تبرکات: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ
کچھ عرصہ ہوا میں نے جماعت کے دوستوں کو اخبار روزنامہ الفضل کے ایک نوٹ کے ذریعہ بے پردگی کے رجحان کے خلاف نصیحت کی تھی۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک سابقہ خطبہ جمعہ کی طرف توجہ دلا کر جماعت کے افراد اور جماعت کے ذمہ دار کا رکنوں کو ہوشیار کےا تھا کہ وہ بے پردگی کے رجحان کا سختی کے ساتھ مقابلہ کریں اور احمدیہ جماعت کی جو عورتیں اور جو لڑکیاں ماحول کے خراب اثرات کے نتیجہ میں بے پردگی کی طرف غلط رجحان پیدا کر رہی ہیں (اور خدا کے فضل سے اب تک ان کی تعداد تھوڑی ہے) ان کے خلاف ابتدائی انتباہ کے بعد سخت ایکشن لیا جائے۔
اب اپنے موجودہ نوٹ میں مَیں فیشن پرستی کے رجحان کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ دراصل بے پردگی اور فیشن پرستی کا باہمی رشتہ ایک طرح سے دو بہنوں والا رشتہ ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا اثر دوسرے پر بہت گہرا پڑتا ہے۔ بے پردگی آخر کار عورتوں کو بالعموم فیشن پرستی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور دوسری طرف فیشن پرستی کا رجحان آہستہ آہستہ بے پردگی کی طرف کھینچ لاتا ہے۔ پس ہماری جماعت کی عورتوں اور لڑکیوں کو چاہئے کہ ان دونوں خرابیوں سے بچ کر رہیں۔ یعنی وہ اسلامی پردہ کی پابندی اختیار کریں اور فیشن پرستی کی وباء سے بھی بچ کر رہیں ورنہ وہ کبھی بھی سچی احمدی اور سچی مسلمان نہیں سمجھی جا سکتیں۔ اسلام سادہ زندگی پر زور دیتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہمیشہ سادہ زندگی پر زور دیا کرتے تھے۔ میرے کانوں میں ہمیشہ حضور کے یہ الفاظ گونجتے ہیں کہ مجھے سادہ لوگ بہت پسند ہیں جو دنیا میں سادگی کی زندگی گزارتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے افضل الرسل اور خاتم النبیین کے قدموں پر دنیا کی دولت ڈال دی اور عرب کا بے تاج بادشاہ بنا دیا مگر آپ نے اس ارفع مقام کے باوجود ایسی سادہ زندگی گزاری کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپ موٹے پٹھے کی چٹائی پر اس بے تکلفی سے لیٹ جاتے تھے کہ اس کے نشان آپ کے جسم پر ظاہر ہونے لگتے تھے۔ ایک دفعہ ایک عورت اپنی کوئی حاجت پیش کرنے کے لئے آپ کے سامنے آئی اور آپ کے رعب کی وجہ سے تھر تھر کانپنے لگی اور اس کے منہ سے بات نہیں نکلتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نظارہ دیکھا تو بے چین ہو کر اس کی طرف لپکے اور بڑی محبت سے فرمایا:۔
’’مائی! ڈرو نہیں ڈرو نہیں۔ میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ تمہاری طرح کا ہی ایک انسان ہوں۔ جسے عرب کی ایک ماں نے جنا تھا‘‘۔
پس زندگی میں سادگی اختیار کرنا اسلام اور احمدیت کی خاص تعلیمات میں داخل ہے اور وہی لوگ سچے مومن اور سچے احمدی سمجھے جا سکتے ہیں جو دولت اور ثروت کے ہوتے ہوئے بھی سادہ زندگی گزاریں اور اپنے غریب بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ مل کر اس طرح گھل مل کر رہیں کہ گویا وہ ایک خاندان کا حصہ ہیں۔ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ صحیح رنگ کی زینت جسے بدن اور کپڑوں کی صفائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اسلام میں منع نہیں بلکہ اس کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن لوگ نہا کر اور اپنے بدنوں کو صاف کر کے مسجد میں آئیں اور دُھلے ہوئے صاف کپڑے پہنیں اور اگر وسعت ہو تو خوشبو بھی لگائیں۔ اور میں اس بات کو بھی مانتا ہوں کہ عورتوں کو خاص طو رپر صفائی اور زینت کی اجازت بلکہ ہدایت دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے خاوندوں کے لئے ظاہری لحاظ سے بھی کشش اور راحت کا موجب بن سکیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی عورت ایک دفعہ ایسی حالت میں رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئی کہ اس کی حالت بہت خستہ تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے اور کپڑے میلے کچیلے تھے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ’’بہن تم نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’یا رسول اللہ! میں کس کے لئے زینت کروں۔ میرا خاوند دن میں روزہ رکھتا ہے اور رات تہجد کی نماز میں کھڑا ہو کر گزار دیتا ہے’’۔ آپ نے فوراً اس کے خاوند کو بلایا او راس پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’کیا تم اپنی بیوی کا حق چھین کر خدا کو دینا چاہتے ہو؟ سنو کہ خدا ایسے لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ بندوں کا حق بندوں کو دو اور خدا کا حق خدا کو دو اور بیوی کا حق بیوی کو دو‘‘۔
پس اسلام ایک بڑا ہی پیارا اور متوازن مذہب ہے۔ جس نے نہ صرف خداتعالیٰ کے بلکہ خاوند بیوی کے اور دوسرے رشتہ داروں کے اور ہمسایوں کے اور دوستوں کے بلکہ دشمنوں تک کے حقوق مقرر کر رکھے ہیں۔ اور ان حقوق میں تصرف کرنا خدا تعالیٰ کی خوشی کا موجب نہیں بلکہ اس کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے۔
لیکن اسلام نے جہاں واجبی حد تک زینت کی اجازت دی ہے وہاں مناسب حد بندیوں کے ساتھ اسے کنٹرول بھی کیا ہے۔ اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ پوری پوری دیانتداری کے ساتھ ان پابندیوں کو ملحوظ رکھیں۔ یہ پابندیاں مختصر طو رپر چند فقروں میں بیان کی جا سکتی ہیں:۔
(اول) کوئی ایسی زینت اختیار نہ کی جائے جو سادہ زندگی کے اصول کے خلاف ہو اور جس میں عورت اپنے جسم اور اپنے لباس کو زینتوں کے ذریعہ اتنا کشش دار کر دے کہ غیر محرم شرفا اور نیک لوگوں کی آنکھیں اس کی طرف اعتراض کی نظر سے اٹھیں۔
(دوم) زینت کے معاملہ میں ایسا انہماک نہ اختیار کیا جائے کہ گویا وہی زندگی کی غرض و غایت ہے بلکہ سادہ زندگی اختیار کی جائے۔
(سوم) جب کوئی پردہ دار عورت کسی مجبوری کی وجہ سے خرید و فروخت کی غرض سے بازار میں جائے یا گھر سے باہر آئے تو لِپ سٹک اور چہرہ کے پوڈر وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔ اور باہر آتے ہوئے پردہ کا پورا پورا انتظام رکھا جائے۔
(چہارم) برقعہ یا لباس کے اوپر اوڑھنے کی چادر بالکل سادہ ہو جس کا رنگ نہ تو شوخ اور بھڑکیلا ہو اور نہ اس پر کوئی بیل بوٹے یا نقش و نگار کا کام کیا ہوا ہو۔ کیونکہ برقعہ کی غرض زینت کو چھپانا ہے نہ کہ خود برقعہ کو زینت کا ذریعہ بنانا۔
(پنجم) نوجوان لڑکیاں جو سکولوں اور کالجوں میں پڑھتی ہیں ان کے لئے خاص طور پر ضروری ہے کہ ہر قسم کی ناواجب زینت سے بچ کر سادگی اختیار کریں۔ بے شک اپنے جسم اور کپڑوں کو صاف رکھیں مگر اپنے چہروں اور لباسوں کو ہرگز مصنوعی طریقہ پر کشش کا ذریعہ نہ بنائیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے ربوہ کے بھائی اور بہنیں خصوصاً اور تمام بیرونی شہروں کے بھائی اور بہنیں عموماً میری اس دردمندانہ نصیحت کو غور سے پڑھ کر اس پر دیانتداری کے ساتھ عمل کریں گے تاکہ ایک طرف ان کی زندگی خدا کی نظر میں پسندیدہ زندگی ہو اور دوسری طرف وہ جماعت کو بدنام کرنے والے نہ بنیں۔
میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں اپنے علم کے مطابق دونوں پہلوؤں کو یعنی مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو واضح کر دیا ہے۔ اور نگران بورڈ نے بھی اپنے حالیہ اجلاس میں جماعت کے مرکزی افسروں اور ضلعوار امراء اور مقامی عہدیداروں کو زوردار ہدایت کی ہے کہ وہ اس بارہ میں جماعت کی نگرانی رکھیں اور اگر کوئی شکایت پیدا ہو تو ابتدائی انتباہ کے بعد مرکز کے ذمہ دار کارکنوں کو رپورٹ کریں۔ اس وقت دنیا کی نظر ہم پر ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کا کیا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہماری جماعت کے بوڑھے اور نوجوان اور بچے اور مرد اور عورتیں اور لڑکیاں اسلام اور احمدیت کا ایسا نمونہ دکھائیں کہ دنیا اسے دیکھ کر عش عش کر اٹھے کہ یہی اسلام کا سچا نمونہ ہے اور جب دنیا سے ہماری واپسی کا وقت آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحیں ہمیں دیکھ کر خوش ہوں کہ انہوں نے ہماری ہدایت پر عمل کیا ہے۔ آمِیْن یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
(محررہ 13 ستمبر 1962ء)
(روزنامہ الفضل ربوہ 16 ستمبر 1962ء)
٭…٭…٭