• 25 اپریل, 2024

‘‘یہ ماہ تنویرِ قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے’’

’’یہ ماہ تنویرِ قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے‘‘
’’صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا عظیم کام کر گئے۔ آپؑ کے صحابہ میں سے وہ عبادالرحمن پیدا ہوئے جو صاحبِ رؤیا و کشوف تھے۔ وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عبد بننے کا حق ادا کیا۔ پس گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی آخرین کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ پھر آپ کے صحابہ کو وہ مقام ملا جس نے اُن کو پہلوں سے ملایا، لیکن اب یہ نظام اور جماعت کی ترقیات کی پیشگوئیاں تا قیامت ہیں۔ ہم جب بڑے فخر سے اس کا ذکر کرتے ہیں تو صرف ذکر کافی نہیں ہے، ہمیں اس انقلاب کا حصہ بننے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنا ہو گا۔ صرف اپنے بزرگوں کے حالات پر ہم خوش نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اُس تسلسل کو بھی قائم رکھنے کی ضرورت ہے جو انقلاب کی صورت میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگیوں میں ہمیں نظر آتا ہے۔ آج دنیا کو آفات سے بچانے اور اس کا خدا سے تعلق جوڑنے کی ذمہ داری ہر احمدی پر ہے۔ پس اس کے لئے ہم جب تک انفرادی اور اجتماعی کوشش نہیں کریں گے، ہر ایک اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، ہم احمدِ ثانی کے حقیقی ماننے والوں میں شامل ہونے والے نہیں کہلا سکتے۔ اور ہم یہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے وہ عباد بننے کی کوشش نہیں کرتے جو فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ کا عملی مظاہرہ کرنے والے ہیں۔ جو وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ کی عملی تصویر بنتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے ہماری حالتوں کو سنوارنے کے لئے ایک اور رمضان المبارک سے گزرنے کا ہمیں موقع عطا فرمایا جس میں خدا کا قرب پانے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر لبیک کہنے، ایمان میں ترقی کرنے کے راستے مزید کھل جاتے ہیں۔ پس ہم میں سے وہ لوگ خوش قسمت ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے پیار سے کہے گئے اس لفظ ’’عِبَادِیْ‘‘ یعنی ’’میرے بندے‘‘ کا اس رمضان میں اعزاز پانے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ ہم ایک شوق، ایک لگن سے اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مہینے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یہ ماہ تنویرِ قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے‘‘۔ فرمایا ’’صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب‘‘۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ561 مطبوعہ ربوہ)

دلوں کو روشنی بخشنے کے لئے یہ مہینہ بڑا اعلیٰ مہینہ ہے۔ کیوں اعلیٰ ہے؟ اس کی ذاتی حیثیت تو کوئی نہیں ہے۔ جس طرح باقی مہینے انتیس یا تیس دن کے ہیں اُسی طرح یہ مہینہ بھی ہے۔ لیکن یہ مہینہ اس لئے عمدہ مہینہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس میں دو عبادتوں کو اکٹھا کیا ہے اور اپنے بندوں کو انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے یا موقع دیاہے۔

آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے (دوری ہو جائے) اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اُس پر کھلے کہ خد اکو دیکھ لے’’۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ561-562 مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ہمارا وہ مقصود ہے جسے ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ رمضان میں دو عبادتیں جمع ہو گئیں، جیسا کہ مَیں نے کہا، نماز بھی اور روزہ بھی۔ پس رمضان میں اپنی نمازوں کی بھی خاص حالت بنانے کی ضرورت ہے جس سے ایسا تزکیہ حاصل ہو جو نفس کی برائیوں اور شہوات سے اتنا دور کر دے کہ پھر ہم فَاِنِّیْ قَرِیْب کی آواز سن سکیں۔ ہماری نمازیں، ہمارے روزے صرف رمضان کے مہینے تک ہی محدود رہنے کے جوش میں نہ ہوں بلکہ اس نیت سے ہوں کہ جو تبدیلی ہم نے پیدا کرنی ہے، اُسے دائمی بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر ہمیشہ لبیک کہنے والا رہنا ہے۔ اپنے ایمانوں کو مزید صیقل کرنا ہے۔ یہ سب کچھ یہ سوچ کرکرنا ہے کہ آج ہماری بقا بھی اس میں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے بنیں اور دنیا کی بقا بھی ہم سے وابستہ ہے۔ ہم خود اندھیروں میں ہوں گے تو دنیا کو کیا راستہ دکھائیں گے؟۔ ہم خود عِبَادِیْ کے لفظ کی گہرائی سے ناآشنا ہوں گے تو دوسروں کو عباداللہ بننے کے لئے کیا رہنمائی کریں گے؟ اس زمانہ میں جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اُس کام کے آگے بڑھانے کے لئے بھیجا ہے جس کولے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے، پس جو سوال اللہ کے بندوں نے، اُن بندوں نے جو اللہ تعالیٰ کو پانے کی خواہش رکھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا، وہی سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق سے دنیا نے کیا اور آپ نے اُن کو اصلاح کا طریق بتایا، اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کا طریق بتایا اور ایک جماعت اپنے ارد گرد جمع کر لی، اور یہی سوال مومنین کی جماعت سے آج دنیا کا ہے۔ پس مومنین کی جماعت اُس وقت اس کا صحیح جواب دے سکتی ہے جب جماعت کا ہر فرد اُس معیار کو حاصل کرنے والا ہو جو لبیک کہنے والوں اور ایمان لانے والوں کا ہونا چاہئے، ایمان میں ترقی کرنے والوں کا ہونا چاہئے۔ جب خدا تعالیٰ بھی ہماری پکاروں کا جواب دے رہا ہو گا، جب ہمیں فَاِنِّی قَرِیْبٌ کا صحیح ادراک حاصل ہو گا۔ آج دنیا میں ہر جگہ فساد ہی فسادنظر آ رہا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب، مسلمان ممالک ہوں یا عیسائی ترقی یافتہ ممالک، ایک بے چینی نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ اور گزشتہ دنوں اسی ملک میں جو توڑ پھوڑ اور بے چینی کا اظہار کیا گیا ہے اُس نے ان لوگوں کی بھی آنکھیں کھول دی ہیں کہ صرف غریب ملکوں کا امن ہی خطرے میں نہیں ہے، ان لوگوں کا امن بھی خطرے میں ہے۔ پس اس کا ایک ہی علاج ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کا عبد بنایا جائے لیکن کس طرح؟ ہمارے پاس تو کوئی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی کسی دنیاوی طاقت کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی پہچان کروائی جا سکتی ہے۔ دنیاکی حالت کو سنوارنے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ ہے جو اس زمانہ کے امام نے ہمیں بتایا ہے کہ جہاں اس امن کا پیغام پہنچاؤ وہاں دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد بھی چاہو۔ دعاؤں کی طرف زیادہ زور دو۔ جہاں کوششیں کرو وہاں کوششوں سے زیادہ دعاؤں پرانحصار کرو۔ لیکن جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور دعاؤں کی قبولیت اُنہیں ہی ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنیوالے اور اللہ پر اپنے ایمان کو مضبوط کرنے والے ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت کے جو طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائے ہیں، اُن میں سے بعض کو مختصراً پیش کرتاہوں۔ وہ کونسی باتیں ہیں جن پر لبیک کہلوا کر، اللہ تعالیٰ دعاؤں کے سننے اور جواب دینے کا فرماتا ہے۔ وہ کس قسم کا ایمان ہے جو ہدایت کے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے بندے اور خدا کے تعلق کومضبوط کرتا ہے۔ ایک شرط جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے کہ انسان تقویٰ پر چلنے والا ہو۔ (ماخوذازملفوظات جلد1 صفحہ535 مطبوعہ ربوہ) خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت ہر وقت اُس کے سامنے رہے۔ ہر وقت یہ سامنے رہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ میرا ہر حرکت و سکون اُس کے سامنے ہے۔ میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہونا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہو۔ جسمانی اعضاء بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق عمل کرنے والے ہوں اور تمام اخلاق اور مخلوق سے تعلق بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہو۔ اور یہی اصل تقویٰ ہے کہ انسان کی آنکھ، کان، ناک، زبان، ہاتھ، پاؤں سب وہ حرکت کر رہے ہوں جو خدا تعالیٰ کو پسندیدہ ہیں۔ اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین پیدا کرو۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اہم بات یہ بھی فرمائی کہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے خدا تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین ضروری ہے۔ (ماخوذاز ملفوظات جلدنمبر3 صفحہ522 مطبوعہ ربوہ) پھر اس بات پر یقین کہ اگر خدا تعالیٰ ہے اور یہ زمین وآسمان اور یہ کائنات اور تمام کائناتیں اور ہر وہ چیز جس کا ہمیں علم ہے یا نہیں، اُس کا پیداکرنے والا خدا ہے اور صرف پیدا کرنے والا ہی نہیں بلکہ وہ تمام قدرتوں کا مالک بھی ہے، وہ تمام طاقتوں اور قدرتوں کا سرچشمہ بھی ہے۔ وہ قدرت رکھتا ہے کہ جس چیز کو پیدا کیا اُس کو فنا بھی کر سکے۔ وہ قدرت رکھتا ہے کہ جس چیز کو چاہے وہ پیدا کر دے۔ وہ زندگی دینے والا بھی ہے اور موت دینے والا بھی ہے۔ مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور زندوں کو مارنے والا ہے۔ اور دعائیں جو مُردوں میں نئی روح پھونک دیتی ہیں ان کے ذریعہ سے ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہے۔ تو تب یہ ایمان ہو گا کہ وہ سب قدرت رکھتا ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو سن کر قبول کرے، اور وہ اُن دعاؤں کو قبول کرتاہے جسے وہ بہتر سمجھتا ہے۔

(ماخوذاز ملفوظات جلدنمبر2 صفحہ267 مطبوعہ ربوہ)

(خطبہ جمعہ 12؍ اگست 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2021