• 15 مئی, 2024

اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
تو جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الزام دیتے ہیں ان کا بھی اس بات میں ردّ کیا گیا ہے کہ ایک ظاہری حکومت کی طرف منسوب کرکے اگر کوئی آدمی بات کرتا ہے، چاہے کسی افسر کا چپڑاسی بن کے کسی کے پاس حکم لے کے چلا جائے اور جھوٹ بولے اور پکڑا جائے تو اس کو بھی سزا ملتی ہے۔ تو کیا خداتعالیٰ کی طرف جو باتیں منسوب کی جاتی ہیں یا کوئی شخص جو یہ کہتا ہے کہ مَیں اللہ تعالی ٰکی طرف سے ہوں اور وہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اتنی بھی طاقت نہیں کہ اس کو پکڑ لے اور سزادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھے۔ یعنی یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جب انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے بات کرتے ہیں تو وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہوں یا اللہ تعالیٰ کی طرف جو باتیں وہ منسوب کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ نہ کرے۔

پس اللہ تعالیٰ کا مختلف جگہوں پر قرآن کریم میں اس حوالے سے فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بنیادی اور اصولی بات ہے کہ جو بھی خداتعالیٰ پر افتراء کرے گا، جھوٹ بولے گاوہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ ئے گا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ حق اور سچائی کو جھٹلانے والا جو دوسرا گروہ ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی کی نافرمانی کرنے والا ہوگا تو وہ بھی خداتعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا۔

تو دو قسم کے گروہوں کا یہاں ذ کر ہے۔ ایک وہ جو اللہ تعالیٰ پر غلط افتراء کرے اللہ تعالیٰ اسے بھی پکڑتا ہے۔ دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کو جھٹلائے اللہ تعالیٰ اسے بھی پکڑتا ہے اور دونوں ہی گروہ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس انبیاء کا انکارکرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنی طرف سے باتیں بنا لیں اور خداتعالیٰ نے اس کو قطعاً نبوت کا درجہ دے کر نہیں بھیجا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افتراء کرے گا ہم اسے پکڑیں گے۔ جو نشانیاں اور ثبوت نبی کے لئے ظاہر ہوئیں انہیں دیکھ کر انہیں قبول کرنے کی کوشش کرو۔ نبوت اپنے روشن نشانوں کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور ہر نیا دن یہ روشن نشان دکھاتا چلا جاتا ہے۔ پس منکرین نبوت کو یہ ایسی دلیل دی گئی ہے کہ ان میں عقل ہو تو یقینا ہوش کریں اور ہوش کرنی چاہئے۔ یہ الزامات آنحضرتﷺ سے پہلے انبیاء پر بھی لگے تھے اور پھر آنحضرتﷺ کی ذات مقدس پر بھی لگے تھے اور یہی الزامات آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر بھی لگ رہے ہیں۔ سورۃ زمر کی اس آیت سے پہلے کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم کو جامع بتا کر یہ اعلان کیا تھا کہ اس جامع تعلیم کے بعد اب کوئی اعتراض کرنے کا جواز نہیں رہتا۔ قرآن کریم اپنی ذات میں خود بھی بہت بڑا نشان ہے۔ بلکہ اس کی ہر ہر آیت اور ہر ہر لفظ ایک اعجاز ہے اور اللہ تعالیٰ نے کفّار کو اس کو قبول کرنے کی نصیحت فرمائی لیکن اس کے باوجود کفار نے انکار کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سختی اور سزا سے کام لیا اور پھر ان لوگوں نے آنحضرتﷺ کو قبول کیا۔

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم میرے بھیجے ہوؤں کا انکار کرتے ہو تو اس دنیا میں یا اگلے جہان میں میری پکڑ کے نیچے آتے ہو۔ پس عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اس ہٹ دھرمی کو چھو ڑو۔ اگلی آیت میں بتایا کہ تقویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف کا دل میں ہونے کا اظہاریہی ہے کہ جو سچائی کے پیغام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوا ہے اس کو قبول کرو۔ کیونکہ یہی چیز تمہیں کامیابیاں بھی عطا کرے گی اور تقویٰ میں مزید بڑھائے گی۔ اور یہ بھی ایک نبی کے سچا ہونے کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کامیابیاں نصیب کرتا چلا جاتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 23جنوری 2009ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 14 جولائی 2020ء