؎ ذکرِ خدا پہ زور دے ، ظلمتِ دل مٹائے جا
گوہرِ شب چراغ بن، دنیا میں جگمگائے جا
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن ِکریم میں ارشاد فرماتا ہے :۔
فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ
(البقرہ۔ 153)
ترجمہ : پس میرا ذکر کیا کرو۔ میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
ذکر الٰہی کے نتیجہ میں کامیابی کی نوید سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
(الانفال:46)
ترجمہ :اور اللہ کو بہت یاد کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
اللہ کو بہت یاد کرنے سے اس کی صفات دل میں روشن ہوتی ہیں اور ایمان اور جرأت میں زیادتی ہوتی ہے۔
(تفسیر صغیر صفحہ 292)
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہُ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ
(النور:37)
ترجمہ: ایسے گھر وں میں جن کے متعلق اللہ نے اذن دیا ہے کہ انہیں بلندکیا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔
عَنْ اَبِیْ مُوْسَی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلُ الْبَیْتِ الَّذِیْ یُذْکَرُ اللّٰہُ فِیْہِ وَالْبَیْتِ الَّذِیْ لَا یُذْکَرُ اللّٰہُ فِیْہِ مَثَلُ الْحَیِّ وَ الْمَیِّتِ
(مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا باب استحباب صلاۃ النافلۃ)
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے اور اس گھر کی جس میں اللہ کاذکر نہ کیا جائے زندہ اور مردہ کی مثال ہے۔
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
اللہ کے ذکر کو گھروں میں بھی کثرت سے بلند کرو اور بار بار بچوں کو بھی اس کی تلقین کرو تاکہ ہر گھر خدا کے ذکر کا گہوارہ بن جائے۔
(خطباتِ طاہرجلد 1صفحہ 287)
یاد جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو
ذکر جس گھر میں ہو اس کا کبھی ویران نہ ہو
عَنْ اَبِیْ مُوْسَی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ۔
(بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ عزّو جل)
ترجمہ : حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہتا ہے اس کی مثال زندہ کی سی ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا اس کی مثال مردہ کی سی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کے فرشتے ذکر کرنے والوں کی تلاش میں رستوں میں نکلتے ہیں۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کو پالیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اپنی حاجتیں بیان کرو۔ پھر وہ ایسے لوگوں کو ورلے آسمان تک گھیرے رکھتے ہیں۔ ان کا ربّ ان سے پوچھے گا حالانکہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے ہیں؟ وہ کہیں گے کہ وہ تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری حمد کرتے ہیں اور تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے کہیں گے اے اللہ ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ پھر اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے کہیں گے کہ اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو تیری زیادہ عبادت کرتے اور تیری بڑائی شدت کے ساتھ بیان کرتے اور تیری تسبیح کثرت کے ساتھ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ تو فرشتے کہیں گے کہ وہ جنت مانگ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے جواب دیں گے اے اللہ ! انہوں نے اس کو نہیں دیکھا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیتے تو ان کی کیا حالت ہوتی؟ وہ عرض کریں گے کہ وہ اگر اس کو دیکھ لیتے تو اس کے حصول کی خواہش اور رغبت ان میں بہت زیادہ بڑھ جاتی۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے جواب دیں گے کہ آگ سے بچنے کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ! انہوں نے نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر وہ اس کو دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ تو فرشتے جواب دیں گے کہ اے اللہ ! وہ اگر اسے دیکھ لیتے تو اور زیادہ ڈرنے والے اور اس سے زیادہ دور بھاگنے والے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تم کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ مَیں نے ان کو بخش دیا ان کے اس عمل کی وجہ سے ، جنت کی خواہش کی وجہ سے ، آگ سے ڈرنے کی وجہ سےمیںنے ان کو بخش دیا۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرے گا کہ ان میں ایک بندہ ایسا بھی تھا جو اپنی کسی ضرورت کے لئے وہاں آگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والے بھی بد نصیب نہیں ہوتے۔ اسے بھی بخشتا ہوں۔
(بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللّٰہ عزّو جلّ)
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَ اَنَا مَعَہُ اِذَا ذَکَرَنِیْ فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِیْ نَفْسِیْ وَ اِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاءٍ ذَکَرْتُہُ فِیْ مَلَاءٍ خَیْرٍ مِّنْھُمْ وَ اِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَ اِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَ اِنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہُ ھَرْوَلَۃً۔
(بخاری کتاب التوحید باب قول اللّٰہ تعالٰی و یحذرکم اللّٰہ نفسہ)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے سے اس کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں بھی اپنے دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اور اگر وہ کسی محفل میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس سے بہتر محفل (یعنی مقرب فرشتوں کی محفل) میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب آتا ہوں۔ اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کے پاس آتا ہوں۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللّٰہُ رَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ۔
(بخاری کتاب الرقاق باب البُکاء من خشیۃ اللّٰہ)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات آدمیوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ حشر کے دن اپنے سایہ میں رکھے گا ایک ایسا شخص جو (تنہائی میں) اللہ کو یاد کرے۔ اور اس کی آنکھیں (آنسوؤں سے) بہہ پڑیں۔ ( یعنی محبت ِالٰہی یا خوف ِخدا کی وجہ سے آنکھوں سے آنسوٹپک پڑیں)۔
قَالَ اَبُوْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَ تَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ۔
(بخاری کتاب التوحید باب قول اللّٰہ تعالیٰ لا تحرک بہ لسانک)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جہاں کہیں بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میرے ذکر سے اس کے ہونٹ ہلتے رہتے ہیں۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ اَنَا مَعَ عَبْدِیْ اِذَا ھُوَ ذَکَرَ وَ تَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَاتَاہُ۔
(ابن ماجہ کتاب الادب باب فضل الذکر)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ اس وقت تک ہوتا ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا رہے اور جب تک میری یاد سے اس کے ہونٹ ہلتے رہیں۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُسْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَجُلًا قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ شَرَائِعِ الْاِسْلَامِ قَدْ کَثُرَتْ عَلَیَّ فَاَخْبِرْنِیْ بِشَیْئٍ اَتَشَبَّتُ بِہٖ قَالَ لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔
(ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء فی فضل الذکر)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن بُسررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے احکام بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ مجھے ایسی چیز بتائیں کہ وہ میں کرتا رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری زبان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تَر رہے۔
ہمارےآقا و مولیٰ سیدنا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہترین نمونہ یہ ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلَی کُلِّ اَحْیَانِہٖ۔
(صحیح بخاری کتاب الاذان باب ھل یتتبع المؤذن فاہ ھھنا) (صحیح مسلم کتاب الحیض باب ذکر اللّٰہ تعالیٰ)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوقات میں ذکرِ الٰہی کیا کرتے تھے۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مَیں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا کہ آپ فرماتے تھے جو شخص کہے شام کو
بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّمَعَ اسْمِہِ شَیٌٔ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
تین بار یہ دعا پڑھے تو صبح تک اس کو کوئی ناگہانی بلا نہ پہنچے گی اور جو کوئی صبح کو اسے تین بار یہ دعا پڑھے تو شام تک اس کو کوئی ناگہانی بلا نہ پہنچے گی۔
(ابو داؤد کتاب الادب باب ماذا یقول اذا اصبح)
حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکرہ نے اپنے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ ،میں سنتا ہوں کہ آپ ہر صبح یہ دعا پڑھتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِی اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِی بَصَرِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ
ترجمہ:اےمیرےاللہ!تومیرے بدن میں عافیت رکھ دے۔ اے میرےاللہ! تو میرے کانوں میں عافیت رکھ دے۔اےمیرےاللہ!تومیری آنکھوں میں عافیت رکھ دے۔تیرےسواکوئی معبود نہیں ہے۔
تین بار صبح کو اور تین بار شام کو آپ پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا پڑھتے دیکھا تو مجھے پسند ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنا۔
(ابو داؤد کتاب الادب باب ماذا یقول اذا اصبح)
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام ذکر الٰہی کی اصل غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اصل غرض ذکر ِالٰہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے۔ اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔ تذکرۃ الاولیا ء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودا لیا اور ستر ہزار کا دیا۔ مگر وہ ایک آن بھی خدا سے جدا نہیں ہوا۔ پس یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایاہے۔ لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ (النور:38) جب دل خداتعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے ،کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیںوہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے۔ وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیںکیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے۔ یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانۂ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتاہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ15)
نیز فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰیْ جُنُوْبِھِمْ (آل عمران:192) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا پہلو بیان کیا ہے کہ اُولُوالالباب اور عقل سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جلّ شانہٗ کا ذکر اُٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں۔ یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ عقل و دانش ایسی چیز یں ہیں جو یونہی حاصل ہو سکتی ہیں۔ نہیں۔ بلکہ سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔
(ملفوطات جلد اوّل صفحہ41)
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔
جہاں عظمت اور ذکرِ الٰہی ہو وہاں فیضانِ الٰہی کثرت سے نازل ہوتا ہے۔
(خطباتِ نور صفحہ 53 )
نیز فرمایا : رات کو اگر تم جنابِ الٰہی کو یاد کیا کرو۔ تو تمہاری روح کو جنابِ الٰہی سے بڑا تعلق ہو جائے۔ مومن اگر ذرا بھی توجہ کرے۔ تو سب مشکلات آسانی سے دور ہو جائیں۔
(حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 231۔ 232)
عادتِ ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں
دل میں ہو عشقِ صنم لب پہ مگر نام نہ ہو
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نیز فرمایا : جب تم اللہ تعالیٰ کو یاد کرو گے تو وہ بھی تمہیں یاد کرے گا۔ تمہیں اپنے قرب اور الہام سے عزت بخشے گا۔ اور تمہاری اور تمہاری قوم کی اصلاح کے سامان پیدا فرمائے گا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دوسرے خطبہ میں جو کلمات پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اس کے کچھ الفاظ یہ بھی ہیں کہ اُذْکُرُوْا اللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ یعنی اللہ کو یاد کرو جس کے نتیجہ میں وہ تمہیں یاد کرے گا۔ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْ کُمْ (سورہ البقرہ:153) یعنی چاہیے کہ تم مجھے یاد کرو۔ اس کے نتیجہ میں میں بھی تمہیں یاد کروں گا یعنی تمہیں اپنے قرب میں جگہ دوںگا۔ اور تمہاری ہر تکلیف اور مصیبت میں تمہاری مدد کروں گا اور ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لے گاوہ بہت سی بدیوں سے بچ جائے گا۔ اور خدا تعالیٰ کا معاملہ بھی اس سے محبت اور پیار کا ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے اسلام نے تمام اجتماعات میں ذکرِالٰہی اور عبادت پر بڑا زور دیا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو ہم حج کے لئے جاتے ہیںتو وہاں بھی ذکرِ الٰہی ہوتا ہے۔ عیدین میں جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکرِ الٰہی ہوتا ہے۔ شادی اور بیاہ کے لئے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکرِ الٰہی ہوتا ہے۔ جنازہ کے لئے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکر ِ الٰہی ہوتا ہے۔ گویا ہمارے سب اجتماعوں کو با برکت بنانے کا نسخہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ ان میں ذکرِ الٰہی اور عبادت زیادہ کی جائے۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مجلس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس میں اُتر آتے ہیں۔ پس مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنے اوقات کو اس طرح صرف کرے کہ ذکرِ الٰہی اس کی زبان پر جاری ہو۔ اور نمازوں میں اسے شغف اور رغبت ہو۔ ذکرِ الٰہی کرنا گویا سوئچ آن (Switch on) کرنا ہے۔ (Switch on) کر دیا جائے تو روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور اگر سوئچ آن (Switch on) نہ کیا جائے تو پھر اندھیرا ہی رہتا ہے۔ اسی طرح اگر ذکر ِ الٰہی نہ کیا جائے تو طبیعت روشن نہیں ہوتی۔ پس اپنے اندر ذکرِ الٰہی کی عادت پیدا کرو تا خدا سے تمہارا تعلق بڑھ جائے۔ تمہارے اندر ہمت پیدا ہو جائے۔تمہاری نظروں میں تاثیر پیدا ہو جائے اور دشمن کے دلوں میں بھی تمہارا رُعب بیٹھ جائے اور دشمن خود بول اُٹھے کہ یہ لوگ واقعی روحانیت کے پتلے ہیں۔
(تفسیر کبیر جلد 7صفحہ654-653)
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔
پس ذکر الٰہی کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ ذکر الٰہی ہر ذکر سے بڑھ کر ہے جو نماز میں ہی نہیں بلکہ نماز کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ پس اگر آپ اپنے دل کو ذکر سے سجائیں گے تو طبعی طور پر لغو باتوں کی طرف توجہ ہو ہی نہیں سکتی۔ ناممکن ہے کہ ایک انسان اللہ کو یاد کر رہا ہو اور ساتھ ہی لغو باتیں کر رہا ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ لغو باتیں تو سبھی ہیں لیکن اس کے دل میں ذکر بہرحال نہیں ہے کیونکہ ذکر الٰہی سے پاک کلام جاری ہوتا ہے اور انسان کی زبان پر اللہ تعالیٰ کا تصرّف ہو جاتا ہے۔
(خطاباتِ طاہر، افتتاحی خطابات جلسہ ہائے سالانہ جلد 2صفحہ 450)
نیز فرمایا: ذکرِ الٰہی زبان کو ناپاکی سے بچانے کے لئے متبادل خوبی ہے اس لئے ذکر سے اپنے منہ کو معطر رکھیں تو بدیا ں ، گالی گلوچ ، فحش کلامی خود بخود دور ہونی شروع ہو جائے گی۔ محض آپ کسی کو کہیں کہ گالیاں نہ دو تو وہ اس بُری عادت کو نہیں چھوڑے گا لہٰذا اسے ذکرِ الٰہی اور درود شریف کی طرف توجہ دلائیں۔ اسے کہیں کہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنے کی کوشش کیا کرو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا کرو اور سوچ سمجھ کر ایسا کیا کرو۔ جس شخص کو یہ عادت پڑنی شروع ہو جائے گی تو جس قدر یہ عادت راسخ ہو گی اسی قدر فحش کلامی کی عادت ختم ہوتی چلی جائے گی ، کیونکہ زیادہ طاقت ور اور زیادہ مثبت قدر نے اس کی جگہ گھیر لی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذکرِ الٰہی پر بہت زور دیں ، نماز ذکرِ الٰہی اور درود شریف سے اپنی زبان اور اپنے دل کو تَر رکھیں۔
(خطباتِ طاہر جلد 2 صفحہ 412۔ 414)
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ذکرِ الٰہی کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تَر رکھیں اور یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا ہر فعل اور ہر عمل اور اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے والا ہر قدم ایسا ہو جس سے اللہ تعالیٰ دوڑ کر ہمارے پاس آئے اور ہمیں اپنے پیار کی چادر میں لپیٹ لے۔
(خطباتِ مسرور جلد2 صفحہ 768)
نیز فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تَر رکھیں اور زبانیں تَر رکھنے سے ہی ہماری فتوحات کے دروازے کھلنے ہیں۔ ان شاء اللہ
(خطباتِ مسرور جلد 6 صفحہ 64)
پھر فرمایا : پس ہمارا۔ ۔ ۔ کام ہے کہ آج اور ہمیشہ اپنی زبان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے تَر رکھیں۔ اور اس میں ترقی کرتے چلے جائیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 25جنوری 2013ء)
اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت کے حصول، اعلیٰ ترقیات کے حصول کے لئے اور سیدنا حضرت اقدس محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت لوگوں کے دلوں میں قائم کرنے کے لئے اور خدائے واحد و یگانہ کی توحید کا پرچم پوری دنیا میں گاڑنے کے لئے اور ظلمت و تاریکی کو دنیا سے مٹانے کے لئے مہدی آخرالزماں کے قدم بقدم چلتے ہوئے اور خلافت احمدیہ کے سائے تلے ہمیں اپنی زبانوں کو ہر وقت ذکر الٰہی سے تر رکھنا چاہیے تا ہمیں وہ نور فراست عطا ہو جو شیطان کی حکومت کو دنیا سے کلیۃً مٹا کر رکھ دے۔
شیطان کی حکومت مِٹ جائے اس جہاں سے
حاکم تمام دُنیا پہ میرا مصطفٰےؐ ہو
ذکرِ الٰہی کن کلمات میں ہونا چاہئے؟
عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ سَمِعْتَُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَفْضَلُ الدُّعَآئِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
(ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء انَّ دعوۃ المسلم مستجابۃ)
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ بہترین ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔ اور بہترین دعا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ہے۔
عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّبِشَجَرَۃٍ یَّابِسَۃِ الْوَرَقِ فَضَرَبَھَا بِعَصَاہُ فَتَنَاثَرَ الْوَرَقُ فَقَالَ اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ لَتُسَاقِطُ مِنْ ذُنُوْبِ الْعَبْدِ کَمَا تُسَاقِطُ وَرَقُ الشَّجَرَۃِ ھٰذِہٖ۔
(جامع ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر 3310)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک خشک پتوں والے درخت پر سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنی لاٹھی ماری تو اس کے پتے جھڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ لَااِلٰہٰ اِلَّا اللّٰہُ اور اللّٰہُ اَکْبَرْ کہنے سے اسی طرح گناہ جھڑتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔
(صحیح بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ وَنضع الموازین القسط)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :دو کلمے ایسے ہیں جوخدائے رحمان کو بہت زیادہ پسند ہیں۔ زبان پر بہت ہلکے ہیں یعنی زبان سے ادائیگی میں بہت آسان ہیں۔ وزن میں بہت بھاری ہیں (یعنی خدائے بزرگ و بر تر کے دربار میں جب اعمال کا وزن ہو گاتوان کی بہت قدرہوگی) وہ دو کلمے یہ ہیں۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :۔
ایک مرتبہ مَیں سخت بیمار ہوایہاںتک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ یٰسین سُنائی۔ جب تیسری مرتبہ سورہ یٰسین سنائی گئی تو مَیں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جو اب وہ دنیا سے گزر بھی گئے۔ دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے۔ اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار دم بدم حاجت ہو کر خون آتا تھا۔ سولہ دن برابر ایسی حالت رہی۔ اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہو گیا۔ حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری۔ جب بیماری کوسولہواں دن چڑھا۔ تو اس دن بکلی حالتِ یاس ظاہر ہو کر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یٰسین سنائی گئی۔ اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہو گا۔ تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظیْم۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔ اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال۔ اور یہ کلماتِ طیّبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پُشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اس سے تُو شفاء پائے گا۔ چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا۔ اور مَیں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا۔ جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی۔ اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں دردناک جلن تھی اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اس حالت سے نجات ہو۔ مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلماتِ طیّبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے مَیں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے۔ اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ مَیں نے دیکھا کہ بیماری بکلی مجھے چھوڑ گئی۔ اور مَیں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔
(تریاق القلوب ،روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 208۔ 209)
عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کَانَ اَکْثَرُ دُعَآئِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھَمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول النبیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
اے ہمارے ربّ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطاء فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطاء فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بارہ میں فرماتے ہیں :۔
آپ علیہ السلام نے ایک زمانے میں خاص طور پر جماعت کو یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی کہ ’’رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘(البقرہ : 202)
(خطباتِ مسرور جلد 10صفحہ 44)
قَالَ (رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) یَا اَبَا مُوْسٰیْ (اَشْعَرِیْ) اَوْ یَا عَبْدَاللّٰہِ اَلَا اَدُلُّکَ عَلَی کَلِمَۃٍ مِنْ کَنْزِالْجَنَّۃِ ، قُلْتُ بَلٰی، (یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) قَالَ: لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
(بخاری کتاب الدعوات باب قول لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ)
ترجمہ :(حضرت ابومُوسٰی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فر ما یا : اے ابو موسٰی یا یوں فرمایا اے عبد اللہ !کیا مَیں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک کلمہ نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کی ہاں (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ضرور بتائیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھا کرو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ مجھ میں برائیوں سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکیوں کے کرنے کی قوت۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے تحریر فرماتے ہیں :
خاکسار کے حقیقی ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کرنے کے بعد سوال کیا کرتے تھے کہ حضور کسی وظیفہ وغیرہ کا ارشاد فرماویں۔ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر یوں فرمایا کرتے تھے۔ کہ نماز سنوار کر پڑھا کریں۔ اور نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں۔ اور قرآن شریف بہت پڑھا کریں۔
نیز آپ ؑ وظائف کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اِستغفار کیا کریں۔ سورۃ فاتحہ پڑھا کریں۔ درود شریف پر مداومت کریں۔ اسی طرح لَا حَوْلَ اور سُبْحَانَ اللّٰہ پر مواظبت کریںاور فرماتے تھے کہ بس ہمارے وظائف تو یہی ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام منتر جنتر کی طرح وظائف کے قائل نہ تھے۔ بلکہ صرف دعا اور ذکرِ الٰہی کے طریق پر بعض فقرات کی تلقین فرماتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 507)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
حضرت میاں امیر الدین صاحب احمدی گجراتی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے اپنے قرضدار ہونے کی شکایت حضرت صاحب کے پاس کی۔ آپؑ نے فرمایا کہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرو۔ اب وہ بہت سارے لوگ جو اپنے مسائل کے بارہ میں لکھتے ہیں ، معاشی مسائل کے بارے میں لکھتے ہیں ، اُن کو عموماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام یہی بتاتے تھے کہ پانچ نمازیں پڑھا کرو اور درود شریف پڑھا کرو۔ فرمایا کہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو۔ بس یہی میرا وظیفہ تھا کہ مجھ کو مولیٰ کریم نے برکت دی اور قرض سے پاک ہو گیا۔
(خطباتِ مسرور جلد 9صفحہ 312)
نیز فرمایا : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے آپ (حضرت مولوی صوفی عطا محمد صاحب) کویہ وظیفہ لکھا تھا اور وہاں زبانی بھی فرمایا کہ وظیفے کا آپ پوچھ رہے ہیں تو کسی اور وظیفے کی ضرورت نہیں ہے ، درود شریف کثرت سے پڑھا کریں۔ الحمد شریف کثرت سے پڑھا کریں۔ استغفار کثرت سے کیا کریں۔ اور قرآن شریف کا گہری نظر سے مطالعہ کریں اور پڑھیں اور باقاعدہ تلاوت کریں۔ یہی وظیفہ ہے جو کامیابیوں کا راز ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہت سے لوگ مجھے بھی خط لکھتے رہتے ہیں ، ان کو اکثر میں اسی رہنمائی کی وجہ سے عموماً یہ بتاتا رہتا ہوں اور ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے یہ بھی لکھا ہے کسی کو کہ لَاحَوْل بھی پڑھا کریں۔ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم یہ دعا بھی پڑھنی چاہئے۔
(خطباتِ مسرورجلد9صفحہ 639)
پھر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اسمِ اعظم کے بارہ میں بیان فرماتے ہیں :
رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا تعالیٰ کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے۔ ایسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر مَیں ہوں اور وہ کوچہ سربستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں۔ ایک ان میں سے میری طرف آیا تو مَیں نے اسے مار کر ہٹا دیا۔ پھر دوسرا آیا اسے بھی ہٹا دیا۔ پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُرزور معلوم ہوتا تھا کہ مَیں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا۔ مَیں نے اس وقت غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں مَیں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا۔ مگر مَیں نے پھر کر نہ دیکھا ۔اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القاء کی گئی۔
رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ
اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسمِ اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک عافت سے اسے نجات ہو گی۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 567۔ 568)
ایک اور الہام کے بارہ میں فرمایا :۔
چونکہ بیماری وبائی کا بھی خیال تھا۔ اس کا علاج خدا تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ان ناموں کا وِرد کیا جاوے۔
یَاحَفِیْظُ۔ یَاعَزِیْزُ۔ یَارَفِیْقُ۔
رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسماء ِباری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 427)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حلِ مشکلات کے لئے حضرت نواب محمدعلی خان صاحب کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں :
آپ درویشانہ سیرت سے ہر یک نماز کے بعد گیارہ دفعہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم پڑھیں اور رات کو سونے کے وقت معمولی نماز کے بعد کم از کم اکتالیس دفعہ درود شریف پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھیں اور ہر یک سجدہ میں کم سے کم تین دفعہ یہ دعا پڑھیں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْث۔ پھر نماز پوری کر کے سلام پھیر دیں اور اپنے لئے دعا کریں۔
(مکتوباتِ احمد جلد دوم مکتوب نمبر 80 صفحہ 291)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’مَیں بعض دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی جوبلی کے لئے پہلے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بتائی تھیں۔ پھر بعد میں خلافت جوبلی کے لئے مَیں نے بتائی تھیں۔ ان کو بھولنا نہیں ، نہ کم کرنا ہے ، ان کو ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے۔ مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا چاہئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں سے پہلے سورۃ فاتحہ ہے، اس کو بہت زیادہ پڑھنا چاہئے۔ درود شریف ہے جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں ، اس کا بہت زیادہ ورد کریں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو جو الہامی دعا سکھائی گئی تھی۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظیْم۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔ (تذکرہ صفحہ 25) اس کو بہت زیادہ پڑھیں۔
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں جو بولنے کے لحاظ سے زبان پر نہایت ہی ہلکے ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے ترازو میں بہت وزنی ہیں اور وہ خدائے رحمان کے بہت ہی پیارے ہیں اور وہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظیْم۔ آپ نے فرمایا خدائے رحمان کے بہت پیارے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے رحم کو ابھارنے کے لئے یہ دعا بھی بہت ضروری ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب فضل التسبیح حدیث نمبر 6406)
پھر یہ دعا تھی جو اَب بھی پڑھنی چاہئے کہ
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَ یْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ
(آل عمران:9)
یعنی اے اللہ ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا ہونے نہ دینا بعد اس کے کہ تُو ہمیں ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر۔ یقینًا تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد خواب دیکھی تھی جس میں آپ ؑ نے بڑی تاکید فرمائی تھی کہ یہ دعا بہت پڑھا کرو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا والی۔ حضرت خلیفہ اوّل ؓکو جب آپ نے یہ خواب سنائی تو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ میں اب اسے کبھی پڑھنا نہیں چھوڑوں گا۔ بہت زیادہ پڑھوں گا اور یہ فرمایا کہ جہاں اس میں ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ سے التجا ہے وہاں یہ دعا نظام خلافت سے جڑے رہنے کے لئے بھی بہت بڑی دعا ہے۔
(ماخوذ از تحریرات مبارکہ صفحہ306۔307)
پھر ایک دعا تھی جس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًاوَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ o
(البقرہ۔ 251)
اے ہمارے ربّ ! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔
پھر اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ کی دعا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس فرماتے تھے تو آپ یہ دعا پڑھتے تھے کہ
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ
(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب ما یقول الرجل اذا خاف قوماً)
اے اللہ! ہم تجھے ان کے سینوں میں ڈالتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اے اللہ! تو ہی ان پر ایسا وار کر جس سے ان کی زندگی کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور ہم ان کی شرارتوں سے بچ جائیں۔ تو ہی ہے جو ان شریروں اور فساد پیدا کرنے والوں اور ظلم کرنے والوں کی طاقت توڑنے والا ہے۔ پس ان کا خاتمہ کر اور ہمیں ان کے شر سے اپنی پناہ میں لے لے۔
پھر جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ استغفار کا بھی فرماتا ہے کہ بہت زیادہ استغفار کرو:
اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ کی دعا ہے۔
پھر اسی طرح کچھ عرصہ ہوا مَیں نے ایک خواب کی بنا پر کہا تھا کہ
رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ (تذکرہ صفحہ 363) کی دعا بہت زیادہ پڑھیں۔ پھر یہ دعا بھی اس میں شامل کریں جو میں نے گزشتہ خطبہ میں بتائی تھی کہ
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِی اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِِ الْکٰفِرِیْنَ
(آل عمران:148)
کہ اے ہمارے ربّ ! ہمارے قصور یعنی کوتاہیاں اور ہمارے اعمال میں ہماری زیادتیاں ہمیں معاف کر اور ہمارے قدموں کو مضبوط کر اور کافر لوگو ں کے خلاف ہماری مدد کر۔
اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک الہامی دعا ہے اسے پڑھنے کی بہت ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ دعا یہ ہے:
یَارَبِّ فَاسْمَعْ دُعَائِیْ وَمَزِّقْ اَعْدَائَکَ وَاَعْدَائِیْ وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْلَنَا حُسَامَکَ وَلَا تَذَرْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا۔
کہ اے میرے ربّ ! تو میری دعا سُن اور اپنے دشمن اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرما اور ہمیں اپنے دن دکھا اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ۔
(تذکرہ صفحہ 426)
پس یہ دعائیں ہیں ان کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘
(خطبات مسرورجلد12صفحہ327۔ 330)
آج کل دعاؤں ، دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر لحاظ سے جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی دعائیں کرنے اور دعاؤں کی قبولیت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10اپریل 2020ء سہ روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن 26اپریل 2020ء)
(رانا غلام مصطفیٰ)