• 29 جولائی, 2025

حج بیت اللہ شریف میں ولولہ انگیز کیفیات

چونکہ عالمی عدالت میں تقرر 2فروری 1964ء سے عمل میں آنا تھا میں نے اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر کے منصب کا چارج 5فروری 1964ء کو چھوڑ دیا۔ عدالت میں دوبارہ تقرر کے دیگر فوائد کے علاوہ ایک نعمت عظمیٰ جو حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ مارچ1967ء میں میری حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کی دیرینہ آرزو محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ذرّہ نوازی سے بَر آئی۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْراً طَیِّباً مُبَارَکاً فِیْہِ۔ حُسنِ اتفاق سے عزیز انور احمد اور عزیزہ امینہ کا ساتھ بھی میسّر آگیا جن کی رفاقت کی وجہ سے مجھے بہت آرام ملا۔ فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ خَیْراً ہم کراچی سے 10مارچ 1967ء جمعہ کے دن فجر کے وقت روانہ ہوئے اور دس بجے قبل دوپہر بخیریت جدّہ پہنچ گئے۔تشریفات ملکیہ کی طرف سے ہماری رہائش کا انتظام جدّہ پیلس ہوٹل میں کیا گیا تھا جو امریکن طرز کا نہایت عمدہ آرام دہ ہوٹل ہے۔اسی دن ہم مکّہ معظمہ میں حاضر ہو کر بفضل اللہ عمرہ سے مشرف ہوئے اور پھر جدہ واپس آگئے۔ 11 کو جدہ میں ٹھہر کر تشریفات ملکیہ کے ساتھ پروگرام طے کیا۔پاکستانی سفارت خانے میں حاضر ہو کر سفیر کبیر اور ان کے افسران سے نیاز حاصل کیا۔ان میں سے دو صاحبان شیخ اعزاز نیاز صاحب افسر حج اور سید اشتیاق حسین صاحب مدیر ثالث وزارت خارجہ میں میرے رفیق کار رہ چکے تھے، اب بھی پہلے سی تواضع کے ساتھ پیش آئے اور انتظامات حج کے سلسلے میں ہمارے آرام کا موجب ہوئے۔ فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ خَیْراً۔ 12 کو ہم جدہ سے کار پر مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور 15 تک وہاں قیام کیا۔ہماری جائے قیام مسجد نبوی سے چند قدم کے فاصلے پر تھی اس سہولت کی وجہ سے ہمیں بفضل اللہ سب اوقات میں مسجد میں حاضری اور نوافل کی ادائیگی کا موقع میسر آجاتا تھا۔ البتہ رسول اکرم ﷺ کے روضۂ مبارک اور حضورؐ کے منبر کے درمیان نوافل ادا کرنے والوں کا ہر وقت اس قدر ہجوم رہتا تھا کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ان ایام میں اس مبارک مقام پر نفل ادا کرنے اور دعا کرنے کی حسرت دل میں ہی رہ جائے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص کرم اور بندہ نوازی سے یہ موقع بھی بفراغت میسر آگیا۔ غیر معمولی ہجوم کی وجہ سے مسجد کی صفائی کے متعلق خاص انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے مسجد نصف شب سے لے کر تین گھنٹے کے لئے بند کر دی جاتی ہے اور اس دوران میں خدام مسجد کی صفائی مستعدی کے ساتھ مکمل کر لیتے ہیں۔ 13 کی شام کو نمائندہ تشریفات نے ہمیں مطلع کیا کہ وہ نصف شب کے وقت تشریف لا کر ہمیں مسجد کے اندر لے چلیں گے اور جس قدر عرصہ ہم چاہیں نوافل اور دعا میں صَرف کر سکیں گے۔چنانچہ دونوں رات ہمیں یہ موقع نصیب ہوتا رہا۔ فالحمدللہ۔ 15 کو مدینہ منورہ سے جدہ واپسی ہوئی۔ 16 کو ہم پھر مکہ معظمہ حاضر ہوئے اور عمرہ اور مناسک ادا کئے۔ 17 کو مکہ معظمہ منتقل ہوگئے۔ 18 کی شام کو جلالۃ الملک فیصل کی طرف سے استقبالیہ دعوت تھی۔ عزیز انور احمد اور میں بھی مدعو تھے۔ جلالۃ الملک نے اپنی تقریر میں قضیۂ یمن کا ذکر فرمایا اور صراحت فرمائی کہ ان کا موقف یہ ہے کہ جو عناصر بھی بیرون یمن سے یمن میں داخل ہوئے ہیں وہ یمن سے نکل جائیں اور یمن کی رعایا بغیر کسی بیرونی تداخل کے آزاد انہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ مزید فرمایا ہم اعلان کرتے ہیں اور آپ سب کو اس پر گواہ ٹھہراتے ہیں کہ یمنی رعایا جو فیصلہ کسی بیرونی تداخل یا کسی جبر کے کرے گی ہم اس کے پابند ہوں گے خواہ فیصلہ ہماری نگاہ میں پسند ہو یا نہ ہو ۔جناب اسمٰعیل ازہری صاحب صدر سوڈان دعوتِ استقبالیہ میں خصوصی مہمان تھے انہوں نے بھی حاضرین کو خطاب فرمایا۔ طعام سے فراغت پر میں نے عزیز انور احمد کو جلالۃ الملک کی خدمت میں پیش کیا۔

مکہ معظمہ منتقل ہونے پر ہم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کی قیام گاہ پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ صاحبزادہ صاحب کراچی سے اسی پرواز میں جدّہ تشریف لائے تھے جس پر ہم نے سفر کیا تھا۔ جدّہ پہنچتے ہی آپ مکّہ معظمہ حاضر ہوگئے تھے۔ آپ نے ان احباب جماعت احمدیہ کی فہرست تیار کرائی جو فریضۂ حج کی ادائیگی کیلئے آئے ہوئے تھے۔ اس فہرست کی تکمیل پر معلوم ہوا کہ اس سال بفضل اللہ ایک سو سے زائد احمدی احباب نے فریضۂ حج کی سعادت حاصل کی۔ فالحمدللہ۔ ان میں ایشیا، افریقہ، یورپ سے آنے والے احباب شامل تھے۔ ممکن ہے کوئی دوست امریکہ سے بھی تشریف لائے ہوئے ہوں لیکن مجھے اس کا علم نہیں۔

مکہ معظمہ میں ہمارا قیام الحرم ہوٹل میں تھا جہاں سے کعبہ شریف چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ ہم نے بفضل اللہ دن اور رات کے ہر حصے میں طواف اور نوافل کی توفیق پائی۔ لیکن کسی وقت بھی زائرین کے ہجوم میں کمی محسوس نہ ہوئی۔ ایرانی اور ترکی حجاج کثیر تعداد میں تھے۔ ان کے قافلے وطن سے ہی پورے نظم کے ساتھ خشکی کے راستے سفر کرکے آتے ہیں اور اسی طریق سے واپس جاتے ہیں۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ان کی اپنی قیام گاہیں پہلے سے مقرر ہیں۔ اس انتظام کے نتیجے میں ترکی اور ایرانی حجاج کو بہت سی سہولت رہتی ہے۔ طواف کے دوران میں بھی ان کے حجاج اکٹھے رہتے ہیں۔ ایرانی حجاج کی ٹولی تو طواف کے دوران میں بازو میں بازو ڈال کر ایک مضبوط زنجیر بنا لیتی ہے جس سے انہیں تو سہولت رہتی ہے اور خواتین اور ضعفاء کو درمیان میں رکھنے سے ان کی حفاظت بھی ہوجاتی ہے لیکن یہ طریق بعض دفعہ دوسرے حجاج کے لئے اذیّت کا موجب ہوتا ہے۔ حجرِ اسود مقامِ ملتزم اور مقامِ ابراہیم کے درمیان جگہ محدود ہونے کی وجہ سے ہجوم کا یہاں زور ہوتا ہے۔رسول اللہ ﷺکی ہدایت ہے کہ طواف کے دوران میں خصوصیت سے حجراسود کے قریب دھکّا پیل نہ ہونی چاہئے تا کہ کسی کی اذیت کا موجب نہ ہو۔ترکی حجاج نسبتاً اطمینان سے طواف کرتے دیکھے گئے۔ان کی پہچان ان کے تلفظ سے بھی ہوجاتی ہے۔ ان میں سے اکثر تکبیر میں اللہ اکبر کا تلفظ اللہ اچبر کرتے سنائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے یہ لاطینی رسم الخط کا نتیجہ ہو۔ واللہ اَعلم بالصّواب۔ 20 کی صبح کو حجاج مکہ معظمہ سے طلوع آفتاب کے بعد روانہ ہو کر منیٰ پہنچے۔لاریوں اور موٹروں کی کثرت کی وجہ سے بہت اژدھام تھا۔کثیر تعداد حجاج کی مکہ معظمہ سے منیٰ، منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ، مزدلفہ سے منیٰ اور منیٰ سے واپسی مکہ معظمہ تمام مناسک حج پیدل ادا کرتی ہے۔حج کے ایام شروع ہونے کے ساتھ ہی ہر سمت سے آنے والے حجاج بیت اللہ کی طرف سے تلبیہ شروع ہوجاتی ہے۔ …

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔ لَبَّیْک لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک۔اِنَّ الْحَمْدَوَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَک۔ احرام باندھنے کے ساتھ ہی تین بار تلبیہ کی جاتی ہے۔دنیا کے ہر گوشے سے جونہی کوئی حاجی حج کے ارادے سے عازمِ ارضِ حجاز ہوتا ہے وہ تلبیہ کی آواز کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایام حج میں متواتر تلبیہ کا ورد ہوتا ہے۔ اب یہ بھی انتظام ہے کہ ان ایام میں مکہ معظمہ سے ریڈیو پر متواتر تلبیہ کا ورد ہوتا ہے۔ چنانچہ مدینہ منورہ سے واپسی کے سفر میں کار کے ریڈیو پر متواتر تلبیہ کا ورد سنائی دیتا تھا اور ہم بھی تلبیہ کرنے میں شامل رہتے تھے۔ اگر ریڈیو بند کر دیا جاتا یا کسی وقت ریڈیو پر تلبیہ کا ورد سنائی نہ دیتا تو ہم اپنے طور پر تلبیہ میں مصروف رہتے اور یہی حالت بقیہ ایام حج میں تھی … لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔ لَبَّیْک لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک۔اِنَّ الْحَمْدَوَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَک۔ جب مسنون دعاؤں اور مناجات میں ذہن اور زبان مصروف نہ ہوتے تو تلبیہ کے کلمات زبان پر جاری رہتے اور دل و دماغ پر ایک ولولے کی کیفیت طاری رہتی۔ ریڈیو پر تلبیہ کا ورد اس قدر شیریں لہجے میں ہوتا تھا اور تلبیہ کے کلمات دل میں ایسی والہانہ کیفیت پیدا کر دیتے تھے کہ آنکھیں متواتر پُر نم رہتی تھیں۔ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران میں طبیعت زیادہ تر درود شریف کی طرف مائل رہتی تھی۔ علاوہ منسون صلوٰۃ اور سلام کے یہ عاجز اکثر اوقات حضرت مسیح موعود کے اپنے الفاظ میں حضورؑ کی طرف سے حضورؑ کے آقا اور محبوب ﷺ پر درود بھیجنے میں مصروف رہتا تھا۔

یا ربِّ صلِّ عَلیٰ نبیّک دائماً فی ھٰذہ الدّنیا و بعثٍ ثانی۔ ایام حج میں بھی ان الفاظ میں درود بھیجنے کی سعادت متواتر حاصل ہوتی رہی۔کان ھٰذا من فضل ربّی ۔مکہ معظمہ سے منیٰ جاتے ہوئے ان تمام کیفیات میں شدّت پیدا ہوگئی۔دل پگھلا ہوا، زبان ذکر سے تر اور آنکھیں جاری تھیں۔دائیں بائیں آگے پیچھے جوان، معمر،مرد، عورت ، گورے ، کالے شمال اور جنوب سے مشرق اور مغرب سے دنیا کے کناروں سے کشاں کشاں لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔ لَبَّیْک لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک۔اِنَّ الْحَمْدَوَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَک۔ کا ورد کرتے ہوئے سوار اور پیدل شاداں و فرحاں وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ… (آل عمران:98) کے فرمان کی تعمیل میں اور من کلّ فجٍ عمیق کی پُر شوکت پیشگوئی کو سال بہ سال قرناً بعد قرنٍ پورا کرتے ہوئے بصد شوق اور بہزار نیاز مندی بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ سب چہرے بشاش، سب آنکھیں روشن، سب لبوں پر مسکراہٹ، بلاامتیاز بندہ نواز بلاتفریق محمود و ایاز ایک ہی آقا کے غلام کفن باندھے ہوئے گویا میدان حشر کی جانب کھچے چلے جار ہے تھے لیکن خوف وہراسانی میں نہیں بلکہ اپنے رب کی رحمت کی امید میں اس کے غفران پر تکیہ کئے ہوئے چہرے وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ مُّسۡفِرَۃٌ ﴿ۙ۳۹﴾ ضَاحِکَۃٌ مُّسۡتَبۡشِرَۃٌ ﴿ۚ۴۰﴾ (عبس:39۔40) منیٰ میں کچھ حجاج کا قیام مکہ معظمہ کی طرح عمارتوں میں بھی ہوتا ہے لیکن بیشتر حصے کا قیام معلمین کے زیر انتظام خیموں میں ہوتا ہے۔ تشریفات کے مہمانوں کا انتظام مہمان خانوں میں تھا جہاں سب سہولتیں میسر تھیں، کھانا ہوٹل کی نسبت زیادہ لذیذ تھا۔ اگرچہ مارچ کا مہینہ تھا لیکن موسم میں ابھی سے خاصی گرمی تھی۔ منیٰ میں تمازتِ آفتاب سے محفوظ رہنے کے لئے چھتری کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ پہلے زمانوں کی نسبت پانی آسانی اور فراوانی سے میسر آتا تھا۔فالحمد للہ پینے کے لئے ٹھنڈے مشروبات منیٰ ہی میں نہیں عرفات اور مزدلفہ میں بھی ملتے تھے۔ معلمین کے انتظام کے ماتحت کیمپوں اور خیموں میں حجاج کے قیام اور طعام کا انتظام مختلف درجوں کا تھا۔ اکثر معلمین اپنے مہمانوں کے لئے ہرقسم کی سہولت مہیا کرنے کی سعی کرتے ہیں لیکن بعض اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ بعض حکومتوں کی طرف سے اپنے حجاج کے اس حکومت کے عمّال کی براہ راست نگرانی میں سب انتظام کیا جاتا ہے۔ مثلاً ترکی اور ایرانی حکومتوں کے علاوہ انڈونیشیا کی حکومت بھی اپنے حجاج کے لئے اپنے عمّال کی زیرنگرانی انتظام کرتی ہے جس سے ان کے حجاج کو بہت سہولت رہتی ہے۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے مکہ معظمہ، منیٰ وغیرہ میں طبّی امداد کا انتظام ہوتا ہے اور خود پاکستانی سفیر کبیر اور ان کے افسران اور عملے کے اصحاب حجاج کو ہر قسم کی سہولت مہیا کرنے میں سعی کرتے ہیں اور ایک خاصی تعداد حجاج کی ان کی مہمان بھی ہوتی ہے۔منیٰ میں ایک وسیع عمارت میں پاکستانی سفارت خانے کا دفتر اور مہمان خانہ قائم ہوتا ہے۔ لیکن بعض امور ابھی مزید توجہ کے محتاج ہیں۔ مثلاً میری دانست میں سفارت خانے کی طرف سے معلمین کے انتظام کی مزید نگرانی کی ضرورت ہے۔ ایک مفید اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ جن معلمین کی طرف سے حجاج کی سہولت کے لئے خاطر خواہ انتظام نہ کیا جاتا ہو ان کے متعلق حکومت کو رپورٹ کی جائے اور ہر سال حکومت بروقت پاکستان میں اعلان کر دیا کہ فلاں معلم کی طرف سے حجاج کے آرام کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاتا تاکہ حجاج اپنے آپ کو ایسے معلمین کے سپرد کرنے میں احتیاط کریں۔

عرفات کو جاتے ہوئے منیٰ میں ایک دن رات قیام ہوتا ہے۔ پانچ نمازیں یہاں ادا ہوتی ہیں۔ عزیز انور احمد اور میں عصر کی نماز کے بعد جب اپنی قیام گاہ پر واپس آئے تو عزیزہ امینہ نے کہا آج گرمی کی شدت تکلیف دہ محسوس ہو رہی ہے۔ اس پریشانی میں میں نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی ہے معلوم نہیں ایسی دعا جائز بھی ہے یا نہیں۔ میرے دریافت کرنے پر بتلایا میں نے کچھ اس رنگ میں دعا کی ہے الٰہی ہم تیرے عاجز بندے ہیں اور تیری رضا کے حصول کے لئے تیرے فرمان کی تعمیل میں بیت اللہ کے حج کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔جہاں تُو نے فرمایا ہے طواف کرو ہم نے طواف کیا ہے، جہاں تو نے فرمایا ہے سعی کرو ہم نے سعی کی ہے ،جو تیرے فرمان ہیں وہ سب تیر ی عطا کردہ توفیق سے بجالائیں گے۔ لیکن ہم آخر تیرے مہمان ہیں، گرمی کی شدت ہو رہی ہے کل ہم سب عرفات کے میدان میں حاضر ہوں گے تجھے سب قدرت ہے تو رحم فرما اورکل کا دن ٹھنڈا کر دے۔ میں نے کہا ایسی دعا بے شک جائز ہے اللہ تعالیٰ مالک ہے لیکن اپنے بندوں کی ناز برداری بھی کرتا ہے کیا عجب کہ تمہاری دعا کی یہ ادا اللہ تعالیٰ کو بھا جائے اور وہ ویسا ہی کر دے۔دوسری صبح فجر سے قبل میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا آسمان بادلوں سے ڈھکا ہو ا تھا اور ٹھنڈی خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ دل کی عجیب کیفیت ہوئی۔ عزیزہ امینہ سے کہا لو تمہاری دعا کو شرفِ قبولیت بخشا گیا۔ تمام دن موسم خوشگوار رہا اور بادنسیم جاری رہی۔ ظہر اور عصر کے بعد بادل تو چھٹ گئے لیکن ہوا میں پھر بھی خنکی رہی ایک دو بار دن میں کچھ بوندا باندی بھی ہوئی۔ 21 کی صبح کو طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات روانہ ہوئے۔ یہ حج کا دن تھا اس دن حجاج کی بڑی کثرت تھی لیکن عرفات پہنچنے اور وہاں سے اسی شام مزدلفہ واپس پہنچنے کا انتظام بہت اچھا تھا۔ گرد وغبار و لازم تھا لیکن اتنا نہیں جس کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔ بحمدللہ موسم خوشگوار تھا۔

تشریفات کی طرف سے یہاں بھی انتظام قابل ستائش تھا۔ ہر خیمے کے باہر مہمانوں کے نام درج تھے۔اگرچہ تشریفات کے مہمانوں کی تعداد تین ہزار سے زائد تھی لیکن یہاں بھی میدان میں ہر سہولت میسر تھی۔اگرچہ حجاج ہونے کی حیثیت سے ہر مہمان کمال سادگی سے یہ مبارک دن ذکر الٰہی، استغفار، درود،تلاوت قرآن کریم اور مناسک کے بجالانے میں صَرف کرنے پر آمادہ تھا۔لیکن تشریفات کی طرف سے مہمان نوازی کے نظام کا تجربہ نہایت خوشکن تھا اور بے ساختہ جلالۃ الملک اور ان کے کارکنوں کے حق میں دلوں سے مخلصانہ دعائیں بلند ہوتی تھیں۔ تشریفات کی مہمان نوازی عام مہمان نوازی کی مانند نہیں تھی۔ اس کے بہت سے پہلو تھے اور ہر پہلو کے متعلق بہت خاطر خواہ انتظام تھا۔ جدّہ پہنچنے پر استقبال، جدّے میں ہر مہمان کی سہولت اور خواہش کے مطابق قیام و طعام اور وسائل آمدورفت کا انتظام، مدینہ منورہ جانے آنے کے سفر کا انتظام اور وہاں کے قیام و طعام کا انتظام۔اسی طرح منیٰ، مزدلفہ میں تمام ضروری انتظامات، منیٰ میں واپسی، طواف وداع، جدّہ میں واپسی اور جدّہ سے رخصت تک سب ضروری انتظامات۔ یہ سب کچھ ایسی عمدگی سے سر انجام دیا جاتا ہے کہ کسی خاص تکلف کا احساس نہیں ہوتا اور ہر ضرورت بروقت پوری ہوتی ہے اور ہر سہولت میسر ہوتی ہے۔ ایک مقام پر مہمانوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے تمام انتظامات کا اِنصرام کوئی ایسا مشکل منصوبہ نہ سہی مختلف مقامات پر چند مہمانوں کے لئے تفصیلی انتظام کوئی اتنا بڑا کارنامہ نہ سہی لیکن ہزاروں مہمانوں کیلئے مختلف مقامات پر ان کی ضروریات اور عادات کے مطابق خاطر خواہ اور ہر پہلو سے آرام دہ اور تسلی بخش انتظام حُسنِ کارکردگی کا ایک نہایت اعلیٰ نمونہ تھا جس کا ایام حج میں دو ہفتوں سے زائد کے دوران میں ہمیں اور باقی سب مہمانوں کو دل خوشکن تجربہ ہوا اور ہر مرحلے پر ہمارے دل میزبانوں کے شکر اور احسان کے احساس سے لبریز رہے۔ فجزاهم الله احسن الجزاء۔

عرفات کے دن ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کی جاتی ہیں اور امام خطبہ دیتا ہے جس کا سننا مسنون ہے اب ریڈیو پر نشر کئے جانے کی وجہ سے تمام حجاج آسانی سے اسے اپنی قیام گاہوں میں بھی سن سکتے ہیں لیکن غروب آفتاب سے قبل عرفات سے روانگی جائز نہیں۔ چونکہ صاحب المعالی السید اسمعیل الازہری صد رسوڈان مہمان خصوصی تھے اس لئے ان کی عرفات سے روانگی گویا حجاج کے لئے عرفات سے روانہ ہونے کی اجازت کے مترادف تھی۔ تشریفات کے مہمانوں کی سواریاں بھی مہمان خصوصی کی سواری کے پیچھے ایک ترتیب سے قطار بند ہو چکی تھیں۔ اس انتظام کے نتیجے میں سب مہمان عرفات سے روانگی کے نصف ساعت کے اندربسہولت مزدلفہ پہنچ گئے۔ یہاں ایک وسیع احاط قناتوں کے حلقے میں مہمانوں کے لئے مخصوص تھا۔ یہاں پہنچتے ہی سب لوگ مغرب اور عشاء کی نمازوں کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ یہ دونوں نمازیں بھی جمع کی جاتی ہیں۔ ریگستانی میدانوں میں غروب آفتاب کے ساتھ ہی گرمی ختم ہوجاتی ہے اور رات جلد خشک ہوجاتی ہے ہمیں پاکستان ہی میں متنبہ کر دیا گیا تھا کہ مزدلفہ کی رات کی سردی سے بچاؤ کے لئے کمبل ساتھ ہونے ضروری ہیں چنانچہ ہم نےجدہ سے اپنے طور پر یہ انتظام کر لیا تھا لیکن مزدلفہ پہنچنے پر گدیلے تھے اور کمبل تشریفات کی طرف سے موجود پائے۔ ہمارے پاس جوکمبل تھے وہ بھی بعض مہمانوں کی آسائش کا باعث ہوئے، فالحمد لله۔

نمازوں سے فارغ ہوتے ہی کھانا تیار تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد نوافل کاوقت میسر آگیا۔ نصف شب کے بعد مزدلفہ سے منی روانگی شروع ہوگئی۔ اس اثناء میں مجھے غالبا گردوغبار کے اثر سے زکام اور گلے میں خراش کی تکلیف شروع ہوگئی۔ ہمارا ارادہ تو تمام شب مزدلفہ میں گزارنے کا تھا لیکن ہمارے مرافق نے جو تشریفات کی طرف سے ہماری رہنمائی اور سہولت کے لئے منیٰ سے ہمارے ساتھ تھے اصرار شروع کیا کہ منیٰ کی واپسی کا وقت ہوگیا ہے میرے اطمینان کے لئے وہ مجھے مہمانوں کے احاطے سے باہر سڑک پر لے گئے اورمیں نے دیکھا کہ سڑک پر منیٰ جانے والے حجاج اور ان کی سواریوں کا ہجوم ہے۔ چنانچہ مہمانوں کے احاطے میں واپس آ کر ہم نے مطلوبہ تعداد سے کچھ زائد کنکریاں چن لیں اورمنیٰ واپس جانے کیلئے تیار ہوگئے۔ سڑک پر اس وقت بھی خاصا ہجوم تھا لیکن معلوم ہوا کہ بعد میں بتدریج بڑھتا گیا اور دن کے وقت تو سواریوں کی رفتار اس قدر دھیمی ہوگئی کہ مشکل سے ایک گھنٹے میں ایک کلومیٹر طے ہوتا ۔ ہمارے وہ دوست جنہوں نے جلسے میں ہمیں مزدلفہ کے لئے کبل عنایت کئے تھے اپنے گھر کے لوگوں کے ساتھ اپنی کار میں تھے وہ کہیں عصر کے وقت منیٰ پہنچے۔ 22 مارچ کو رمی سے فارغ ہو کر قربانی کا انتظام تھا۔ 23 کو جلالۃ الملک کی خدمت میں باریابی کاشرف حاصل ہوا اورمکہ معظمہ حاضر ہوکرطواف وداع کی سعادت حاصل کی ۔ فریضہ حج کی ادائیگی کی توفیق ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ساتھ ہی دل میں حسرت لئے ہوئے منی واپسی لوٹے کہ کم سے کم ایک بار پھر حج بیت اللہ کی توفیق میسر آئے پہلی با ر کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری بار کوتاہیوں اور غفلتوں میں ضرور کمی ہو گی اور فضل اللہ مناسک کے کماحقہ ادا کرنے اورکسب خیر کے مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا امکان بهرگا۔ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَان وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَئٍ قَدِيْر

24 کو منیٰ سے جدہ لوٹے ۔عزیز انور احمد اورعزیزہ امینہ تو اسی شام روانہ ہو گئے۔ میں 26 کی صبح کو جدّے سے روانہ ہو کر اور بیروت سے طیار تبدیل کر کے سہ پہر کو لندن پہنچ گیا۔ فالحمدللہ؎ کھائی ہے

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشند خدائے بخشندہ

(’’تحدیث نعمت‘‘ صفحہ 722تا 728 طبع ثانی دسمبر1982ء ناشر جناب اعجاز احمد صاحب و بشیر احمد صاحب مطبع پرنٹنگ پریس لاہور)

نوٹ: حضرت چوہدری صاحب نے اس کتاب کے جملہ حقوق تصنیف بنگلہ دیش کے فلاحی اداراہ دھاکہ بے نیولینٹ ایسوسی ایشن (Dacca Benevolent Association) کو اپنی زندگی میں عطا فرما دئیے تھے۔

(حضرت سر محمد ظفراللہ خان کی کتاب تحدیث نعمت کا ایک ورق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

سانحہ ارتحال