• 14 جولائی, 2025

روزہ زبان کی حفاظت کا ذریعہ

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہےکہ ’’کیا تونے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ایک کلام پاک کے متعلق حقیقت حال کو بیان کیا ہے۔ وہ ایک پاک درخت کی طرح ہوتا ہے جس کی جڑ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور اس کی ہر شاخ آسمان کی بلندی میں پہنچی ہوتی ہے وہ ہروقت اپنے رب کے اذن سے تازہ پھل دیتاہے۔ اور اللہ لوگوں کے لئے تمام باتیں بیان کرتا ہے تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ اور بری بات کا حال برے درخت کی طرح ہے جس کو زمین سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہو اور جسے کہیں بھی قرار حاصل نہ ہو۔‘‘ (ابراہیم: 25 – 27)

حقیقت یہ ہے کہ انسان کا کلام ہی اسکی پہچان ہوتاہے۔ اور پاک کلام دلوں پر اثر ہی نہیں بلکہ دلوں کو بدل کر پاک بنا دیتاہے۔ اور روزہ نہ صرف انسان کے دل کو پاک کرتاہے بلکہ اس کی زبان کو بھی پاک کردیتاہے۔ اسی لئے آنحضرت ؐ نے فرمایا ‘‘روزہ ڈھال ہے پس جب تم میں سے کوئی روزہ رکھےاس دن فضول باتوں سے پرہیز کرےاور نہ ہی شور مچائےاور اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے لڑائی جھگڑا کرے تو وہ اس شخص سے یہ کہے کہ میں نے روزہ رکھا ہے۔’’ (بخاری) یعنی روزے کیوجہ سے اپنی زبان کو روک رکھے۔

پھر ایک حدیث میں آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ ’’جو شخص جھوٹی بات کہنے اور اسپر عمل کرنے کو نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ وہ اس کے لئے کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ (بخاری)۔ پس روزہ زبان کی حفاظت کرتاہے، زبان کی حفاظت نجات کا ذریعہ ہے۔

حضرت عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ؐ سے پوچھایا رسول اللہ ؐ! نجات کیسے ہو؟ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ امسک علیک لسانک کہ اپنی زبان کو روک کر رکھو۔‘‘ (ترمذی)

یعنی کہ انسان کواپنی زبان پر مکمل کنٹرول ہونا چاہیئے نہ کہ زبان بے لگام ہو۔ حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ؐ نے فرمایا کہ ’’بعض دفعہ انسان بے خیالی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی کوئی بات کہہ دیتاہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے بے انتہا درجات بلند کرتاہے اور بعض اوقات لاپرواہی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ زبان سے نکال دیتاہے جس کی وجہ سے جہنم میں جاگرتا ہے۔‘‘

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’زبان ہی سے انسان تقویٰ سے دورچلا جاتا ہے زبان ہی سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان ہی سے فرعونی صفات آجاتی ہیں اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعمال کو ریاء کاری سے بدل لیتاہے۔ اور زبان کا زیاں بہت جلد پیدا ہوتاہے زبان کا زیاں خطرناک ہے اسلئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتاہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ281)

حضرت معاذؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ؐ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا کام بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے اور دوزخ سے بچائے اس پر آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں نیکی کے دروازوں کے متعلق نہ بتاؤں۔ سنو! روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسے بجھا دیتاہے جیسے پانی آگ کو۔ رات کے درمیانی حصہ میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا کہ میں تمھیں سارے دین کی جڑاور چوٹی بلکہ اس کا ستون نہ بتاؤں۔ فرمایا کہ دین کی جڑ اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے پھر فرمایا کہ تمہیں دین کا خلاصہ نہ بتاؤں میں نے کہا کہ جی رسول اللہ۔ آپؐ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس کا بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ لوگ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیوں کی وجہ سے ہی تو اوندھے منہ جہنم میں گرتے ہیں۔

(ترمذی)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

بدبخت تر تمام جہاں سے وہی ہوا
جو ایک بات کہہ کر ہی دوزخ میں جا گرا
پس تم بچاؤ اپنی زبان کو فساد سے
ڈرتے رہو عقوبت رب العباد سے

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتاہے کہ ’’اے محمد ؐ میرے بندوں سے کہہ دو کہ ہمیشہ وہ بات کہا کرو جو سب سے زیادہ احسن اور اچھی ہو۔‘‘ (بنی اسرائیل آیت 54) نیز فرمایا کہ ’’لوگوں کے ساتھ بھلائی اور نیکی کی بات کیا کرو۔‘‘ (بقرہ 84)

پیارے آقا محمد مصطفیٰ ؐ نے فرمایا کہ ’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے اسے چاہیئے کہ وہ نیکی اور بھلائی کی کوئی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔‘‘ (بخاری)۔ پھر فرمایا ’’مومن طعنہ زنی کرنے والا،لعنت ملامت کرنے والا، فحش کلام اور زبان دراز نہیں ہوتا۔‘‘ (ترمذی)

زبان کا غلط استعمال انسان کو نقصان دیتا ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’من کثر کلامہ کثر خطاءہ‘‘۔ جو زبان دراز ہوتے ہیں بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں یا باتونی ہوتے ہیں ان سے خطائیں بھی زیادہ سرزد ہوتی ہیں۔

پھر حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کو تمہاری تین باتیں ناپسند ہیں۔ 1۔ قیل و قال یعنی فضول بیٹھ کر گپیں مارنا یا فضول بولتے چلے جانا بالکل ناپسند ہے۔ 2۔ کثرت سوال3۔ مال کو ضائع کرنا یعنی فضول خرچی کرنا‘‘

حضرت جابر ؓ بیان کرتےہیں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا ’’قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے۔ اور تم میں سے سب سے زیادہ مجھ سے دور اور مبغوض وہ لوگ ہوں گے جو ثرثار یعنی منہ پھٹ اور بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والے ہوں اور لوگوں پر تکبر جتلانے والے ہوں اور منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے۔‘‘ (ترمذی)

پھر فضول گوئی سے اجتناب اور حسن اسلام کا ذکر کرتے ہوئے آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’انسان کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ لایعنی بیکار اور فضول باتوں کو چھوڑدے۔‘‘ (ترمذی)

پھر زبان کا غلط استعمال چغل خوری کی صورت میں بھی ظاہرہوتاہے۔ لوگ ایک دوسرے کے خلاف باتیں کر کے ایک دوسرے کو آپس میں دشمن بنادیتے ہیں۔ اسلئے آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ ’’چغل خور جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوگا۔‘‘ (بخاری)

اسی طرح آنحضرت ؐ نے فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جو دوسرے مسلمانوں کو اپنی زبان اور ہاتھ کی اذیتوں سے محفوظ رکھے۔‘‘ (بخاری)۔ اسی لئے یہ محاورہ مشہور ہے کہ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ کاری اور تکلیف دہ ہے۔ اسلئے پہلے تولو اور پھر بولو، یہ نہ ہو بعد میں پچھتانا پڑے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس کے بندوں پر رحم کرواور ان پر زبان یاہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہواور کسی پر تکبر نہ کرو گویا اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتاہو غریب اور حلیم اور نیک بخت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤتاقبول کئے جاؤ۔‘‘ (کشتی نوح)

آنحضرت ؐ زبان کا ایک اور نقصان جو تمام گناہوں کی جڑ ہے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جھوٹ انسان کو فسق وفجورکی طرف لے جاتاہے اور فسق وفجورجہنم کی طرف اور جو شخص جھوٹ بولے وہ آسمان پر کذاب لکھا جاتاہے۔‘‘ (بخاری)

زبان کی اور ایک بدخلقی احسان جتلانا اور جھوٹی قسم کھانا ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سےکلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گااور نہ ان کا تزکیہ فرمائے گا۔ اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ آپ ؐ نے بڑے جلال کے سے تین باران کلمات کو دہرایا۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے پوچھا یارسول اللہؐ! یہ کون لوگ ہیں؟ تو آپ ؐ نے فرمایا 1۔ وہ جو تکبر سے کپڑے گھسیٹتے ہیں 2۔ بات بات پر احسان جتلاتے ہیں 3۔ اور جھوٹی قسمیں کھاکر اپنا سامان فروخت کرتے ہیں۔‘‘

ایک اور نقصان زبان کا غیبت کرنا ہے یعنی کسی کی پیٹھ پیچھے اسکی برائیاں کرنا۔ قرآن کریم نے اسے نہایت مکروہ قرار دیتے ہوئے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔

معراج کی رات ہمارے آقا حضرت محمد ؐ نے غیبت کرنے والوں کا نہایت بد اور دردناک انجام دیکھا۔ آپ ؐ فرماتے ہیں ’’معراج کی رات میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گذرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے میں نے پوچھا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھایا کرتےتھے اور ان کی عزت سے کھیلا کرتے تھے یعنی ان کی غیبت کیا کرتےتھے۔‘‘ (ابوداؤد)

پھر آنحضرت ؐ نے زبان کے غلط استعمال پر وارننگ دیتے ہوئے فرمایا حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا ’’جانتے ہومفلس کون ہے؟ ہم نے عرض کیاکہ جس کے پاس مال و دولت نہ ہو اور نا کوئی سازو سامان ہو اور کوڑی کوڑی کا محتاج ہو۔ آپ ؐ نے فرمایاکہ نہیں بلکہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزہ اور زکوۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا مگر اس نے کسی کو گالی دی ہوگی کسی پر تہمت لگائی ہوگی کسی کا ناحق مال کھایا ہوگا کسی کا خون بہایا ہوگا کسی کو مارا ہوگا پس اُن مظلموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو اُن لوگوں کے گناہ اس کے سرپر ڈال دیئے جائیں گے اور اس طرح وہ جنت کی بجائے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور یہی شخص دراصل مفلس ہے۔‘‘ (مسلم)

درحقیقت زبان کا تعلق تقویٰ اور خوف خدا سے ہے زبان کی حفاظت کے بغیر انسان متقی نہیں بن سکتا اور نہ سچا تقویٰ اسے نصیب ہوتاہے اور نہ خداکا قرب۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’انسانی زبان کی چھری تو رک سکتی ہی نہیں جب خدا کا خوف کسی دل میں نہ ہو۔انسانی زبان کی بے باکی اس امر کی دلیل ہے کہ اس کا دل سچے تقویٰ سے محروم ہے۔ زبان کی تہذیب کا ذریعہ خوف الہیٰ اور سچا تقویٰ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد3)

اسی طرح آپ حضرت اقدسؑ نے فرمایا ’’تقویٰ کے بہت سے شعبے ہیں جو عنکبوت کے تاروں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں تقویٰ جو تمام جوارح انسانی اور عقائد، زبان، اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے۔ نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔ بسااوقات تقویٰ کو دور کرکے ایک بات کہتاہے اور دل میں خوش ہوجاتاہےکہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا حالانکہ وہ بات بری ہوتی ہے مجھے اس پر ایک نقل یادآئی ہے کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی جب وہ بزرگ کھانا کھانے تشریف لےگئے تو اس متکبر دنیادار نےاپنے نوکر کو کہا کہ فلاں فلاں تھال لاناجو ہم پہلے حج میں لائے تھے اورپھر کہا کہ دوسرا تھال لانا ہم ددوسرے حج میں لائے تھے اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایاکہ تو بہت ہی قابل رحم ہے ان تینوں فقروں میں تونے اپنے تین حجوں کاستیاناس کردیا۔ تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھاکہ تواس امر کا اظہار کرے کہ تونے حج کئے ہیں اسلئے خدا نے تعلیم دی ہے زبان کو سنبھال کر رکھا جائے۔ اور بے معنی بےہودہ، بے موقع، اور غیرضروری باتوں سے احتراز کیاجائے۔ حدیث شریف میں آتاہے کہ جو شخص ناف کے نیچے کے عضو اور زبان کو شر سے بچاتا ہے اسکی بہشت کا ذمہ دار میں ہوں‘‘

فرمایا ’’حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قول زور۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے یہ سخت غلطی ہے اگرکوئی ایسا سمجھے۔ غرض اس سے معلوم ہو اکہ زبان کا زیاں خطرناک ہے اسلئے متقی اپنی زبان بہت ہی قابو میں رکھتاہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔ پس تم اس زبان پر حکومت کر ونہ یہ کہ تمہاری زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناب شناپ بولتے رہو۔ ہرایک بات کہنے سے پہلے سوچ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا اللہ تعالیٰ کی اجازت اس کے کہنے میں کہاں تک ہے جب تک یہ نہ سوچ لو مت بولو۔ایسے بولنے سے جو شرارت کا باعث اور فساد کا موجب ہو،نا بولنابہتر ہے۔لیکن یہ بھی مومن کی شان سے بعید ہے کہ امرحق کے اظہار میں رکے۔ اُس وقت کسی ملامت کرنے کی ملامت اور خوف زبان کو نہ روکے۔پس زبان کو جیسے خداتعالیٰ کی رضامندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے اسی طرح امر حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1)

پس اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطافرمائے کہ ہم اپنی زبانوں کو امرحق کے بیان کرنے کے لئے استعمال کریں تا اس دنیا میں بھی نجات ہو اور آخرت میں بھی۔ آمین

حضرت اقدس فرماتے ہیں:

دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کربچائے گا
سیدھا خداکے فضل سے جنت میں جائےگا
وہ ایک زباں ہے عضونہانی ہے دوسرا
یہ ہے حدیث سیدنا سید الوریٰ

(خواجہ مظفر احمد۔مبلغ سلسلہ تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ