• 17 مئی, 2024

خواجہ اختر سعید مرحوم

یاد رفتگان
خواجہ اختر سعید مرحوم آف لاہور

مجھے گوتھن برگ سے ایک عزیز دوست محترم محمد عبد الحئی کی کال آئی کہ صفوان اختر کے والد محترم خواجہ اختر سعید کا انتقال ہو گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اسی دن صفوان سے بات ہوئی جو انکل کی وفات سے قبل ہی پاکستان پہنچ چکا تھا۔ جیسے آنکھوں کے آگے سے پردہ ہٹتا ہے میں کئی سال پہلے لاہور کی 1990ء کی دہائی میں پہنچ گیا جہاں ایک دوست محترم مشہود بٹ (حال مقیم یوکے) سے پتہ چلا کہ انکل ہومیوپیتھک علاج کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب بزنس مین تھے ہومیوپیتھی اپنے شوق سے کرتے تھے۔ باقاعدہ ہومیو ڈاکٹر نہ ہونے کے باوجود انہوں نے بنی نوع انسان کی بہت خدمت کی۔

میں ان کی زندگی میں بہت بعد میں آیا اور کچھ ہی دنوں میں ان سے بہت اچھا تعلق پیدا ہو گیا۔ 1997ء میں مَیں جب پہلی مرتبہ ان کے گھر گیا تو وہ گھر پر نہیں تھے۔گھر والوں نے تسلی دی کہ آپ فکر نہ کریں علاج بھی ہو جائے گا دوائیاں بھی مل جائیں گی۔مجھے کئی سالوں سے ہاتھوں کی مٹھیاں بنانے کا مسئلہ درپیش تھا خواجہ صاحب کے پہلے نسخے نے ہی ختم کر دیا۔ کسی زمانے میں زبان کی نوک سُن ہو جاتی تھی خواجہ صاحب کے پہلے ہی نسخے نے یہ مسئلہ حل کیا۔والدہ کو سائنو سائٹس کا مسئلہ تھا خواجہ صاحب کے علاج سے ٹھیک ہو گیا۔ میرے والد یوکے سے پاکستان آئے تو حیران رہ گئے کیونکہ وہ باقاعدہ ڈگری ہولڈر ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے لیکن والدہ کا یہ مسئلہ ٹھیک نہیں کر سکے تھے۔ بڑے کھلے دل سے کہا کہ میں ان صاحب کو مان گیا ہوں۔یہ میں نے ابھی صرف وہ کیسز لکھے ہیں جن میں انکل کی مجوزہ دوائی یا دوائی کی طاقت بدلنے کی ضرورت نہیں پیش آئی تھی خدا کے فضل سے پہلے ہی نسخے سے آرام آ گیا۔

ہومیوپیتھک انکل کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ کتب کی لائن لگی ہوئی تھی ادویات مریض کو اپنے گھر میں ہی بنا کر دیتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے۔اگر ان کا کوئی مریض حضرت صاحبؒ سے نسخہ منگواتا تو اپنا نسخہ روک لیتے تھے کہ پہلے وہ استعمال کر کے دیکھیں۔

گھر کا ماحول دینی تھا جیسا کہ جماعت کا خاصہ ہے۔ میں اکثر و پیشتر اکیلا یا مشہود بھائی کے ساتھ ان کے گھر چلا جاتا تھا۔خوب خاطر مدارت کرتے تھے۔مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی ایسا محسوس ہوا ہو کہ انہیں ہمارے آنے سے خوشی نہ ہوئی ہو۔اخلاق کے ماشاء اللہ بہت ہی اچھے تھے۔چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی۔

جلسہ سالانہ پر لوگوں کو گھر آنے کی دعوت دیتے تھے۔ غیر احمدی بھی شامل ہوتے تھے۔ہومیوپیتھک کے ساتھ ساتھ تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ان کے مریضوں میں غیر احمدی بھی شامل تھے۔یہ وہ دور تھا جب خاص طور پر احمدیوں کو ٹارگٹ کر کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت کیسز ہو رہے تھے۔ انکل بھی ایسے جری اور دلیر تھے کہ بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ڈرائنگ روم میں ہی حضر ت مسیحِ موعودؑ کی بڑے فریم والی فوٹو لگائی ہوئی تھی۔

اختلافِ رائے کو برداشت کرنا اور پھر تعلقات میں بگاڑ پیدا نہ ہونے دینا کسی کسی کا کام ہے۔ انکل اخلاق کے اس اعلیٰ مقام پر بھی فائز تھے۔کسی بات پر اگر اختلاف ہوتا تو برا نہیں مانتے تھے، بڑی خندہ پیشانی سے اپنی بات بیان کرتے تھے اور کبھی بھی اپنے نیک سلوک میں کمی نہیں آنے دیتے تھے۔

جاب کی زندگی شروع ہونے کے بعد میں دنیا سے کٹ گیا رات کی نوکریاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ عید الفطر کے موقعے پر انکل سے بیت النور ملاقات ہوئی تو کوئی گلہ نہیں کیا بڑی گرمجوشی سے ملے اور اپنے ایک دوست سے میرا تعارف کرانے لگے۔

پھر پتہ چلا کہ صفوان بھی سویڈن آ گیا ہے۔ وہ دوسرے شہر گوتھن برگ میں تھا۔ 2016ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سویڈن تشریف لائے تو صفوان بھی اسٹاک ہولم آیا۔ ہوٹل شیریٹن میں ہماری ملاقات ہوئی۔ فون پر انکل سے بات کرائی وہ آواز سنتے ہی پہچان گئے کہ ’’عثمان صاحب بول رہے ہیں‘‘۔ ایسے لگا ہی نہیں کہ جیسے کافی عرصے بعد بات ہو رہی ہے۔

حضرت مسیحِ موعودؑ نے متعدد جگہ فرمایا ہے کہ اپنی عمر بڑھانا چاہتے ہو تو نافع الناس وجود بنو۔ انکل اس فلسفے کی زندہ مثال تھے۔ مورخہ 11 مئی 2022ء اسی برس کی عمر میں بوقت تہجد وفات پائی اور تدفین بہشتی مقبرے دار الفضل میں عمل میں لائی گئی۔مورخہ 20 مئی بروز جمعہ سویڈن کی مساجد میں انکل کی نمازِ جنازہ غائب ادا کی گئی۔

اللہ تعالیٰ انکل کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازے اور آنٹی، ذیشان بھائی، صفوان، بہنوں، عزیز و اقارب ، حلقہ احباب اور دیگر کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ آمین۔

(عثمان مسعود جاوید۔ اسٹاک ہولم، سویڈن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ