• 26 اپریل, 2024

رمضان۔حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی رُو سے

عبادات میں روزہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کم کھانے اور بھوک برداشت کرنے کو روحانی ترقی کرنے کے لئے ہمیشہ ضروری سمجھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب میں کسی نہ کسی صورت میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ تمام امّتیں روزہ سے برکتیں حاصل کرتی رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی اہمیت ہر مذہب و ملّت میں تسلیم کی گئی ہے۔ تاہم دین نے اسے ایک کامل اور برتر شکل میں پیش کیا ہے اور اسے نفس کی قربانی کا ایک مکمل ذریعہ بنادیا ہے۔ دینی روزہ میں انسان پو پھٹنے سے لے کر سورج غروب ہونے تک نہ کچھ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے۔ نیز جنسی تعلقات سے مجتنب رہتا ہے۔ وہ اپنا وقت عبادت اور ذکر الٰہی میں صرف کرتا ہے۔ ہر بالغ اور عاقل کو رمضان کا پورا مہینہ لگاتار روزے رکھنے کا حکم ہے۔ جو لوگ بیمار ہوں یا سفر پر ہوں ان کے لئے ارشاد ہے کہ وہ اس دوران میں روزہ نہ رکھیں اور بعد میں ان چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی پوری کر لیں۔ ایسے لوگ جو دائم المریض ہوں یا بہت بوڑھے اور کمزور ہونے کی وجہ سے روزہ کی طاقت ہی نہ رکھتے ہوں ان کے لئے روزہ نہیں وہ فدیہ ادا کر دیں یعنی حسب توفیق ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔

رمضان کے مہینہ کو عبادات کے لحاظ سے بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ حدیث میں ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ اس مہینہ میں روزہ اور دیگر عبادات کا خاص اہتمام فرماتے اور صحابہ ؓ کو بھی اس طرف توجہ دلاتے ۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ جو شخص ایمان کے تقاضے پورے کرتا ہوااور حصول ثواب کی نیت سے رمضان میں عبادات بجا لاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ نیز ایک حدیث قدسی میں فرمایا کہ الصوم لی و انا اجزیٰ بہ (صحیح بخاری۔ کتاب الصوم) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ صرف میرے لئے رکھا جاتا ہے اور اس کی جزا خود میری ذات ہے۔ گویا بندہ کو اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب نصیب ہو جاتا ہے ۔ خدا تعالیٰ کی ذات ایک بدیہی حقیقت بن کر اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ایک روزہ دار لوگوں کی نظروں سے دور گھر میں تنہا بیٹھا ہوتا ہے ۔انتہائی گرم موسم میں عمدہ اور ٹھنڈے مشروب اس کے پاس پڑے ہوتے ہیں ۔ لذیذ کھانے اسے میسّر ہوتے ہیں۔ان کی خوشگوار خوشبوئیں اس کی اشتہا کو تیز کر رہی ہوتی ہیں۔ کوئی دیکھنے والا بھی پاس نہیں ہوتا لیکن یہ خدا کا بندہ سخت پیاس کے اور بھوک کے باوجود نہ پانی کا ایک قطرہ تک اپنے حلق میں اتارتا ہے اور نہ میسر کھانے کا ایک تر نوالہ اپنے فاقہ زدہ منہ میں ڈالتا ہے کیوں؟ صرف اس لئے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے حکم کے مطابق اپنا روزہ پورا کر رہا ہوتا ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ روزہ صرف خدا کے لئے رکھا جاتا ہے اور اسی لئے اس کی جزا بھی وہ خاص طور پر خود دیتا ہے۔پس روزہ روحانی ترقی کے لئے ایک خاص عبادت ہے لیکن اس کا پورا فائدہ انسان تب ہی حاصل کر سکتا ہے جب وہ اسے پوری شرائط اور شریعت کی تعلیم کے مطابق محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے بجا لائے ۔بعض لوگ اس سلسلہ میں افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں۔ کچھ تن آسان تو اس سے بچنے کی راہیں ڈھونڈنے لگتے ہیں اور کچھ اپنے زور بازو سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اصل بات خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے نہ کہ اپنی قوت برداشت کا اظہار۔ روزہ کے بارہ میں افراط و تفریط سے پاک دین کی صحیح تعلیم حضرت مسیح موعودکے ارشادات میں ملتی ہے جن کو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں حکم و عدل بنا کر مبعوث فرمایا۔

رمضان کی وجہ تسمیہ

رمضان کا لفظ رمض سے نکلا ہے جس کے معنی عربی زبان میں جلن اور سوزش کے ہیں۔رمضان اس مہینہ کا اسلامی نام ہے۔اسلام سے قبل زمانہء جاہلیت میں اس مہینہ کو ناتق کہا جاتا تھا۔رمضان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :۔
’’رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں ۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے،دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لئے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق وشوق اور حرارت دینی ہوتی ہے رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں۔‘‘

(الحکم مورخہ24 جولائی1901ء، صفحہ2 ۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ البقرہ، صفحہ 312)

رمضان کی عظمت

رمضان بڑی عظمت اور برکات رکھنے والا مہینہ ہے۔ اس کی عظمت اور روزوں کی برکات واضح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:۔
’’شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن یہی ایک فقرہ ہے جس سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم (روزہ) تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جاوے اور تجلی قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لیوے۔ پس انزل فیہ القرن میں یہی اشارہ ہے۔اس میں شک و شبہ کوئی نہیں ہے ۔ روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایّام میں میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ روزہ رکھنا سنت اہل بیت ہے … چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔ اس اثنامیں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جا رہے ہیں یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے ۔ لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا… خدا تعالیٰ کے احکام دو قسموں میں تقسیم ہیں ایک عبادات مالی اور دوسرے عبادات بدنی ۔ عبادات مالی تو اسی کے لئے ہیں جس کے پاس مال ہو اور جس کے پاس نہیں وہ معذور ہیں۔ اور عبادات بدنی کو بھی انسان عالم جوانی میں ہی ادا کر سکتا ہے ورنہ 60 سال جب گزرے تو طرح طرح کے عوارضات لاحق ہوتے ہیں۔ نزول الماء وغیرہ شروع ہو کر بینائی میں فرق آ جاتا ہے۔ یہ ٹھیک کہا کہ پیری و صد عیب اور جو کچھ انسان جوانی میں کر لیتا ہے اسی کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اسے بڑھاپے میں بھی صدہا رنج برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ موئے سفید از اجل آرو پیام۔انسان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجا لاوے۔ روزہ کے بارے میں خدا فرماتا ہےو ان تصوموا خیرلّکم یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے۔‘‘

(البدرمورخہ 12دسمبر 1902ء، صفحہ52 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودسورۃ البقرہ، صفحہ 312-313)

روزہ کی حقیقت اور حکمت

روزہ صرف بھوکا اور پیاسارہنے کا نام نہیں۔ اس سے مراد حصول ثواب کی نیت سے خدا تعالیٰ کے جملہ احکام پر عمل کرتے ہوئے اس کی اطاعت اور رضا کی خاطر ایک معین وقت تک بھوک اور پیاس برداشت کرنا ہے۔انسان اس کے فوائد تب ہی حاصل کر سکتا ہے جبکہ وہ اس کی حکمت مدّ نظر رکھ کر اس کی شرائط کو پورا کرے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے کیا اچھوتے انداز میں روزہ کی حقیقت اور حکمت بیان کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:۔
’’پھر تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے۔ روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو ۔پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کرجو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدا ور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘

(ملفوظات۔جلد5 صفحہ102)

نیز فرمایا :
’’روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں۔ روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے۔ نماز سے ایک سوزو گداز پیدا ہوتا ہے ۔ اس واسطے وہ افضل ہے۔ روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں۔مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جوگیوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے اس میں کوئی شامل نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد4، صفحہ292 ۔293)

پھر فرماتے ہیں:
’’صلوٰۃ کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔اس کے بعد روزے کی عبادت ہے۔ افسوس ہے کہ اس زمانہ میں بعض مسلما ن کہلانے والے ایسے بھی ہیں جو کہ ان عبادات میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اندھے ہیں اور خداتعالیٰ کی حکمت کاملہ سے آگاہ نہیں ہیں۔ تزکیہ نفس کے واسطے یہ عبادات لازمی پڑی ہوئی ہیں۔ یہ لوگ جس عالم میں داخل نہیں ہوئے اس کے معاملات میں بیہودہ دخل دیتے ہیں اور جس ملک کی انہوں نے سیر نہیں کی اس کی اصلاح کے واسطے جھوٹی تجویزیں پیش کرتے ہیں۔ ان کی عمریں دنیوی دھندوں میں گزرتی ہیں۔ دینی معاملات کی ان کو کچھ خبر ہی نہیں۔ کم کھانا اور بھوک برداشت کرنا بھی تزکیہ نفس کے واسطے ضروری ہے۔ اس سے کشفی طاقت بڑھتی ہے۔ انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا۔ بالکل ابدی زندگی کا خیال چھوڑ دینا اپنے اوپر قہر الٰہی کا نازل کرنا ہے۔مگر روزہ دار کو خیال رکھنا چاہئے کہ روزے سے صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوکا رہے بلکہ خدا کے ذکر میں بہت مشغول رہنا چاہئے۔

آنحضرت ﷺ رمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے۔ ان ایام میں کھانے پینے کے خیالات سے فارغ ہو کر اور ان ضرورتوں سے انقطاع کر کے تبتل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے۔ بدنصیب ہے وہ شخص جس کو جسمانی روٹی ملی مگر اس نے روحانی روٹی کی پرواہ نہیں کی۔ جسمانی روٹی سے جسم کو قوت ملتی ہے ایسا ہی روحانی روٹی روح کو قائم رکھتی ہے اور اس سے روحانی قویٰ تیز ہوتے ہیں۔ خدا سے فیضیاب ہونا چاہو کہ تمام دروازے اس کی توفیق سے کھلتے ہیں۔‘‘

(تقاریر جلسہ سالانہ1906ء، صفحہ20۔ بحوالہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے، صفحہ1002)

رمضان کے روزے فرض ہیں

روزہ ایک اہم عبادت ہے ۔ اسلام سے قبل بھی قریباً تمام اقوام میں روزہ کا ذکر ملتا ہے گو اس کے طریق میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے ایک معین شکل میں فرض قرار دیئے ہیں روزہ دار کے لئے فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے مجتنب رہنا لازمی ہے ہاں مریض اور مسافر کے لئے رخصت ہے کہ وہ ان دنوں کی گنتی دوسرے ایام میں پوری کر لیں ۔روزہ کے سلسلہ میں بعض لوگ حد سے زیادہ سختی اور بعض بہت نرمی اختیار کرتے ہیں۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات درج ذیل ہیں ۔فرمایا :۔

’’کُتِبَ سے فرضی روزے مراد ہیں۔‘‘

(الحکم مؤرخہ 24 فروری1907ء، صفحہ14)

’’تم پر روزے فرض کئے گئے ہیںمگر جو تم میں سے بیمار یا سفر پر ہو وہ اتنے روزے پھر رکھے۔‘‘

(شہادت القرآن۔ روحانی خزائن، جلد6، صفحہ336)

فرض روز ہ کے سلسلہ میں اپنا طریق عمل واضح کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:
’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں۔ طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں۔‘‘

(الحکم۔ مؤرخہ 24جنوری 1901ء بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ البقرہ، صفحہ258)

مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے

اللہ تعالیٰ نے مریض اور مسافر کو رخصت دی ہے کہ وہ مرض اور سفر کے دوران روزہ نہ رکھیں اور یہ گنتی دوسرے ایام میں پوری کر لیں۔ لوگ اس بحث میں پڑ جاتے ہیںکہ مرض کی کیا تعریف ہے اور سفر کی کیا حد ہے ۔اس بارہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :
’’مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضاً … یعنی اگر تم مریض ہویا کسی سفر قلیل یا کثیر پر ہو تو اسی قدر روزے اور دنوں میں رکھ لو۔ سو اللہ تعالیٰ نے سفر میں کوئی حد مقرر نہیں کی اور نہ احادیث نبوی میں حد پائی جاتی ہے بلکہ محاورہ عام میں جس قدر مسافت کا نام سفر رکھتے ہیں وہی سفر ہے ایک منزل (سے) جو کم حرکت ہو اس کو سفر نہیں کہا جاسکتا۔‘‘

(مکتوبات۔ بنام حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ البقرہ، صفحہ261)

’’یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے اس میں امر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے ۔ میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی ہرج نہیں مگر عِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہئے۔سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا یہ غلطی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔‘‘

(الحکم۔ مؤرخہ31 جنوری 1899ء، صفحہ7)

’’میرا مذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے۔عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو اس میں قصر و سفر کے مسائل پر عمل کرے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو مسافر ہوتا ہے شریعت کی بنیاد دقت پر نہیں ہے جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے ویسا ہی اس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہئے۔ فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے۔‘‘

(الحکم۔مؤرخہ 17 فروری 1901ء، صفحہ13۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود، سورۃ البقرۃ، صفحہ261)

رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے

بعض لوگ سفر اور مرض میں بھی روزہ ترک نہیں کرتے اور اسے ایک خوبی اور نیکی تصور کرتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود اپنا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرماں برداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیا ہے مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضاً…اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میںنے روزہ نہیں رکھا۔‘‘

(الحکم۔ مؤرخہ31 جنوری 1907ء، صفحہ14۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود، سورۃ البقرہ، صفحہ261)

’’جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا کے اس حکم پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کر سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔‘‘

(البدر۔ مؤرخہ17 اکتوبر 1907ء صفحہ7۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود، سورۃ البقرہ، صفحہ261)

اس بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے ایک روایت بھی بیان کی ہے۔ فرمایا:
’’بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا۔ اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گزر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا ۔حضرت صاحب نے اسے فرمایا آپ روزہ کھول دیں۔ اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گیا ہے اب کیا کھولنا ہے ۔ حضور نے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے ۔جب اس نے فرما دیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہئے۔ اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد1 روایت نمبر117 صفحہ97)

رمضان کے روزوں کا فدیہ

جو لوگ پیرفرقوت یا دائم المریض ہونے یا کسی خاص مجبوری کی وجہ سے سارا سال کسی وقت بھی روزہ نہ رکھ سکتے ہوں ان کے لئے حکم ہے کہ وہ حسب مقدرت رمضان کے روزوں کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں ۔ اس حکم کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :۔
’’اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بنا آسانی پر رکھی ہے۔ جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہوں ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دےدیں۔ فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔‘‘

(البدر۔ مؤرخہ17؍اکتوبر 1907ء صفحہ7)

حضور کے اس ارشاد کی وضاحت کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب ’’بدر‘‘ اخبار کے اگلے شمارہ میں لکھتے ہیں:

گزشتہ پرچہ اخبار نمبر42 مؤرخہ 17 اکتوبر 1907ء کے صفحہ 7 کالم اول میں یہ لکھا گیا تھا کہ …

’’جو مریض اور مسافر صاحب مقدرت ہوں ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دیں۔‘‘

اس جگہ مریض اور مسافر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو کبھی کوئی امید نہیں کہ پھر روزہ رکھنے کاموقع مل سکے ۔مثلاً ایک نہایت بوڑھا ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بسبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اور سال بھر اسی طرح گزر جائے گا۔ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور فدیہ دیں۔ باقی اور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ فدیہ دے کر روزے کے رکھنے سے معذور سمجھا جا سکے۔

چونکہ اخبار ’’بدر‘‘ کی مذکورہ بالا عبارت صاف نہ تھی اس واسطے یہ مسئلہ دوبارہ حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا۔ آپ نے فرمایا:
’’صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے۔ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیہ کا خیال کرنا اباحت کادروازہ کھول دینا ہے۔ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے لئے کچھ نہیں۔ اس طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جاوے گی۔ فرمایا:
خدا تعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ صدقات، حج، … دشمن کاذبّ اور دفع خواہ سیفی ہو۔ خواہ قلمی۔ یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں۔ … کو چاہئے کہ ان میں کوشش کریں اور ان کی پابندی کریں ۔ یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں۔بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے رہتے ہیں اور ان میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ہاں دائمی روزے رکھنا منع ہیں یعنی ایسا نہیں چاہئے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا رہے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ نفلی روزہ کبھی رکھے اور کبھی چھوڑ دے۔‘‘

(البدر۔ مؤرخہ 24 اکتوبر1907ء، صفحہ3 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودسورۃ البقرہ، صفحہ 263)

فدیہ کی غرض

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
ایک دفعہ میرے دل میں آیاکہ یہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہوتا ہے۔ پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ رہوں یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا۔ اگر خدا چاہتا تو دوسری امتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں۔ میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینے میں تو مجھے محروم نہ رکھ تو خدااسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جاوے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدارنیت پر ہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کر دے ۔جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درد دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جو نہ ہو تو خدا تعالیٰ ہرگز اسے ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔ یہ ایک باریک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر (اپنے نفس کی کسل کی وجہ سے) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق حال ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا آدمی جو خدا کی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے کب اس ثواب کا مستحق ہوگا۔ ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور اس کا منتظر میں تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔ اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیںکہ ہم جیسے اہل دنیا کو دھوکہ دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں ۔بہانہ جواپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان وسائل کو صحیح گردانتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک وہ صحیح نہیں ہے۔ تکلفات کا باب بہت وسیع ہے۔ اگر انسان چاہے تو اس کے رو سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل ہی نہ رکھے مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاق سے رکھتا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا اسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شے ہے ۔ حیلہ جو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شے نہیں۔جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ … کا مجھے ملا (کشف میں) اور انہوں نے کہا تو نے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے، اس سے باہر نکل۔ اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کر کے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے۔

(ملفوظات۔جلد2، صفحہ564-563)

روزہ کے چند مسائل

روزہ کے بارہ میں کچھ باتیں حضور سے دریافت بھی کی گئی جن کے حضور نے فیصلہ کن جوابات دیئے۔ وہ درج ذیل ہیں:

ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟

فرمایا: جائز ہے۔

اسی طرح ایک اور سوال پیش ہوا کہ حالت روزہ میں سر کو یا ڈاڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟

فرمایا: جائز ہے۔

سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے کہ نہیں؟

فرمایا: جائز ہے۔

سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے؟

فرمایا: مکروہ ہے اور ایسی ضرورت کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے ۔ رات کو سرمہ لگا سکتا ہے۔

(البدر۔ مؤرخہ 7 فروری 1907ء، صفحہ4)

سوال پیش ہوا کہ بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟

فرمایا: کہ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزے کے بدلے میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا۔

(الحکم۔ مؤرخہ24 فروری 1907ء)

ایک شخص کا حضرت صاحب کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟

فرمایا: ضروری نہیں ہے۔

اسی طرح سوال پیش ہواکہ محرم کے پہلے دس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟

فرمایا: ضروری نہیں ہے۔

(البدر۔ مؤرخہ 14 مارچ 1907ء صفحہ5)

ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میں مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا اور میرا یقین تھا کہ ہنوز روزہ رکھنے کا وقت ہے اور میں نے کچھ کھا پی کر روزہ کی نیت کی۔ مگر بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہوا کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی۔ اب میں کیا کروں۔ حضرت نے فرمایا کہ ایسی حالت میں اس کا روزہ ہو گیا۔دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اور نیت میں فرق نہیں صرف غلطی لگ گئی اور چند منٹوں کا فرق پڑ گیا۔

(البدر۔ مؤرخہ 14 فروری 1907ء صفحہ8)

ایک شخص نے سوال کیا کہ میں نے آج سے پہلے روزہ نہیں رکھا اس کا کیا فدیہ ادا کروں؟

فرمایا: خدا ہر شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا۔ وسعت کے موافق گذشتہ کا فدیہ دیدو اور آئندہ عہد کرو کہ سب روزے ضرور رکھوں گا۔

(البدر۔ مؤرخہ 16 جنوری 1903ء صفحہ91/98)

وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ کی نسبت فرمایا کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے۔

(البدر۔ نمبر6، صفحہ39 مؤرخہ 26ستمبر 1907ء صفحہ7)

فدیۂ رمضان کے متعلق فرمایا:
خواہ اپنے شہر میں کسی مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے۔

(البدر۔ مؤرخہ 7 فروری 1907ء، صفحہ4)

سوال پیش ہوا کہ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشتکاروں سے جب کہ کام کی کثرت مثل تخمریزی و درودگی ہوتی ہے ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گزارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھا جاتا۔ ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟

فرمایا: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے پھر جب یسرہو رکھ لے۔

(البدر۔ مؤرخہ 26ستمبر1907ء صفحہ7)

ایک سوال کے جواب میں کہ جہاں چھ ماہ تک سورج نہیں چڑھتا روزہ کیونکر رکھیں؟

فرمایا: ’’اگر ہم نے لوگوں کی طاقتوں پر ان کی طاقتوں کو قیاس کرنا ہے تو انسانی قویٰ کی جڑھ جو حمل کا زمانہ ہے مطابق کر کے دکھلانا چاہیئے۔ پس ہمارے حساب کی اگر پابندی لازم ہے تو ان بلاد میں صرف ڈیڑھ دن میں حمل ہونا چاہیئے اور اگر ان کے حساب کی تو دو سو چھیاسٹھ برس تک بچہ پیٹ میں رہنا چاہیئے اور یہ ثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ حمل صرف ڈیڑھ دن تک رہتا ہے لیکن دو سو چھیاسٹھ برس کی حالت میں یہ تو ماننا کچھ بعید از قیاس نہیں کہ وہ چھ ماہ تک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے دن کا یہی مقدار ہے اور اس کے مطابق ان کے قویٰ بھی ہیں۔‘‘

(جنگ مقدس۔ روحانی خزائن۔ جلد6، صفحہ277)

لیلۃ القدر کی علامات

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ رمضان کی لیلۃالقدر کی بابت حضرت صاحبؑ فرمایا کرتے تھے کہ اس کی پہچان یہ ہے کہ اس رات کچھ بادل یا ترشح بھی ہو تا ہے اور کچھ آثار انوار و برکات سماویہ کے محسوس ہوتے ہیں۔‘‘

(سیرت المہدی جلد1روایت نمبر594 صفحہ 565)

’’بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ ….. میں نے حضرت صا حب سے سنا ہوا تھا کہ جب رمضان کی ستائیس (27) تاریخ اور جمعہ مل جاویں تو وہ رات یقیناً شب قدر ہوتی ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد1 روایت نمبر100 صفحہ73)

نفلی روزے

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے تحریر فرماتے ہیں :۔
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کر تے تھے کہ اس زمانہ میں مجھے معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں ۔ فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں۔ صبح کا کھانا جب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجت مند کو دے دیتا تھا اور شام کا خود کھا لیتا تھا۔ میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں ۔ والدہ صاحبہ نے کہا کہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے۔خصوصاً شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے۔ اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے۔ ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے ۔(خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی، جلد1روایت نمبر18 صفحہ 14)

رمضان اور شوق عبادت

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے تحریر فرماتے ہیں :۔
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا ۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا۔ اس لئے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا ۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کر نے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا ۔اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے۔ مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداء دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضا کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود کو دوران سر اور برد اطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کرنے کی طاقت نہ پاتے تھے۔ مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھر شوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرما دیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کر دیتے تھے اور بقیہ کا فدیہ ادا کر دیتے تھے ۔ واللہ اعلم۔‘‘

(سیرت المہدی جلد1روایت نمبر81 صفحہ59)

حضرت اقدس مسیح موعود نے روزہ کے بارہ میں تفصیل سے رہنمائی فرمائی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ خداتعالیٰ کے مامور کے پاک ارشادات کو پورے طور پر مدّنظر رکھ کر روزہ کی عبادت بجا لائیں تاکہ ہم روحانی ترقی اور رضا الٰہی حاصل کر سکیں۔

(مولانا چوہدری رشید الدین)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2021