• 6 مئی, 2025

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا وصفِ شعرو سخن (قسط دوم)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا وصفِ شعرو سخن
قسط دوم

مرزا غالبؔ اور آپؒ

چنانچہ1979ء میں حضرت صاحبزادہ صاحبؒ نے خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی درخواست پر سرائے خدمت میں ’’مرزا غالبؔ‘‘ کے موضوع پرایک فی البدیہہ قسم کالیکچر دیا تھا۔اس کے کچھ حصے ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ یہ لاثانی مضمون اپنی مثال آپ ہے اور تاریخِ ادبِ اُردو میں غالبؔ کے اشعار کی خوبصورت اور لطیف تشریحات پر مشتمل ایک منفرد شاہکارہے۔ اگر غالبؔ کی شاعری فطرت، فراست، نفسیات، تصوف اور قدرت کے دقیق سربستہ رازوں کو سموئے ہوئے ہے تو یہ تشریحات ان رازوں کے عمیق کونوں کھدروں کوسرِ عام اوربے دھڑک بے نقاب کر رہی ہیں۔صلاحیت ِ سخن اور سخن فہمی آپ ؒ کو منبع فیض سے بدرجہئ کمال حاصل تھی۔ غالبؔ پر مشکل پسندی کا اعتراض کرنے والوں کے جواب میں اس نے خود یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ؎

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

مگر حضرت صاحبزادہ صاحبؒ بعض دفعہ اس کا کہا ہوا اس طرح کہہ جاتے کہ گویا اس کے دل و دماغ کا سب کچھ آپؒ جانتے ہیں۔ اس کا کہا ہوا ہرمشکل شعر جب آپؒ بیان کرتے ہیں تو وہ آسان ہو جاتاہے۔ آپ ؒ غالب کوہر سننے اور پڑھنے والے کے قریب کر دیتے ہیں۔

یہ سچ تو اپنی جگہ ہے مگر ان تشریحات کی اوٹ میں حضرت صاحبزادہ صاحبؒ کی ذات کے کئی پہلو بھی اپنے اندر اپنی دلآویز تابنا کیوں اور جلووں کے اظہار کے ساتھ آپؒ کی اپنی شاعری کے علو و ارتفاع کو پیش کر جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ جو خوبیاں آپؒ نے غالبؔ کے کلام کی پیش فرمائی ہیں، ان سے آپؒ کا اپنا کلام بھی خوب مزین ہے۔یہاں ان کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں مگر ان پر غور کرنے والا ہر صاحبِ ذوق و فن اپنے اپنے ظرف و ادراک کے مطابق غیر معمولی خوبیاں اور حسن و بُو ملاحظہ کرتا ہے۔ الغرض غالبؔ کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا:
’’خدام الاحمدیہ نے نوٹس دیا ہوا تھا لیکن دو دن پہلے خالد مسعود (ملک خالد مسعود صاحب) نے مجھے دیوانِ غالبؔ لا کر دیا او روہ دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر چلتا رہا۔ موقع نہیں ملا مجھے دیکھنے کا۔ آج شاہ صاحب تشریف لائے تو انہوں نے نوٹس دیا لیکن دوسرے مہمان آگئے۔ چار بجے کھولاتو الف کی پٹی بھی ابھی پوری نہیں پڑھی تھی کہ نماز کا ٹائم ہوگیا۔ پھر میں نے جلدی جلدی میں نماز کے اور اس وقت کے دوران یاد سے کچھ شعر لکھ لئے ہیں۔ تو آپ لوگوں کا وہی حال نہ ہو کہ ؎

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

عذر سے میں نے بات شروع کی ہے لیکن غالبؔ کے ہاں عذر کا کوئی دستور نہیں۔ لیکن وہ ایک ایسا شاعر ہے کہ اپنے خلاف ایسے ایسے مضمون تراشتا ہے اور ایسی گہری نظر سے اپنے نفس کا تجزیہ کرتا ہے کہ جہاں دوسروں کو گناہ نظر نہیں بھی آتا وہاں اس کو نظر آجاتا ہے۔ مثلاً کہتا ہے۔ ؎

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

لوگ تو کہتے ہیں کہ جی بوڑھا ہوگیا تو نیک ہوگیا اور چلو یہی سہی۔ آخری عمر میں توکچھ نیکی کی اس نے۔ لیکن غالبؔ کے ہاںیہ بیچارگی کے مترادف ہے۔ اور حقیقت میں وہ اس فلسفہ کو خوب سمجھتاہے کہ گناہ تو وفورِ جذبات کے وقت نفس کو روکنے کا نام ہے نہ کہ بے اختیاری کی حالت میں معصومیت کا نام۔ اس کے علاوہ بھی وہ بعض ایسی باتیں کرتا ہے جو دنیا کے ادب میں کسی شاعر نے اپنے خلاف نہ کہی ہوں گی۔ مثلاً کہتا ہے کہ ؎

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا ربّ! اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

ناکردہ گناہ،پکڑے جانے کے شکوے جو آپ کو دُنیا کے ہر ادب میں ملیں گے۔ لیکن ناکردہ گناہوں کو اپنے جرموں میں شمار کرنا یہ ایک ایسا استثنائی کلام ہے جو میرے علم کے مطابق محدود ہے۔ وہ غالبؔ کے سواکہیں اور نظر نہیں آتا۔ سارے کلام میں مجھے صرف ایک عذر اس کا ملا ہے جو اس کے نزدیک درخورِ اعتناہے۔ اور وہ بھی عذر کا نہ ہونا ہے۔ کہتا ہے۔ ؎

رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا

سب سے مضبوط عذر جو اس کو ملا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی نہیں ملا کہ وہ عذر کوئی نہیں کرتا ایک تو اپنے گناہوں سے واقف بھی نہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کی حجت تلاش نہیں کرتا۔

اس تمہید کے بعد جو شعرمیں نے جلدی جلدی گھسیٹے ہیں ان کے متعلق کچھ عرض کرتا ہوں۔

غالبؔ کے ہاں بعض تصویریں ملتی ہیں۔ وہ ایک نقّاش ہے، ایک مصوّر ہے۔ اور آواز کے بغیر جو اس نے تصویر کشی کی ہے وہ بہت ہی خوبصورت طرزبیان ہے۔ مثلاً کہتا ہے کہ ؎

مدّعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے
آئینہ خانے میں کوئی لئے جاتا ہے مجھے

اس پر غور کریں اس کے مضمون میں ڈوب کر بہت ہی حسین دلکش نظارہ انسان کے سامنے آتا ہے۔ وہ مدّعاجو دل کی زینت تھا وہ جب حسرت میں تبدیل ہوا اور دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا تو ہر ذرّہ دل میں وہ مدّعا قطروں کی طرح چمکنے لگا۔ آئینہ خانہ اس جگہ کو کہتے ہیں……… لوگ آئینہ خانے میں جاتے تھے تو ہر طرف شیشے میں ایک کی بجائے سینکڑوں تصویریں ایک دوسرے سے ٹکر کھاتی نظر آتی تھیں تو کہتا ہے وہ مدعا جو کبھی دل کی زینت تھا اس کی شکست کے نتیجے میں دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور ایک مدعا نہیں ہر ٹکڑے میں اس مدّعا کو اپنی تصویر نظر آرہی ہے۔ ایک بہت ہی حسین تصویر کشی ہے غالبؔ کی۔ کچھ سادہ الفاظ میں کچھ مشکل طرز میں۔ سادہ الفاظ میں اس کی تصویرکشی کے مناظر میں سے دو پیش کرتا ہوں۔ ؎

تماشا کر اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

محوآئینہ داری میں لفظ محویت میں یہ بتایا کہ دیکھنے والا خود اپنے حسن میں محوہوگیا ہے، گم ہوگیا ہے، متأثر ہے اور اس کو یہ بتانے کا اس سے اچھا کیا موقع ہے کہ تمہارااپنا یہ حال ہے تو ہم جو غیر نظر سے تجھے دیکھ رہے ہیں اور تیری محبت میں مبتلا ہیں ہماری کیا کیفیت ہوئی ہوگی۔ کچھ اندازہ کرنے کا یہ بہت اچھا وقت ہے کہ جو دوسرے تجھے پیاری نظر سے دیکھتے ہیں ان پر تیرا کیا اثر ہوتا ہوگا اس مضمون کو نسبتاً ہلکے رنگ میں ایک اور طرح غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے۔ ؎

آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

’’اپنا سا منہ لے کے رہ گئے‘‘۔ ایک اور حُسن ہے جو اس میں نہیں ہے کہ اپنا سامنہ لے کر رہ جانا ایک طرف تو شرمندگی اور دوسری طرف شرمندگی اس بات پر کہ ہم تو اتنے خوبصورت ہیں کہ خود اپنے ہی حسن کا شکارہوگئے۔ اس ’’اپنا سا منہ‘‘ میں حسن پیدا کردیا ہے۔ ایک اور یعنی محض تحسین کا کلمہ نہ رہا بلکہ تعریف کی انتہا ہوگئی۔ آئینہ دیکھ اپنا سامنہ لے کے رہ گئے کہ آئینے میں اپنے ہی سا منہ نظر آیا کرتا ہے۔ تو ایک نہیں بلکہ کئی پہلو ہیں حسن کے اور یہی غالبؔ کی خصوصیت ہے کہ جو بات کہتا ہے اُسے الٹ پلٹ کے دیکھیں تو ہرزاویے سے ایک نیا حسن نظر آتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ ؎

تُو اور آرائش خَمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز

ہائے دور دراز سے جو نسبت ہے وہ ظاہر ہے۔ لیکن یہ بھی ایک خا موش تصویر ہے۔ ایک شخص آرائش خمِ کاکل میں محو ہے اور دوسرا اندیشہ ہائے دوردراز میں ہے۔

اور اندیشہ کو ظلمات سے ایک نسبت ہے۔ اندھیرے اور کاکل میں بھی ایک ظلمت کا پہلو پایا جاتا ہے۔ اور خم میں بھی پیچیدگی کامفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ تو ہر لفظ دوسرے کے ساتھ اس خوبی کے ساتھ منطبق ہورہا ہے کہ حسن میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

پردے اور حجاب کے ذکر میں ایک یہ شعر بھی میرے ذہن میں آیا جوبہت ہی اُونچے درجے کا ہے۔ خدا تعالیٰ کی ہستی کو مخاطب کرکے غالبؔ کہتا ہے۔ ؎

محرم نہیں ہے تُو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

یہاں حجاب او رپردے کے مضمون کو آپس میں ایک دوسرے کے مقابل اس طرح باندھاگیا ہے کہ حجاب، حجاب کا کام نہیں دے سکتا بلکہ بے حجابی کے کام آرہاہے۔ کیونکہ پردہ ساز آواز کے اٹھانے کے لئے کام آتا ہے اور بظاہر نام پردہ ہے لیکن حقیقت میں اس سے سوز کے مخفی اور گداز جذبات صوتی شکل میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ بظاہر محرم ہائے راز تو تُو ہی ہے لیکن جو پردہ بھی تیری راہ میں حائل ہے جب ہم اس پردے کا نظارہ کرتے ہیں تو تیرے حُسن کی تصویر ابھرتی ہے اور تیری ذات کا تصور عجیب رنگ میں ہماری آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوتا ہے۔

غالبؔ کے ہاں ارتقائی تصو ّرات بھی ملتے ہیں۔ ڈارون والا ارتقاء نہیں بلکہ سوچ کا ارتقاء اور ایک چیز پر نہ ٹھہرے رہنا بلکہ اُس سے آگے، اس سے آگے کی تلاش اور جستجو اور اس چیز کو اپنے محبوب میں بھی دیکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حسنِ کامل کا جو تصور ہے اس میں ٹھہراؤ کوئی نہیں اور اگر حسن میں ٹھہراؤ ہو تو عشق زائل ہوجاتا ہے۔ یہ بہت ہی بنیادی نکتہ ہے کہ عشق میں اگر دوام چاہئے ہو تو حسن میں بھی ایک مسلسل ترقی کی جانب حرکت ہونی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل اللہ حقیقی عشق صرف خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں کیونکہ اس کے سوا کسی حسن میں بھی مستقل حرکت اور ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہونے کی کیفیت نہیں پائی جاتی ہے۔ جس کو قرآن کریم یوں بیان فرماتا ہے:

’’کُلَّ یَوْمٍ ھُوَفِیْ شَاْنٍ۔فَبِاَیِّ اٰلآءِ رَبِّکُمَآتُکَذِّ بَانِ۔‘‘

اگر خدا تعالیٰ کے حسن کا ایک ہی جلوہ ہمارے سامنے رہتا تو باوجود اس کے کہ وہ جلوہ کامل ہوتا پھر بھی تم بور ہو جاتے کیونکہ ہم نے انسانی فطرت کو ٹھہراؤ کے لئے پیدا نہیں کیا۔ کن کن نعمتوں کا تم انکار کرو گے کہ خدا تعالیٰ اپنے حسن کا بھی صرف ایک جلوہ تمہارے سامنے نہیں رکھتا۔ کبھی کسی جلوے کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے کبھی کسی جلوے کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ غالبؔ اس تصور کو زبردستی اپنے محبوب پر ٹھونستا ہے۔ بات اس کی سچی نہ سہی لیکن راز جو پاگیا وہ درست ہے۔ کہتا ہے۔ ؎

آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

تو ایک مقام نہیں ہے جہاں میرا محبوب اپنے حسن پر تسلی پاجائے۔ یہاں لطف کی بات یہ ہے کہ محبوب کا ذوقِ نظر بھی بہت بلند دکھایا گیا ہے۔ صرف حسن نہیں یعنی محبوب کا ذوق خود اس راز کو جانتا ہے کہ کسی ایک مقام پر بھی میںٹھہر گیا تو میں پرستش یا پیار کے قابل نہیں رہوں گا۔ کہتا ہے۔ پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں۔ ہمیشہ جستجو رہتی ہے کہ میں پہلے سے بہتر اور بہتر تر ہوتا چلا جاؤں۔ یہی تصور اس کے ہاں کائنات کی جستجو میں ملتا ہے، غالبؔ کے ہاں۔ کہتا ہے ؎

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا

بعض دیوانوں میں ’’اِدھر‘‘ لکھا ہوا ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ مراد یہ ہے کہ انسان کو جو بھی جگہ ملے سوچ اور فکر کی وہ اس کی زمین بن جاتی ہے اور انسانی فطرت ہے کہ اس کے اوپر آسمان ضرور بنایا جائے۔ کہتا ہے ؎

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا

اسی مضمون کو ایک اور رنگ میں باندھتا ہے لیکن اس میں ایک سراب کی کیفیت پیدا کرکے ایک حسرت کی اک نہ ختم ہونے والی جستجو کی۔ کہتا ہے ؎

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا ربّ!
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالبؔ کی سوچ کتنی لطیف، کتنی گہری اور کتنی ہمہ گیر تھی اور اس کی نظر کتنی باریک تھی اور وسعتوں میں لامتناہی تو نہیں ہم کہہ سکتے ہیں لیکن اتنی وسعتیں ہمیں ضرور نظر آتی ہیں کہ عام انسانی ذہن ان کا تصور نہیں کرسکتا۔کہتا ہے ؎

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب

یہ سارا دشت ِ امکاں کہہ کر اسے سراب کے مضمونِ بند میں پیش کیا کہ ہر امکان جو اس کائنات میں ہمیں دکھائی دے رہا ہے جہاں ہم تلاش کرتے ہیں، اپنے ماحَصل کو، اپنے منتہٰی کو، اپنے مدعا کو یہ ایک دشت ہے۔ اس میں ملتا کچھ نہیں۔ لیکن اس جستجوکا ضرور کوئی نہ کوئی اگلا قدم تو ہونا چاہئے۔ تو یہ تو پہلا قدم ہے جو دشت ِ امکاں میں ہمیں نظر آیا تمنا کا۔ اور وہ دوسرا قدم کہاں ہے جہاں ہمیں سب کچھ مل جائے گا۔ یہ انسانی فطرت کی نہ ختم ہونے والی جستجو، نہ ختم ہونے والی پیاس کو اس سے زیادہ حسین رنگ میں میرے خیال میں شاید ہی دنیا کے کسی شاعر نے بیان کیا ہو۔ کم سے کم میں نے جیسا کہ عرض کیا تھا میرے محدودعلم میں اس شعر کی کوئی مثال کہیں نظر نہیں آتی۔

غالبؔ کے ہاں شکوہ بھی ملتا ہے اور جواب شکوہ بھی لیکن صرف دو شعروں میں۔ جس مضمون کو اقبالؔ نے دو کتابوں کی شکل میں،اشعار کے دو گلدستوں کی شکل میں پیش کیا۔ اس کو انتہائی شدّت کے ساتھ اور ٹھسے ہوئے مضمون کے ساتھ غالبؔ نے دو شعروں میں بیان کردیا اور دونوں میں انسان کے لئے ایسا موادموجود ہے کہ ہر شعر اپنی ذات میں اس کو راضی کرلیتا ہے۔ اتنی قوی دلیل اور ایسے جذبے کی بے اختیاری اور شدت اپنے اندر رکھتا ہے کہ دونوں کے اندر توازن پایا جاتا ہے۔ اقبال کے اوپر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ شکوہ میں تو زور ہے لیکن جواب شکوہ میں وہ زور نہیں اور وہ پلڑا جو ہے وہ ہلکا اور اُوپر اُٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ غالبؔ کا شکوہ اپنے ربّ سے یہ ہے کہ ؎

کیا وہ نمردو کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جذبے کا اتنا شدید اظہار، اتنی قو ّت اور زور کے ساتھ۔ مجھے دریائے بیاس یادآجاتا ہے۔ جو ہم کئی دفعہ اس کا دَہانہ دیکھنے کے لئے گئے تھے۔ تو جہاں وہ تنگ ہوجاتاہے بہت او ر غاروں اور چٹانوں کے بیچ میں سے رستہ نکال کے گزرتا ہے وہاں اس کے اندر بے انتہا شد ّت پائی جاتی ہے، بہت زور پایا جاتاہے تو اس جذبے کو ایک چیختی شکل میں تبدیل کردیتا ہے ؎

کیا وہ نمردو کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

ساری عمر بندگی کی اور کچھ نہیں پایا۔ آخر وہ کیا خدا تھا جس کی ہم پرستش کرتے رہے۔جواب سنئے ؎

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کیسا پیاراجوابِ شکوہ ہے۔ وہ کیا بندگی تھی، کیا کیا کچھ ہم نے خدا کے لئے کیا۔ جب اس پہ نظر ڈالتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اپنے پاس سے کچھ نہیں لائے ؎

سب کچھ تیری عطا ہے
گھر سے تو کچھ نہ لائے

اُس مضمون کو یہ اپنے رنگ میں باندھ رہا ہے۔ہمارے پاس تھا کیا۔جو کچھ تھا وہ خدا ہی نے دیا ہوا تھا اور وہ سب کچھ بھی ہم اس کی راہ میں دے نہ سکے۔ساری عمر گناہوں میں مبتلا رہے۔ غیراللہ کی طرف بھاگتے رہے۔ اپنی خواہشات کو اِلٰہ بنائے رکھا اور آخر پر کیا نکلا، جان ایک رہ گئی تھی وہ دے دی اور بڑا کمال کردیا۔ تو ؎

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

جان تو دے دی واپس لیکن جان کا حق ادا نہیں ہوا۔ یہ ہے اس میں مضمون۔ جان نے جو فرائض، جو مطالبے ہم پر عائد کئے تھے، جو تقاضے قائم کئے تھے ان میں سے کسی تقاضے کو پورا نہیں کرسکے۔ امانت اسی طرح لوٹا دی ہے۔ اس سے زیادہ ہم نے کوئی بندگی نہیں کی او رجان دینا بظاہر بندگی کی انتہا سمجھا جاتا ہے۔ پس اِس مضمون میں جو بظاہر کتنا سادہ اور آسان شعر ہے لیکن اِس میں بہت ہی گہرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ اِسی قسم کے بہت سے ہیں موازنے۔ غالبؔ نے ایک ہی مضمون کو مختلف رنگ میں بیان کیا ہے۔ کہیں نرمی او رپیار کے ساتھ اور اس میں حسرت کا پہلو اور ملائمت پائی جاتی ہے اور کہیں شد ّت اور زور کے ساتھ اور وہاں بھی اسی طرح دریا کا سا منظر آتا ہے کہ دریا جب پھیل جاتے ہیں تو ان میں ایک خاموشی پائی جاتی ہے اور بہت ہی سکون کا منظر نظرآتا ہے لیکن جب وہ تنگ ہو کر رستہ نکالتے ہیں تو اُن میں شدت پائی جاتی ہے۔ انسانی فطرت بھی کائنات کی طرح کے نظارے اپنے اندر رکھتی ہے….

غالبؔ کے ہاں جہاں تصوّف کے مضامین پائے جاتے ہیں وہاں ایک قسم کی چالاکی اور ہوشیاری بھی پائی جاتی ہے اور اس کے تصوّف میں اپنے گناہ اور شراب اور یہ سب چیزوں کا مضمون سمویا جاتا ہے۔اکثر یہی دیکھا گیا ہے۔ اس کی ایک بہت پیاری مثال یہ ہے۔ کہتا ہے ؎

سرپائے خم پہ چاہئے ہنگامِ بیخودی
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہئے

سرپائے خم پہ چاہئے ہنگامِ بیخودی۔’’کُلَّ یَوْمٍ ھُوَفِیْ شَاْنٍ‘‘ کا ایک یہ جواب ہے۔ اس نے اپنی طرف سے تراشا ہے۔ کہتا ہے خدا کی صفات جو ہیں ان کے مختلف جلوے ہوتے ہیں۔ یہ پیمانے میں او رخم میں جو چیز ہم پیتے ہیں یہ کہاں سے آئی۔ یہ کیف ومستی یہ خدا ہی کی تو تخلیق ہے۔ اس لئے خدا کی صفت جہاں بھی نظر آئے سرپائے خم پہ اس وقت انسان کو صفات ِباری تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہئے۔

رُو سُوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہئے

جب عبادت کا وقت ہو تو وہی رُخ سوئے قبلہ کرلیا کرو اور دلیل سنئے ؎

یعنی بحسبِ گردش پیمانہئ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہئے

کیسا پیارا مضمون باندھا ہے اس نے شراب کی گفتگو میں۔ ’بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر‘ کا یہ ایک ثبوت ہے۔ کہتا ہے۔ ’یعنی بحسبِ گردش پیمانہ صفات‘ یعنی صفات باری تعالیٰ کا پیمانہ ہر وقت گردش میں ہے اس کے مطابق فعل کیا کرو۔ یہ نہ ہو کہ مے نوشی کا وقت ہو اور تم نمازوں میں مبتلا ہوجاؤ۔ یہ فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے کیونکہ یہ قضائے حال کے منافی ہوگا۔ اس لئے جب صفات باری تعالیٰ ایک خاص رنگ میں پیش ہوں۔ جب بادل اٹھ رہے ہوں، جب گھٹا آئی ہو، تو اسی طرح کا اظہارتم کیا کرواو رمے نوشی کے وقت مے نوش ہوجاؤ۔ ہاں ذات باری تعالیٰ کاتصو ّر ہمیشہ پیش نظر رہے۔ سر وہاں بھی خدا کے حضور جھکنا چاہئے کیونکہ اُسی کی صفات ہیں جو سارے نظارے پیش کررہی ہیں۔ ؎

عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہئے

غالبؔ کے ہاں مختلف جگہ بکھرے ہوئے سوال اور ان کے جواب بھی ملتے ہیں۔ اور جتنی بھی فصیح و بلیغ کتابیں ہیں اور فصیح و بلیغ کلام ان میں یہ بات آپ کو نظر آئے گی کہ ضروری نہیں کہ سوال او رجواب اکٹھے ہوں۔ ایک سوال اپنا لطف دے جاتا ایک الگ جگہ اور ایک جواب اپنی جگہ الگ آتا ہے اور وہاں لطف دے جاتا ہے۔ جب ان کو آپ جوڑ کر دیکھیں تو تب سمجھ آتی ہے کہ سوال کیا تھا،جواب کیا ہے۔ ایک Situation ہے، ایک صورت حال ہے۔ جسے غالبؔ یوں بیان کرتا ہے۔ ؎

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا ربّ
کوئی آبلہ پا وادی پُرخار میں آوے

کہ زبانِ حال سے سوکھی ہوئی زبان فریاد کررہی ہے کہ پیاس سے سوکھ گئے ہیں۔ کوئی آبلہ پا آئے، کوئی ایسا رحم دل انسان ظاہر ہوجو اپنے خون سے ہماری آبیاری کرے اور اپنے آبلے پھوڑے ہمارے لئے۔ یہ مضمون اپنی ذات میں بہت گہرا ہے۔ بسا اوقات زمانوں پر ایسی کیفیتیں آیا کرتی ہیں کہ ان کی زبانیں سوکھ کے کانٹوں میں تبدیل ہوجایا کرتی ہیں تو آبلہ پا ہی ہیں جو ان کی پیاس بجھاتے ہیں اور ان کو پھر چمن زاروں میں تبدیل کیا کرتے ہیں۔ اس کا جواب اب سنئے۔ غالبؔ کہتا ہے ؎

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر

وہ آبلہ مَیں ہی تو تھا جس کی تمنا کی جارہی تھی۔ جس کے لئے آوازبلند ہورہی تھی۔ تومیرا دل ان کانٹوں کو دیکھ کر خوش ہوگیا ہے۔ اب یہ بظاہر تو دنیا کی کیفیت ہے مگر حقیقت میں یہ وجود میں صرف اسی وقت آتی ہے، ظاہر میں جب انبیاء دنیا میں تشریف لایا کرتے ہیں۔ وہی ہیں جو حوصلہ رکھتے ہیں کانٹوں کی پیاس بجھانے کا اپنے آبلوں سے۔ او رو ہ اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں،بے دھڑک وادی پُر خار میں قدم رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آگئے ہیں ہم۔ اب جو تم نے کرنا ہے کرو۔ ہماری طرف سے تمہیں خیر ہی پہنچے گی اور ہم تمہاری پیاس بجھانے کی کوشش کریں گے خواہ اس میں ہمارا لہو پانی ہوجائے۔

غالبؔ کے ہاں فطرت کے گہرے رازعام سادہ الفاظ میں بیان ہوئے ہیں۔ لیکن بسا اوقات غالبؔ کے ساتھ یہ زیادتی کی جاتی ہے کہ ان کا سطحی نظارہ کرکے لوگ آگے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان شعروں میں بہت ہی گہرے فطرت کے راز پائے جاتے ہیں ان کا تجزیہ کیا جائے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتاہے۔ مثلاً عام سا ایک شعر ہے کہ ؎

سب رقیبوں سے ہیں نا خوش پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محو ماہِ کنعاں ہوگئیں

یہ پہلے مصرعے اور دوسرے مصرعے میں جو فرق دکھا یا گیا ہے اسی میں ذرا تضاد ہے کہ کیا وجہ تھی اور رقابت کیوں پیدا ہوتی ہے۔ اس کابیان کیا جارہا ہے۔ کہتا ہے کہ یہ فطرتی بات ہے کہ سب لوگ رقیبوں سے ناخوش ہوتے ہیں اور وہ کیا بات تھی، وہ کیا فرق تھا کہ ’ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہ کنعاں ہوگئیں‘۔ مراد یہ ہے کہ رقابت کا اگر تجزیہ کیا جائے تو صرف یہ خوف جو عاشق کے دامن گیر ہوتا ہے یہ رقابت کو پیدا کرتا ہے کہ ہماری بجائے محبوب کی توجہ دوسری طرف نہ ہو جائے۔ اگر محبوب اس سے بالا ہواور یہ ناممکن ہو کہ اُس کی توجہ کسی اور کی طرف بھی ہوسکے تو یہ رقابت نہیں بلکہ ایک لطف محسوس ہوتا ہے انسان کو کہ یہ بھی اس کی تعریف میں ہے جس کی تعریف نے مجھے پاگل بنا رکھا تھا تو ’ہے زلیخا خوش کہ محوماہ کنعاں ہوگئیں‘ میں ماہ کا تصو ّر دیکر ایک اور لطف پیدا کردیا۔

ماہ میں ایک دوری پائی جاتی ہے اسے پایا نہیں جاسکتا، اس کو پکڑا نہیں جاسکتا، چھؤا نہیں جاسکتا تو حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حسن ان عورتوں کے لئے ماہ کی طرح تھا او روہ اس سے لطف اندوز تو ہوسکتی تھیں لیکن وہ اُسے اپنا نہیں بنا سکتی تھیں زلیخا سے چھین کر۔پس یہی مضمون اس میں بیان ہوا کہ جب بھی محبوب کسی د وسرے کی دسترس سے بالا ہوجائے یا اس کے حصے کا پیارلے کر کسی دوسرے کو دینے کا امکان یا احتمال باقی نہ رہے تو ایسی صورت میں پھر رقابت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس مضمون میں اگر آپ اور آگے بڑھیں تو آپ کو اللہ تعالیٰ کے عشق میں رقابت کے نہ ہونے کا مضمون سمجھ آجائے گا۔

ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق اپنے محبوب سے محبت کا مطالبہ کرتا ہے اور جب ظرف بھر جائے تو اس کو کوئی پرواہ نہیں رہتی کہ وہ محبت کسی اورکو ملتی ہے یا نہیں جہاں ٹکراؤہوظرف کے بھرنے یا نہ بھرنے کا کسی اور ظرف کے ساتھ وہاں رقابت پیدا ہوتی ہے۔ انسانی ظرف اتنا محدود ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے پیاراور محبت کوپاکر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنے لئے ساری محبت کھینچ لی ہے۔ بیک وقت اس کی محبت کے جلوے بے شمار ہیں جو انسان اپنی ذات میں سمو ہی نہیں سکتا۔ اس کا دل بھربھی جائے تب بھی اوردل بھرنے کے لئے باقی ہوں گے۔ لاکھوں کروڑوں یا ہزاروں کروڑوں ایسے دماغ اور دل ہوں گے جن کو خدا تعالیٰ اپنی محبت او رپیار سے نوازسکتا ہے۔ وہ خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے محبوب کی تعریف میں اور بھی لوگ دیوانے ہوتے جارہے ہیں۔

غالبؔ کے ہاں لفظوں پر بند جس کو کہا جاتا ہے وہ اپنے کمال کو پہنچا ہوا ہے اور ایک لفظ مختلف معنوں میں ایسا چسپاں ہوتا ہے کہ جس طرح کسی ماہر نے نگینے جڑے ہوں اور ان کو اپنی جگہ سے ہلایا نہ جاسکے۔اس طرح بیٹھتے ہیں کہ ان کے رُخ پلٹنے کی بھی پھر مجال نہیں پاتا۔‘‘

اسی طرح آپؒ نے اس موقع پر بھی غالبؔ کے مزید اشعار پر تبصرے فرمائے اور ان کی تشریحات بیان فرمائیں اور بعض اور وقتاً فوقتاً مواقع اور مناظر پر بھی انہیں چسپاں کیا۔ ان کا ذکر اپنی اپنی جگہ پر ہوتا رہے گا۔ ان شاء اللہ۔ (ملخّص از ماہنامہ خالد ربوہ ’’سیّدنا طاہر نمبر‘‘)

پھر ایک اور زاویئے سے بھی آپؒ نے غالبؔ کی شاعری کے ذریعہ اس کی نفسیات اور قلبی کیفیات کی تجزیہ نگاری فرمائی ہے۔ جس سے یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ شاعر کے صرف فنِّ شعریا مضمونِ شعر کے ادا و نواشناس ہی نہیں تھے، بلکہ اس کی ا مراض و نفسیات کے بھی رمز شناس تھے۔ آپؒ کی شاعری اور طبابت کے مرکّب پر مشتمل یہ ایک دلچسپ تجزیہ ہے جس کا ذکر طبابت والے باب میں گزر چکا ہے۔

میر تقی میرؔ کو خراجِ تحسین

پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ، میر تقی میرؔ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میر کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے سے اس طرح اونچے نکلے ہیں کہ زمانہ نیچے دکھائی دیتا ہے۔ اونچا بھی اور آگے بھی نکل گئے۔ میرؔ کے شعر پڑھیں تو لگتا ہے آج ہی کسی نے کہے ہیں۔ زبان ایسی چست اور اعلیٰ درجہ کی کہ انسان یہ سوچتا بھی نہیں کہ اتنے پرانے زمانے کی اُردو اتنی اچھی ہو گی تو بعض لوگ زمانہ بناتے ہیں۔ زمانہ ان کو نہیں بناتا۔ میرؔ ان شاعروں میں سے تھے جن کو زمانے نے نہیں بنایا۔ انہوں نے زمانہ بنایا۔ اردو کے اوپر اپنی ایک چھاپ ڈالی ہے اور وہ پھر کبھی نہیں مٹ سکتی۔ جو مرضی آ جائے جتنے چوٹی کے شاعر آجائیں مگر میرتقی میرؔ نہیں بن سکتا۔ذوقؔ کہتا ہے ؎

نہ ہوا پر نہ ہوا میر ؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

چوٹی کے شعراء نے بڑا زور مارا ہے کہ میرؔ بن سکیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میر کی باتیں ہی الگ اس کے چٹکلے ہی الگ۔ ہر مصرعہ عجیب طرح سے بولتا ہوا زندہ ہے۔‘‘

(الفضل 2نومبر 1998ء)

میرؔ خود ایک جگہ کہتے ہیں ؎

گئی عمر در بند ِ فکر ِ غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے

غالبؔ نے میرؔ کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کیا ہے ؎

ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

اور ؎

غالبؔ اپنا تو عقیدہ ہے بقولِ ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد ِمیرؔ نہیں

حسرت موہانی نے کچھ یوں کہا ہے کہ ؎

شعر اپنا بھی بہت خوب و لیکن حسرت
میرؔ کا شیوئہ گفتار کہاں سے لاؤں

ان اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ میرؔ کو اردو شاعری میں کس قدر بلند مقام حاصل ہے۔ میرؔ کو خود بھی اپنے اعلیٰ و منفرد انداز کا پوری طرح احساس تھا وہ خود کہتے ہیں ؎

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مد ّت رہیں گی یاد یہ باتاں ہماریاں

دوسری جگہ کہا ؎

سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

(الفضل 15 تا 21 اگست2003ء)

داد داوری

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے صاحبِ طرز استاد شعراء کوان کے کمال فن ّ کی داد بھی دی ہے اور ان کی شاعری کی پنہائیوں میں اتر کر اس کی اصلیّت کو نکھار کربھی پیش کیا ہے۔جب آپؒ نے ان کی تخلیق کی خوبیاں بیان کی ہیں تواس بیان میں ایک ذرّہ برابر کمی نہیں کی۔ آپؒ نے دل کھول کر ان کے کلام کا حسن پیش فرمایا ہے۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں دیکھاکہ کسی شعر کے کمال فہم و ادراک کی تو بات ہی کچھ اور ہے مگر نقد و نظر میں جو رفعت و وسعتِ نظری ہے وہ بھی آپؒ کے بیان میں غیر معمولی حسن وتوازن کے ہمراہ رنگ بکھیرتی ہے۔

جہاں تک عصرِ جدید کے شعراء کا تعلق ہے، آپؒ فیض احمد فیضؔ کو بہت پسند فرماتے تھے اورتحسین وداد کے ساتھ ان کے اشعار کو اپنی گفتگو اوراپنے خطابات میں بھی زینت عطا کرتے تھے۔ اسی طرح حبیب جالبؔ کی بھی آپؒ نے خوب پذیرائی فرمائی۔ 1985ء میں آپؒ کی پسند کے باعث ان کی نظموں کی کیسٹس جماعت میں کثرت سے سنی گئی۔

23/ مارچ 1981ء کا ذکر ہے کہ آپ ؒنے اس روز جمعہ کِرتَو ضلع شیخوپورہ میں پڑھایا اور وہاں مجلس سوال و جواب بھی منعقد کی۔ وہاں سے واپسی کے سفر کے ذکر میں آپؒ فیضؔ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کِرتَو میں… فیض احمد فیضؔ یاد آیا کیونکہ یہ اس کا گاؤں ہے۔ کِرتو نے بھی خوب شاعر پید اکیا ہے۔ حد ّ ہی کر دی ہے۔ واپسی پر چوہدری انور حسین صاحب بھی ساتھ تھے اور غلام سرور صاحب بھی تھے۔ جن کی آواز بڑی سریلی اور پُرسوز ہے۔ فیض ؔ کی یاد میں انہیں فیضؔ کی نظمیں سنانے کے لئے کہا تو پتہ چلا کہ صرف تین شعر یاد ہیں۔ کِرتو سے شیخوپورہ تک سار ارستہ یہی تین شعر سنتے رہے اور پھر بھی دل نہ اکتایا مسلسل سر دھنتے رہے۔ ؎

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوا رچلے

پھر آپؒ ایک مرتبہ لندن سے اسلام آباد کے مختصر سے سفر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’راستے میں نظموں کی ایک ٹیپ لگائی تو پتہ چلا کہ غلام سرور صاحب شیخوپورہ نے میری فرمائش پر فیضؔ مرحوم کی بعض غزلیں ریکارڈ کروا کر بھجوائیں تھیں۔ غزلوں کا انتخاب میں نے خود کیا تھا۔ کچھ تو اس لئے چنی تھیں کہ پاکستان کے حالات پر چسپاں تھیں اور میرے مظلوم احمدیوں کی یاد تازہ کرتی تھیں۔ بعض تو ایسی ہیں کہ لگتا ہے جیسے فیض نے ہمیں موضوعِ سخن بنایا ہو۔‘‘

یہ تو داد داوری کا قصّہ تھا۔ اس کے برعکس ایک اور پہلو بھی نظر انداز نہ ہو جائے کہ کسی کے شعر ہوں یا سنانے والے کا خراشدار ترنّم، آپؒ اسے کسی حدّ تک برداشت تو سکتے تھے مگر اس پر تبصرہ کرنے میں سچائی کو نہ صرف یہ کہ چھپا نہیں سکتے تھے بلکہ اس کے برملا اظہار میں کسی قسم کا حجاب یا تکلّف بھی نہیں رکھتے تھے۔ مثلاً ایک مرتبہ جون1981ء میں سیالکوٹ میں رائے پور تشریف لے گئے۔وہاں سے واپسی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’شام کو اچانک موسم بدل کر سخت مزیدار ہوا چلنے لگی تھی اور بادل آگئے تھے۔ لہٰذا واپسی پر شرکاء کا مزاج شعر و ادب کی طرف مائل ہو گیا اور ایک صاحب کے متعلق پہلے تو یہ بتایا گیا کہ ہیر ؔبہت اچھی پڑھتے ہیں اور پھر یہ غالبؔ اور دیگر اساتذہ کا کلام بھی۔ میں قسمت کا مارا شعر و ادب کا متوالا ان چکنی چپڑی باتوں میں آگیا اور نظم خوانی کی اجازت دے بیٹھا۔

ہیر تو خیر جتنی پڑھی اچھی آواز میں پڑھی اور ہیرؔ کے مضمون میں کافی مناسبت تھی۔ لیکن بعد از ہیرؔ جو کارروائی ہوئی اس نے میرے اعصاب کے پرخچے اڑا دئیے۔ پہلے بہادر شاہ ظفرؔ معزول شدہ جلا وطن مظلوم بادشاہ کی شامت آئی اور ہیر کی طرز پر اس کی غزلوں کا جنازہ خراب کیا گیا۔پھر جو شامت آئی میرے محبوب شاعر غالبؔ کی تو میں بتا نہیں سکتاجو میرے دل کی کیفیت تھی۔ اعصاب کھنچ کر تنا تن ٹوٹنے لگے اور ٹوٹ ٹوٹ کربکھرنے لگے اور اعصاب کی کرچیوں نے چبھ چبھ کر تن بدن میں آگ لگا دی۔‘‘

حضرت صاحبزادہ صاحب ؒدیگر شعراء کا کلام پڑھ کر اس کی اصلاح بھی تجویز فرماتے اور اگر کسی جگہ لفظ، مطلب و مضمون میں اونچائی کی گنجائش ہوتی تو برملا تجویز فرما دیتے۔ اس سے لکھنے والا اس التفات و عنایتِ خسروی پر ناز کرتا تھا۔ گو آپؒ کی عطا فراخی داماں کامطالبہ کرتی تھی مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جس کے کلام کو وقت کا مقدّس خلیفہ خود آب دیتاہے، اس میں ایک گوناں چمک اور نکھار کا پیدا ہوجانا قدرتی امر ہے۔

عبید اللہ علیم ؔ صاحب کی شاعری کوآپؒ نے پذیرائی، برکت اور شہرت عطا کی۔ان کے کلام کا ایک خاص مقام ہے اور فن میں ایک خاص پَن۔ اسے آپؒ کی نظرِ رسا نے دیکھا اور پھر اسے جماعت میں شہرت کے افلاک تک پہنچا دیا۔کراچی اور لندن میں اپنے ساتھ بٹھا کر ان کی شاعری سنی اوربرطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں مشاعرے کروائے۔

آپؒ مکرّم پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب مضطرؔ کی شاعری کو بےحدسراہتے تھے۔ محمود ہال میں خود پاس بیٹھ کر آپ کے اعزاز میں مشاعرہ کروایا اورداد سے نوازا۔ اپنی اردو کلاس میں بھی آپ کی شاعری کو خراجِ تحسین پیش فرمایا۔چوہدری صاحب مرحوم کی شاعری پر آپؒ نے انہیں جو خط لکھے، ان میں سے چند اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

’’آپ کی کس کس غزل پر کیسے اپنے ہاتھ سے لکھ لکھ کر داد دوں۔ میں تو قلم توڑے بیٹھا ہوں۔

محبت ہو گئی ہے تجھ سے مضطر!
تو کس محبوب کا نوکر رہا ہے‘‘

پھر ایک نظم پر تحریر فرمایا: ’’بہت اعلیٰ پائے کی سہل ممتنع نظم ہے۔ آپ کا اپنا ہی الگ رنگ ہے جو کسی اور کو اپنانے کی توفیق نہیں ملی کیونکہ یہ رنگ آپ کے مزاج کا رنگ ہے اور عموماً ایک زمانے میں ایک سے زیادہ محمد علی پیدا نہیں ہوا کرتے۔ چشمِ بدور۔‘‘

ایک دفعہ لکھا: ’’آپ کی ہر غزل پر اگر ایک الگ خط لکھوں تب بھی حق ادا نہیں ہو سکے گا۔ پتہ ہے مجھے آپ کا کلام کیوں پسند ہے۔ شعراء کے کلام سے الگ اس میں ایک اپنی سی دلکشی ہے۔ سر دست امتیازی جاذبیت کی صرف تین باتیں بتا دیتا ہوں۔……

کھری کھری سنانی اور پتھر مارنے والوں پر پتھر مارنے تو بہتوں کو آتے ہیں مگر شعر و ادب کی پنکھڑیوں میں لپیٹ کر پتھر مارنے کوئی آپ سے سیکھے۔ پھر لطف یہ کہ پتھراؤ کا مزا بھی آتا ہے اور پنکھڑیوں کی نزاکت اور لطافت بھی مجروح ہوئے بغیر اپنے دلکش رنگ دکھائی دیتے ہیں۔آپ سر اپنا پتھروں کے حضور پیش کرتے ہیں اور پتھراؤ مارنے والوں کے سروں پر۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔

سادہ لفظوں میں سرِ راہے بظاہر یونہی عام سی بات کر جاتے ہیں لیکن ایک دو قدم آگے بڑھ کر پھر مڑنا پڑتا ہے۔ایک خلش سی پیدا ہوتی ہے کہ کوئی بات تھی جو نظر سے رہ گئی ہے۔ بات بھی پھر ایسی گہری اور پُر حکمت نکلتی ہے کہ دو قدم چھوڑ ہزاروں قدم واپس آکر بھی حاصل ہو تو جوازِ سفر سے بڑھ کر نکلے۔

تیسری خاص بات یہ دیکھی ہے کہ مجال ہے جو کسی بھیڑ میں مل جل کر اپنی شخصیت گنوا بیٹھے ہوں۔ شاہوں میں فقیرانہ گدڑی میں اور فقیروں میں شاہانہ لباس اوڑھے پھرتے ہیں۔ کوئی دور ہی سے دیکھ کر کہے کہ وہ دیکھو محمد علی کس سج دھج سے جا رہا ہے۔‘‘

اسی طرح لکھا: ’’آپ کی ہر نظم ہی ما شاء اللہ آسمانِ شعر پر ایک اور روشن ستارہ طلوع کرتی ہے مگر بعض ستارے دوسروں سے روشن تر ہوتے ہیں۔سادگی کے ساتھ پُرکاری کا لفظ تو آپ پر سجتا نہیں۔ کیونکہ پُرکاری میں کچھ فریب کے معنی پائے جاتے ہیں جبکہ نہ آپ کو پُرکاری آتی ہے نہ اداکاری ہاں جانکاری ضرور آپ کی نظموں میں دکھائی دیتی ہے۔‘‘

اسی طرح متعدد خطوط میں حضورؒ نے چوہدری صاحب مرحوم کو ان کی شاعری پر خراجِ تحسین پیش کئے جو ان کے مجموعہ کلام ’’اشکوں کے چراغ‘‘ کے شروع میں درج ہیں۔

دیگر قادرالکلام شعرائے کرام بھی بکثرت آپؒ کو اپنا کلام دکھاتے۔ آپؒ داد دیتے تو سچّی، سُچی، اُچّی اور دل کھول کر۔ بعض دفعہ بڑے شاعر نوآموزشاعروں کی ُتک بندیوں کی حوصلہ افزائی تک نہیں کرتے۔ مگر آپ ؒ کا دل بہت بڑا ہے۔ آپؒ شاعر نواز بھی ہیں اور شاعر گر بھی۔ آپؒ کے لطف وکرم کی بارشیں شعراء کو تشکّر اور سرشاری عطا کرتی ہیں۔ آپؒ ان کے کلام کی اصلاح کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے ہیں اور انہیں دعائیں بھی دیتے ہیں۔ مختلف شعراء کو آپؒ کے عطا کردہ چند تبصرے ملاحظہ فرمائیں:

محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ کی نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سار ی نظم ہی بڑی پراثر ہے اور فصیح وبلیغ ہے مگر بعض اشعار اور بعض مصرعے تو شوخیئ تحریر کے فریادی بنے ہوئے ہیں۔….. ماشاء اللہ بہت عمدہ نظم ہے اور یہ شعر تو خاص طور پر لائق تحسین ہے کہ ؎

جِلو میں لاتا ہے سیلاب رحمت
ذرا سا عکس آنکھوں میں نمی کا

یہ شعر خصوصاً اس لئے عین دل کے نشانے پر لگاکہ ایک ہی دن پہلے مَیں یہ مضمون سوچ رہا تھا کہ اللہ کی لا انتہا رحمت کی کیا شان ہے کہ ہماری آنکھوں کی نمی پرہی رحمتوں کی بارش برسا دیتاہے۔‘‘

ایک اور نظم کو زیورِ تحسین سے آراستہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بعض اشعار تو یوں اٹھتے اور بلند ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ نگاہوں کے قدم روک لیتے ہیں۔ زبانِ حال سے یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں سرسری نظر سے دیکھ کر اپنی قدر شناسی کو پامال کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ احمدی شعراء کو اللہ تعالیٰ نے سچائی کی تاجوری بخشی ہے اور سچائی ہی ان کے کلام کو ایک امتیازی حسن بخشتی ہے۔ آپ کا کلام بھی اس منبع حُسن سے بہرہ ور ہے۔ اس کے علاوہ بھی آ پ کے کلام میں کچھ خوبیاں ہیں جو اسے انفرادی رفعت عطا کرتی ہیں۔ قافیہ کے استعمال میں اچانک ایسا تنو ّع جو یکسانیت کو اس طرح توڑ تا ہے کہ موسیقی پیدا ہوتی ہے۔علاوہ ازیں بھی بہت سے اشعار دل پر براہِ راست بے ساختہ اثر کرتے ہیں۔ یہ تو کوئی صاحبِ فن ہی آپ کو بتا سکتاہے کہ صنعتی اعتبار سے اُن میں کیا کیا خوبیاں ہیں۔ مجھے تو صرف اتنا پتہ چلتاہے کہ زبان سبک رَو ہوتی ہے اور مضمون دلنشین۔ جیسے ؎

وہاں شاید کسی کا دل دکھا تھا
زمیں تپتی رہی۔ بادل نہ ٹھہرا

لاکھوں میں ایک شعر ہے۔ لچک بھی ایسی ہے کہ صاحب ِ دل کے بدلنے سے اس کا دوسرا مصرعہ بآسانی ایک دوسرے رنگ میں ڈھل سکتاہے۔ مثلاً مَیں ہوتا تو یوں کہتا ؎

وہاں شاید کسی کا دل دُکھا تھا
فضا برسی اگر بادل نہ ٹھہرا

پھر اسی غزل کا یہ شعر ہے ؎

گرا تو کیسی پستی میں گرا ہے
حجاب اُترا تو پھر آنچل نہ ٹھہرا

ایک ایسی احمدی شاعرہ کے منہ سے کیسا سجتا ہے جس نے قیامِ حجاب کی راہ میں سالہا سال جانکاہی کی ہو۔چہرہ اس شعر کا بتا رہاہے کہ یہ نہ تو کسی زاہد ِ خشک کاکلام ہے نہ کسی بے عمل شاعر کا بلکہ ایک باریک نظر صاحب تجربہ کے دل کی پکار ہے۔ دوسرا مصرعہ تو لاجواب ہے:

حجاب اُترا تو پھر آنچل نہ ٹھہرا

’’بعض جگہ معمولی سی ترامیم تجویز کی ہیں۔ آپ کا کلام ماشاء اللہ بلند پایہ ہے تاہم کبھی کبھی معمولی کتربیونت عادتاً کر دیتا ہوں۔ صرف آپ ہی کا کلام اس مشقِ ستم کا نشانہ نہیں بنتا۔ چوہدری محمد علی صاحب۔ سلیم شاہجہانپوری صاحب، نسیم سیفی صاحب، جنرل محمود الحسن صاحب، عبدالمنان ناہید صاحب، عبدالکریم قدسی صاحب، عزیزہ قوسی (صاحبزادی امۃ القدوس صاحبہ)، حبیب ساحر وغیرہم جو ماشاء اللہ شعر و شاعری میں اپنا اپنا مقام بنا چکے ہیں بلکہ بعض تو اساتذہ فن کے ہم پلّہ اور صاحبِ طرز ہیں۔ ان کے کلام سے بھی جہاں محظوظ ہوتا ہوں وہاں کبھی کسی شعر کو اپنے مزاج اور ذوق میں ڈھالنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ غالباً یہ دست درازی اصلاح کی قبیل میں شمار نہیں ہوتی۔ اسے کسی اچھی چیز کواپنانے کی سعی کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ آپ کی یہ زیرِنظر نظم الفضل میں دیکھی تو مندرجہ ذیل اشعار میں کہیں کہیں اپنے ذوق کے مطابق تبدیلی کی ہے جو ضروری نہیں کہ جو کچھ آپ کہنا چاہتی ہیں اس کے مطابق ہو یا اس سے بہتر ہو۔‘‘

ذرا آقا کا پُرصداقت گوشہ دل تو دیکھئے! غلامانِ جماعت ِ احمدیہ کی ہر نوع کی اصلاح کی ذمہ داری اور اس کی درستگی کے جملہ حقوق کی الٰہی سند رکھتے ہوئے بھی ’’کسی اچھی چیز کواپنانے کی سعی کہنا زیادہ موزوں ہوگا‘‘ اور ’’اس کے مطابق ہو یا اس سے بہتر ہو‘‘ کے الفاظ آپؒ کے عجز وانکسار سے لبریز دل کے فطرتی اظہار کے آئینہ دار ہیں۔ آپؒ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے کہ شاعر کا دل بھی ایک شیشے کی مانند ہوتا ہے جو اپنے شعر پرذرا سی ٹھیس بھی برداشت نہیں کر تا۔ مگر یہ عرفان بھی تھا کہ آپؒ کی طرف سے لگی ہوئی ٹھکور اس کے شعرکے حسن کوصرف سنوارتی نکھارتی ہی نہیں پُر حقیقت و پُر شوکت بھی بنا تی ہے۔ بالفاظِ دیگرکسی کے اشعار پر آپؒ کی لگی ہوئی ’ضربیں‘ ان کے لئے باعث ِ صد سعادت وافتخار ہوتی ہیں۔پھر آپؒ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔ الفضل میں طبع ہونے والے احمدی شعرا ء کے کلام سے وقت ملے تو اپنائیت کے رنگ میں کبھی ایک آدھ شعر پر مشقِ ستم کر لیتاہوں۔ اس طرح ذہن کو چند منٹ سستانے کا موقع مل جاتا ہے۔

ایک مرتبہ محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کے ایک ہندی لَے میں لکھے ہوئے گیت کو بہت پسند فرمایا اور خوب داد دی۔ اسی طرح ایک اور تخلیق پر انہیں خراجِ تحسین پیش فرماتے ہوئے لکھا:
’’آنسوؤں کی لڑی میں پِروئے ہوئے آپ کے دو خلوص کے پھولوں کے ہار ملے۔اس سے بہتر تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے ہاں تو بعض دفعہ ایک آنسو کی اتنی قیمت پڑ جاتی ہے کہ انسان کی ساری زندگی اور اس کے ماحصل سے بڑھ کر وہ آنسو قدر کے لائق ہو جاتا ہے۔ فجزاکم اللّٰہ احسن الجزاء

نظمیں پڑھتے ہوئے حیرت اور تعجّب سے میں یہ سوچتا رہا کہ علم و ادب کا یہ جوہر آپ نے آج تک کیسے چھپائے رکھا۔میرے تو وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ ما شاء اللہ اتنا اعلیٰ پائے کا ادبی ذوق رکھتی ہیں۔ اللّٰہم زد فزد۔‘‘

(خط1982۔1۔7/1361ھش)

حتمی مہر

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒشعر و سخن میں اپنی حتمی مہر رکھتے تھے۔جو کسی کلام کے معیار، اس کی تصحیح و تغلیط اور حسن و قبح پر قطعی حکم رکھتی تھی اور آپؒ کا فیصلہ آخری حیثیت کا حامل ہوتا تھا۔ ایک بار آپؒ کے سامنے یہ شعر پڑھا گیا کہ ؎

نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے

آپؒ نے بلاتوقف فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے۔ چونکہ دوسرے مصرعے میں ’’پو نچھئے ہے‘‘ اس لئے یہاں لفظ ’’آپ‘‘ آئے گا۔ عرض کیاگیا کہ لکھنؤکے لوگ دُوری اور تکلّف کو ختم کرنے کے لئے ’’تم‘‘ کہتے ہیں اور ادب کو ملحوظ رکھنے کے لئے ’’پونچھئے‘‘ بولتے ہیں۔ اس پر آپؒ نے فرمایا۔ نہیں! یہ غلط ہے۔ ٹھیک ’’آپ‘‘ ہی ہے۔

(ہادی علی چوہدری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ