• 27 اپریل, 2024

رمضان المبارک (بنیادی مسائل کے جوابات)


بنیادی مسائل کے جوابات
بابت
رمضان المبارک

سوال: ایک دوست نے دریافت کیا کہ دارقطنی میں ایک حدیث ہے کہ حضورﷺ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے،جو چاہے سننے کیلئے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، کیا یہ حدیث درست ہے؟ اس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20؍ اکتوبر 2020ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب: خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث جسے آپ نے دارقطنی کے حوالہ سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ حضورﷺ نے خطبہ عید کے سننے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسی بناء پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ حضورﷺ نے عید کیلئے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر عید کے لئے جائے۔ اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔
سوال: ایک خاتون نے رمضان المبارک کے اعتکاف کے بارہ میں دریافت کیا کہ کیا یہ اعتکاف گھر پر کیا جا سکتا ہے اور کیا یہ اعتکاف تین دن کیلئے ہو سکتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب 9؍ اگست 2015ء میں اس مسئلہ کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: جہاں تک رمضان کے مسنون اعتکاف کا تعلق ہے وہ تو جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے گھر پر اور تین دن کیلئے نہیں ہو سکتا۔
آنحضورﷺ کی سنت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ رمضان المبارک میں کم از کم دس دن اور مسجد میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللّٰهُ

(صحیح بخاری کتاب الاعتکاف با ب الاعتکاف فی العشر الاواخر والاعتکاف فی المساجد کلھا)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی وفات تک رمضان کے آخری دس دن اعتکاف فرماتے رہے۔

اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں رمضان کے مسائل بیان فرمائے ہیں وہاں اعتکاف کے بارہ میں احکامات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ

(سورۃ البقرہ:188)

کہ رمضان کے اعتکاف میں ایک تو میاں بیوی کے تعلقات کی اجازت نہیں اور دوسرا یہ کہ اعتکاف بیٹھنے کی جگہ مسجدیں ہیں۔

احادیث میں بھی اس امر کی وضاحت آئی ہے کہ رمضان کا اعتکاف مسجد میں ہی ہو سکتا ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ

(سنن ابی داؤد کتاب الصوم باب المعتکف یعود المریض)

ترجمہ : معتکف کے لئے مسنون ہے کہ وہ مریض کی عیادت نہ کرے اور نہ جنازہ میں شامل ہواور نہ اپنی بیوی کو چھوئے اور نہ اس سے جسمانی تعلق قائم کرے۔ اور سوائے اشد ضروری حاجت کے جس کے سوا چارہ نہ ہو مسجد سے باہر نہ جائے۔ اور روزوں کے بغیر اعتکاف درست نہیں اور نہ ہی جامع مسجد کے علاوہ دوسری جگہوں پر اعتکاف درست ہے۔

پس قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ کے مطابق رمضان المبارک کا مسنون اعتکاف کم از کم دس دن ہوتا ہے اور اس کیلئے مسجد میں ہی بیٹھا جاتا ہے۔

ہاں رمضان کے علاوہ عام دنوں میں اگر نیکی کے طور پر اور ثواب کی خاطر کوئی اپنے گھر میں چند دن کیلئے اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہے اور اس کی کہیں ممانعت نہیں ملتی۔ علاوہ ازیں بعض فقہاء نے عورت کے گھر میں اعتکاف کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ چنانچہ فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ میں لکھا ہے:
اما المرأۃ تعتکف فی مسجد بیتھا

(ہدایہ باب الاعتکاف)

یعنی عورت اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں:
’’مسجد کے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔‘‘

(روز نامہ الفضل 6؍ مارچ 1996ء)

سوال: آسٹریلیا کے واقفات نو کے اسی پروگرام گلشن وقف نو مؤرخہ 12؍ اکتوبر 2013ء میں ایک بچی نے حضور انور کی خدمت اقدس میں سوال کیا کہ ہم رمضان کے روزے کس عمر میں رکھنا شروع کریں؟ اس استفسار کا جواب عطا فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جواب: روزے تم پر اس وقت فرض ہوتے ہیں جب تم لوگ پوری طرح Mature ہو جاؤ۔ اگر تم سٹوڈنٹ ہو اور تمہارے امتحان ہو رہے ہیں تو ان دنوں میں اگر تمہاری عمر تیرہ، چودہ، پندرہ سال ہے تو تم روزے نہ رکھو۔ اگر تم برداشت کر سکتی ہوتو پندرہ سولہ سال کی عمر میں روزے ٹھیک ہیں۔ لیکن عموماً فرض روزے جو ہیں وہ سترہ، اٹھارہ سال کی عمر سے فرض ہوتے ہیں، اس کے بعد بہرحال رکھنے چاہئیں۔ باقی شوقیہ ایک، دو، تین، چار روزے اگر تم نے رکھنے ہیں تو اٹھ دس سال کی عمر میں رکھ لو، فرض کوئی نہیں ہیں۔ تمہارے پہ فرض ہوں گے جب تم بڑی ہو جاؤ گی، جب روزوں کو برداشت کر سکتی ہو۔ یہاں (آسٹریلیا میں۔ مرتب) مختلف موسموں میں کتنا فرق ہوتا ہے؟ Day Light کتنے گھنٹے کی ہوتی ہے؟سحری اور افطاری میں کتنا فرق ہوتا ہے؟ بارہ گھنٹے؟ اور Summer میں کتنا ہوتا ہے؟ انیس گھنٹے کا ہوتا ہے؟ ہاں تو بس انیس گھنٹے تم بھوکی نہیں رہ سکتی۔ یوکے میں بھی آجکل، جو پیچھے گرمیاں گزری ہیں، ان میں تمہارے روزے چھوٹے تھے اور وہاں لمبے روزے تھے۔ ساڑھے اٹھارہ گھنٹے کے روزے تھے۔ تو سویڈن وغیرہ میں بائیس گھنٹے کے روزے ہوتے ہیں۔ تو وہاں تو بہرحال وقت کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اتنا لمبا روزہ بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن برداشت اس وقت ہوتی ہے جب تم جوان ہو جاتی ہو، کم از کم سترہ اٹھارہ سال کی ہو جاؤ تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر روزے رکھو۔ سمجھ آئی؟ تمہارے اماں ابا کیا کہتے ہیں؟ دس سال کی عمر میں تم پر روزہ فرض ہو گیا ہے؟ لیکن عادت ڈالا کرو۔ چھوٹے بچوں کو بھی دو تین روزے ہر رمضان میں رکھ لینے چاہئیں تا کہ پتہ لگے کہ رمضان آ رہا ہے۔ لیکن روزے نہ بھی رکھنے ہوں تو صبح اٹھو اور اماں ابا کے ساتھ سحری کھاؤ، نفل پڑھو، نمازیں باقاعدہ پڑھو۔ تم لوگوں کا، سٹوڈنٹس کا اور بچیوں کا رمضان یہی ہے کہ رمضان میں اٹھیں ضرور اور سحری کھائیں، اہتمام کریں اوراس سے پہلے دو یا چار نفل پڑھ لیں۔ پھر نمازیں باقاعدہ پڑھیں۔قرآن شریف باقاعدہ پڑھیں۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط نمبر1الفضل آن لائن۔لندن 17؍ دسمبر 2020ء )

سوال:ایک دوست نے عیدین کی نماز کے واجب ہونے نیز عید کی نماز میں امام کے کسی رکعت میں تکبیرات بھول جانے اور ا س کے تدارک میں سجدہ سہو کرنے کے بارے میں حضور انور کی خدمت اقدس میں رہ نمائی فرمانے کی درخواست کی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب 21؍نومبر2017ء میں اس سوال کا جو جواب عطا فرمایا، وہ حسب ذیل ہے۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:عیدین کی نماز سنت مؤکدہ ہے۔ حضورﷺ نے ایسی خواتین جن پر ان کے خاص ایام ہونے کی وجہ سے نماز فرض نہیں، انہیں بھی عید گاہ میں آ کر مسلمانوں کی دعا میں شامل ہونے کا پابند فرمایا ہے۔

اور جہاں تک امام کے تکبیرات بھول جانے کا سوال ہے تو ایسی صورت میں مقتدی اسے یاد کروا دیں، لیکن مقتدیوں کے یادکروانے کے باوجود اگر امام کچھ تکبیرات نہ کہہ سکے تو مقتدی امام کی ہی اتباع کرتے ہوئے عید کی نماز ادا کریں۔ تکبیرات بھولنے کے نتیجہ میں امام کو سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط نمبر4روزنامہ الفضل آن لائن لندن19؍ جنوری 2021ء)

سوال: ایک دوست نے مسافر کے لئے رمضان کے روزوں کی رخصت کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بعض ارشادات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے ان کی باہم تطبیق کی بابت راہنمائی چاہی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 11؍ جون 2019ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: آپ کے خط میں بیان دونوں قسم کے ارشادات میں کوئی تضاد نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ دونوں ہی کا قرآن کریم کے واضح حکم کی روشنی میں یہی ارشاد ہے کہ مسافر اور مریض کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔ اور اگر کوئی شخص بیماری میں یا سفر کی حالت میں روزہ رکھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے واضح حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔

جہاں تک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد ‘‘روزہ میں سفر ہے۔ سفر میں روزہ نہیں’’ کا تعلق ہے تو اگر اس سارے خطبہ کو غور سے پڑھا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور دراصل اس میں مختلف مثالیں بیان فرما کر سمجھا رہے ہیں کہ ایسا سفر جو باقاعدہ تیاری کے ساتھ، سامان سفر باندھ کر سفر کی نیت سے کیا جائے وہ سفر خواہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اس میں شریعت روزہ رکھنے سے منع کرتی ہے۔ لیکن ایسا سفر جو سیر کی غرض سے یا کسی Trip اور Enjoyment کیلئے کیا جائے، وہ روزہ کے لحاظ سے سفر شمار نہیں ہو گا اور اس میں روزہ رکھا جائے گا۔ چنانچہ سفر میں روزہ رکھنے کے بارہ میں آپ کے دیگر ارشادات بھی آپ کے اسی نظریہ کی تائید کرتے ہیں۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط نمبر11 الفضل آن لائن۔لندن 13؍ اپریل 2021ء )

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ خاکسار کی ملاقات مؤرخہ 13؍ اپریل 2021ء میں خادم کے عرض کرنے پر کہ کیا کسی آن لائن سسٹم کے تحت نماز تراویح ادا کی جا سکتی ہے ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے راہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
جواب: اگر مسجد اور اس کے عقب میں گھر ایک ہی Location میں ہوں جیسا کہ اسلام آباد یوکے کے نئے مرکز احمدیت میں مسجد مبارک اور اس کے عقب میں کارکنان کے گھر ہیں تو لاؤڈ سپیکر اور ایف ایم ریڈیو وغیرہ کے مواصلاتی ذریعہ سے جس کے منقطع ہونے کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں صرف مجبوری کی حالت میں جیسا کہ آجکل کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مجبوری ہے، نماز تراویح اور دیگر نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر مسجد اور مکانات الگ الگ Locations میں ہوں یا مکانات مسجد کے آگے ہوں تو ایسے گھروں کے مقیم اس طرح مسجد میں ہونے والی نمازوں کی اقتداء میں نمازوں کی ادائیگی نہیں کر سکتے۔ بلکہ وہ اپنے اپنے گھروں میں اپنی باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط نمبر51 الفضل آن لائن لندن 22؍ جون 2021ء )

سوال: اس سوال پر کہ روزہ کے دوران اگر کسی خاتون کے ایام حیض شروع ہو جائیں تو اسے روزہ کھول لینا چاہئے یا اس روزہ کو مکمل کر لینا چاہئے۔ نیز جب یہ ایام ختم ہوں تو سحری کے بعد پاک صاف ہو سکتے ہیں یا سحری سے پہلے پاک ہونا ضروری ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30؍ اپریل 2020ء اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: عورت کی اس فطرتی حالت کو قرآن کریم نے ‘‘أَذًى’’ یعنی تکلیف کی حالت قرار دیا ہے۔ اور اسلام نے اس کیفیت میں عورت کو ہر قسم کی عبادات کے بجالانے سے رخصت دی ہے۔ اس لئے جس وقت ایام حیض شروع ہو جائیں اسی وقت روزہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور ان ایام کے پوری طرح ختم ہونے پر اور مکمل طور پر پاک ہونے کے بعد ہی روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ نیز جو روزے ان ایام میں (بشمول آغاز اور اختتام والے دن کے) چھوٹ جائیں، ان روزوں کو رمضان کے بعد کسی وقت بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔

سوال: روزہ کے دوران کورونا ویکسین کا انجیکشن لگونے کے جواز کی بابت ایک غیر از جماعت ادارہ کے فتویٰ کی الفضل انٹرنیشنل میں اشاعت پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاپنے مکتوب مؤرخہ 13؍ اپریل 2021ء میں اس شرعی مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: ایسی خبریں اور فتوے الفضل میں شائع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے اسے شائع کرنا ناگزیر تھا تو ساتھ ہی جماعتی مسلک بھی شائع کرنا چاہئے تھا کہ یہ فلاں ادارہ کا فتویٰ ہے۔ جبکہ جماعتی مسلک اس کے برعکس ہے۔ تاکہ آپ کا یہ خبرنامہ پڑھ کر کسی کو غلطی نہ لگتی۔

بہرحال فوری طور پر اب اس کی تردید شائع کریں اور اس میں صاف صاف جماعتی مسلک درج کریں کہ روزہ کی حالت میں ہر قسم کا انجیکشن خواہ وہ Intramuscular ہو یا Intravenous ہو لگوانا منع ہے۔ اور اگر کسی احمدی کو کورونا ویکسین کی Appointment رمضان میں ملتی ہے تو اسلام نے جو رخصت دی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ انجیکشن والے دن روزہ نہ رکھے اور رمضان کے بعد اس روزہ کو پورا کر لے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو احادیث نبویہؐ سے استدلال فرماتے ہوئے روزہ کی حالت میں آنکھوں میں سرمہ لگانے کی بھی اجازت نہیں دی۔ اور آپ الفضل میں اس فتویٰ کے مطابق انجیکشن کو بھی جائز قرار دے رہے ہیں۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط نمبر24 الفضل آن لائن۔لندن 8 جولائی 2022ء )

سوال: عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانے پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد نماز جمعہ یا نماز ظہر پڑھنے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کی ایک رپورٹ کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16؍ مئی 2021ء میں اس مسئلہ پر درج ذیل اصولی ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانے پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد اس روز نماز جمعہ اور نماز ظہر دونوں نہ پڑھنے کے بارہ میں تو صرف حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا ہی موقف اور عمل ملتا ہے اور وہ بھی ایک مقطوع روایت پر مبنی ہے، نیز اس روایت کے دو راویوں کے بیان میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ جبکہ مستند اور قابل اعتماد روایات میں تو حضورﷺ کی سنت اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرامؓ کا یہی مسلک ملتا ہے کہ ان سب نے یا تو اس روز نماز عید کی ادائیگی کے بعد جمعہ بھی اپنے وقت پر ادا کیا ہے اور دور کے علاقوں سے آنے والوں کو جمعہ سے رخصت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ اپنے علاقوں میں ظہر کی نماز ادا کر لیں اور بعض مواقع پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد جمعہ ادا نہیں کیا لیکن ظہر کی نماز ضرور اپنے وقت پر ادا کی گئی۔

یہی موقف اور عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا بھی ملتا ہے۔ سوائے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ایک مرتبہ کے عمل کے کہ جب آپ نے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی اسی مذکورہ بالا روایت پر عمل کرتے ہوئے عید پڑھانے کے بعد نہ جمعہ ادا کیا اور نہ ظہر کی نماز پڑھی۔

لیکن حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی یہ روایت آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین کے کسی قول یا فعل پر مبنی نہیں ہے اس لئے صرف اس مقطوع روایت کی وجہ سےجس کے راویوں کے بیانات میں بھی تضاد موجود ہے فرض نماز کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس روایت پر مبنی حصہ کو فقہ احمدیہ سے حذف کر دیں اور فقہ احمدیہ میں لکھیں کہ اگر عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہوتے ہیں تو نماز عید کی ادائیگی کے بعد اگر جمعہ نہ پڑھا جائے تو ظہر کی نماز اپنے وقت پر ضرور ادا کی جائے گی۔

سوال: ایک عرب خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے باقی ہوں تو اس کے بچے اس کی طرف سے یہ روزے رکھ سکتے ہیں، اس بارہ میں جماعت کا کیا موقف ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مؤرخہ 24؍ مئی 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: نماز اور روزہ بدنی عبادات ہیں، اس لئے ان کا ثواب اسی شخص کو پہنچتا ہے جو ان عبادات کو بجالاتا ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک میت کی طرف سے نماز اور روزے رکھنا مرنے والے کی اولاد کی ذمہ داری نہیں ہے۔

فقہاء کی اکثریت جن میں حضرت امام ابو حنیفہؒ ، امام مالک اور امام شافعیؒ شامل ہیں، ان روزوں کے رکھنے کو درست نہیں سمجھتے اور ان کی بھی یہی دلیل ہے کہ روزہ ایک بدنی عبادت ہے جو اصول شرع سے واجب ہوتی ہے اور زندگی اور موت کے بعد اس میں نیابت نہیں چلتی۔

(الفقہ الاسلامی و ادلتہ کتاب الصوم، از ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی)

باقی جہاں تک کتب احادیث میں اس قسم کی روایات کے بیان ہونے کا تعلق ہے تو علماء حدیث اور شارحین نے ان روایات کی تشریح میں اس سے مختلف روایات کا بھی ذکر کیا ہے مثلاً میت کی طرف سے اس کے اولاد کے روزہ رکھنے والی روایات حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہیں، لیکن کتب احادیث میں حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن عباسؓ کی طرف سے یہ روایت بھی موجود ہے کہ وفات یافتہ کی طرف سے روزے نہ رکھو بلکہ اس کی طرف سے کھانا کھلاؤ۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الصوم بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ) اسی طرح حضرت ابن عباسؓ سے مروی اس قسم کی روایات میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ سوال پوچھنے والا مرد ہے اور دوسری جگہ عورت۔ اسی طرح روزوں کے بارہ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ رمضان کے روزے تھے یا نذر کے روزے تھے۔ نیز ایک جگہ روزوں کی بابت پوچھا جار ہا ہے اور دوسری جگہ حج کی بابت پوچھا ہے۔

(شرح بخاری از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ جلد سوم صفحہ630 کتاب الصوم)

پس اس قسم کے اختلافات کی وجہ سے محدثین میں بھی میت کی طرف سے روزے رکھنے کے بارہ میں مختلف آراء پائی جاتی ہے لیکن کسی نے بھی اسے واجب قرار نہیں دیا۔

البتہ میت کی طرف سے کوئی ایسا کام کرنا جس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا ہو تو وہ ایک صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط نمبر36 الفضل آن لائن لندن 28؍ اکتوبر 2022ء )

سوال: قرآن کریم کی حافظہ ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا میرے والد صاحب میری اقتداء میں نماز تراویح ادا کر سکتے ہیں؟ اور اگر نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کا آغاز کرنا ہو تو کیا پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دوبارہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد سورۃ البقرہ کی قرأت شروع کی جائے گی؟ نیز یہ کہ جہری نمازوں میں سورتوں کی قرأت سے قبل بسم اللّٰہ بھی اونچی آواز میں پڑھنی چاہئے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25؍جولائی 2021ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اسلام نے نماز باجماعت کی فرضیت صرف مردوں پر عائد فرمائی ہے اورعورتوں کا باجماعت نماز ادا کرنا محض نفلی حیثیت قرار دیا ہے۔ اس لئے مردوں کی موجودگی میں کوئی عورت نماز باجماعت میں ان کی امام نہیں بن سکتی۔ آنحضورﷺ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے کبھی کسی عورت کو مردوں کا امام مقرر نہیں فرمایا۔ اسی طرح اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جب کبھی کسی علالت کی وجہ سے گھر پر نماز ادا فرماتے تو باوجود علالت کے نماز کی امامت خود کراتے۔ پس نفل نماز ہو یا فرض، اگر کسی جگہ پرمرد اور عورتیں دونوں موجود ہوں تو نماز باجماعت کی صورت میں نماز کا امام مرد ہی ہو گا۔

2۔ نماز کے دوران قرآن کریم کی تلاوت آغاز سے شروع کرتے وقت بھی طریق یہی ہے کہ نماز میں پڑھی جانے والی سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کی جائے گی، دوبارہ سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی۔ البتہ فقہاء نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ قرآن کریم ختم کرنے کی صورت میں اگر کوئی شخص نماز میں سورۃ الناس کے بعد دوبارہ قرآن کریم کا کچھ ابتدائی حصہ پڑھنا چاہے تو وہ سورۃ فاتحہ سے آغاز کر سکتا ہے اور اس کے بعد سورۃ البقرہ کا بھی کچھ پڑھ سکتاہے، اس میں کچھ حرج کی بات نہیں لیکن ابتداء میں سورۃ فاتحہ کا تکرار بعض فقہاء کے نزدیک موجب سجدہ سہو ہے۔

3۔ نماز میں سورۃ کی تلاوت شروع کرنے سے قبل بسم اللّٰہ بلند آواز میں پڑھنا یا آہستہ پڑھنا ہر دو طریق درست اور رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں۔ چنانچہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں:
میں نے رسول اللہﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان سب کے پیچھے نماز پڑھی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی میں نے بسم اللّٰہ بالجہر پڑھتے نہیں سنا۔

(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب حجۃ من قال لا یجھر بالبسملۃ)

نعیم بن المجمر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرۃؓ کی امامت میں نماز پڑھی، انہوں نے بسم اللّٰہ اونچی آواز میں تلاوت کی پھر سورۃ فاتحہ پڑھی۔ پھر جب غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پر پہنچے تو انہوں نے آمین کہی تو لوگوں نے بھی آمین کہی۔ جب آپ سجدہ میں جاتے تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر اٹھتے تو اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو کہا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے میں نماز کے معاملہ میں تم میں سے سب زیادہ آنحضرتﷺ کی نماز سے مشابہ ہوں۔ (یعنی میری نماز حضورﷺ کی نماز سے مشابہ ہے)

(سنن نسائی کتاب الافتتاح باب قرأۃ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھا کرتے تھے۔

(المستدرک للحاکم کتاب الامامۃ و صلاۃ الجماعۃ باب التامین)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بسم اللّٰہ جہراً اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے۔ ہمارے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب (اللّٰھم اغفرہ وارحمہ) جوشیلی طبیعت رکھتے تھے۔ بسم اللّٰہ جہراً پڑھا کرتے تھے۔ حضرت مرزا صاحب جہراً نہ پڑھتے تھے۔ ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں۔ صحابہ میں ہر دو قسم کے گروہ ہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو۔ ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہر دو طرح جائز ہے۔ بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بُرا لگتا تھا تو صحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے۔ مجھے ہر دو طرح مزا آتا ہے۔ کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے۔

(بدر نمبر32 جلد11 23؍ مئی 1912ء صفحہ3)

حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ روایت کرتے ہیں۔ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کر تے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللّٰہ بالجہر پڑھتے سنا ہے۔

خاکسار (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ ناقل) عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پرگرفت نہیں کرتا بعض آمین بالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے بعض رفع یدین کر تے ہیں اکثر نہیں کرتے بعض بسم اللّٰہ بالجہر پڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرتﷺ سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرتﷺ نے کثرت کے ساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر خود حضرت صاحب کا عمل تھا۔

(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ147-148 روایت نمبر 154 مطبوعہ فروری 2008ء)
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط نمبر40 الفضل آن لائن لندن 9؍ دسمبر 2022ء )

سوال: ڈنمارک سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ اور ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں سے کس کی فضیلت زیادہ ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25؍اگست 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب: قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ میں ان دونوں مہینوں کی فضیلت کا کوئی باہمی تقابلی جائزہ تو بیان نہیں ہوا۔ بلکہ دونوں مہینوں اور ان میں ہونے والی عبادات کے کثرت سے فضائل و برکات بیان ہوئے ہیں۔ یہ فضائل عمومی رنگ میں بھی بیان ہوئے ہیں اوربعض اوقات حضورﷺ نے کسی سوال پوچھنے والے کے حالات کے پیش نظر اور بعض اوقات موقعہ محل کے لحاظ سے بھی انہیں بیان فرمایا ہے۔

قرآن کریم اور حدیث میں بیان ہونے والی ان فضیلتوں کی بناء پر بعض اعتبار سے رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور اس میں کی جانے والی عبادتیں اور اس میں نازل ہونے والے احکام بظاہر زیادہ افضل قرار پاتے ہیں اور بعض لحاظ سے ذوالحجہ کا پہلے عشرہ اور اس کی عبادات بظاہر زیادہ افضل ٹھہرتے ہیں۔ چنانچہ حضورﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا: سَیِّدُ الشُّهُورِ شَهْرُ رَمَضَانَ وَأَعْظَمُهَا حُرْمَةً ذُو الْحِجَّةِ

(شعب الایمان للبیھقی، فصل تخصیص أیام العشر من ذی الحجة، حدیث نمبر 3597)

یعنی تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ ہے اور ان میں سے حرمت کے اعتبار سے سب سے عظیم ذوالحجہ کا مہینہ ہے۔

(بنیادی مسائل کے جوابات قسط نمبر42 الفضل آن لائن 6؍ جنوری 2023ء )

(تیار کردہ: ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)
(پیش کردہ: فائقہ بشریٰ۔ بحرین)

پچھلا پڑھیں

Cheneso طوفان سے متأثرہ افراد کی مدد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مارچ 2023