• 5 مئی, 2024

اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت

اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت تو فرمانی تھی اور ہمیشہ فرماتا رہا لیکن آپؐ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کی مدد اور نصرت حاصل کرنے کی طرف متوجہ رہے اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمایا کرتے تھے کہ اے رب! میری مدد فرما اور میرے خلاف (دشمن کی) مدد نہ فرما اور مجھے کامیابی عطا فرما اور میرے مقابل پر دشمنوں کو کامیاب نہ کر۔ میرے لئے موافقانہ تدبیر کر اور میرے خلاف تدبیر نہ کر۔ اور میری راہنمائی فرما اور میرے لئے ہدایت مہیا فرما اور ہر وہ شخص جو میرے خلاف حد سے بڑھ جائے، اس پر مجھ کو کامیاب فرما۔

(جامع ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیؐ)

تو یہ دعا ہے جو آپؐ کرتے تھے اور یہ دعا بڑی جامع دعا ہے جو ہر ایک کو کرنی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عُلُو اور مرتبہ ظاہر کیا ہے۔ اور وہ سورۃ ہے اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ (الفیل: 2) یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دکھ اٹھا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپؐ کو تسلی دیتا ہے کہ مَیں تیرا مؤیدو ناصرہوں۔ اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا توُ نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کِیا؟ یعنی ان کا مکر الٹا کر ان پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کے لئے بھیج دئیے۔ ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی۔ سِجِّیْل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کرکے آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے۔ یعنی آپ کی ساری کارروائی کو برباد کرنے کے لئے جوسامان کرتے ہیں اور تدابیر عمل میں لاتے ہیں ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کواور کوششوں کو الٹا کر دیتا ہے، کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے ہاتھی والوں کوچڑیوں نے تباہ کر دیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی۔ جب کبھی اصحاب الفیل پیدا ہو تب ہی اللہ تعالیٰ ان کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ110) پس اب اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تائید و نصرت کے لئے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند اور عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے اور اس کے ذریعہ سے اِن شاء اللہ تعالیٰ تائید و نصرت فرماتا رہے گا ہمارا بھی یہ کام ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے طلبگار ہوتے ہوئے اپنے ایمان کو مضبوط کرتے چلے جائیں اور جو وعدے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہیں اُن کو ہم کسی تکبّر یا عقل یا کسی اور وجہ سے ضائع کرنے والے نہ ہوں۔ ایسا نہ ہوکہ وہ ہماری زندگیوں میں نظر نہ آئیں بلکہ ہمارے دلوں میں کبھی اس کا شائبہ بھی پیدا نہ ہو۔ اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہیں اس حیثیت سے جو اللہ تعالیٰ نے نصرت کے وعدے فرمائے ہیں ان کو ہم اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے بھی دیکھیں اور ہماری زندگیوں کا وہ حصہ بھی بنیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23جون 2006ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ