قرآن کریم میں متعدد بار عبادت کا حکم آیا ہے انسانی پیدائش کی غرض ہی عبادت الٰہی قرار دی گئی ہے۔ قرآن کریم سورۃ الذاریات آیت نمبر 57 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ عبد کے معنی ہیں اسکی اطاعت کی، اس کے حکم پر سر جھکا دیا اِیَّاکَ نَعۡبُدُ کا مطلب ہے ہم تجھے عبادت کے لیے خاص کرتے ہیں۔
عبادت الٰہی سے مراد ہے ایسی کامل ہستی کی عبادت جو اپنے کمالات میں منفرد ہو اور اس کا کوئی شریک نہ ہو۔ ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی نہیں جس کی حقیقی معنوں میں عبادت کی جائے۔ فرمانبرداری کی جائے۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ الفاتحہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’عبادت کامل تذلّل کا نام ہے پس عبادت کے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو بندہ اپنے اندر پیدا کر لے۔ عبادت کی ظاہری کیفیت (نماز) صرف قلبی کیفیت کو بدلنے کے لیے مقرر ہیں…. نماز کے لیےکچھ ظاہری علامات مقرر ہیں مگر وہ بمنزلہ برتن کے ہیں جس میں معرفت کا دودھ جاتا ہے یا بطور چھلکے کے ہیں جس میں عبادت کا مغز رہتا ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 30)
پس عبادت کے معنی کامل تذلّل اور اتباع کے ہیں جب تک پوری اتباع نہ ہو اور انسان اپنے نفس کو الٰہی تاثرات کے قبول کرنے کے قابل نہ بنائے اس کی عبادات عبادت نہیں کہلا سکتیں۔ کامل عبادت کامل تعلق کو چاہتی ہے۔ پس عبادت الٰہی کا اصل مقصد تزکیہ نفس ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 130 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا
رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ
ترجمہ: ’’یعنی اے خدا! تو انہی میں سے ایک رسول بھیج جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے انہیں کتاب کی تعلیم دے ان پر احکام الہیٰہ کی حکمت واضح کرے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرے‘‘
اس آیت قرآنی سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نماز،روزہ وغیرہ احکام اور ان کی حکمتیں اصل میں مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود تزکیہ نفس ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر پیدا کرنا ہے۔ یہی تعلیم اور پاک نمونہ قائم کرنے کے لیے ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور اس ابراہیمی دعا کے نتیجے میں معاشرہ کو غلاظتوں سے پاک کیا۔ تعلیم اور حکمت سکھائی اور نفوس کو پاک کر کے دکھایا۔ اس کا عملی نمونہ خود قائم کیا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمدہ زندگی سے ہمارے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہے۔
سب سےبڑھ کر عبادت الٰہی کرنے والا خدا کا پیارا بندہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت ذات کو ہی کہا گیا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ فرماتا ہے:
وَاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبۡدُ اللّٰہِ یَدۡعُوۡہُ کَادُوۡا یَکُوۡنُوۡنَ عَلَیۡہِ لِبَدًا
(الجن: 20)
ترجمہ:اور جب اللہ تعالیٰ کا بندہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف بلانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مکہ کے لوگ اس پر جھپٹ کر آکر گرتے ہیں (عبداللہ اس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صفاتی نام قرار دیا گیا ہے)
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر 569)
حدیث نبوی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تُو اللہ کی عبادت ایسی طرز پر کر کہ وہ تجھے نظر آ جائے یا کم ازکم تجھے یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر 125)
اسوہٴ رسولؐ
ہم دیکھتے ہیں کہ شہر مکہ کے طرب خیز اور پُر رونق ماحول کو چھوڑ کر ایک نوجوان اللہ کی یاد میں محویت اور خلوت پسندی کا کیا ہی عمدہ نمونہ ہمارے سامنے تھا۔ غار حرا میں جا کر تنہائی میں عبادت الٰہی میں مصروف رہنا اور عالم جوانی میں بیوی بچوں کو چھوڑ کر ویرانوں کو ترجیح دینا عمدہ عبادت نہیں تو اور کیا ہے۔ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو پاؤں متورم ہو جاتے ہیں۔ آپ ﷺسے کہا جاتا ہے کہ یا رسول اللہﷺ آپؐ ایسا کرتے ہیں حالانکہ آپؐ کے متعلق کیے گئے وہ گناہ بھی ڈھانک دئیے گئے جو پہلے گزر گئے اور جو اب تک نہیں ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا ’’کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘
اسی طرح ایک اور روایت کے مطابق آپؐ رات کو تیرہ رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے اور ان کی طوالت کا تو ذکر ہی کیا۔ اسی طرح روزے رکھنے کے بارے میں بھی روایت ہے کہ بعض دفعہ سارا سارا ماہ روزے رکھتے تھے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکو شعبان سے زیادہ کسی اور ماہ میں نفلی روزے رکھتے نہیں دیکھا بلکہ قریباً سارا ماہ روزہ رکھتے۔
(شمائل نبوی صفحہ نمبر 124)
ایک اور روایت میں ہے کہ
آپؐ ہر ماہ کی چاندنی راتوں کو تین دن روزہ رکھتے تھے اور آپؐ جمعہ کے دن کم ہی بغیر روزہ کے ہوتے تھے۔
(شمائل نبوی صفحہ نمبر 124)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ سوموار اور جمعرات کو اعمال خدا کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اس لیے میں پسند کرتا ہوں کہ اس حال میں میرے اعمال پیش ہوں کہ میں روزے دار ہوں۔
(شمائل نبوی صفحہ نمبر 124)
ایک روایت سے ثابت ہے کہ آپؐ جب تلاوت کرتے تو جب کسی رحمت والی آیت پر سے گزرتے وہاں رک جاتے اور اس رحمت کے طالب ہوتے اور جب عذاب کی آیت پر سے گزرتے وہاں رک جاتے اور اُس سے پناہ مانگتے۔
(شمائل نبوی صفحہ نمبر 127)
ایک روایت ہے کہ آپؐ کی نماز میں اتنی گریہ و زاری ہوتی تھی کہ بمطابقِ روایت آپؐ کے سینے کی آواز ایسے معلوم ہوتی جیسے ہنڈیا ابلنے کی آواز ہو۔
(شمائل نبوی صفحہ نمبر 130)
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپؐ کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر ہوتی۔ واضح قرات ہوتی۔ آپؐ ایک ایک حرف علیحدہ علیحدہ ادا کرتے تھے۔
(شمائل نبوی صفحہ نمبر 131)
گویا یہ تھا آپؐ عبادت الٰہی کا عمدہ نمونہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
(منزہ ولی سنوری۔کینیڈا)