• 27 جولائی, 2024

عشرہ ذوالحجہ کی اہمیت اور قربانی کے مسائل

ایڈیٹر کے قلم سے
عشرہ ذوالحجہ کی اہمیت اور قربانی کے مسائل

ذوالحجہ اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ہے۔ یہ ایک ایسا مبارک اسلامی مہینہ ہے جس میں اہم اسلامی رکن حج کی عبادت ادا کی جاتی ہے۔ اس ماہ کے پہلے دس دنوں کو احادیث کی روشنی میں خصوصی شرف حاصل ہے چنانچہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق عشرہ ذوالحجہ میں بجا لائے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے دنوں میں بجا لائے گئے اعمال سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہیں۔ مسند احمد بن حنبل میں حضرت ابن عمرؓ کے حوالے سے آنحضور ﷺ کا یہ قول درج ہے کہ ان دنوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت باعظمت اور محبوب ہیں اس لئے کثرت سے ان دنوں تَہْلِیْل، تَکْبِیْر اور تَحْمِیْد کہو۔

جامع ترمذی میں لکھا ہے کہ 9ذوالحجہ (یوم عرفہ) کے دن کا روزہ گزشتہ اور آئندہ دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ عشرہ ذوالحجہ میں احادیث پر عمل کرتے ہوئے زیادہ ذوق و شوق سے عبادات و نوافل کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کا یہ عمل درج ہے کہ آپ دونوں ان ایام میں بازار میں نکل جاتے بلند آواز سے تکبیریں پڑھتے اور حضرت سعید بن جبیرؓ کے متعلق بھی احادیث میں اعمال صالحہ بجالانے کے لئے سعی و کوشش کرنے کے متعلق آتا ہے۔

اس عشرہ کے آغاز سے تعلق رکھنے والی ایک اہم بات یہ ہے کہ قربانی کرنے والا ذوالحجہ کے چاند کے بعد نہ حجامت بنوائے نہ بال کٹوائے نہ ناخن ترشوائے۔ ابوداؤد کی ایک روایت کے مطابق قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے کو بھی ایسا کرنے یعنی بال وغیرہ نہ کٹوانے کی ہدایت ہے اس طرح اسے بھی قربانی کے برابر ثواب ملے گا۔

اس عشرہ کی اہمیت بیان کرنے کے بعد عید کا فلسفہ اور قربانی کے مسائل بیان کئے جاتے ہیں۔ اس عید کے لئے اَضْحٰی کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی قربانی کے جانور کے ہیں۔ اَضْحٰی کا لفظ صرف غیرحاجی لوگوں کی قربانیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ حاجی لوگوں کی قربانیوں کے لئے قرآن و حدیث میں ھَدْیٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عید الاضحی کی نماز صرف غیرحاجیوں کے لئے مقرر ہے۔ حج کے موقع پر یہ نماز ادا نہیں کی جاتی کیونکہ حج خود اپنی ذات میں بھاری عید ہے اور عید کے تمام پہلو اور عناصر بدرجہ اتم اس میں پائے جاتے ہیں۔ شریعت نے عید الاضحی کی نماز غیرحاجی لوگوں کے واسطے اس لئے رکھی ہے کہ جہاں ایک طرف حج کے ایام میں حاجی لوگ حج کی عید منا رہے ہوں وہاں غیرحاجی جنہیں کسی مجبوری کی وجہ سے حج کی توفیق نہیں مل سکی وہ اکناف عالم میں اپنی اپنی جگہ پر عید کر کے اور قربانیاں دے کر اس عظیم الشان قربانی کی یاد کو تازہ رکھیں جس کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سے حضرت اسماعیلؑ کے وجود میں ہوا اور پھر وہ آنحضرتؐ کے وجود باجود میں اپنے معراج کو پہنچی۔

آجکل مسلمان دکھاوے کی خاطر اور واہ واہ کروانے کے لئے بڑے سے بڑا جانور ذبح کرتے ہیں مگر اس کے فلسفہ اور حقیقت سے ناآشنا ہیں حتی کہ لوگ اس کے نام کو بھول گئے ہیں اور جسے دیکھو عیدالضحیٰ یعنی صبح کے وقت کی عید کہتا دکھائی دیتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ قربانی سنت مؤکدہ ہے جو ہر صاحب استطاعت اور ذی ثروت پر واجب ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ہر سال خود بھی قربانی کی اور صحابہؓ کو بھی اس کی تاکید فرمائی آنحضرت ﷺ کو عید الاضحی کی قربانی کا اس قدر خیال تھا کہ آپؐ نے وفات سے قبل سیدنا حضرت علیؓ کو وصیت فرمائی کہ میرے بعد بھی میری طرف سے اس موقع پر ہمیشہ قربانی کرتے رہنا۔ آپ نے عیدالاضحی کے روز خطبہ دیتے ہوئے صحابہؓ کو تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دن پہلا کام انسان کو یہ کرنا چاہئے کہ وہ نماز عید ادا کرے اور پھر اس کے بعد قربانی دے سو جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا۔

ترمذی کی روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ خدا کی نظر میں عیدا لاضحی والے دن انسان کا کوئی عمل قربانی کے جانور کو ذبح کرنے اور اس کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں۔ ابن ماجہ میں آنحضورؐ کا یہ قول درج ہے کہ قربانی کے جانور کے جسم کا ہربال قربانی کرنے والے کے لئے ایک نیکی ہے جو اسے خدا سے اجر پانے کا مستحق بنائے گی۔ ایک موقع پر آپؐ نے مالی وسعت رکھنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے مالی طاقت رکھتے ہوئے مالی قربانی نہیں کی اس کا کیا کام ہے کہ وہ ہماری عید گاہ میں آکر نماز میں شامل ہو۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپؐ نے نہ صرف خود قربانی کی بلکہ مزید تاکید اور تحریک کی غرض سے اپنی امت کی طرف سے بھی ایک دنبہ منگوا کر ذبح کیا اور دعا کی :
’’اے میرے آسمانی آقا! اس قربانی کو محمدؐ اس کی آل اور امت کی طرف سے قبول فرما‘‘

ان اقوال مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی ہمارے پیارے رسول حضرت محمدﷺ کی مبارک سنت ہے جس کے متعلق آپؐ نے بہت تاکید فرمائی اور بھاری ثواب کا موجب قرار دیا۔ اور قرآنی حکم اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کے تحت ہر اس شخص پر جو قربانی کی طاقت رکھتا ہے رسول خدا کی اطاعت کرتے ہوئے قربانی واجب ہوجاتی ہے۔ قرآنی حکم فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ میں بھی اسی قربانی کا ذکر ہے کیونکہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی اس وقت حج فرض نہیں ہوا تھا۔

اگر سارے گھر کی طرف سے ایک صاحب استطاعت شخص قربانی کردے تو یہ قربانی سب کی طرف سے سمجھی جائے گی قربانی کا جانور خریدتے وقت یہ امر مدنظر رہے کہ جانور صحتمند ہو، مالک کو پسند ہو، عیب دار اور کمزور نہ ہو۔ احادیث کے مطابق لنگڑے سینگ ٹوٹے، اندھے، بیمار، دبلے (جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو) جانور نیز ایسا جانور جس کا کان آگے سے یا پیچھے سے کٹا ہو یا کان لپٹا ہوا یا پھٹا ہوا یا کان میں سوراخ والا جانور جائز نہیں۔ اسی طرح دودھ والے اور حاملہ جانور سے بھی منع کیا گیا ہے۔ یہ امر بھی مدنظر رہے کہ اونٹ کی عمر کم سے کم تین سال، گائے دوسال، بھیڑ بکری ایک سال اور دنبہ چھ ماہ کا بھی جائز ہے اگر موٹا تازہ ہو۔ شریعت کی رو سے اونٹ میں دس حصے، گائے میں سات حصے جبکہ بکری دنبہ وغیرہ ایک شخص یا گھر کی طرف سے ہوتا ہے۔

شریعت نے قربانی کے گوشت کے بہتر سے بہتر استعمال کے لئے یہ حکم دیا ہے کہ خود بھی کھاؤ اور عزیزوں اور رشتہ داروں کو دو۔ پڑوسیوں کو ہدیہ بھجواؤ محلہ کے غریب اور مفلس لوگوں میں تقسیم کرو تا کہ فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ پر عمل ہو۔ آنحضور ﷺ نے عید کے تین دنوں کو ایام التشریق قرار دیا ہے۔ جس کے متعلق فرمایا کہ یہ کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔

(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ)

شریعت نے اس بات کی بھی قربانی کرنے والے کو تحریک کی ہے کہ وہ حتی الوسع کوشش کرے کہ جانور کو خود تیز چھری سے ذبح کرے یا کم از کم قربانی کو اپنے سامنے ذبح کروائے تا اس میں جانی قربانی کے نظارے دیکھنے کی جرأت پیدا ہو اور یہ سبق دینا مقصود ہوتا ہے کہ جس طرح جانور انسان کے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں اور وہ انسان کے لئے قربان ہو رہے ہوتے ہیں اسی طرح وہ خود بھی کسی قبضہ قدرت میں ہے اسے بھی جانورکی طرح ہروقت خدا کی خاطر جب بھی جانی قربانی کی ضرورت پڑے تیار رہنا چاہئے۔

قربانی کے بارہ میں ایک اہم قرآنی فلسفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو جانوروں کا گوشت اور خون خدا تک نہیں پہنچتا بلکہ دلوں کا تقویٰ ہے جو پہنچتا ہے گویا کہ انسان اپنی نیت کے مطابق قربانی کا اجر پاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قربانی کا فلسفہ یوں بیان فرمایا ہے:

اِنَّ الضَّحَایَا ھِیَ الْمَطَایَا تُوْصَلُ اِلیٰ رَبِّ الْبَرَایَا اَوْ تَمْحُوا الْخَطَایَا وَ تَدْفَعُ الْبَلَایَا

(خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد16 صفحہ45)

یعنی یہ قربانیاں تو سواریاں ہیں جن پر سوار ہر کر خالق کائنات سے ملا جاسکتا ہے یا اپنی خطائیں معاف کرائی جاسکتی ہیں اور مشکلات سے دور رہا جاسکتا ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

سانحہ ارتحال