• 19 اپریل, 2024

دعا کی اہمیت

اطفال کارنر
تقریر
دعا کی اہمیت

دعا کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے یہ ایک عظیم ہتھیار ہے جس کے بارہ میں قرآن کریم میں ارشاد ہےـ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ

وہ کون سی ہستی ہے جو بندہ کی دعا مضطر سن کر بے تاب ہو جاتی ہے۔ اور اس کے قریب آجاتی ہے نیز خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مجھے پکارو تم مجھے اپنے قریب پاؤگے

عرش کو چیر گیا نالہٴ دلگیر آخر
مات تدبیر کو خود کر گئی تقدیر آخر

حقیقت یہی ہے کہ سچی دعا خدا کے حضور گڑگڑا کر کی جائے تو وہ ضرور قبول کی ہوگی۔ جو دعا میں اثر ہے وہ شائد کسی اور چیز میں نہیں۔ ہمیں خدا کے حضور سچے دل سے دعا مانگنی چاہیے پھر دیکھیں کہ کس طرح خدا کی تقدیر اثر دکھاتی ہے کس طرح ناممکن کام ممکن ہو جائے گا کوئی ایسا جائز کام نہیں جو ادھورا رہ جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں

غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو !زورِ دعا دیکھو تو

رسول کریم ﷺ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر دیکھئے قدم قدم پر آپ کو یہی سبق ملے گا کہ آپ نےبھی ہمیشہ اپنے دشمنوں کے حق میں دعا ہی کی تھی۔ عرش عظیم سے خدا کی طرف سے حکم جاری ہوتا ہے۔ جس وقت آپ طائف کی وادی میں لہو لہان بیٹھے ہوتے ہیں۔ کہا کہو تو یہ طائف کے پہاڑ اس بستی پر گرا دئے جائیں۔ مگر آپ کا دل درد سے تڑپ اٹھتا ہے فرمایا نہیں نہیں میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں کہ خدا انہیں ہدایت دے اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِی فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْن

حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کی اہمیت کے بارہ میں فرماتے ہیں:
دعا ہمدردی کی ایک قسم ہے نہ اس میں زور لگانا پڑتا ہے نہ زر۔ بلکہ انسان دوسروں کے واسطے دعا کر کے انہیں فائدہ پہنچا سکتا ہے اگر وہ تب بھی اس ہمدردی سے فائدہ نہ لے تو بہت بڑا بدنصیب ہے۔ جو دوسروں کے لیے دعا کرتے ہیں ان کو یہ عظیم الشان فائدہ بھی ہوتا ہے کہ ان کی عمر دراز ہوتی ہے۔ دعا ایک ایسی چیز ہے جو خشک لکڑی کو سر سبز اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں ایک دوست عبدالکریم کو باؤلے کتے نے کاٹا۔ علاج سے درست نہ ہوا اس کو رسولی میں علاج کے لیے بھجوایا گیا جہاں سے وہ صحت یاب ہو کر لوٹا مگر کچھ دیر کے بعد پھر بیمار ہوگیا تو ہسپتال والوں نے تار کرکے جواب میں کہا کہ

Nothing can be done for Abdul Kareem

کہ عبد الکریم کے بارہ میں اب کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ علیہ السلام نے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اس کو صحت عطا کی اور لمبی عمر پا کر اس نے وفات پائی۔

دعا ایک اسم اعظم ہے جس کے سامنے کوئی چیز انہونی نہیں ہے مشکل کشائیاں دعا ہی کے ذریعہ ہوتی ہیں۔ الغرض دعا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے جو ہر مصیبت میں کام آسکتا ہے بہت ہی بد نصیب ہے وہ انسان جو اس ہتھیار کے ہوتے ہوئے بھی کسی اور کی طرف بھاگے اور خدا کے سوا کسی اور سے مدد مانگے۔ سچا مومن وہی ہے جو اپنی ضرورت پر خدا کے آگے جھکتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں دعا کے بارہ میں بار بار ارشاد فرمایا ہے اور تاکید کی ہے کہ خدا کے حضور جھکیں اور گڑاگڑا کر اپنے اور دوسروں کے لیے بے شمار دعائیں کریں۔ صرف خدا ہی کو اپنا حقیقی کارساز سمجھیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا دعا کے سوا عالم اسلام کے مسائل کا حل کوئی نہیں۔

پس آئیں ! اپنے عظیم اور پیارے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے خدا کے حضور جھک جائیں اور دردمندانہ دعائیں کریں جو خدا کے حضور پہنچیں اور ہمیں شرف قبولیت عطا ہو۔ سچے دل سے کی گئی دعا ایک نہ ایک دن ضرور ہماری بے رنگ زندگیوں میں رنگ بھر کر اسے تقوی سے مزید مزین کرے گی۔

(فرخ شاد)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ برکینا فاسو 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مئی 2022