تیری تصویر اگر تیرا بدل ہو جائے
میری ہر شام ہی پھر شامِ غزل ہو جائے
جو بھی جاتا ہے تری بزم کا ہو رہتا ہے
جو بھی چاہے کہ اٹھے، آج سے کل ہو جائے
آج پھر آس بندھی مجھ کو ترے آنے کی
منہدم پھر نہ مرا تاج محل ہو جائے
کوئی اعجاز ہے یا حسنِ عقیدت ہے کہ بات
تیرے ہونٹوں سے نکلتے ہی عمل ہو جائے
اپنے ہر اشک کو لفظوں میں پروئے رکھو
شاخ سے گر کے نہ یہ پھول خجل ہو جائے
یہ ہنر میرا نہیں اس کی دعا ہے عابد!
جو مرا اشک گہر، لفظ کنول ہو جائے
(مبارک احمد عابد۔ امریکہ)