• 6 مئی, 2024

سچا اور دیانتدار تاجر کون ہوتا ہے؟

اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْأَمِيْنُ (الحدیث)
سچا اور دیانتدار تاجرکون ہوتا ہے؟

آج کے اداریہ کا عنوان حدیث النبویؐ کے مبارک الفاظ ہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ

(جامع ترمذی۔ کتاب البیوع)

ترجمہ: سچا اور دیانتدار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی معیت کا حقدار ہے۔

• ایک اور روایت میں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

التَّاجِرُ الْأَمِينُ الصَّدُوْقُ الْمُسْلِمُ مَعَ الشُّهَدَاءِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ

(سنن ابن ماجہ، ابواب التجارات)

ترجمہ: دیانت دار اور سچا مسلمان تاجر بروز قیامت شہداء میں شامل سمجھا جائے گا۔

پہلی حدیث پر نظر پڑتے ہی سورۃ النساء کی آیت 71-70ذہن میں آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ترجمہ: اور جو بھی اللہ کی اور اِس رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے (یعنی) نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے۔ اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔ یہ اللہ کا خاص فضل ہے اور اللہ صاحبِ علم ہونے کے لحاظ سے بہت کافی ہے۔

اب اس حدیث کو سورۃ النساء کی آیت کے ساتھ ملا کر دوبارہ غور سے پڑھیں تو ایک بہت ہی لطیف مضمون ابھر کر سامنے آتا ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی اطاعت کرتے ہوئے ایک سچے مسلمان اور دیانتدار شخص کی طرح تجارت کرے گا۔ اس کا شمار انبیاء، صدیقوں اور شہیدوں میں سے ہو گا۔ یہ حدیث جماعت احمدیہ کے موقف بابت ختم نبوت کی تائید کر رہی ہے۔ نیز اس سلسلہ میں ہمارے عقیدہ کے حق میں ایک بیّن دلیل بھی ہے۔

یہاں عنوان بالا میں مادی تجارت تو مراد ہے ہی مگر روحانی اور دینی تجارت بھی مراد ہے جو ہر مومن، مسلمان اپنے اللہ سے کرتا ہے۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الصف میں یوں فرمایا
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات دے گی؟ تم (جو) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو، یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

(الصف: 11-12)

یہ روحانی و دینی تجارت وہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے ارشادات پر پورا پورا ایمان لا کر اللہ کے راستے میں اپنے اموال و نفوس کے ذریعہ مجاہدہ کرنا ہے۔ ہمارا اللہ تعالیٰ کے راستے میں یہ سودا کرنا بہت منافع میں ہوگا اوراس پر مستزاد یہ کہ یہ تجارت ہمیں عذاب الیم سے بھی نجات دلائے گی۔

پھر انہی آیات کے بعد فرمایا۔
ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کے اَنصار بن جاؤ جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا (کہ) کون ہیں جو اللہ کی طرف راہ نمائی کرنے میں میرے انصار ہوں؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے انصار ہیں۔ پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے انکار کردیا۔ پس ہم نے اُن لوگوں کی جو ایمان لائے اُن کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب آگئے۔

(الصف: 15)

گویا کہ انبیاء، صدیقوں اور شہداء میں سے ہوں گے جو نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ بلند کئے رکھیں گے۔ اور یہ گروہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اپنے دشمنوں پر فتح پائیں گے۔

سورۃ الصف سے اگلی سورۃ الجمعہ کی آخری آیت میں دینی تجارت کے مقابل پر مادی تجارت کا ذکر بھی کر دیا گیا ہے۔ جو گھاٹے اور خسارے کا سودا ہے۔ اگر رزق حلال کے متمنی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ سے ملاپ اور تعلق والی تجارت کرنی ہو گی جو سود مند تجارت ہے۔ جبکہ مادی تجارت اگر اسلامی اصولوں پر نہ کی جائے تو وہ لَھْوٌ یعنی محض کھیل اور دل کا بہلاوہ ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس بھی اور آپؐ کے صحابہؓ نے بھی اپنے اپنے ادوار میں تجارتیں کیں۔ جہاں تک مادی تجارت کا تعلق ہے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جو پہلے سے ہی الامین، الصدوق کے نام سے مشہور تھے۔ آپؐ نہایت دیانتداری اور بہت کامیابی سے تجارت کرتےتھے۔ آپؐ نے صاف ستھری تجارت کو بہترین ذریعہ معاش قرار دیا۔ ترازو اور ناپ تول کو جھکتا ہوا رہنے کی تلقین فرمائی۔ بازار میں آنے سے قبل مال پر قبضہ کرنے اور سودا کرنے سے منع فرمایا۔ ذخیرہ اندوزی، جھوٹ اور دھوکہ دہی سے منع فرمایا۔ قیمتوں میں اعتدال رکھنے کی تلقین فرمائی۔ ایک قیلہ نامی خاتون تجارت کرتی تھی۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی تجارت کے اصول یوں بیان کئے کہ مال خریدتے وقت کم قیمت بتا کر آہستہ آہستہ اوپر آتی ہوں اور مال فروخت کرتے وقت مال کی اصل قیمت سے زیادہ بتا کر آہستہ آہستہ کم کرتی جاتی ہوں۔ جسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نا پسند فرماتے ہوئے ایک ہی قیمت پر سودا کرنے یا فروخت کرنے کی ہدایت فرمائی۔

(ابن ماجہ ابواب التجارت)

جس کو آج کل Fixed price بولتے ہیں۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے پیارے آقا ﷺ کے اس سنہری اصول کی جو آج پیروی کرتا ہے وہ اپنی تجارت میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بازار سے گزرتے ہوئے ایک مسلمان تاجر کے غلّہ میں نیچے تک ہاتھ ڈالا تو کچھ نمی محسوس کی اور فرمایا مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا کہ جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

(ابن ماجہ ابواب التجارت)

لہٰذا تجارت کرتے وقت غلّہ یا اپنی کسی بھی چیز میں عیب کو چھپانے یا ہیرا پھیری کرنے سے سودے میں برکت نہیں رہتی، اور مسلمان آنحضورﷺ کی صف میں سے بھی باہر نکل جاتا ہے۔ بھاؤ بڑھانے کے لئے بولی دینے کو بھی نا پسند فرمایا۔ کوئی سودا کر رہا ہے اس کے سودے پر سودا کرنے کی ممانعت فرمائی۔ الغرض آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دیانت داری سے تجارت کی اور صحابہ کرامؓ کو بھی دیانتداری سے تجارت کرنے کی تلقین فرمائی۔

ہماری جماعت میں بھی خلفائے کرام بالخصوص حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور ہمارے موجودہ امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے ربوہ کے تاجروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت کرنے اور حلال پیسہ کمانے کی طرف توجہ دلائی۔ یہ ارشادات تجارت کے شعبہ میں کامیابی کے گر سمجھے جاتے ہیں اور سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرمایا کرتے تھے کہ معمولی منافع کے ساتھ اپنی چیزوں کو فروخت کیا کرو۔ اگر کم قیمت پر فروخت کرو گے تو اشیاء کی فروخت کثرت کے ساتھ ہونے کی وجہ سے منافع اتنا ہی ہو گا۔ جتنا آپ مہنگے نرخ پر اشیاء فروخت کر کے حاصل کرو گے۔

مجھے بچپن میں یاد ہے کہ ربوہ میں ایک خواجہ صاحب ہوا کرتے تھے جو ساتھ کے شہر سے فروٹ لا کر منافع کے معمولی مارجن کے ساتھ اپنا سامان فروخت کر کے دوپہر سے قبل ہی فارغ ہو کر گھر چلے جایا کرتے تھے۔ جبکہ دوسرے فروٹ فروش شام تک گاہکوں کی راہ تکا کرتے تھے۔ ایسے دیندار اور ایماندار کاروباری حضرات کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہی عمدہ خوشخبری سنائی کہ ایسے تجار کا شمار انبیاء، صدیق اور شہداء میں سے ہو گا۔ اور تجارت بہت سود مند چیز ہے۔ انبیاء نے بھی کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جماعت کو بار بار اس طرف توجہ دلائی۔

لیکن آج کے مادی اور خود غرضی پر مبنی دور میں مسلمانوں میں ایسے تاجر کثرت سے پائے جاتے ہیں جو تجارت میں جھوٹ، دھوکہ دہی، ہیرا پھیری کا سہار الیتے ہیں۔ بالا نرخوں پر اشیاء فروخت کرتے ہیں گندے اور داغی فروٹ یا اناج کو اچھے طریق پر Show کر کے فروخت کر دیتے ہیں۔ حج صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اپنے نام کے ساتھ الحاج یا حاجی لکھ کر ان کا کاروبار چمکےگا۔ بعض نام نہاد اللہ اور رسول کا نام لینے والے حج پر جانے سے پہلے ہی اپنی نیم پلیٹ (Name Plate) پر حاجی لکھو ا کر جاتے ہیں۔ تاکہ لوگ ان کے واپس آنے تک ان کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ حالانکہ ان کو یہ معلوم نہیں کہ یہ سب دکھاوا ہے جو اللہ تعالیٰ کو قطعاً پسند نہیں ہے۔ دوران تجارت دکانیں بند کر کے نمازیں با جماعت ادا کرتے ہیں اور گاہکوں کو دھوکہ دینا عبادت سے زیادہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ آج کل تو بہت سے تاجروں نے دکانوں میں قرآن کریم رکھے ہوئے ہیں۔ وقت ملنے پر شور شرابے میں ہی گاہکوں کو دکھلانے کی خاطر تلاوت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ کی دعا سے محروم رہتے ہیں۔ میں نے پاکستان میں ایک ٹی وی شو میں اینکر اور مہمان کو منڈی بہاؤ الدین میں ایک احمدی دوست کی شاہ تاج شوگر ملز کے حوالہ سےگفتگو کرتے سنا کہ وہ احمدی کی ہے لیکن ان کا تول اور بیو پاریوں سے ڈیلنگ مثالی ہے۔ کبھی کسی کا غبن نہیں کرتے اور نہ کسی کا پیسہ مارتے ہیں۔ جبکہ عام طور پر دوسری جگہوں میں اس کے برعکس ہے۔

*مجبور لوگوں کو مہنگے داموں غلہ فروخت نہ کرنے کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمدؓ  تحریر کرتے ہیں کہ
میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہم سب بھائی (یعنی خاکسار و برادران میاں جمال الدین مرحوم و میاں امام الدین صاحب) مسائل فقہی کی بناء پر گاہے بگاہے بدین طریق تجارت کرتے تھے کہ غلّہ خرید کر ضرورت کے موقع پر غرباء کو کسی قدر گراں نرخ پر بطور قرض دے دیتے اور فصل آ ئندہ پر وصولی قرضہ کر لیتے تھے۔ جب حضور علیہ السلام کا دعویٰ ظاہر ہو گیا تو اس وقت بھی ایک دفعہ غلّہ خرید کیا گیا کہ غرباء کو دستور سابق دیا جائے۔ جب قادیان گیا تو مجھے خیال آیا کہ حضور علیہ السلام سے اس کے متعلق دریافت کر لوں۔ چنانچہ حضورؑ کی خدمت میں سوال مفصل طور پر پیش کر دیا۔ حضور علیہ السلام نے جواباً فرمایا:۔
’’تمہیں ایسے کاموں کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ جس لہجہ سے حضورؑ نے جواب دیا وہ اب تک میری آ نکھوں کے سامنے ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام کو ایسے کام بہت نا پسند ہیں۔ پس واپس آ کر ہم نے ارادہ ترک کر دیا اور بعد ازاں پھر کبھی یہ کام نہ کیا۔

(سیرت المہدی جلد2 صفحہ249-250)

ان کے مقابل پر مغربی دنیا میں تجارت میں دیانتداری اور شفافیت نظر آتی ہے جو اصول آج سے 1400سال قبل اللہ تعالیٰ نے وضع کئے ان کو غیروں نے اپنا لیا اور مسلمانوں نے ان رہنما اور مفید اصولوں کو خیر باد کہہ ڈالا۔ اسی لئے آج مغرب کی مارکیٹ، دنیا کی تجارت پر حکومت کر رہی ہے۔ یہاں Overdate کے قریب آنے پر اشیاءگاہک کو آگاہ کرکے سستے داموں فروخت کر دی جاتی ہیں اور ہمارے ہاں overdate کے لیبل پر نیا لیبل لگا کر اسے تبدیل کر دیا جاتا ہےجس کی وجہ سے بعض اشیاء مضر صحت اور زہریلی ہوجاتی ہیں اوراس طرح انسانی زندگیوں سے کھیلا جاتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے اسٹورز میں Till پر بیٹھے بندے یا بندی کو غلط چیز نظر آئے تو وہ خریدنے والے کو متنبہ کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات وہ مسلمان کی ہیئت اور شکل دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ یہ آپ کے لئے حلال نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں اس چیز کو الٹا پلٹا کر دھوکہ کے ساتھ اشیاء میں رکھ دیا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

دیانت داری سے کام کرنا اور مالک کا حق ادا کرنا بھی ایک تجارت ہے جس کا درست اور دیانت داری سے حق ادا کرنا بھی ہمیں یورپ میں نظر آتا ہے۔

کسی نے سچ کہا تھا کہ اگر مسلمان دیکھنے ہوں تو اسلامی ریاستوں میں دیکھ لیں اور اگر اسلام اور اس کی عملی تصویر کو دیکھنا ہے تو مغربی دنیا کا رُخ کرو۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح بھی کہا جاتا ہے کہ اسلامی ملکوں میں مسلمان تو نظر آتے ہیں لیکن اسلام نظر نہیں آتا، اور غیر مسلم ممالک میں مسلمان نظر نہیں آتے مگر اسلام نظر آتا ہے۔

اب آخری حصہ میں التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ کو روحانی معنوں میں لاگو کر کے اسلامی تعلیم کو اجاگر کر کے دیکھتے ہیں۔

اس سلسلہ میں بانیٔ اسلام سیّدنا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بطور اسوَہ دیکھنا ہو گا۔ آپؐ کے متعلق آتا ہے کہ آپؐ نے رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پہلا حصہ عوام الناس کے لئے دوسرا حصہ اہلِ خانہ کے لئے اور تیسرا حصہ اپنے خالق حقیقی کے لئے۔ گو ان تینوں کے حقوق کی ادائیگی روحانی تجارت میں آتی ہے۔ جس میں آپؐ اپنی مثال آپ تھے۔ لیکن اپنے خالق کے حقوق ادا کرنے کی تجارت میں بھی آپؐ دیانت دار تھے۔ اور مثالی رنگ رکھتے تھے۔ لمبی لمبی سورتوں کی تلاوت، لمبا قیام، لمبے لمبے رکوع و سجود کہ پاؤں سوج جائیں اور اپنے اللہ کے حضور اس رنگ میں گڑگڑانا کہ جیسے ہنڈیا ابلنے کی آواز آ رہی ہو۔ نمازیں وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور ؐ ہمارے پاس موجود ہوتے جونہی اذان کی آواز سنتے تو ایسے نماز کی ادائیگی کے لئے جاتے جیسے ہمیں پہچانتے ہی نہیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے ایسی تجارت کی کہ آپؐ کی خوبصورت تلاوت سے صحابہؓ عش عش کر اٹھتے۔ الغرض حقوق اللہ و حقوق العباد ہر دو میدان میں آپؐ نے بہت عمدہ تجارت کی۔ ایسی تجارت جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ جسے آج رواج دینے کی ضرورت ہے نہ کہ ایسی نمازوں اور عبادت کی جو دکھاوے کی ہوں۔

آج اس میدان میں ہم جماعت احمدیہ کو من حیث الجماعت اور انفرادی طور پر ہر فرد جماعت کو نمایاں حیثیت میں دیکھتے ہیں۔ اور آج غیر بھی اس کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ آدمی تو بہت اچھا ہے، نمازی ہے، روزے دار ہے، ایماندارہے اور رشوت نہیں لیتا مگر ہے قادیانی۔

تو آج اس روحانی و دینی تجارت میں بھی احمدی صف اول میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم ہر دو معانی میں التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ بن کر دنیا بھر میں بالخصوص مسلم دنیا میں دیانت دار ی کا لوہا منوائیں تا ہمارا شمار انبیاء، صدیق اور شہداء میں ہو سکے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

جنت کا دروازہ اور عطیات و صدقات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جولائی 2022