• 15 مئی, 2024

حضرت بابا اللہ داد رضی اللہ عنہ

حضرت بابا اللہ داد صاحبؓ ولد مکرم دیدار بخش صاحب قوم اولکھ اصل میں کوٹ ہرا ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے لیکن قبول احمدیت کے بعد اپنے گاؤں میں ستائے جانے کی وجہ سے قریبی گاؤں مدرسہ چٹھہ میں آگئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ آپ بفضلہ تعالیٰ 5/1 حصہ کے موصی (وصیت نمبر 1342) تھے۔ مورخہ 10؍نومبر 1936ء کو 70 سال کی عمر میں وفات پائی، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا: ’’بابا اللہ داد صاحب متوطن مدرسہ چٹھہ ضلع گوجرانوالہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے، 10/11 نومبر کی درمیانی شب وفات پاگئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ …. اور مرحوم مقبرہ بہشتی میں دفن کیے گئے۔‘‘

(الفضل 13؍ نومبر 1936ء)

مدرسہ چٹھہ کے سیکرٹری تبلیغ 1942ء مکرم غلام محمد صاحب نے مدرسہ چٹھہ میں احمدیت کی ابتداء کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
’’…. اس گاؤں میں سب سے پہلے ایک شخص اللہ داد قوم اولکھ نے احمدیت قبول کی اور اسی کی تبلیغ سے باقی تمام گاؤں رفتہ رفتہ احمدی ہوگیا۔ چودھری اللہ داد صاحب کا واقعہ اس طرح ہے کہ یہ شخص ابتداء عمر میں بڑا زبردست اور جابر آدمی تھا اور چوری بھی کرتا رہا۔ بعد میں جب احمدی ہوکر اپنے گناہوں سے تائب ہوا تو جہاں تک اس کی مالی استطاعت تھی، لوگوں کے پاس جا جا کر حسب توفیق کچھ نقدی پیش کر کے ان سے کہتا کہ میرے پاس صرف اسی قدر مال ہے جو میں ادا کر سکتا ہوں، یہ لے لیا جائے اور باقی معاف کر دیا جائے۔ جب اس کے پاس مال نہ رہا تو پھر یوں بھی معذوری پیش کر کے معافی مانگتا رہا۔

یہ شخص بابا اللہ داد پہلے موضع کوٹ ہرا میں جوکہ مدرسہ سے ایک میل جانب غرب ہے، رہا کرتا تھا۔ وہاں پر ایک شخص مسمی ابراہیم گاؤں کے سکول میں مدرس تھے، اصل گاؤں اُن کا موضع لنگے ضلع گجرات تھا۔ جب وہ احمدی ہوئے تو لوگوں نے ان کو تکلیف دینا شروع کی یہاں تک کہ وہ اس گاؤں کو چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں لنگے جانے پر مجبور ہوگئے اور سکول بھی غیر آباد ہوگیا۔ ان کے ساتھ اس قسم کی بد سلوکی کے برتاؤ دیکھ کر بابا اللہ داد نے اس کی وجہ دریافت کی۔ لوگوں نے بیان کیا کہ ایک شخص مرزا غلام احمد قادیان میں امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے اور یہ شخص اس کا مرید ہے۔ یہ سن کر بابا اللہ داد تیار ہوگیا کہ میں ضرور جاکر اُس آدمی کو دیکھوں گا اور اگر وہ سچا ہوا تو مان لوں گا چنانچہ وہ چل پڑا اور قادیان آ پہنچا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے واپس آگیااور جاتے ہی دیوانہ وار ہر ایک کو تبلیغ کرنی شروع کر دی۔ اس کی تبلیغ کے والہانہ واقعات عجیب عجیب ہیں۔ موضع کوٹ ہرا میں بابا اللہ داد نے زور شور سے تبلیغ شروع کی، جس جگہ مجمع دیکھتا تبلیغ کرنے لگتا۔ لوگ مشتعل ہوکر زد و کوب کرتے لیکن وہ حوصلہ نہ ہارتا۔ آخر لوگوں نے اسے کوٹ ہرا سے نکال دیا اور وہ موضع مدرسہ میں آگیا، اپنی ملکیتی زمین بھی چھوڑ آیا۔ یہاں آکر بھی اس نے وہی طریق اختیار کیا …. ایک صاحب چودھری محمد حیات نے بیان کیا کہ میں جب شیعہ تھا تو مجھے وہ ہر وقت تبلیغ کرتا رہتا۔ ایک دن میں نے کہا تم ہمیں گھر میں فارغ دیکھ کر تبلیغ کرنے لگ جاتے ہو، بات تو تب ہے کہ باہر ہمارے کام پر آکر تبلیغ کرو۔ ایک دن وہ اپنا کام چھوڑ کر دو میل کے فاصلہ پر جہاں میرے دھان کے کھیت تھے اور میں ہل چلا رہا تھا، جا پہنچا۔ جاتے ہی مجھ سے ہل لے لیااور چلانے لگ گیا اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرتا رہا۔ ابتدا میں انہوں نے تبلیغ کی غرض سے شیعوں کے ساتھ مناظرہ طے کیا حالانکہ اکیلے آدمی تھے۔ قادیان خط لکھ کر بھیج دیا کہ فلاں تاریخ کو مناظرہ پر کوئی مولوی صاحب مرکز سے بھیج دیے جائیں۔ مقررہ تاریخ پر شیعوں کے مولوی لکھنؤ سے آگئے مگر قادیان سے کوئی مولوی صاحب نہ آئے۔ لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا زمانہ تھا، کچھ دیر بعد حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب تشریف لے آئے، نہایت کامیاب مناظرہ ہوا۔ باہر سے آنے والے احمدی مہمانوں کا کھانا بابا اللہ داد صاحب نے تیار کیا لیکن جب کھانے کا وقت آیا تو لوگوں نے برتن توڑ دیے اور سونے کے لیے نہ چارپائی میسر آئی نہ مکان، نہایت تنگی سے بابا صاحب کا مکان جس میں اپنی گائیں باندھا کرتے تھے، نیچے پیالی ڈال کر بستر کیے گئے۔ ایک دفعہ تبلیغ کرتے ہوئے ان کو گاؤں کے نمبردار چودھری خیر محمد نے لوہے کا چمٹہ مار کر سر میں زخم کردیا لیکن وہ خدا کا بندہ نہ ہمت ہارتا نہ کسی پر ناراض ہوتا، متواتر ہمت سے کام کرتا رہا۔ ساری ساری رات دعائیں کرتا، آخر اُسے خواب میں ایک کلّا لکڑی کا دیا گیا۔ اس نے لوگوں کو وہ بات سنائی، لوگوں نے تمسخر شروع کر دیا لیکن بابا صاحب نے اس کا یہ مطلب لوگوں کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ یہاں جماعت قائم کرے گا، اس کلّا سے مراد جماعت ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہاں بھاری تعداد میں لوگ احمدیت میں داخل ہوگئے …. صاحب موصوف موصی اور پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں زیادہ سے زیادہ اپنے فضلوں کا وارث بنائے اور جماعت کے ہر دوست کو اس نیک نمونہ پر عمل کرنے کی توفیق دے۔‘‘

(الفضل 9؍اپریل 1942ء صفحہ 4)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ