حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر Sir John Bagot Glubb یہ لیفٹیننٹ جنرل تھے۔ 1986ء میں ان کی وفات ہوئی۔ یہ لکھتے ہیں کہ:
’’قاری اس کتاب کے آخر پر(جو کتاب وہ لکھ رہے تھے) جو بھی رائے قائم کرے اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی تجربات اپنے اندر پرانے اور نئے عہدناموں کے قصوں اور عیسائی بزرگوں کے روحانی تجربات سے حیران کُن حد تک مشابہت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ممکن ہے کہ ہندؤوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے افراد کے ان گنت رؤیا اور کشوف سے بھی مشابہت رکھتے ہوں۔ مزید یہ کہ اکثر اوقات ایسے تجربات تقدس اور فضیلت والی زندگی کے آغاز کی علامت ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات کو نفسانی دھوکہ قرار دینا کوئی موزوں وضاحت معلوم نہیں ہوتی کیونکہ یہ واقعات تو بہت سے لوگوں میں مشترک رہے ہیں۔ ایسے لوگ جن کے درمیان ہزاروں سالوں کا فرق اور ہزاروں میلوں کے فاصلے تھے۔ جنہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں سنا تک نہ ہو گا لیکن اس کے باوجود ان کے واقعات میں ایک غیر معمولی یکجائی پائی جاتی ہے۔ یہ رائے معقول نہیں کہ ان تمام افرادنے حیران کن حد تک مشابہ رؤیا اور کشوف اپنے طور پر ہی بنا لئے ہوں۔ باوجود اس کے کہ یہ افراد ایک دوسرے کے وجود ہی سے لابلد تھے۔‘‘
پھر جن لوگوں نے ہجرت حبشہ کی تھی اُن کے بارے میں لکھتا ہے:’’اس فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تقریباً تمام وہ افراد شامل تھے جو کہ اسلام قبول کر چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے متشدد باسیوں کے درمیان یقینا بہت کم پیروکاروں کے ساتھ رہ گئے تھے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جو ثابت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی جرأت اور ایمان کی مضبوطی کے اعلیٰ معیار پر قائم تھے۔‘‘
(The Life and Times of Muhammad)
پھر John William Draperاپنی کتاب History of the intellectual Development of Europeمیں لکھتے ہیں کہ:
’’Justinianکی وفات کے چار سال بعد 569 عیسوی میں مکّہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے تمام شخصیات میں سب سے زیادہ بنی نوع انسان پر اپنا اثر چھوڑا اور وہ شخص محمد ہے(صلی اللہ علیہ وسلم) جسے بعض یورپین لوگ جھوٹا کہتے ہیں … لیکن محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اندر ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے کئی قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوا۔ وہ ایک تبلیغ کرنے والے سپاہی تھے۔ ممبرفصاحت سے پُر ہوتا (یعنی جب تقریر فرماتے) میدان میں اترتے تو بہادر ہوتے۔ اُن کا مذہب صرف یہی تھا کہ خدا ایک ہے۔ (مذہب کا خلاصہ ایک ہی تھا کہ خدا ایک ہے۔ ) … اس سچائی کو بیان کرنے کے لئے انہوں نے نظریاتی بحثوں کو اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے پیروکاروں کو صفائی، نماز اور روزہ جیسے امور کی تعلیم دیتے ہوئے اُن کی معاشرتی حالتوں کو عملی رنگوں میں بہتر بنایا۔ اُس شخص نے صدقہ و خیرات کو باقی تمام کاموں پر فوقیت دی۔‘‘
(History of the intellectual Development of Europe by John William Draper M.D., LL.D., New York:Harper and Brothers, Publishers, Fraklin Square 1863 page 244)
پھر ایک مشہور مستشرق ہیں William Montgomery، اپنی کتاب Muhammad at Madinah میں لکھتے ہیں کہ:
’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اسلام کی ابتدائی تاریخ پر جتنا غور کریں، اتنا ہی آپ کی کامیابیوں کی وسعت کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اُس وقت کے حالات نے آپ کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ گویا آپ اُس زمانے کے لئے موزوں ترین انسان تھے۔ اگر آپ کے پاس دوراندیشی، حکومت کرنے کی انتظامی صلاحیتیں، توکل علی اللہ اور اس بات پر یقین کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے، نہ ہوتا تو انسانی تاریخ میں ایک اہم باب رقم ہونے سے رہ جاتا۔ مجھے امید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق یہ کتاب ایک عظیم الشان ابن آدم کو سمجھنے اور اُس کی قدر کرنے میں مدد کرے گی۔‘‘
(William Montgomery Watt, Muhammad at Madinah, Oxford at the Clarendon Press 1956, pp. 335)
یہ اس سوانح نویس کی شہادت ہے جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں مثبت رویہ نہیں رکھتا۔
( خطبہ جمعہ5؍ اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)