• 5 مئی, 2024

اسلام اور تصویر کشی

بت پرستوں نے دکھائیں وہ بہت عیاریاں
پھر بھی قسمت میں رہیں ان کے سدا ناکامیاں
وصل کے رشتے کی رہزن ہے ہر ایک تصویر یاں
اصل کی تو ایک بھی خوبی نہیں اس میں عیاں

(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیلؓ)

موجودہ دور میں سائنسی ایجادات نے ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے اور آج ہم جن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں ان میں بیسویں صدی کی ایجادات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ایجادات کی وجہ جہاں ذاتی زندگی میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں وہیں بعض دینی معملات کو سمجھنے اور اسکو اپنی زندگی کا حصہ بنانے میں دشواریاں پیدا ہوئی۔ بیسویں صدی کے ان بے شمار ایجادات میں سے ایک ایجاد کیمرا کا تھا۔ تاریخی مطالعہ سے یہ علم ہوتا ہے کہ کیمرےکی ایجادکی کاروائی کافی پہلے سے شروع ہوچکی تھی لیکن فرانس کا جوزف نیپس وہ پہلا شخص تھا جس نے 1826ء میں کیمرہ ایجاد کیا اور دنیا کی پہلی تصویر کھینچی. تصویر ڈویلپ کرنے کے لیے اس نے Bitumen استعمال کیا اور اس تیاری میں اسے آٹھ گھنٹے لگے۔ اصل تصویر ٹیکساس یونیورسٹی امریکہ کی لائبریری میں موجود ہے۔ جوزف نیپس کے بعد جارج ایسٹ مین وہ شخص تھا جس نے 1897 میں کوڈیک ایجاد کیا اور کیمرے کی تیاری کمرشل بنیادوں پر ممکن بنائی، یہ پہلا پورٹیبل اور فولڈنگ کیمرہ تھا جسے بآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا تھا۔ 1934ء تک اس ماڈل کے تین لاکھ کیمرے فروخت ہوئے، لیکن اس وقت تک تصویروں کی پرنٹنگ تک عام آدمی کی رسائی نہیں تھی، کیمرے کی فلم مکمل ہونے پر کیمرہ کوڈیک فیکٹری واپس بھیجا جاتا جہاں تصویریں دھوئی اور پرنٹ کی جاتی تھیں۔ پھر ان تصاویر کو کیمرے اور نئی فلم کے ساتھ صارف کو بھیجا جاتا۔ جارج ایسٹ مین نے سنہ 1900ء میں سستا ترین براؤنی کیمرہ بنایا جس کی قیمت صرف ایک ڈالر تھی۔ اس سستے کیمرے کی بدولت عام عوام کی رسائی بھی کیمرے تک ممکن ہوئی۔ 1975ء میں کوڈیک کے انجینئر سٹیون نے پہلا ڈیجیٹل کیمرا بنایا۔ اس وقت تک بہت سی دیگر کمپنیاں بھی کیمرا بنانے کی اس دوڑ میں شامل ہو چکی تھیں اور کیمرہ روز بروز بہتر سے بہترین کی طرف سفر کر رہا تھا۔

اس ایک ایجاد نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا، لوگوں نے کیمرا اٹھایا اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئے۔ جنگلی جانوروں کی تصاویر اور وڈیوز سامنے آئیں شہر کے لوگ پہلی مرتبہ جانوروں کی زندگی دیکھ رہے تھے، شیر اور ہاتھی سے لے کر چیونٹی تک ہر جانور کی زندگی پر ڈاکومنٹری فلم بن گئی۔ واٹر پروف کیمرے ایجاد ہوئے تو سائنسدان کیمرے لے کر سمندروں کی گہرائیوں میں اتر گئے، انسان پہلی بار سمندری مخلوق سے متعارف ہو رہا تھا۔ جانوروں کی، مچھلیوں کی، حشرات کی اور پودوں کی ہزاروں لاکھوں نئی اقسام دریافت کی گئیں۔ کیمرا چاند پر پہنچا اور ہمیں نئی دنیا کی سیر کرا دی، لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر واقع کہکشاؤں اور ستاروں سے متعارف کرایا۔ سائنسدانوں نے کیمرے کو مزید چھوٹا کیا اور انسانی جسم میں داخل کر دیا، میڈیکل کی دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا۔

سنہ 2000ء کا نومبر تھا جب سامسنگ جاپان نے پہلا کیمرے والا موبائل فون لانچ کیا، اس وقت بھی لوگوں نے سوچا کہ موبائل فون میں کیمرہ لگانے کا کیا فائدہ؟ پھر یوں ہوا کہ ہر موبائل فون میں کیمرہ آ گیا۔ اب یہ حال ہے کہ ہم چاروں طرف سے کیمروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ کیمرے کی آنکھ آپ کو کب اور کہاں سے دیکھ رہی ہے، آپ خود بھی نہیں جانتے۔ پچھلے سو سال میں کیمرہ ایجاد ہوا اور گھر گھر پہنچ گیا۔ مسجد، مندر، چرچ، سینیگاگ ہر جگہ کیمرے لگے ہیں، لوگ خانہ کعبہ میں بھی تصاویر بنا رہے ہیں اور ویٹی کن سٹی میں بھی۔

ان سو سالوں میں دنیا کیمرے کے استعمال سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہی لیکن مسلمان سو سال اس بحث میں الجھے رہے کہ کیمرا حلال ہے یا حرام، ویڈیو حلال ہے اور تصویر حرام۔ سائنسی ایجادات اور دریافتوں سے فائدہ اٹھانا تو دور کی بات ہم الٹا انہی ایجادات کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے۔ آج بھی آدھی سے زیادہ مسلم آبادی کیمرے اور تصویر کو حرام سمجھتی ہے۔

مسلم آبادی تصویر کشی کو حرام سمجھنے کی وجہ

کچھ لوگ درج ذیل قرآنی آیات، احادیث سے اسکی استدلال کرتے ہیں کہ اسلام میں تصویر وفوٹو گرافی کرنا حرام ہے۔

قرآنی آیات۔

ہُوَ الَّذِیۡ یُصَوِّرُکُمۡ فِی الۡاَرۡحَامِ کَیۡفَ یَشَآءُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۷﴾

(اٰل عمران: 7)

وہی ہے جو رحموں میں جیسی چاہتا ہے تمہیں صورت دیتا ہے۔ اسکے سوا کوئی پرستش کا مستحق نہیں۔ وہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔

وَلَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ ثُمَّ صَوَّرۡنٰکُمۡ

(الاعراف: 12)

اور ہم نے تمھیں (پہلے مبہم شکل میں) پیدا کیا تھا۔ جس کے بعد تم کو (تمہاری مناسب حال صورتیں بخشی تھیں۔

وَصَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ

(التغابن: 4)

اور اسی نے تمہاری صورتیں بنائی ہیں اور تمہاری صورتوں کو بہت اچھا بنایا ہے۔

ہُوَ اللّٰہُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ

(الحشر: 25)

(حق یہی ہے کہ) اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا موجد بھی ہے۔ اور ہر چیز کو اسکی مناسب حال صورت دینے والا ہے۔

فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ

(الانفطار: 9)

پھر جو صورت اس نے پسند کی اس میں تجھے ڈھالا۔

مذکورہ آیتوں سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ صورت بنانا اللہ تعالیٰ کی صفت خاص قرار دیا ہے، جس میں ان کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں ہوسکتا، تو جس طرح انسان کو خالق نہیں کہہ سکتے اسی طرح انسان کو مصور بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ لہذا کسی انسان کے لئے تصویر سازی جائز نہیں ہے، کیونکہ پھر تو انسان بھی مصور ہو گیا۔

ہاں یہ بالکل درست ہیکہ صورت بنانا اللہ تعالیٰ کی صفتِ خاص ہے لیکن دستی تصویر اور فوٹو (یعنی عکسی تصویر) بنانا یہ دو الگ چیز ہیں۔ جس طرح ایک موقعہ پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ۔
’’دستی تصویر اور عکسی تصویر میں بہت فرق ہے۔ عکسی تصویر میں حقیقت اور اصلیت ظاہر ہوتی ہے جیسے خدوخال اصل میں ہوتے ہیں۔ عکسی میں ہوبہو وہی ظاہر ہوجاتے ہیں لیکن دستی تصویر میں ہو سکتا ہے کہ کوئی مصور کسی نبی کی تصویر بنائے اور اس کے چہرے پر نشانات ڈال دے۔ جن سے اس کی معصومانہ صورت تبدیل ہوجائے اور وہ ایک برے انسان کی شکل میں دکھائی دے اور شریف عورت کی آنکھوں میں ایسی علامات بھر دے جن سے وہ شریر ظاہر ہو۔ چونکہ دستی تصویر میں محض اظہار حقیقت مراد نہیں ہوتی بلکہ اس میں مصور کے خیالات کا دخل ہوتا ہے اور مصور نیکوں اور پاکبازوں کی تصاویر میں شرارت بھی کر سکتا ہے اور شریف کو شریر کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر کی ممانعت فرمائی۔ اور بذریعہ عکس جو فوٹو لیا جاتا ہے اس کی ممانعت نہیں فرمائی کیونکہ اس سے حقیقت آشکار ہوتی ہے۔‘‘

(الفضل 26 اپریل 1946 صفحہ3 جلد34 نمبر98)

احادیث

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے (حجرے کے) دالان میں ایک پردہ لٹکایا جس میں تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھاڑ ڈالا۔ پھر حضرت عائشہؓ نے اس سے دو گدے بنائے اور وہ گھر میں رہے۔ آپ ﷺ ان پر بیٹھا کرتے تھے۔‘‘

(صحیح بخاری جلد4، کتاب المظالم صفحہ501تا502)

’’حضرت عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ حضرت عائشہ نے بتایا کہ انہوں نے ایک تکیہ خریدا، جس میں تصویرئیں تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے رہے اور اندر نہ آئے۔ میں نے آپ کے چہرے سے ناپسندیدگی کا اثر محسوس کیا۔ تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور تو بہ کرتی ہوں۔ میں نے کیا قصور کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے اسے آپ کے لئے خریدا ہے کہ آپ اس پر بیٹھیں اور تکیہ لگائیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میری بات سن کر) فرمایا: ان تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے دن سزادی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا: جوتم نے بنایا ہے اس میں جان بھی ڈالو۔ اور فرمایا: وہ گھر جس میں تصویر یں ہوں ملائکہ اس میں داخل نہیں ہوتے۔‘‘

(صحیح بخاری جلد4، کتاب البیوع صفحہ78)

اسی طرح ’’حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن تصویر بنانے والوں کا ہوگا۔‘‘

(مسلم)

’’حضرت ابو زرعہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ کے ساتھ مدینہ کے ایک گھر میں داخل ہوا تو اس کی چھت کے قریب ایک مصور کو دیکھا جو تصویر بنا رہا تھا ابو ہریرہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو میری طرح (یعنی اللہ کی طرح) تخلیق کرنے لگتے ہیں؟ ذرا ایک دانا یا ایک چھوٹی سی چیونٹی تو بنا کر دکھا دیں۔‘‘

(بُخاری)

’’حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ تصویر بناتے ہیں ان کو قیامت کے دن عذاب ہوگا, ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو۔‘‘

(مسلم)

مندرجہ بالا احادیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ فوٹوگرافی یعنی عکسی تصویر کھینچنا اسلام میں منع ہے۔ یہ چیز مصور کے معنے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

علامہ عینی نے مذکورہ احادیث نبویہ کا حوالہ دے کر اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ۔
’’مصورین سے وہ لوگ مراد ہیں جو پرستش کے لئے بت بناتے ہیں۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کیا جا تا تھا اور جیسا کہ عیسائی حضرت مسیحؑ اور حضرت مریم کے بت بناتے ہیں اور ان کی پرستش کی جاتی ہے۔ مشرک اقوام میں انہیں بتوں کی وجہ سے بت پرستی مع اخلاق سوز رسم ورواج صد ہا سال سے قائم ہے۔ یہاں تک کہ اس کی بیخ کنی ایک مصیبت بن چکی ہے۔ مہلبؒ وغیرہ کی رائے بھی یہی ہے کہ تصویر سازی کی ممانعت کی اصل وجہ یہی تھی۔ اس بارہ میں فقہاء کے دو گروہ ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے اسے مطلق حرام قرار دیا ہے یہاں تک کہ گھروں میں تصویر رکھنا بھی ان کے نزدیک مکروہ ہے اور دوسرا گروہ اعتدال پسند ہے، جنہوں نے ایسی تصویر یں رکھنے کی اجازت دی ہے جو شرک اور بدی کے محرکات سے خالی ہیں۔‘‘

(فتح الباری جز46 صفحه525-529)

(ماخوز از صحیح بخاری جلد4 صفحہ192)

اسی طرح سعید بن ابی الحسن (بصری) سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ اتنے میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا: ابوالعباسؓ! میں ایک انسان ہوں، میری روزی صرف میرے ہاتھ کی کاریگری سے پیدا ہوتی ہے اور میں یہ تصویر یں بناتا ہوں۔ حضرت ابن عباس نے کہا: میں تم سے وہی بات بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔ میں نے آپؐ سے سنا، فرماتے تھے: جس نے کوئی تصویر بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے سزا دے گا کہ اس میں روح بھی ڈالے اور وہ اس میں کبھی نہ ڈال سکے گا۔ (یہ سن کر) اس شخص کا سانس پھول گیا، (دم رکنے لگا) اور اس کا چہرہ زرد ہو گیا۔ (حضرت ابن عباسؓ نے) کہا: افسوس تجھ پر اگر تو نہیں مانتا اور تم نے تصویر بنانی ہی ہے تو درخت کی تصویر بناؤ۔ ہر اس شئے کی تصویر بنا جس میں روح نہیں۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا: سعید بن ابی عروبہ نے نضر بن انس سے یہی ایک (حدیث) سنی ہے۔

(صحیح بخاری جلد4، کتاب البیوع صفحہ191)

مندرجہ بالا قرآنی آیات واحادیث کا حوالہ دیتے ہوئے آج کے زمانے کے نام نہاد علماء فتویٰ دے دیتے ہیں کہ کسی بھی طرح کی تصویر کھینچنا اور کھنچوانا اسلام میں حرام ہے۔ ایک عام فہم رکھنے والا انسان اس چیز کو کبھی بھی قبول نہیں کر سکتا۔ اسی لئے تو حضرت مسیح موعودؑ نے ایک مقام پر فرمایا کہ۔
’’یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔ چنانچہ بعض انگریزوں نے فوٹو کے ذریعہ سے دنیا کے کل جانداروں یہاں تک کہ طرح طرح کی ٹڈ یوں کی تصویریں اور ہر ایک قسم کے پرند اور چرند کی تصویریں اپنی کتابوں میں چھاپ دی ہیں۔ جس سے علمی ترقی ہوئی ہے۔ پس کیا گمان ہو سکتا ہے کہ وہ خدا جو علم کی ترغیب دیتا ہے وہ ایسے آلہ کا استعمال کرنا حرام قرار دے جس کے ذریعہ سے بڑے بڑے مشکل امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور اہلِ فراست کے لئے ہدایت پانے کا ایک ذریعہ ہو جاتا ہے۔ یہ تمام جہالتیں ہیں جو پھیل گئی ہیں۔ ہمارے ملک کے مولوی چہرہ شاہی سکّہ کے روپیہ اور دونّیاں اور چونّیاں اور اٹھنّیاں اپنی جیبوں اور گھروں میں سے کیوں باہر نہیں پھینکتے۔ کیا اُن سکّوں پر تصویریں نہیں، افسوس کہ یہ لوگ ناحق خلاف معقول باتیں کر کے مخالفوں کو اسلام پر ہنسی کا موقع دیتے ہیں۔ اسلام نے تمام لغو کام اور ایسے کام جو شرک کے مؤید ہیں حرام کئے ہیں نہ ایسے کام جو انسانی علم کو ترقی دیتے اور امراض کی شناخت کا ذریعہ ٹھہرتے اور اہلِ فراست کو ہدایت سے قریب کر دیتے ہیں۔‘‘

(براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ366-367)

احمدی مسلمان اور تصویر کشی

اب آیئے دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں اس تعلق سے ایک احمدی مسلمان کا تصویر اور فوٹو گرافی (عکاسی) کو لیکر کیا سوچ ہے۔

’’آج انسان سائنس میں بڑی ترقی حاصل کرچکا ہے۔ یہ ترقی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے بیان کر دی تھی کہ انسان دنیا میں ہر علم میں ترقی کرے گا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیرنہیں ہوسکتا۔ ہر چیز جو دنیا میں موجود ہے چاہے اس کا علم ہمیں ہے یا نہیں وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور پھر انسان پر اس رب العالمین کا یہ احسان ہے کہ جو چیزیں بھی خداتعالیٰ نے پیدا کی ہیں اس کو اشرف المخلوقات کے لئے فائدہ مند بنایا تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ اور جوں جوں دنیا تحقیق کے ذریعہ خداتعالیٰ کی مختلف قسم کی پیدائش کے بارہ میں علم حاصل کر رہی ہے اس میں انسانی فوائد واضح طور پر نظر آتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 18؍جون 2004ء)

ہم احمدی مسلمان اس زمانے کے امام ومسیح موعود کو ماننے والے ہیں۔ جنہوں نے اسلام کی عالمگیر اشاعت کا مقصد لیکر معبوث ہوئے تھے اور یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ نشرو اشاعت کے کام میں مدد دینے والی اکثر و بیشتر اہم ایجادوں کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور حیات کے گرد چکر لگاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک ایجاد ایسی ہے جس کا وجود حضرت مسیح موعود کے بین الاقوامی مشن کو فروغ دینے کے لیے از بس ضروری تھا۔ ان بے شمار ایجادات میں سے کیمرہ بھی آپؑ کے تبلیغی مہم کا حصہ بنا۔

’’یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’تصویر‘‘ اور ’’فوٹو‘‘ میں باریک امتیاز ہے۔ ممنوع ’’تصویر‘‘ ہے ’’فوٹو‘‘ نہیں۔ تصویر سے مراد اُبھری ہوئی صورت یعنی ’’بت‘‘ فوٹو در حقیقت تصویر نہیں بلکہ عکس ہوتا ہے اور فوٹو گرافی کو ’’عکاسی‘‘ کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے جس میں کُتا یا تصویر ہو۔ (بخاری) یہاں آنحضرت ﷺ کی مراد لفظ ’’تصویر‘‘ سے وہ بُت ہیں جن کے بارے میں مشرکین کا عقیدہ تھا کہ ان میں روحیں ہیں۔‘‘

(احمدیہ پاکٹ بک مرتبہ ملک عبدالرحمٰن خادمؔ صفحہ870)

ایک شخص نے حضرت مصلح موعودؓ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فوٹو کا ذکر کیا اور عرض کیا لوگ کہتے ہیں یہ بت پرستی ہے؟ اس کے جواب میں آپؓ نے فرمایا کہ۔
’’کیا بت پرستی؟ کیا کسی کی شکل دیکھنا بت پرستی ہے – رہا یہ امر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ایسا نہیں ہوا اس وقت تو کیمرہ ایجاد بھی نہیں ہوا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز سے منع کیا ہے وہ فوٹو نہیں بلکہ تصویر ہے۔ مصوّر انسانی جذبات کا اظہار تصویر میں دکھاتا ہے مگر فوٹو گرافر صرف شکل دکھاتا ہے۔ اس میں باطنی جذبات کا اظہار نہیں ہوتا۔ انبیاء کی تصویر اسی لیے ناجائز ہے کہ انبیاء کا کیریکٹر اپنے اندر گوناگوں خصوصیات رکھتا ہے اور ممکن ہی نہیں کوئی مصور ان کا نقشہ تصویر میں دکھا سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نہیں بلکہ فوٹو ہے اور یہ محض شکل ہے۔ مصور کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تصویر کے چہرے پر ایسے اثرات ڈالے جس سے اس انسان کے اخلاق پر روشنی پڑے اور انبیاء کے باطنی کمالات کا اظہار کوئی مصور نہیں کر سکتا۔ بالکل ممکن ہے ایک مصور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچے مگر آپ کے چہرے پر وحشت کا اثر ڈالے وہ تصویر تو ہو گی مگر لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت پیدا ہو گی۔ حدیث میں جو تصویر کا ذکر آ تا ہے اس سے مصور کی بنائی ہوئی تصویر ہی مراد ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا فو ٹو آپ کی صورت کا عکس ہے اورعکس کو تو وہابیوں نے بھی جائز تسلیم کیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شیشہ میں انسان اپنی شکل دیکھے اور اگر عکس نا جائز ہے تو پھر شیشہ دیکھنا بھی جائز نہیں ہونا چا ہئے۔ اسی طرح پانی میں بھی عکس آ جا تا ہے مگر اسے کوئی نا جائز نہیں کہتا۔ ان میں اور فوٹو میں فرق صرف یہ ہے کہ فوٹو تو انسان کی شکل محفوظ رکھتا ہے مگر شیشہ یا پانی کا عکس محفوظ نہیں رہتا۔

(الفضل 14 اپریل 1931 صفحہ6،5 جلد18 نمبر119)

(ماخوذ از فرمودات مصلح موعودؓ دربارہ فقی مسائل)

بے شک یہ درست ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنی عکسی تصویر بنانے کو شرک وبدعت خیال کرتے تھے جیساکہ آپؑ خود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ۔
’’مَیں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بُت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے۔ مَیں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ بُت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہو گا۔‘‘

(ضمیمہ براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ365-367)

نیز خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس چیز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ۔
’’ایک شخص نے حضرت امیر المومنین سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر مانگی۔ فرمایا ہم لوگ تصویر کا رکھنا ہرگز پسند نہیں کرتے۔ آپ دعا مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ ضرور قبول کرے گا۔‘‘

(ارشادات نور جلد دوم صفحہ47)

’’ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح کو لکھا کہ حضرت مرزا صاحب کی تصویر کہیں سے قیمتاً لے کر مجھے ارسال کردو۔ حضرت نے جواب میں لکھا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ یہاں تو کوئی نہیں چھپی۔ سنا ہے لاہور میں طبع ہوئی ہے۔ واللّٰہ اعلم۔ خاکسار ناپسند کرتا ہے اور میں نے مرزا جی سے سنا ہے فرمایا کرتے تھے یہ بدعت ہے۔ نور الدین۔‘‘

(البدر جلد9 نمبر44 مورخہ 25 اگست 1910 صفحہ3 ماخوذ از ارشادات نور جلد دوم صفحہ 236)

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی عکسی تصویر اتروانے سے کیوں منع فرمایا اس ضمن میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ مامور من اللہ ہیں۔ اس لئے یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ آپ کے فوٹو کی بے جا نمائش سے شرک خفی کا رجحان پیدا ہو جائے۔ اسی بناء پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے فو ٹو کو درودیوار پر آویزاں کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ حضور کا حکم ادارہ جات پر بھی اسی طرح اطلاق پا تا ہے جیسے گھروں اور دوکانوں وغیرہ پر۔‘‘

(الفضل 18دسمبر 1964ء صفحہ3)

نیز اسی طرح ’’حضورؑ کے ایک صحابی محترم حبیب الرحمن صاحب کی روایت ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سب سے پہلا فوٹو لیا گیا تھا میں نے وہ فوٹو خریدا اور اس پر فریم اور شیشہ بھی لگوایا۔ جب میں قادیان میں گیا اور حسب دستور تنہائی میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو میں نے جناب ممدوح سے عرض کیا کہ میں نے حضور کا فوٹو خریدا ہے۔ اگر حضور کی اجازت ہو تو اس کو اپنی نشست گاہ میں دیوار پر لگایا جا وے۔

حضور نے فرمایا نہیں ہمارا اس فوٹو سے ہرگز یہ منشا نہ تھا۔۔ ۔ ۔ میں نے عرض کیا کہ اب اس کو خرید چکا ہوں اس کو کیا کیا جاوے؟

فرمایا:- کہ کسی صندوق میں ڈال چھوڑو ایسی جگہ نہ رکھو کہ لوگ آئیں اور دیکھیں اس طرح تصویروں کی پرستش شروع ہوجاتی ہے۔ پس میں نے اسی دن سے وہ فوٹو الماری میں رکھا ہوا ہے۔‘‘

(الفضل18 دسمبر 1964ء صفحہ3)

پھر وہ کیا وجہ تھی جس بنا پر آپؑ نے اپنی عکسی تصویر اتروائی؟

حضرت مسیح موعودؑ کی فوٹو گرافی (عکاسی)
کرنے کا مقصد

حضرت مسیح موعودؑ اس تعلق سے خودفرماتے ہیں۔
’’ہم نے اپنی تصویر محض اِس لئے اتروائی تھی کہ یورپ کو تبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویر بھیج دیں کیونکہ اُن لوگوں کاعام مذاق اس قسم کا ہوگیا ہے کہ وہ جس چیز کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی اُس کی تصویر دیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مددسے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ24-25 ایڈیشن 1984ء)

نیز آپؑ فرماتے ہیں۔
’’مَیں نے دیکھا ہے کہ آج کل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اوّل خواہشمند ہوتے ہیں جواُس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے۔ اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔ اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک پہنچ نہیں سکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں لہٰذا اُس ملک کے اہلِ فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علمِ فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے۔ اور ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ یسوع یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر ہے۔ پس اس غرض سے اور اس حد تک مَیں نے اس طریق کے جاری ہونے میں مصلحتاً خاموشی اختیار کی۔

وانَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جنّ حضرت سلیمان کے لیے تصویریں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تصویر تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ کی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر جبریل علیہ السلام نے دکھلائی تھی۔

(براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ366)

حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفة المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ۔
’’دنیا میں دعوے تین قسم کے لوگ کرتے ہیں ایک مجنون لوگ کرتے ہیں دوسرے دکاندار لوگ بھی کرتے ہیں مثلاً ایک فقیر گدی والا ہے چوری ہو رہی ہے دو غلام موجود ہیں کوئی کسی کو بات نہیں کرنے دیتے۔ تیسرے راستباز لوگ ہوتے ہیں۔ یورپ میں جب حضرت کی دعوت پہنچی تو ان لوگوں کے خط آئے کہ ہمیں تصویر دکھائی جائے کہ وہ پاگل تو نہیں ہے۔ شکل سے معلوم ہو سکتا ہے یہاں ایک پڑھی لکھی عورت ہے جو پاگل ہے۔ اس کو ہر ایک معلوم کر لیتا ہے۔ حضرت صاحب اب یورپ میں ہر ایک کے گھر کب ہو سکتے ہیں اس ضرورت کے واسطے تصویر بنائی گئی۔‘‘

(ارشادات نور جلد سوم صفحہ290)

ان اعلیٰ اغراض کے خاطر جون 1899ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا پہلا فوٹو لینے کی غرض سے لاہور سے تعلق رکھنے والے صحابی حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرؓ انارکلی بازار لاہور سے گردھر لعل نامی ایک فوٹوگرافرلے کرآئے۔ اس فوٹوگرافر نے حضورؑ کے تین فوٹولئے۔ خداتعالیٰ کے اس فرستادہ کا ایک فوٹو پورے قد کا جبکہ دوفوٹو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کرسی پرتشریف فرماہونے کی حالت میں بعض خوش قسمت اصحاب کے ہم راہ لیےگئے۔ اس موقع پرفوٹوگرافر نے حضورؑ سے لباس اور نشست سے متعلق بھی معروضات کیں۔ مگرحضور نے انتہائی سادگی اور بے تکلفی سے فوٹو کھنچوایا۔

(تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ57 وتاریخ احمدیت لاہور مصنفہ شیخ عبدالقادر سابق سوداگرمل لاہور صفحہ107)

حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ اس پہلے فوٹوکے متعلق تحریرفرماتے ہیں:
’’سب سے پہلا فوٹو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیا گیا… اِس ضرورت کے لئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یورپ میں اشاعت کے واسطے ایک کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ جس کا ترجمہ مولوی محمد علی صاحب نے انگریزی میں کرنا تھا۔ اور تجویز ہوئی کہ چونکہ یورپ میں ایسے قیافہ شناس اور مصوران تصاویر بھی ہیں۔ جو صرف تصویر کو دیکھ کر کسی شخص کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرتے ہیں۔ اس واسطے ضروری ہو گا کہ اس کتاب کے ساتھ مصنف اور مترجم کی تصاویر بھی لگا دی جائیں۔ اس غرض کے لئے لاہور سے ایک فوٹو گرافر منگوایا گیا۔‘‘

(ذکرِ حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صفحہ299)

گو اس حقیقت سے آج ہر مسلمانوں کو آگاہ کرنا ہم احمدی مسلمانوں کا فرض ہے کہ دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات یعنی انسان کی خدمت کے لئے بنائی ہے اس لئے اس کاصحیح استعمال آج ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ہمیں بیسویں صدی کی ہر ایجاد سے بھر پور فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

(حلیم خان شاہد۔ مربی سلسلہ کٹک، اڈیشہ،انڈیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ