• 24 اپریل, 2024

تلخیص صحیح بخاری سوالاً جواباً (کتاب الصلوٰة جزو 5) (قسط 21)

تلخیص صحیح بخاری سوالاً جواباً
کتاب الصلوٰة جزو 5
قسط 21

سوال:کیا حضورؐ فرض نماز سواری پر پڑھ لیتے تھے؟

جواب: حضرت جابر بن عبداللہؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خواہ اس کا رخ کسی طرف ہونفل نماز پڑھتے تھے لیکن جب فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے۔

سوال:کیا نماز میں بھول جائیں تو سجدہ سہو لازم ہے؟

جواب: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور (بھولے سے) ظہر کی نماز (ایک مرتبہ) پانچ رکعت پڑھی ہیں۔ پھر جب آپؐ نے سلام پھیرا تو آپؐ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا آخر کیا بات ہے؟

لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔

یہ سن کر آپؐ نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور سہو کے دو سجدے کئے اور سلام پھیرا۔

پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی ضرور کہہ دیتا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے سہو کےکر لے۔

سوال:اگر نماز ی کوئی رکعت بھول جائے تو کیا کرے؟

جواب:ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعت کے بعد ہی سلام پھیر دیا اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو گئے، پھر یاد دلانے پر باقی نماز پوری کی اور سجدہ سہوکیا۔

سوال:حضرت عمرؓ کی کونسی باتوں کے توارد میں قرآن کریم کی آیات کا نزول ہوا؟

جواب: حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری تین باتوں میں جو میرے منہ سے نکلا میرے رب نے ویسا ہی حکم فرمایا۔

میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا سکتے تو اچھا ہوتا،تو یہ آیت نازل ہوئی اور تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو۔

دوسری آیت پردہ کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ کاش! آپ اپنی عورتوں کو پردہ کا حکم دیتے، کیونکہ ان سے اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ بات کرتے ہیں۔ اس پر پردہ کی آیت نازل ہوئی

اور ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جوش و خروش میں آپ کی خدمت میں اتفاق کر کے کچھ مطالبات لے کر حاضر ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک تمہیں طلاق دلا دیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر مسلمہ بیویاں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت کریں، تو یہ آیت نازل ہوئی:عَسٰی رَبُّہٗۤ اِنۡ طَلَّقَکُنَّ اَنۡ یُّبۡدِلَہٗۤ اَزۡوَاجًا خَیۡرًا مِّنۡکُنَّ

سوال:وادیٴ قبا میں تحویل قبلہ پہ عمل کب ہوا؟

جواب: حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہےکہ لوگ قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک آنے والا آیا۔ اس نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کل وحی نازل ہوئی ہے اور انہیں کعبہ کی طرف نماز میں منہ کرنے کا حکم ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے بھی کعبہ کی جانب منہ کر لیے جب کہ اس وقت وہ شام کی جانب منہ کئے ہوئے تھے، اس لیے وہ سب کعبہ کی جانب گھوم گئے۔

سوال:مسجد میں تھوک وغیرہ کے بارے کیا حکم ہے؟

جواب:حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف دیوار پر بلغم دیکھا، جو آپؐ کو ناگوار گزرا اور یہ ناگواری آپؐ کے چہرہ مبارک پر دکھائی دینے لگی۔ پھر آپؐ اٹھے اور خود اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، یا یوں فرمایا کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص نماز میں اپنے قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا کنارہ لیا، اس پر تھوکا پھر اس کو الٹ پلٹ کیا اور فرمایا، یا اس طرح کر لیا کرو۔ ( اس وقت مساجد کے فرش کچے تھے تو مٹی اس طرح کے مواد کو جذب کرلیتی تھی، آج کل کے زمانہ میں ایسے بیمار کو ٹشو وغیرہ استعمال کرنا چاہئے۔)

سوال:اگر کوئی نجاست بدن کے ساتھ لگ جائے تو کیا کرنا چاہیئے؟

جواب: حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اگر گیلی نجاست پر تمہارے پاؤں پڑیں تو انہیں دھو ڈالو اور اگر نجاست خشک ہو تو دھونے کی ضرورت نہیں۔

سوال:مسجد میں تھوکنے کا کفارہ کیا ہے؟

جواب:حضرت انسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ نے بیان فرمایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے زمین میں چھپا دینا ہے۔

سوال:کیا امام مقتدیوں کی کیفیت سے روحانی طور پہ آگاہ ہوجاتا ہے ؟

جواب:ابوہریرہؓ اور انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مرتبہ نماز پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے، پھر نماز کے باب میں اور رکوع کے باب میں فرمایا میں تمہیں پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا رہتا ہوں جیسے اب سامنے سے دیکھ رہا ہوں۔

سوال:کیا کسی مسجد کو کسی خاص خاندان سے منسوب کیا جاسکتا ہے؟

جواب:حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی جنہیں جہاد کے لیے تیار کیا گیا تھا مقام حفیاء سے دوڑ کرائی، اس دوڑ کی حد ثنیۃ الوداع تھی اور جو گھوڑے ابھی تیار نہیں ہوئے تھے ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی اس گھوڑ دوڑ میں شرکت کی تھی۔

سوال:کیا مسجد میں کوئی حاکم مال تقسیم کرسکتا ہے؟

جواب:حضرت انسؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے رقم آئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں ڈال دو اور یہ رقم اس تمام رقم سے زیادہ تھی جو اب تک آپؐ کی خدمت میں آ چکی تھی۔ پھر آپؐ نماز کے لیے تشریف لائے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی، جب آپؐ نماز پوری کر چکے تو آ کر مال کے پاس بیٹھ گئے اور اسے تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔ اس وقت جسے بھی آپؐ دیکھتے اسے عطا فرما دیتے۔

سوال:کیا آپؐ نے مال کی بڑھی ہوئی حرص کو ناپسند فرمایا ہے؟

جواب:حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جب حضورؐ بحرین سے آئے ہوئے اموال تقسیم فرما رہے تھے تو عباسؓ حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ! مجھے بھی عطا کیجیئے کیونکہ میں نےغزوہ بدر میں اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل کا بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے لیجیئے۔

انہوں نے اپنے کپڑے میں روپیہ بھر لیا اور اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن (وزن کی زیادتی کی وجہ سے) وہ نہ اٹھا سکے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! کسی کو فرمائیے کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی انکار کیا، تب عباسؓ نے اس میں سے تھوڑا سا گرا دیا اور باقی کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن نہ اٹھا سکے پھر عرض کی کہ یا رسول اللہ! کسی کو میری مدد کرنے کا حکم دیجیئے۔ آپؐ نے انکار فرمایا تو انہوں نے کہا کہ پھر آپؐ ہی اٹھوا دیجیئے۔ لیکن آپؐ نے اس سے بھی انکار کیا، تب انہوں نے اس میں سے تھوڑا سا روپیہ گرا دیا اور اسے اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ لیا اور چلنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس حرص پر اتنا تعجب ہوا کہ آپؐ اس وقت تک ان کی طرف دیکھتے رہے جب تک وہ ہماری نظروں سے غائب نہیں ہو گئے اور آپؐ بھی وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ ایک چونی بھی باقی رہی۔

سوال:کیا مسجد میں کھانے کی دعوت پہ بلایا جاسکتا ہے؟

جواب:حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں پایا، آپؐ کے پاس اور بھی کئی لوگ تھے۔ میں کھڑا ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تجھ کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں آپؐ نے پوچھا کھانے کے لیے بلایا ہے؟میں نے عرض کی کہ جی ہاں! تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریب موجود لوگوں سے فرمایا کہ چلو! سب حضرات چلنے لگے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔

(مختاراحمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ