• 28 اپریل, 2024

کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے (روح پرور۔ ایمان افروز واقعات) (قسط 4)

کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے
روح پرور۔ ایمان افروز واقعات
قسط 4

سادگی کی حد

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہد سعادت میں حضور اقدسؑ کے ہاں گوجرہ کا ایک پہاڑی شخص ملازم تھا جو بہت ہی سادہ طبع تھا۔اس کا نام پیرا تھا۔ایک دن وہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے مطب میں آگیا۔آپ نے اس سے دریافت فرمایا۔ تمہارا کیا مذہب ہے ؟وہ اس وقت وہاں سے چلا گیا اور کچھ دیر بعد ایک پوسٹ کارڈ لے آیا اور حضور کوعرض کرنے لگا کہ میرے گائوں کے نمبردار کو یہ خط لکھ دیں۔آپ نے فرمایا کہ یہ خط کس غرض کے لئے لکھانا ہے۔کہنے لگا آپ نے خود دریافت کیا تھا کہ میرا مذہب کیا ہے۔آپ ہمارے گائوں کے نمبر دار کو لکھ کر دریافت کر لیں۔اس کو معلوم ہے۔ حضرت نے یہ سن کر تعجب فرمایا کہ اس کی سادگی کس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کو اپنے مذہب کا علم نہیں۔

(حیات قدسی حصہ پنجم صفحہ 112)

خدا تعالیٰ کے باجے

حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل ہلال پوری رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنے اپنے رنگ میں اخلاص کے پتلے تھے لیکن ان دونوں طبائع میں نمایاں فرق تھا۔حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ جب بیت الحمد تشریف لایا کرتے تھے تو حضرت اقدس علیہ السلام کی مجلس میں سب سے آخر میں خاموشی کے ساتھ بیٹھ جایا کرتے تھے اور جو کچھ حضرت اقدسؑ ارشاد فرماتے اُسے بغور سنا کرتے تھے۔آپ نے کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔بلکہ فرماتے تھے کہ یہ خدا تعالیٰ کے لوگ جو کچھ فرمائیں توجہ سے سننا چاہئے۔لیکن حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ ہمیشہ حضرت اقدس کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ لوگ دنیا میں روزروز نہیں آتے۔ صدیوں کے بعد خوش قسمت لوگوں کو ان کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔اس لئے جو سوالات ذہن میں آئیں وہ پیش کرکے دنیا کی روحانی تشنگی کو بجھانے کا سامان پیدا کر لینا چاہئے۔بلکہ اپنے مخصوص انداز میں یوں فرمایا کرتے تھے کہ:
’’یہ لوگ خدا تعالیٰ کے باجے ہوتے ہیں۔جتنا ان کو بجا لیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔‘‘

(حیات النور صفحہ 264)

دھیلہ بخوشی قبول کر لیا

حضرت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ ایک بوڑھی غریب عورت جس کا ایک ہی لڑکا تھا۔بیمار پڑ گیا۔میں نے اس کا علاج کیا۔خدا کے فضل سے اس کو صحت ہو گئی اور وہ بالکل تندرست ہو گیا۔وہ بڑھیا میرے پاس آئی اور میرے سامنے ایک دھیلہ (نصف پیسہ)رکھ کر کہنے لگی کہ جناب میں بہت غریب ہوں اور بیوہ ہوں۔محنت مزدوری کرکے گزارہ کرتی ہوں۔میرے پاس تو اور کچھ نہیں ہے صرف ایک ہی دھیلہ ہے جو کہ میں بطور نذرانہ شکریہ کے پیش کرنا چاہتی ہوں۔اگرچہ آپ کے مقام اور شان کے اعتبار سے باعث شرم و ندامت تھا لیکن میں یہی پیش کر سکتی ہوں۔آپ اس کو ضرور قبول فرمائیں اور ردّ نہ کریں۔حضور علیہ السلام نے فرمایا میں نے بخوشی اس دھیلہ کو قبول کر لیا اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اس نصیحت کو پیش نظر رکھا کہ طبیب کو بلا مانگے اگر کوئی شخص کچھ بھی دے تو وہ ردّ نہ کرے۔میں دھیلہ کو ہاتھ میں لے کر دل میں سوچنے لگا کہ اگر یہ دھیلہ اللہ کی راہ میں دے دوں تو حسب آیت

کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِائَۃُ حَبَّۃٍ

مجھے سال میں سات سو تک دھیلے مل سکتے ہیں اور اگر ان سات سو دھیلوں کو بھی اللہ کی راہ میں دے دوں تو ہر ایک دھیلے کے عوض سات سات سو دھیلے اور مل سکتے ہیں۔ اسی طرح دھیلے کو پھیلاتے ہوئے ہزاروں روپیہ کی تعداد تک حساب کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ ایک دھیلہ کو بھی بہت بڑی برکت دے سکتا ہے۔

(حیات قدسی جلد سوم صفحہ 47)

بدگمانی میں جلدی کا احساس

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’میں نے ایک کتاب منگوائی۔وہ بہت بے نظیر تھی۔میں نےمجلس میں اس کی بہت تعریف کی۔کچھ دنوں کے بعد وہ کتاب گم ہو گئی۔مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا۔مگر خیال آیا کہ کسی نے چُرا لی۔ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریاں اُٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں الماری کے پیچھے بیچوں بیچ کتاب پڑی ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھی ہے اور وہ پیچھے جا پڑی ہے۔اس وقت مجھ پر معرفت کے دو نقطے کھلے۔ایک تو مجھے ملامت ہوئی کہ دوسرے پر میں نے بدگمانی کیوں کی۔دوئم میں نے صدمہ کیوں اُٹھایا۔خدا کی کتاب اس سے زیادہ عمدہ اور عزیز موجود تھی۔

اسی طرح میرا ایک بستر تھا جس کی کوئی آٹھ دس تہیں ہوں گی۔ایک نہایت عمدہ ٹوپی مجھے کسی نے بھیجی جس پر طلائی کام ہوا تھا۔ایک اجنبی عورت ہمارے گھر میں آئی۔اسے کام کا بہت شوق تھا۔اس نے اس کے دیکھنے میں بہت دلچسپی لی۔تھوڑی دیر بعد وہ ٹوپی گم ہو گئی۔مجھے اس کے گم ہونے کا صدمہ تو نہ ہوا کیونکہ نہ میرے سر پر پوری آتی تھی،نہ ہی میرے بچوں کے سر پر۔مگر میرے نفس نے اس طرف توجہ کی کہ اس عورت کو پسند آئی ہوگی۔ مدّت ہوگئی اس عورت کے چلے جانے کے بعد جب بستر کو جھاڑنے کے لئے کھولا تو اس کی تہہ میں سے ٹوپی نکل آئی۔‘‘

(خطبات نور صفحہ 87)

ایک دن تو لطیفہ ہوا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے پاس اکثر لوگ اپنی امانتیں رکھواتے تھے اور آپ اس میں سے ضرورت پر خرچ کرتے رہتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے اس طرح رزق دیتا رہتا ہے۔ بعض دفعہ ہم نے دیکھا کہ امانت رکھوانے والا آپ کے پاس آتا اور کہتا کہ مجھے کچھ روپئے کی ضرورت ہے۔میری امانت مجھے واپس کر دی جائے۔آپ کی طبیعت بہت سادہ تھی اور معمولی سے معمولی کاغذ کوبھی آپ ضائع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔جب کبھی کسی نے مطالبہ کرنا تو آپ نے ردّی کاغذ اُٹھانا اور اس پر اپنے گھر والوں کو لکھ دینا کہ امانت میں سے دو سو روپیہ بھجوا دیا جائے۔اندر سے بعض دفعہ جواب آتا کہ روپیہ تو خرچ ہو چکا یا اتنے روپے ہیں اور اتنے رپوئوں کی کمی ہے۔آپ نے اسے فرمانا۔ذرا ٹھہر جائو، ابھی روپیہ آ جاتا ہے۔اتنے میں ہم نے دیکھا کہ کوئی شخص دھوتی باندھے ہوئے جونا گڑھ سے یا ممبئی کا رہنے والا، چلا آ رہا ہے اور اس نے اتنا ہی روپیہ پیش کر دینا۔

ایک دن تو لطیفہ ہوا۔کسی نے اپنا روپیہ مانگا۔اس دن آپ کے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا۔مگر اس وقت ایک شخص علاج کے لئے آگیا اور اس نے پڑیا میں کچھ رقم لپیٹ کر آپ کے سامنے رکھ دی۔حافظ روشن علی صاحب کو علم تھا کہ روپیہ مانگنے والا کتنا روپیہ مانگتا ہے۔ آپ نے حضرت حافظ صاحب سے فرمایا۔دیکھو اس میں کتنی رقم ہے۔انہوں نے گنا تو کہنے لگے۔جتنی رقم کی آپ کو ضرورت تھی بس اس میں اتنی رقم ہی ہے۔

(روزنامہ الفضل3؍فروری 1995ءصفحہ 7)

مبادا تکبر پیدا ہو جائے

حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے میں روزانہ پڑھنے جاتا۔ایک روز ایک کتاب کے متعلق فرمایا کہ اگر یہ کتاب آپ مجھ سے پڑھ لیں تو ہندوستان پھر میں آپ کے پایہ کا کوئی عالم نہ ہوگا۔لیکن میں نے یہ خیال کرکے نہ پڑھی کہ مباداتکبر ہو جائے۔

(اصحاب احمد جلد دو از دہم صفحہ 174)

حِسَابًا یَسِیْراً

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے حکیم غلام محمد صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ قرآن شریف میں جو حِسَابًا یَسِیْراً آتا ہے اس کی تفسیر کیا ہے۔سمجھائیں وہ کس طرح ہوگا۔ فرمایا۔اچھا۔ کچھ دن گزر گئے اور اس اثنا میں جو رقم حضور رضی اللہ عنہ کے پاس نذرانہ وغیرہ کی آئی آپ حکیم صاحب موصوف کو اپنے پاس رکھنے کی ہدایت کرتے اور جو خرچ آپ کی طرف سے ہوتا انہی کے ہاتھ سے کرواتے۔ایک دن حضور رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا نذرانے وغیرہ کی جو رقم آپ کے پاس ہے اس کا حساب لکھ کر لائیں کہ کیا کچھ آیا۔کیا خرچ ہوااور باقی کیا ہے۔

چونکہ موصوف کو یہ خیال و وہم بھی نہ تھا کہ آپ حساب طلب فرمائیں گے۔اس لئے نذرانہ وغیرہ کی رقم لے لیتے اور مطابق حکم خرچ کرتے رہے تھے۔اب حساب مانگنے پر بہت گھبرائے اور لگے لکھنے۔مگر حساب لکھا ہوا نہیں تھا۔کچھ یاد نہ آیا۔دیر ہو گئی۔ آپ بار بار حساب طلب فرماتے۔ایک روز جب فرمایا حساب لاؤ تو وہی جو تھوڑا بہت لکھا تھا ڈرتے ڈرتے لے گئے تو حضور رضی اللہ عنہ نے دیکھ کر فرمایا حساب میں فلاں فلاں آمد و خرچ درج نہیں تو حکیم صاحب کی گھبراہٹ کی کوئی حد نہ رہی۔یہ حال دیکھ کر فرمایا۔ مولوی صاحب ہم جانتے ہیں آپ دیانت دار ہیں۔آپ نے خیانت نہیں کی۔جاؤحساب ٹھیک ہے۔ فرمایا آپ حِسَابًا یَسِیْراً کی تفسیر پوچھتے تھے اسی طرح قیامت میں بھی ہوگا۔تب مولوی صاحب کی جان میں جان آئی۔ یہ مفہوم تھا۔

(اصحاب احمدجلد سوم صفحہ 84)

دوسرے کے اعمال اور نظر سے

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک چور سے پوچھا تمہیں چوری کرنا بُرانہیں معلوم ہوتا۔وہ کہنے لگا کیونکر معلوم ہو۔ہم محنت و مشقت کرتے ہیںاور کماتے ہیں اور بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھاتے ہیں۔یونہی تھوڑا کہیں سے اُٹھا لاتے ہیں۔فرماتے تھے یہ سن کر میں نے اس سے کچھ اور باتیں شروع کر دیں اور تھوڑی دیر کے بعد پوچھا۔تم مال آپس میں کس طرح تقسیم کرتے ہو۔اس نے کہا ایک سنار ساتھ شامل ہوتا ہے اسے سب زیورات دے دیتے ہیں۔وہ گلا کر سونا بنا دیتا ہے یا چاندی یا جیسا زیور ہو۔پھر مقرر شدہ حصوں کے مطابق ہم تقسیم کر لیتے ہیں۔میں نے کہا اگر اس میں سے کچھ رکھ لے تو پھر۔ وہ کہنے لگا اگر وہ ایسا کرے توہم اس بدمعاش چور کا سر نہ اُڑا دیں۔وہ اس کے باپ کا مال ہے کہ اس میں سے رکھ لے۔اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انسان اپنے اعمال کو اور نظر دے دیکھتا ہے اور دوسرے کے اعمال اورنظر سے۔

(عرفان الٰہی صفحہ 58)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن

حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک لڑکا جو میری پہلی بیوی سے تھا اور اس وقت تک میرا اکلوتا بیٹا فوت ہو گیا تھا اور فوت ایسے ہوا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ہی اسے قتل کیا۔یہ اس طرح ہوا کہ وہ بیمار تھا اور آپ اس کو دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے اور اس کے لئے دوائی کی ایک پُڑیا تجویز کی شاید اس کے گلے میں کوئی نقص تھا۔ آپ نے دوا تجویز کرکے لڑکے کی والدہ سے کہا کہ یہ پڑیا اسے ابھی کھلا دی جائے۔آپ فرماتے تھے کہ اس بچے نے مجھے کہا۔ابَّا مجھے گھوڑا لے دو۔آپ باہر نکلے اور ایک رئیس سے جو گھوڑوں کا اچھا واقف تھا بات کرنے لگے کہ ہمیں ایسا گھوڑا چاہئے۔اتنا فربہ ہو اور اتنی قیمت ہو۔فرماتے تھے ابھی میں اس سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ نوکر دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا۔لڑکا فوت ہو گیا ہے میں جو گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ پڑیا جب اس کے منہ میں ڈالی گئی تو اسے اتھو آ گیا اور ساتھ ہی اس کا دم نکل گیا۔آپ فرماتے ہیں مجھے اس کا اتنا صدمہ ہوا۔اتنا صدمہ ہوا کہ جب میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا تو میرے منہ سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ نہ نکلے اور بار بار میرے دل میں یہی خیال آئے کہ کس طرح اچانک میرا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔اس پر یکدم میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ نور الدین تجھے یہی خیال ہے کہ تیرا یہ لڑکا تیری یاد ہوتا اور تیرا نام دنیا میں باقی رہتا۔لیکن اگر بڑے ہو کر یہ لڑکا چور بن جاتا تو پھر تیری کیا عزت ہوتی۔یا بڑا ہوکر اگر یہ ظالم ہوتا۔ بنی نوع کو دکھ پہنچاتا تو لوگ اسے صرف گالیاں دیتے۔ایسی حالت میں اٹھا لینا محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور تیرا فرض ہے کہ تو اس احسان کا شکر ادا کرے۔آپ فرماتے تھے کہ جب میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تو اس وقت بے اختیار میری زبان سے بڑے زور سے نکلا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن اور چونکہ میں نے بڑی بلند آواز اور چیخ کر کہا تھا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن اس لئے مقتدی بھی حیران ہو گئے کہ کیا ہوا۔ چنانچہ بعد میں انہوں نے مجھ سے پوچھا اور میں نے بتایا کہ آج خدا نے اس طرح میری راہنمائی فرمائی ہے ورنہ میرے دل کو سخت صدمہ پہنچا تھا۔

(خطبہ جمعہ الفضل 18؍ اپریل 1944ء)

اطاعت امام اور خدا کی دستگیری

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کو تار دلوائی کہ فوراً دلی پہنچ جائیں۔تار لکھنے والے نے تار میں (Immediate)یعنی ’’بلا توقف‘‘کے الفاظ لکھ دئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کو جب یہ تار پہنچی تو اس وقت آپ اپنے مطب میں تشریف فرما تھے۔تار ملتے ہی یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ حضرت صاحبؑ نے بلا توقف بلایا ہے۔میں جاتا ہوں اور گھر میں قدم تک رکھنے کے بغیر سیدھے اڈہ خانے کی طرف روانہ ہو گئے۔ کیفیت یہ تھی کہ اس وقت نہ جیب میں خرچ تھا اور نہ ساتھ کوئی بستر وغیرہ۔گھر والوں کو اطلاع ملی تو پیچھے سے ایک کمبل تو کسی کے ہاتھ بھجوا دیا مگر خرچ کا انہیں بھی خیال نہ آیا اور شاید اس وقت گھر میں کوئی رقم ہوگی بھی کہ نہیں۔اڈہ خانہ پر پہنچ کر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے یکہّ لیا اور بٹالہ پہنچ گئے۔مگر ٹکٹ خریدنے کا کوئی سامان نہیں تھا۔چونکہ گاڑی میں کچھ وقت تھا۔ آپ خدا پر توکل کرکے ٹہلنے لگے۔اتنے میں ایک ہندو رئیس آیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر عرض کی کہ میری بیوی بہت بیمار ہے اور آپ تکلف فرما کر میرے ساتھ تشریف لے چلیں اور میرے گھر پر دیکھ آئیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو امام کے حکم پر دلّی جا رہا ہوں اور گاڑی کا وقت ہونے والا ہے۔ میں اس وقت نہیں جا سکتا۔اس نے بمنّت عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو یہیں اسٹیشن پر ہی لے آتا ہوں۔آپ اسے دیکھ لیں۔ آپ نے فرمایا۔اگر یہاں لے آؤاور گاڑی میں کچھ وقت ہوا تو میں دیکھ لوں گا۔چنانچہ وہ اپنی بیوی کو اسٹیشن پر لایا اور آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا۔یہ ہندو رئیس چپکے سے گیا اور دلّی کا ٹکٹ لاکر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیا اور ساتھ ہی معقول نقدی بھی پیش کی۔

(الفضل 6؍دسمبر 1950ء )

بد نظر عورتوں کو گھروں میں نہ آنے دیا جائے

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔میری بیوی کی عمر چھوٹی تھی۔میرے ایک دوست تھے۔انہوں نے کہا کہ ہماری بیوی تمہاری بیوی سے ملاقات کرنا چاہتی ہے۔میں نے کہا شوق سے وہ آئیں۔چنانچہ وہ آئی۔ میری بیوی کو دیکھتے ہی ایک بڑا ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا کہ ہائے تیری تو قسمت پھوٹ گئی، تو تو ابھی بچی ہے اور تیرے ماں باپ اور بھائیوں نے تیری مولوی کے ساتھ شادی کر دی جو تیرے باپ کے ہم عمر ہیں۔میں نے اپنی بیٹی کی شادی نہایت خوبصورت اور جوان شخص سے کی ہے۔میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہ کون عورت ہے۔میں نے کہا ہمارے ایک دوست کی بیوی ہے۔ میری بیوی نے کہا کہ یہ مجھ سے ایسا کہتی ہے اور اس کی باتیں اس کے سامنے ہی نقل کر دیں۔وہ سنتے ہی فوراً وہاں سے چل دی۔مجھ کو کچھ کہنے کی نوبت نہ پہنچی۔اس کی لڑکی کی جس شخص کے ساتھ شادی ہوئی،یعنی اس کا داماد تپ دق سے جلد مر گیا۔پھر دوسرے کے ساتھ شادی کی۔چند روز بعد تقریباً ایک ہزار روپیہ دے کر اس سے طلاق حاصل کی۔ اب بھی وہ لڑکی موجود ہے۔قرآن مجید میں اسی واسطے علی العموم عورتوں کو گھروں میں آنےسے روکا گیا ہے۔‘‘

(مرقاۃ الیقین صفحہ 182-183)

جو شخص کسی کی تحقیر کرتا ہے خود بھی اس کی ذِلّت اُٹھاتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’پنڈ داد نخاں اور میانی کے درمیان ایک ندی ہے۔میانی میں ہمارا گھر تھا۔پنڈ داد نخاں میں ہمارا مدرسہ تھا۔میانی سے پنڈ دادنخاں آتے ہوئے دریا پر میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے دریا میں داخل ہوتے وقت اپنا تہہ بند سر پر کھول کر رکھ دیا اور ننگا ہو کر چلنے لگا۔ایک دوسرے شخص نے اس کو بڑی لعنت ملامت کی اور نہایت سخت سست کہا کہ اس طرح ننگا ہوکر کیوں دریا میں جاتا ہے۔پہلے شخص کے پیچھے دوسرا شخص بھی دریا میں داخل ہوا۔ جوں جوں آگے بڑھتا گیا۔پانی گہرا آتا گیا اور وہ تہہ بند اوپر اُٹھاتا گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ پانی تو شاید ناف تک آ جائے گا تو اس نے بھی تہہ بند کھول کر سر پر رکھ لیا اور پہلے شخص کی طرح بالکل ننگا ہو گیا۔اس وقت میری سمجھ میں یہ نکتہ آیا کہ جو شخص کسی دوسرے کی تحقیر کرتا ہے وہ خود بھی اسی قسم کی ذلت اُٹھاتا ہے۔اگر وہ دوسرا شخص کپڑے بھیگنے کی پرواہ نہ کرتا اور ننگا نہ ہوتا تو کوئی بڑے نقصان کی بات نہ ہوتی۔لیکن جس بات کے لئے اس نے دوسرے کی تحقیر کی تھی اسی کا مرتکب اس کو بھی ہونا پڑا۔‘‘

(14؍مئی 1909ء درس قبل از نماز عشاء مسجد مبارک )

(صوفیہ اکرم چٹھہ۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ