• 18 مئی, 2024

سٹرائیک اور ہڑتال بارے جماعت احمدیہ کا مؤقف

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت ڈاکٹر محمد دین صاحب بنوں ہسپتال کے انچارج تھے، یہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1905ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی۔ دستی بیعت دسمبر 1905ء میں کی۔ بذریعہ خط اپریل 1905ء میں اور دستی دسمبر 1905ء میں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر کی تھی یہ بیعت۔ اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی اور مَیں میڈیکل کالج لاہور میں سب اسسٹنٹ سرجن کلاس میں پڑھتا تھا۔ بیعت کرنے کے بعد بہت سے لوگ تھے چنانچہ ایک لمبی پگڑی پھیلا دی گئی تھی جس پر لوگوں نے ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔ بیعت کنندگان میں شیخ تیمور صاحب بھی تھے۔ شیخ صاحب نے پہلے بھی بیعت کی ہوئی تھی مگر ہمارے ساتھ بھی شامل ہو گئے۔ حضور (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کے ہاتھ پر شیخ صاحب کا ہاتھ تھا اور شیخ صاحب کے ہاتھ پر میرا ہاتھ تھا۔ حضور الفاظ بیعت فرماتے جاتے تھے اور ہم سب بیعت کنندگان اُن کو دہراتے جاتے تھے۔ بیعت کے بعد حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی۔ جلسے کے اختتام پر ہم پانچ ڈاکٹر کلاس کے طالب علموں نے حضور سے واپسی کے لئے اجازت چاہی تو حضور نے فرمایا کہ ٹھہرو۔ رسالہ الوصیت اُس وقت چھپ کر آیا تھا۔ ابھی گیلا ہی تھا کہ ہم کو اُس کی ایک ایک کاپی عنایت کر دی گئی اور ساتھ ہی حضور نے ہمیں واپسی کی اجازت بھی دے دی۔ چنانچہ ہم رسالہ الوصیت لے کر واپس لاہور آ گئے۔ لاہور میڈیکل کالج کے ہسپتال اسسٹنٹ کلاس نے جن میں مَیں بھی شامل تھا، 1906ء کے آغاز میں بعض شکایات کی بنا پر سٹرائک کر دی (ہڑتال کر دی) اس میں احمدی میڈیکل طلباء بھی شامل تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اس کا علم ہوا تو حضور نے ازراہِ کرم ایک تاکیدی حکم ہمیں بھیجا کہ ایسی تحریکات میں حصہ لینا اسلام کے خلاف ہے اور جماعت احمدیہ کی بھی روایات کے خلاف ہے اس لئے تم سب پرنسپل صاحب سے معافی مانگ کر کالج میں پھر داخل ہو جاؤ۔ ساتھ ہی پرنسپل صاحب میڈیکل کالج کو بھی لکھا اور ساتھ ہی سفارش بھی کی کہ ہماری جماعت کے طلباء کو معافی دے کر پھر داخل کر لیویں۔ چنانچہ ہم پانچوں احمدی طلباء معافی مانگ کر پھر داخل ہو گئے۔ اس پر پیسہ اخبار لاہور نے مسیح کے پانچ حواری کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور احمدی جماعت پر بہت اعتراض کئے۔ لیکن پھر بھی اثر نہیں ہوا، باقی لڑکے بھی اُس کے بعد معافی مانگ کر داخل ہو گئے۔ کہتے ہیں حضور کے بہت سارے خطوط میرے پاس ہیں۔ لیکن جنگِ عظیم کی وجہ سے باہر تھے، وہ گم گئے۔

(مأخوذ ازروایات حضرت ڈاکٹر محمد دین صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 1صفحہ 53، 54)

تو بہر حال ہڑتال کے بارے میں سٹرائکوں کے بارے میں ہمارا کیا مؤقف ہے اس بارے میں مَیں بڑے واضح طور پرخطبات دے چکا ہوں۔

چوہدری غلام رسول صاحب بسراء 99شمالی سرگودھا کہتے ہیں کہ دسمبر 1907ء جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے کہ جمعرات کی شام کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صبح باہر سیر کو جائیں گے۔ اس وقت دستور یہ تھا کہ جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ لیا جاتا تھا اور آپ اس حلقے کے بیچ چلتے تھے۔ (جس طرح چین(Chain) بنا لیتے ہیں بازو پکڑ کے) چنانچہ مَیں نے اپنے ہمرائیوں مولوی غلام محمد گوندل امیر جماعت احمدیہ چک 99شمالی، چوہدری میاں خان صاحب گوندل اور چوہدری محمد خان صاحب گوندل مرحوم سے صلاح کی کہ اگر خدا نے توفیق دی تو صبح جب آپ باہر سیر کو نکلیں گے تو ہم آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ بنائیں گے، اس طرح پر ہم حضور کا دیدار اچھی طرح کر سکیں گے۔ صبح جب نماز فجر سے فارغ ہوئے تو تمام لوگ حضور کے انتظار میں بازار میں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے۔ یہ مکمل پتہ تو نہیں تھا کہ حضور کس طرف سے باہر تشریف لے جائیں گے لیکن جس طرف سے ذرا سی بھی آواز اُٹھتی کہ آپ اس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے لوگ اُسی طرف ہی پروانہ وار دوڑے جاتے تھے۔ کچھ دیر اسی طرح ہی چہل پہل بنی رہی۔ آخر پتہ لگا کہ حضور شمال کی جانب سے ریتی چھلا کی طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے۔ ہم لوگوں نے جو آگے ہی منتظر تھے کپڑے وغیرہ کَس لئے اور تیار ہو گئے کہ جس وقت حضور بازار سے باہر دروازے پر تشریف لے آئیں، اُسی وقت ہم بازؤوں کا حلقہ بنا کر آپ کو بیچ میں لے لیں گے۔ ہم اس تیاری میں تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑے جمّ غفیر کے درمیان میں (اس جمگھٹے کے) آپ آ رہے ہیں۔ اس جمگھٹے نے ہمارے ارادے خاک میں ملا دئیے اور یہ جمگھٹا جوتھا ہمیں روندتا ہوا چلا گیا۔ ریتی چھلے کے بڑے مغرب کی طرف ایک لسوڑی کا درخت تھا۔ آپ اُس لسوڑی کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور وہاں ہی آپ لوگوں سے مصافحہ کرنے لگے۔ کسی نے کہا حضرت صاحب کے لئے کرسی لائی جاوے تو آپ نے فرمایا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے کہا ہے کہ لوگ بہت بڑی کثرت سے تیرے پاس آئیں گے لیکن (پنجابی میں باتیں ہو رہی تھیں شایدتو فرمایا) ’تُوں اَکّیں نہ اور تھکیں نہ‘۔

(ماخوذ ازروایات حضرت چوہدری غلام رسول بسراء صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 1صفحہ 71)

دیکھیں کس شان سے آج بھی آپ کا یہ الہام پورا ہو رہا ہے۔ اس ملک میں بیٹھے ہوئے کثرت سے لوگ جلسہ سننے کے لئے آ رہے ہیں۔ اصل میں تو یہ عربی کا الہام ہے جس کا ترجمہ انہوں نے کیا ہے۔ یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمایا۔

حضرت مولوی محمد جی صاحب ولد میر محمد خان صاحب کہتے ہیں کہ جلسے پر مَیں نے حضرت اقدس کو تقریر کرتے دیکھا ہے۔ کوئی وقت معین نہیں ہوتا تھا جب ارادہ آپ فرماتے تھے تو اعلان کیا جاتا۔ میاں بشیر احمد صاحب کے مکان میں جلسہ ہو رہا تھا۔ آپ لکڑی کی سیڑھی سے اُتر کر آئے جو دالان کے اندر لگی ہوئی تھی اور زندگی وقف کرنے کا ارشاد کیا۔ (اُس وقت زندگی وقف کرنے کا ارشاد فرمایا جلسے کی تقریر میں)۔ مسجد اقصیٰ میں ایک جلسے میں آپ کے لئے کرسی رکھی گئی اور بیٹھ کر تقریر کی۔ تقریر میں فرمایا، ہر ایک آدمی جو یہاں ہے وہ میرا نشان ہے، پس اس وقت بھی جو اس وقت یہاں بیٹھے ہیں جلسے پہ، دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے، یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا نشان ہیں۔ اور اس صداقت کے نشان کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ حضرت اقدس کی تقریر میں تسلسل ہوتا تھا، شروع میں کچھ دھیمی آواز ہوتی تھی پھر بلند ہو جاتی تھی۔ مقرر اپنی تقریروں میں بعض فقروں پر زور دیا کرتے ہیں، آپ کی یہ عادت نہیں تھی۔ قرآنِ مجید کی آیت بھی سادہ طرز سے پڑھتے تھے، نہ ہاتھ سے اور نہ انگلی سے اشارہ کرتے۔ لاٹھی ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوتے تھے کبھی دونوں ہاتھ اس پر رکھ لیتے۔ آپ کی تقریر نہایت دلکش ہوتی، بالکل اطمینان سے آپ تقریر فرماتے گویا قدرتی مشین ہے جس کو قدرت کے ہاتھ نے کام لینے کے لئے کھڑا کیا ہے۔

(مأخوذ ازروایات حضرت مولوی محمد جی صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 8صفحہ145، 146)

حضرت صوفی نبی بخش صاحب روایت کرتے ہیں کہ 27دسمبر 1891ء کے جلسے پر جس میں حاضرین کی تعداد اسّی (80) کے قریب تھی مَیں بھی حاضرِ خدمت ہوا اور دن کے دس بجے کے قریب چائے پینے کے بعد ارشاد ہوا کہ سب دوست بڑی مسجد میں جو اَب مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہے تشریف لے جائیں۔ حسب الحکم سب کے ساتھ میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ زہے قسمت کہ میرے لئے قسّامِ ازل نے اس برگزیدہ بندے کی جماعت میں داخل ہونے کے لئے یہی دن مقرر کر رکھا تھا۔ اُس وقت مسجد اتنی وسیع نہ تھی جیسی آج نظر آتی ہے۔ سب کے بعد حضرت صاحب خود تشریف لائے اور مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’آسمانی فیصلہ‘ سنانے کے لئے مقرر کیا۔ لیکن میرے لئے یہ ایک حیرت کا مقام تھا کیونکہ مَیں نے حضرت اقدس کے رُوئے مبارک اور لباس کی طرف دیکھا تو وہ وہی حلیہ تھا اور وہی لباس تھا جس کو ایامِ طالب علمی میں مَیں نے دیکھا تھا۔ حاضرین تو بڑی توجہ سے آسمانی فیصلہ کو سننے میں مشغول تھے اور مَیں اپنے دل کے خیالات میں مستغرق تھا اور فیصلہ کر رہا تھا کہ یہ تو وہی نورانی صورت ہے جس کو طالب علمی کے زمانے میں مَیں نے عالمِ خواب میں دیکھا تھا۔

(روایات حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد5 1صفحہ109)

(خطبہ جمعہ 24؍ جون 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2021