• 19 اپریل, 2024

ہمارے مذہب کا خلاصہ

ہمارے مذہب کا خلاصہ …کلمہ طیبہ …تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن سے ثابت، سب پر ایمان … صوم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج … خداتعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
مزید وضاحت سے اپنے عقیدے اور عملی حالت کی حقیقت کے معیار کے بارے میں جماعت کو بھی توجہ دلاتے ہوئے آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے مذہب کا خلاصہ‘‘ (کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے؟ اس میں عقیدے کی بھی وضاحت ہو جائے گی اور اس عقیدے کے ساتھ جو ہمارے عمل وابستہ ہیں اُن کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے۔) فرماتے ہیں ’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لُبِّ لُباب یہ ہے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ ہمار ااعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالَم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے۔ اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتاجو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافرہے۔ اور ہمار ااس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتاچہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجُز اقتدا اس امام الرسل کے حاصل ہو سکیں۔ کوئی مرتبہ شر ف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلّی اور طفیلی طور پر ملتا ہے۔ اور ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ جو راستباز اور کامل لوگ شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہو کر تکمیلِ منازل سلوک کرچکے ہیں اُن کے کمالات کی نسبت بھی ہمارے کمالات اگر ہمیں حاصل ہوں بطور ظل کے واقع ہیں اور اُن میں بعض ایسے جُزئی فضائل ہیں جو اَب ہمیں کسی طرح سے حاصل نہیں ہو سکتے۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ169-170)

یعنی وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہیں اُن کے بعض فضائل ایسے ہیں جو اَب نہیں مل سکتے۔ انہوں نے دیکھا، وہ آپ ؐ کی صحبت میں رہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں:
’’جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں۔ اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر ’’حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہ‘‘ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو‘‘ (یعنی آپس میں اختلاف ہو) ’’قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں‘‘۔ (حدیث پر قرآن کو ترجیح ہے۔) فرماتے ہیں ’’بالخصوص قصوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں۔ اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جلّ شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے‘‘ (یعنی اپنی مرضی سے جہاں ضروری ہو بدل لے، حلال حرام کے بارہ میں اپنے فیصلے کرنا شروع کر دے) ’’وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ اور اسی پر مریں۔ اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں۔ اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور خداتعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلفِ صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے۔ اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے‘‘۔

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ323)

پھر اس عقیدے کا اظہار فرماتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر شے فانی ہے آپ نے واضح فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک انسان تھے، نبی اللہ تھے اور اس لحاظ سے اُن کی بھی ایک عمر کے بعد وفات ہوگئی۔ ہاں صلیبی موت سے اللہ تعالیٰ نے اُن کو بچا لیا اور صلیب کے زخموں سے صحت یاب فرمایا اور پھر انہوں نے ہجرت کی اور کشمیر میں آپ کی وفات ہوئی۔ بہر حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وفات پانے کے عقیدے کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ’’مَیں حضرت مسیح علیہ السلام کو فوت شدہ اور داخل موتیٰ ایماناً و یقیناً جانتا ہوں اور ان کے مرجانے پر یقین رکھتا ہوں۔ اور کیوں یقین نہ رکھوں جب کہ میرا مولیٰ، میرا آقا اپنی کتاب عزیز اور قرآن کریم میں ان کو متوفّیوں کی جماعت میں داخل کرچکا ہے اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق عادت زندگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں بلکہ ان کو صرف فوت شدہ کہہ کر پھر چُپ ہوگیا۔ لہٰذا اُن کا زندہ بجسدہٖ العنصری ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنے ہی الہام کی رُو سے خلاف واقعہ سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیاتِ مسیح کو نصوص بیّنہ قطعیہ یقینیہ قرآن کریم کی رو سے لغو اور باطل جانتا ہوں‘‘۔

(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ315)

یعنی قرآنِ کریم کی جو بڑی یقینی اور قطعی اور کھلی کھلی آیات ہیں، اُن کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ السلام کو فوت شدہ سمجھتا ہوں اور اُن کی حیات کے خیال کو لغو اور باطل سمجھتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اعتقادی لحاظ سے تم میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ارکانِ اسلام کو ماننے کا اُن کا بھی دعویٰ ہے، تمہارا بھی ہے۔ ایمان کے جتنے رُکن ہیں، جس طرح ایک احمدی اُن پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے، دوسرے بھی منہ سے یہی دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ یہاں تک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد ایک طبقہ حضرت عیسیٰ کی وفات پر یقین کرنے لگ گیا ہے۔ پھر خونی مہدی کا جو نظریہ تھا کہ مہدی آئے گا اور قتل کرے گا اور اصلاح کرے گا، اُس کے بارے میں بھی نظریات بدل گئے ہیں۔ … اُن میں آپ نے یہاں تک فرمایا کہ ہندوستان میں پڑھے لکھے لوگوں میں سے شاید دس میں سے ایک بھی نہ ملے جو حیاتِ مسیح کا قائل ہو۔

(ماخوذ ازخطبات محمود، جلد17 صفحہ317 خطبہ جمعہ 22مئی 1936)

اسی طرح قرآنِ کریم کی آیات کی منسوخی کا جہاں تک سوال ہے عموماً اب اس میں ناسخ و منسوخ کا ذکر نہیں کیا جاتا، وہ شدت نہیں پائی جاتی جو پہلے تھی۔

(ماخوذ ازخطبات محمود، جلد17 صفحہ318 خطبہ جمعہ 22مئی 1936)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی ثابت فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد بعض عقائد پر دوسرے مسلمان جو بڑی شدت رکھتے تھے، وہ بھی اب دفاعی حالت میں آ گئے ہیں، وہ شدت کم ہو گئی ہے، یا مانتے ہیں یا خاموش ہو جاتے ہیں۔

(ماخوذ ازخطبات محمود، جلد17 صفحہ329 خطبہ جمعہ 29مئی 1936)

(خطبہ جمعہ 30؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

سانحہ ارتحال