• 20 اپریل, 2024

جماعت کے خلاف مقدمات میں لوگ جھوٹی گواہی دیتے ہیں

جماعت کے خلاف تو مقدمات میں ہمیں اکثر نظر آتا ہے کہ بہت سارے لوگ جو موجود بھی نہیں ہوتے وہ گواہ بن کے کسی کے مقدمے میں پیش ہو جاتے ہیں۔ تو بہرحال(حضرت مسیح موعود علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ’’آج دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔ جس پہلو اور رنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔ جھوٹے مقدمہ کرنا توبات ہی کچھ نہیں۔ جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں۔‘‘ (سارے کاغذات documents جھوٹے بنا لئے جاتے ہیں۔ کسی سرکاری افسر کو پیسے دئیے اور جھوٹے بنا لئے) ’’کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے۔‘‘ (یعنی سچ سے دُور ہی رہیں گے اور آجکل تو یہ حالت پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے) ’’اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟‘‘ (سلسلے کی ضرورت کے بارے میں آپ نے ان اخلاق کو پیش کیا اور بتایا کہ کیا صرف اتنا ہی کہہ دینا کہ مسیح آسمان پر نہیں ہے اور زمین میں فوت ہو چکے ہیں اور اب جس نے آنا تھا وہ آگیا ہے کافی ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو قائم کرنے ہوں گے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔ فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ ﴿ۙ۳۱﴾(الحج:31) بُت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے‘‘۔ فرمایا ’’جیسااحمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بُت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بُت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بت پرست بت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آ کر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو۔ توکہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنا مدار سمجھتے ہیں۔ مگر مَیں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 349-350 ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ:
‘‘ستائیس اٹھائیس سال کا عرصہ گزرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رَلیارام تھا اور وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا’’۔ (اب یہ واقعہ ہم میں سے کئی لوگوں نے سنا ہوا ہے۔ بیان بھی کرتے ہیں۔ لیکن صرف بیان کرتے ہیں۔ عمل ہم میں سے بھی بعض نہیں کر رہے ہوتے) فرمایا کہ ‘‘اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا۔ چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لیے تاکید بھی تھی اس لیے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لیے یہ موقعہ ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کی رو سے پانچ سو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے۔ سو اُس نے مخبربن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رَلیارام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لیے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تَل کر واپس بھیج دیا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام آسکتی ہے۔

غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لیے مشورہ لیا گیاانہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغگوئی کے (جھوٹ بولنے کے)او رکوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا۔ رَلیارام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلّی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریّت ہو جائے گی۔’’ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وکیل مشورہ دے رہے ہیں کہ جھوٹے گواہ پیش کرو)۔ ‘‘ورنہ’’ (وکیلوں نے کہا کہ) ‘‘صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی (کا) نہیں (ہے)۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ) ‘‘مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ جو ہوگا سو ہوگا۔ تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا۔ اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟ تب میں نے بِلا توقّف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط او رمیر اہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصاں رسانی محصول کے لیے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا’’ (حکومت کو نقصان پہنچانے کے لئے، اس کے پیسے ہضم کرنے کے لئے یہ کام نہیں کیا تھا) ‘‘بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نَج کی بات تھی۔ اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا او ر میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریر یں انگریزی میں کیں جن کو مَیں نہیں سمجھتا تھا۔ مگر اس قدر مَیں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو (No,No) کرکے اس کی سب باتوں کو ردّ کر دیتا تھا۔ انجام کارجب وہ افسر مدعی اپنی تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطریا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لیے رخصت’’(ہے)۔ ‘‘یہ سن کرمیں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ اُس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا۔ میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے؟ تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا کہ خیر ہے، خیر ہے۔’’

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 350 تا 353 حاشیہ۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
(5فروری 2016ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ