درس میں اس لیے شامل ہوتا ہوں کہ اس کے ذریعہ قرآن کریم کے بعض نئے مطالب مجھے معلوم ہوتےہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ بعض لوگوں پر چھوٹی عمر میں ہی ایسے علوم کھول دیے جاتے ہیں جو دوسروں کے وہم اور گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ دراصل بات تو یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو مصلح موعود کا مصداق بنانا تھا اس لیے خود ہی تعلیم بھی دے رہا تھا۔ بہرحال آپ فرماتے ہیں کہ اسی مسجد میں غالباً مسجد اقصیٰ کی بات ہے 1907ء میں سب سے پہلی دفعہ میں نے پبلک تقریر کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا، وفات سے ایک سال پہلے کا واقعہ ہے۔ جلسہ کا موقع تھا۔ بہت سے لوگ جمع تھے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے۔ میں نے سورت لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اس کی تفسیر بیان کی۔ میری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب میں کھڑا ہوا تو چونکہ اس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اور میری عمر بھی اس وقت صرف اٹھارہ سال کی تھی۔ پھر اس وقت حضرت خلیفہ اولؓ بھی موجود تھے اور انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اَور دوست بھی آئے ہوئے تھے اس لیے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں۔ تقریرآدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ جاری رہی۔ جب میں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا۔ میاں! میں تم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی۔ میں تمہیں خوش کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ واقعی اچھی تھی۔
(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد22 صفحہ472-473)
پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم سے ایسا پُر کیا کہ آپ کی باون سالہ زندگی اس پر گواہ ہے کہ چاہے وہ دینی مضامین کا سوال ہو یا کسی دنیاوی مضمون کا، جب بھی آپ کو کسی موضوع پر لکھنے اور بولنے کا کہا گیا آپ نے علم و عرفان کے دریا بہا دیے۔
بےشمار موقعوں پر آپ کی تقاریر کو غیروں نے بھی بےحد سراہا اور یہ بھی ریکارڈ میں موجود ہے اور برملا پبلک کے سامنے ان کی تعریف کی۔ اخباروں نے بھی خبریں جمائیں اور اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی۔ بہرحال آپ کا لٹریچر اور خطبات ایک قیمتی خزانہ ہیں ہزاروں صفحات میں شاید لاکھ کے قریب صفحات ہوں گے۔ اب انگریزی میں بھی اور دوسری زبانوں میں بھی یہ ترجمہ ہو رہاہے۔ ہمارا بھی کام ہے کہ اس سے استفادہ کریں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے آپ کو مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ٹھہراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے
وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا
اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق اپنے الہام اور اعلام کے ذریعہ سے مجھے بتا دیا ہے کہ وہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے
اور اب دشمنانِ اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجت کر دی ہے اور ان پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں۔ کاذب ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب کہتے ہیں۔ خدا نے اِس عظیم الشان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
بھلا کس شخص کی طاقت تھی کہ وہ 1886ء میں آج سے پورے اٹھاون سال قبل’’ جب آپ بیان کررہے ہیں اس وقت اٹھاون سال ہو چکے تھے ‘‘اپنی طرف سے یہ خبر دے سکتا کہ اس کے ہاں نو سال کے عرصہ میں ایک لڑکا پیدا ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا، وہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا میں پھیلائے گا، وہ علومِ ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا، وہ جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی قربت اور اس کی رحمت کا وہ ایک زندہ نشان ہو گا۔ یہ خبر دنیا کا کوئی انسان اپنے پاس سے نہیں دے سکتا تھا۔ خدا نے یہ خبر دی اور پھر اسی خدا نے اِس خبر کو پورا کیا۔ اس انسان کے ذریعہ جس کے متعلق ڈاکٹر یہ امید نہیں۔‘‘ اس انسان کے ذریعہ اس کو پورا کیا جس کے متعلق ڈاکٹر یہ امید نہیں ’’رکھتے تھے کہ وہ زندہ رہے گا یا لمبی عمر پائے گا۔‘‘
پھر اپنی صحت کے بارے میں بتایا ہے کہ ’’میری صحت بچپن میں ایسی خراب تھی کہ ایک موقع پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کہہ دیا کہ اِسے سِل ہو گئی ہے کسی پہاڑی مقام پر اِسے بھجوا دیا جائے۔‘‘ ٹی بی کی وجہ سے۔ ’’چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے شملہ بھجوا دیا مگر وہاں جا کر میں اداس ہو گیا اور اِس وجہ سے جلدی ہی واپس آ گیا۔‘‘ فرمایا کہ ’’غرض ایسا انسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی اُس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اِس لئے زندہ رکھا کہ اس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے۔ پھر مَیں وہ شخص تھا جسے علومِ ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدانے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا، وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ
میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اِس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے
جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو
مَیں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
لیکن کوئی نہیں آیا مقابلہ پر۔ ’’لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔
خدا نے مجھے علمِ قرآن بخشا ہے اور اِس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔ خدا نے مجھے اِس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔‘‘
اور آپؓ نے اس کام کو کیا۔ آپؓ کے زمانے میں بےشمار تراجم قرآن کریم کے شائع ہوئے۔ بےشمار تو نہیں کافی حد تک شائع ہوئے اور پھر اسی کام کو اب تک آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ آپؓ کی زندگی میں سترہ اٹھارہ زبانوں میں ترجمے ہو گئے تھے۔ اسی طرح اسلام کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک آپؓ کے زمانے میں پہنچی۔
فرمایا کہ ’’دنیا زور لگا لے وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے۔ عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مِل جائیں۔ یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اِس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اِس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے۔‘‘
(الموعود، انوار العلوم جلد17 صفحہ613-614)
پس یہ پیشگوئی تو پوری ہوئی۔ آپؓ نے اپنا دَور بھی گزارا لیکن پیشگوئی کے جو الفاظ ہیں یہ اس وقت تک قائم ہیں اور یہ ان شاء اللہ اس وقت تک قائم رہیں گے اور یہ چلتی چلی جائے گی جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن پورا نہ ہو جائے اور اسلام کا جھنڈا تمام دنیا میں نہ لہرانے لگ جائے۔ پس ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس پیشگوئی پر ہمارے جلسے اور اس کو یاد رکھنا تبھی فائدہ مند ہے جب ہم اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور وقار کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور دنیا پر اسلام کی سچائی ظاہر کر کے سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے۔آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ماننے والوں کے سوااَور کوئی نہیں جس کے ذریعہ سے اسلام کا جھنڈا دنیا میں دوبارہ لہرائے اور دنیا میں اسلام پھیلے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔