• 5 مئی, 2024

حضرت صوفی شيخ مولا بخشؓ آف لاہور اور حضرت مرزا سلطان محمود بيگؓ آف پٹی

حضرت صوفی شيخ مولا بخشؓ آف لاہور
اور حضرت مرزا سلطان محمود بيگؓ آف پٹی

حضرت صوفی شيخ مولا بخشؓ صاحب آف لاہور حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے 313 صحابہؓ ميں شامل تھے۔ حضرت شيخ يعقوب علی عرفانیؓ صاحب نے اپنے چچاحضرت صوفی شيخ مولا بخشؓ صاحب کے متعلق اخبار الفضل (2 اور 13 مارچ 1928) ميں آپؓ کے حالات ز ندگی کے بارے ميں ايک جامع مضمون تحرير فرمايا۔ اس کے علاوہ آپؓ کے بڑے بيٹے حضرت شيخ محمد مبارک اسماعيلؓ صاحب نے اپنی ڈائری ’’حيات مبارک‘‘ ميں آپؓ کی زندگی کے بارے ميں جو تحرير کيا اس کا کچھ حصہ تاريخ احمديت جلد 23 ميں اور کچھ ذکر اخبار الفضل ميں بھی شائع ہو چکا ہے (الفضل انٹر نيشنل 13مئی 2016 اور روزنامہ الفضل آن لائن 31 مارچ 2021)۔ خاکسار اپنے پڑ نانا جان حضرت شيخ محمد مبارک اسماعيلؓ صاحب کی اس ڈائری ميں سے آپؓ کے بارے ميں (حضرت صوفی شيخ مولا بخشؓ صاحب آف لاہور) کچھ مزيد غير مطبوعہ حصہ اخبار روز نامہ الفضل آن لائن کےقارئين کے ساتھ شيئر کرنے کی توفيق پا رہا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

حضرت مرزا سلطان محمود بيگ صاحبؓ آف پٹی بھی حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے ايک اور صحابی تھے جن کا مختصر ذکر بھی اس ڈائری ميں موجود ہے۔ آپؓ حضرت شيخ محمد مبارک اسماعيلؓ صاحب کے کلاس فيلو اور قريبی دوست تھے۔ آپؓ کی زندگی کےبارے ميں کچھ معلومات پہلے سے جماعت کے لٹريچر ميں محفوظ ہيں (روزنامہ الفضل 15 جون 1958)۔ آپؓ کی شخصيت کے چند پہلو کچھ مزيد اضافے کی غرض سے خاکسار احباب جماعت کی خدمت ميں پيش کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نےاپنے فضل سے اخبار الفضل کی شکل ميں جماعت کو ايک ايسا پليٹ فارم مہيا کيا ہے جس کے ذريعے ہم صحابہؓ کی سيرت کے مختلف پہلوں سے واقفيت حاصل کر تے ہيں۔ حضرت شيخ محمد مبارک اسماعيلؓ صاحب نےاپنے والد صاحبؓ اور حضرت مرزا محمود بيگ صاحبؓ آف پٹی کے بارے ميں اپنی ڈائری ميں جو کچھ تحرير کيا ہے اس کو آپؓ کے الفاظ ميں من و عن خاکسار نے پيش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں وضاحت کر دی گئی ہے۔

حضرت صوفی شيخ مولا بخشؓ آف لاہور

حضرت شيخ محمد مبارک اسماعيلؓ صاحب نے اپنے والد ماجد حضرت صوفی شيخ مولا بخشؓ صاحب کے بارے ميں بيان کيا: آپؓ کی زندگی ايک ديندار اور متقی انسان کی زندگی تھی اور اس بات کی شہادت حضرت پير افتخار احمدؓ صاحب جو حضرت مولانا نورالدينؓ صاحب خلیفہ اول مرحوم و مغفور کی اہليہ محترمہ صغراں بی بی کے بھائی تھے ديا کرتے تھے کہ آپؓ کو ہم صوفی کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ ہر روز دير تک انہيں عبادت کرتے ہوئے ديکھا کرتے تھے۔ قرآن کريم کی تلاوت اور ادائيگی نوافل کا از حد شوق تھا۔ نہايت خاموش اور قانع انسان تھے۔ بچپن سے ہی دينی معاملات ميں دلچسپی ليا کرتے تھے۔ آپؓ کو بائبل کے مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور اس پر عبور تھا۔ ايک بات جو آپؓ کو تکليف ديتی وہ يہ کہ پادری لوگ اکثر اسلام پر اعتراضات کيا کرتے تھےاور مسیح کی افضيلت کو ثابت کرنے کے لئے حضرت رسول کريم ﷺ پر بہت گندی نقطہ چينی کرتے تھے جس سے آپؓ کا دل بہت سخت بيزار ہوتا۔ الغرض جب آريہ سماج اور عيسائی حلقوں کی طرف سےاس قسم کے حملے جاری تھے اور کئی لوگ ہندو اور مسلمانوں ميں سے مذہب عيسوی اختيار کر رہے تھے آپؓ بيان کرتے ہيں کہ انہيں دنوں حضرت مرزا غلام احمد قاديانی عليہ السلام نے براہين احمديہ لکھی اور اسلام کی بے نظير خدمت کی۔ اسلام پر آپؑ کے لکچر بھی ہوئے جو آپؓ نے سنے۔ آپؓ فرماتے تھے کہ اگر حضرت مرزا صاحبؑ اس زمانے ميں حمايت اسلام کے لئے نہ اٹھتے تو قريب تھا کہ وہ بھی عيسائی ہو جاتے۔ مگر حضرت مرزا صاحبؑ کے طفيل انہيں اسلام کو ترک کرنے سے بچا ليا۔

حضرت شيخ محمد مبارک اسماعيلؓ صاحب مزيد لکھتے ہيں: آپؓ اشراک کی نماز بھی باقاعدہ پڑھتے اور بعض اوقات تہجد بھی پڑھا کرتے تھے۔ استغفار کرتے، وظائف اسماء الہیٰ کرتے۔ شيخ سعدیؒ کے اشعار پڑھتے۔ رو رو کر ہمارے لئے دعائيں کرتے کہ يا الہیٰ ميرے بچوں کو عمر اور سعادت عطا کر اور انہيں کسی کا محتاج نہ کر۔ يہ فارسی شعر تو تمام عمر ہی رو رو کر پڑھا کرتے:

اے کريمے کہ از خزانہ غيب گبرو ترسا وظيفہ خورداری
دوستاں را کجا کنی محروم تو کہ بادشمناں نظر داری

ترجمہ:

اے وہ داتا جو غيب کے خزانے سے آتش پرست اور عيسائی کو روزی پہنچاتا ہے
دوستوں کو تو کب محروم کرے جب کے تو دشمنوں کی بھی ديکھ بھال رکھتا ہے

مجھے سوئے پڑے خواب ميں بھی آپؓ کی دعاؤں کی آواز آيا کرتی تھی۔ آپؓ کے رونے سے مجھ پر ايک عجيب حالت طاری ہو جاتی۔ گلی محلے کے لوگ سب ان کی عزت کرتے۔ بازار گلی ميں سے گزرتے تو دھيان سيدھا رکھتے۔ گلی ميں داخل ہوتے تو نظر نيچے کر ليتے اور شرميلی نگاہوں سے گھر ميں داخل ہوتے۔ انہيں اکثر مولوی کہا جاتا تھا۔ دفتر سے آنے کے بعد آپؓ ايک دو گھڑے کوئيں سے پانی لاتے۔

بچوں کی تربيت کی طرف آپؓ کی خاص توجہ تھی۔ آپؓ کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ بچے قرآن کريم کی تعليم حاصل کريں۔ سکول ميں حافظ صاحب کے پڑھانے کے باوجود آپؓ خود گھر ميں بچوں کے سکول جانے سے پہلے اور آنے کے بعد پڑھايا کرتے۔ سکول ميں بھی جا کر پتہ ليتے۔ قرآن کريم کے معاملے ميں سستی ہو جانے پر سختی کرتے ليکن اس بات کا بھی دھيان رکھتے کہ جس دن ذيادہ سختی ہو جاتی تو اس دن خاص طور پر دفتر سے آتے وقت بچے کی دلجوئی کے لئے کوئی لڈو پيڑہ يا موسم کا پھل لے آتے۔ دودھ ميں جليبی ڈال کر بھی ديتے تھے ليکن بچے کو خوش کرنے ميں بھی رعب رکھا کرتے تھے۔ اہليہ (حضرت برکت بی بیؓ) کو اشارہ کرتے تھے کہ تم اسے کھلا دو اور بچہ ان کے اس سلوک سے سختی بھول جايا کرتا تھا۔

آپؓ تحرير کرتے ہيں: جب 1904 کا زلزلہ آيا تو مکان نہايت بری طرح سے ہلنا شروع ہوا۔ ہر طرف محشر برپا تھا۔ ايسا معلوم ہوتا تھا کہ مکان ابھی گرا کہ ابھی گرا۔ زلزلے عام آيا کرتے تھے۔ طاعون پڑتی تو بڑے زور سے۔ ہيضہ آتا تو خطرناک طور پر تباہی کرتا ہيضے کی وجہ سے ہمارے گھر کے آگے پيچھے اور سامنے کے گھروں ميں اموات ہوئيں اور رونے اور چلانے کی آوازيں آنے لگيں تو والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے مجھے اور باقی بچوں کو جگائے رکھا کہ وضو کرو اور نفل پڑھو چنانچہ کئی روز تک رات کو اٹھ کر تہجد پڑھا کرتے۔ ميں نے بھی رو رو کر دعائيں کيں۔ طبيعت ميں اللہ تعالیٰ کا خوف پيدا ہوا۔ ہر وقت آفتوں کا خيال تھا۔ ادھر لوگ حضرت صاحبؑ کو مخول (مذاق) چنا نچہ حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے ارشاد کے ماتحت ہم شہر چھوڑ کر ميراں دی کھوئی يعنی باغبانپورے کے راستہ پر آباد ہوئے۔

حضرت مرزا سلطان محمود بيگؓ آف پٹی

حضرت شيخ محمد مبارک اسماعيلؓ صاحب لکھتے ہيں: حضرت مرزا سلطان محمود بيگ صاحبؓ آف پٹی کو والد صاحب سے بہت عقيدت تھی اور ہمارے ساتھ خاص ہمدردی تھی۔ آپؓ تقريباً تيسں سال کے تھے جب يہ ايف۔ اے ميں ميرے ساتھ شامل ہوئے۔ غالباً کوئی ملازمت چھوڑ کر آئے تھے۔ داخل تو ہو گئے مگر ہر اتوار اپنے اہل و عيال کو ملنے کے لئے پٹی چلے جايا کرتے تھے۔ کالج کی تعليم کی طرف اتنا خيال نہ تھا جتنا کہ نماز روزہ نوافل مذہبی گفتگو اور حضرت مسیح موعود عليہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا شوق تھا۔ وہ اول تو کالج بے قاعدہ ہو کر حاضر ہوتے۔ اگر حاضر ہو جاتے تو تياری نہ ہو تی۔ امتحان کے دنوں ميں بھی ليمپ جلا کر چارپائی کے قريب ايک چھوٹی سی ميز پر رکھ ليتے۔ حضرت صاحبؑ کی کتاب آئينہ کمالات اسلام يا براہين احمديہ کا مطالعہ کرتے۔ کتاب ميز پر رکھ کر سو جاتے۔ رات کے دو بجے تک پڑھتے اور صبح ۹ بجے تک سوتے رہتے۔ مرزا محمود بيگؓ صاحب کو اپنی صحت برقرار رکھنے کا بہت شوق تھا۔ زنجبيل کی پنياں منگوا کر رکھ ليتے اور روز کھاتے۔ انہيں موسم کی گرمی کا خيال نہ تھا۔ اخروٹ بھی کثرت سے کھاتے۔ ميں بہترا انہيں سمجھاتا مگر وہ ايک نہ سنتے۔ ايک دو دفعہ ميں نے کہا کہ ملازمت چھوڑ چھاڑ بڑھاپے ميں کالج آئے۔ بال بچے چھوڑ مياں آپ حضرت صاحبؑ کی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے ہيں۔ اگر يہی کام کرنا تھا تو گھر ميں کيوں نہ رہے۔ انھوں نے جواب ديا کہ: آپ کو تو کالج کے ا متحان کا فکر ہے مگر مجھے عاقبت کا خيال ہے۔ مجھے آخری امتحان کا فکر ہے۔ مرزا محمود بيگؓ صاحب کو صوفياء اکرام کی صحبت کا شوق تھا۔ آپؓ ايک دعا گو انسان تھے۔ گوجرہ کے قيام کے دوران آپؓ ميرے بہت ہی خير خواہ تھے اور ہمارے تعلقات برادرانہ تھے۔

حضرت صوفی شيخ مولا بخشؓ صاحب آف لاہور اور حضرت مرزا سلطان محمود بيگ صاحبؓ آف پٹی کے بارے ميں اس ڈائری ميں جو کچھ محفوظ تھا وہ تمام مواد اس مضمون کے شائع ہونے کے ساتھ مکمل ہو گيا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اللہ تعالیٰ ہميں اپنے ان صحابہؓ کی نيکياں جاری کرنے والا بنائے۔ آمين ثم آمين۔

(ڈاکٹر مبارز احمد ربانی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ