• 5 مئی, 2024

جو ہے خدا کا آدمی اس کی ہے سلطنت الگ

خلافت اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے یہ وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں کو اور قوموں کو عطا کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ اس جماعت کو جسمانی اور روحانی ترقیات نصیب ہوتی ہیں۔

خلافت کا قیام اطاعت چاہتا ہے یہ وفاوٴں کے پانی سے سیراب ہوتی ہے اخلاص سے نشوونما پاتی ہے اور دعاوٴں سے مضبوط ہوتی ہے۔ احمدیوں کو یہ نعمت تیرا صدیوں بعد عطا ہوئی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ خلافت کی سچی محبت اللہ تعالیٰ ہی دلوں میں ڈالتا ہے۔ خاکسار نے خلیفہ ٔوقت کے وجود سے ذاتی طور پر فائدہ اٹھایا ہے اور افریقہ میں رہتے ہوئے افریقن احمدیوں کو خلافت پر نثار ہوتے دیکھا ہے۔ اسی سلسلہ میں خاکسار نے خدام احمدیت کی چند ایسی ہی محبت بھری یادوں اورخدام کی قربانیوں کو اکٹھا کیاہے۔

خلافت کا نور اورخداداد رعب

2004ء میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بورکینافاسو دوره پر تشریف لائے تو خاکسار کی ڈیوٹی بطور پروٹو کول نگران کے تھی۔ حضور انورجب تشریف لائے تو جس ہوٹل میں قیام تھا وہاں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ میں بھی استقبال کرنے والوں میں شامل تھا۔ جب حضور انور کار سے اتر کرآگے تشریف لائے اور میری نظر حضور انور پرپڑی تو اس وقت جو نور اور رعب دیکھا اس نے مجھے مبہوت کر دیا حضور سے شرف مصافحہ حاصل ہوا میں نے آگے کمرہ تک جانا تھا مگر میں تو اس خدا داد رعب جو کہ اس کے پیاروں کو حاصل ہوتا ہے کہ ایسے جھٹکے میں تھا کہ وہیں کھڑا تھا حضور نے فرمایا کہ اب کہاں جانا ہے تو پھر ہوش آیا یہ ایک ایسا ناقابل بیان احساس تھا اور ایسا مشاہدہ تھا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ واقعتاً حضور کا رعب اور جلال ایسا دیدنی تھا کہ ہمارے ایمان بڑھانے کاباعث ہوا اور یقین مزید پختہ ہوگیا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے یہ انسان کے بس کی بات نہیں۔

حضور انور کی کمال شفقت کا نمونہ

حضور انور کے دورہ برکینا فاسو کے دوران میری ڈیوٹی بر کینا فاسوکے شہر کایا میں تھی حضور نے ڈوری سے کایا تشریف لانا تھا۔ ڈوری شہر کایا سے سو کلو میٹر دور ہے اور راستہ کچا تھااور ریجن میں حضورانور کی آمد کا وقت صبح دس بجے تھا لیکن راستہ میں آتے ہوئے حضور کے قافلہ کی ایک گاڑی کو حادثہ پیش آگیا اورمعمولی چوٹیں گاڑی میں سوار افراد کو آئیں۔ کچا روڈ اور شدید گرمی کہ50 کے قریب درجہ حرارت تھا۔ قانون کے مطابق اب جب تک پولیس نہ آجائے گاڑی کو وہاں سے نہیں ہلا سکتے تھے اور دور دور تک کوئی پولیس اسٹیشن نہیں تھا موبائل سگنل بھی نہیں تھے اور حضورانور کی اس وقت کمال شفقت دیکھی۔ آپ نے فرمایا کہ گاڑی میں سوار لوگوں اور گاڑی کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتے سب کو ساتھ لے کر جائیں گے حالانکہ اگر حضور چاہتے تو اپنا سفر جاری رکھ سکتے تھے اس کے برعکس خود زخمیوں کے منہ میں دوائی ڈالی اور اتنی گرمی کے باوجود حضرت بیگم صاحبہ کے ساتھ چار گھنٹہ کے قریب وہاں بیٹھے رہے جب کاروائی مکمل ہوئی تو وہاں سے چلے اور آتے ہی خاکسار کو حکم فرمایا کہ زخمیوں کو کیپٹل پہنچایا جائے اور پانچ بکرے صدقہ کیے جائیں۔ حضور انورکے حکم کی تعمیل کی گئی۔

میرا سلام حضور انورکو کہہ دیں

اب حضور انورکی طرف سے اپنے خدام سےایک اور شفقت یہ کی گئی کہ جب حضور انورکایا جہاں خاکسار کی ڈیوٹی تھی تشریف لائے حادثہ کی وجہ سے صبح دس بجے کی بجاےٴ دوپہر تین بجے تشریف لائے اور شدید تھکے ہوئےتھے اور پروگرام جو پیش کیا گیا اس میں سنگ بنیاد مشن ہاؤس اور افتتاح مسجد اور عصرانہ تھا اور خطاب حضور انور پروگرام میں لکھنا رہ گیا تھا جب حضور انورنے مجھ سے پروگرام پوچھا تو خاکسار نے باقی پروگرام بتانے کے ساتھ خطاب کا بھی عرض کردیا اس پر حضور انور نے فرما یا کہ خطاب تو پروگرام میں نہیں ہے خاکسار خاموش ہوگیا۔ حضور انور جب افتتاح اور سنگ بنیاد کے بعد واپس ہوٹل جانے کی بجائے اسٹیج پر تشریف لے آئے اور نہایت شفقت فرماتے ہوئے پنتالیس منٹ کا فی البدیہہ خطاب فرمایا اور جو لوگ بے چین ہو گئے تھے کہ شائد ہم حضور انورکا خطاب نہیں سن سکیں گے ان دلوں کو تسکین ہوئی خطاب کے دوران ایک بزرگ مسلسل روتے رہے۔ خطاب کے بعد حضور نے مجھے فرمایا پتہ کرو کہ کیا بات ہے جب خاکسار نے ان سے پوچھاکہ کیا بات ہے تو کہنے لگے کہ میں نے مہدی کی آمد کا سن رکھا تھا آج مہدی نہیں تو اس کے خلیفہ کو دیکھا اوراسے سنا اس سے بڑی میری اور کیا سعادت ہو سکتی ہے۔ میرا سلام حضور انورکو کہہ دیں۔

خلیفۂ وقت کی احباب جماعت سے بے پایاں محبت

جلسہ کے دوران ایک مقامی احمدی جو جلسہ پر آئے تھے ان کا بچہ بیمار ہوگیا حضور انور نے اس بچہ کی عیادت فرمائی اور باقاعدگی سے اس کی صحت کا پوچھتے رہے۔ تقدیر الٰہی غالب آئی اور اس کی وفات ہو گئی تو پیارے آقا نے خود اس کا جنازہ پڑھایا۔

اسی طرح ایک خادم ڈیوٹی کرتے ہوئے حضور کے خطاب کے دوران گرگیا۔ حضور انور نے فوری اس کی مدد کا فرمایا اور بعد میں بھی اس کا حال دریافت فرماتے رہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہےکہ احمدی خلیفہ وقت سے اتنی محبت نہیں کرتے جس قدر محبت خلیفۂ وقت احمدیوں سے کرتے ہیں۔

ایک اہم مرحلہ اور الٰہی مددکا معجزہ

خلیفہ وقت کے لیے اللہ تعالیٰ خود دلوں میں محبت ڈالتا ہےاور سارے کام خود کرتا ہے۔ جب یہ علم ہوا کہ حضور انورتشریف لا رہے ہیں اور پروٹوکول کا شعبہ خاکسار کے سپرد ہوا توبظاہر کچھ پریشانی ہوئی لیکن پھر دل کو یہ تسلی ہوئی کہ خداکا خلیفہ ہےوہی اس کے کام کرے گا تو سب سے پہلے جو اللہ تعالیٰ نے کام کیا جو کسی معجزہ سے کم نہ تھا وہ یہ تھا کہ صدربرکینافاسو کے پروٹوکول آفیسر سے جب ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ وہ دعوت نامہ ضروری ہےجو صدر نے حضور کو بھیجا تھا پلیز وہ کاپی اگر مل جائے تو بہت ممنون ہوں گا اور سارے کام آسان ہو جائیں گے اور اصولاً تووہ حکومت کے پاس ہی تھا ہمارے پاس تو نہیں تھا چنانچہ کیونکہ دعوت نامہ سال 1999ء میں وزیر سالف دیالو لے کر گئےتھے اور انہوں نے براہ راست حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس پیش فرمایا لہٰذا پرانی بات تھی کہ کاغذات کہاں ہیں۔ رات بہت دعا کی صبح اپنے گھر کے کاغذات کھنگالنے شروع کیے تو مجھے اس کی ایک کاپی مل گئی۔ ہوا یوں کہ وزیر موصوف جب فرانس پہنچے تو ان کو یوکے جانے سے روک دیا گیا اور کہا گیا کہ یوکے کے لیے آپ کو ویزا کی ضرورت ہےاور یہ میرے بہت اچھے دوست تھے میری جس شہر میں ڈیوٹی تھی وہاں کے رہنے والے تھے انہوں نے مجھے فون کیا کہ یہ ہوا ہے انہوں نے مجھے سب کاغذات بھیجے اور تبیشر کے رابطہ کے بعد ان کو ویزا مل گیا کاغذات اس وقت کے میرے پاس پڑے تھے اور جب یہ دعوت نامہ کی کاپی صدر بورکینا فاسو کو پیش کی گئی تو اس نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئےصدر کے مہمان کے طور پرتمام سہولیات کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں خلیفہ کی ایسی محبت ڈالی کہ کایا ریجن کے ریجنل چیف نے حضور انورکے لیے تحائف ہاتھ سے تیار کروائے جن میں چمڑے کا بیگ تیر کمان اور دیگر تحائف شامل تھے۔

فرشتوں جیسا انسان

حکومت کی طرف سے حضور انور کو بورکینافاسو کے سب سے بڑے فائیوسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا جماعت کی طرف سے بھی کچھ مہمان وہاں ٹھہرے ہوئے تھے جب دورہ حضور انور کے بعد خاکسار ہوٹل مینیجر کے پاس گیا۔ حساب کتاب کے لیے تو اس نے بتایا کہ میں چھ سال سے یہاں کام کررہا ہوں تمام ممالک کے سربراہان جو بر کینا فاسو وزٹ کرتے ہیں وہ اسی ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں لیکن حضور انور کے چہرہ پر جو نور دیکھا ہے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا اور ایک خاص رعب اور شان دیکھی جواس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی وہ بہت ہی متاثر تھا۔ جب میں نے ان سے کہا کہ وہ برتن جو حضور نے استعمال فرمائے ہیں وہ میں ادائیگی کرکے لینا چاہتا ہوں تو انہوں نے کہا کہ وہ تو میں بیچ نہیں سکتا لیکن آپ کو کچھ دے دوں گا انہوں نے تھرمس جو پیارے آقا کے زیراستعمال رہا وہ مجھے عنایت کردیا جو آج بھی میرے گھرکی زینت ہے۔ وائس مینیجر نے کہا کہ میں نے فرشتے تو نہیں دیکھے لیکن فرشتوں جیسا انسان ضرور دیکھ لیا ہے۔

خلافت سے سچی محبت کا جذبہ

ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ ہمارے ایک خادم مکرم عمرجپ صاحب کسی طرح بھی کووڈ ویکسین لگوانے کے لیے تیار نہ تھے اور دو ٹوک انکار کر دیا تھا ایک دن بیٹھے میں نے ان سے کہا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا بھی ارشاد ہے کہ ہمیں کووڈ سے احتیاط کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں اور ویکسین ان میں سے ایک ہے۔ اس لیے ویکسین لگوانی چاہیے۔ ایک دم مجھے کہتے مربی صاحب! آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ابھی اٹھیں چلیں اور میں ویکسین لگواتا ہوں اور ہسپتال بیٹھے رہے جب تک ویکسین لگ نہیں گئی۔

مزاح کا ایک دلچسپ واقعہ

حضور انور کے شفقت بھرے مزاح کی بھی ایک بات یاد آ گئی۔ جب حضور برکینافاسو مشن ہاؤس تشریف لائےاور خاکسار نے حضور انورکو سپرائیٹ کی بوتل پیش کی اور گلاس میں آدھی ڈال دی اور باقی آدھی ڈھکن بند کر کے ساتھ رکھ دی اس طرح آدھا گلاس حضور کو پیش کر دیا اب میرے لیے یہ عام بات تھی کیونکہ برکینا میں مہمانوں کو اسی طرح ہم پیش کرتے تھے جب حضور نے یہ سب دیکھا تو ازراہ مزاح فرمایا ساہی صاحب! پاکستان میں تو آپ جٹ ہوتے تھے میں فوراً سمجھ گیا اور باقی کا آدھا گلاس بھی بھر دیا اس پر حضور مسکرانے لگے۔

دو اہم ہدایات

جب حضور ناظر تعلیم تھے اور لنگر خانہ نمبر 1 کے ناظم تھے تو خاکسار کو بطور نائب ناظم حضور انورکے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضور انور کی دوواضح ہدایات تھیں۔ وقت پر نماز اور کام میں جو فگرز پیش کرنے ہیں اس میں وغیرہ کا لفظ نہ ہو۔

حضور انور کی قوت قدسیہ کا اعجاز

جب حضور برکینا فاسوتشریف لائے اور ہوٹل میں آرام کے بعد مشن ہاوٴس میں کثیر تعداد میں احمدی موجود تھے ایک جم غفیر حضور انور کے دیدار کے لیے آگے بڑھا یہاں تک کہ ہم نےایک زنجیر بنائی جس کے حلقہ کے اندر حضور انور احباب کے نعروں کے جواب دیتے رہےاور اس دیدار کے وقت میں چشم دید گواہ ہوں کہ لوگوں کی آنکھوں میں شکرگزاری کے آنسو دیکھے اور حضور انور کی قوت قدسیہ کا یہ مشاہدہ بھی دیکھا کہ حضور انور کی امامت میں نمازوں کی ادائیگی کے لیے دور دور سے کثرت سے کھینچے چلے آتے وہ لوگ جنہیں کبھی رقت آمیزحالت میں نہ دیکھا وہ بھی حضور کے پیچھے نماز پڑھتے رورہے ہوتے ایک بہت بڑا ہجوم ہوتاجو دیدار کے لیے بےقرار اور تڑپ رہا ہوتا۔

ایک نوجوان کی سچی خواب تائید آسمانی کا زندہ نشان

حضور انور کے دورہ سے پہلے علی نامی ایک لڑکا مشن ہاوٴس میرے پاس آیا اور اس نے مجھے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ امام مہدی کا خلیفہ یہاں آیا ہے اور ’’مشن ہاوٴس کایا‘‘ کی مسجد بھی اس نے خواب میں دیکھی۔ میں نے اس کو جب حضور کی تصویر دکھائی تو اس نے تصدیق کی اور بیعت کر کے سلسلہ میں شامل ہوگیا اس خواب کے ایک ماہ بعد ہمیں خبر ملی کہ حضور تشریف لا رہے ہیں اور پھر حضور اس مسجد میں بھی آےٴ اور اس کا افتتاح فرمایا۔

ڈاکٹرز خدا تو نہیں اللہ تعالیٰ فضل کرے گا

حضور انور سے مارچ 2004 میں بورکینا فاسو میں فیملی ملاقات بہت ہی زبردست رہی دوران ملاقات خاکسار نے بچے کا نام رکھنے اور وقف نو شامل کرنے کی درخواست کی تو فرمایا کہ درخواست لکھ دو خاکسارنے وہیں بیٹھ کردرخواست لکھی اسپر نام تحریر فرما دیا اور فرمایا کہ اس کی کاپی پرائیویٹ سیکرٹری آفس دے دینا ستمبر میں اللہ تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا ابھی وہ پانچ دن کا تھا بیٹے کی طبعیت خراب ہوئی تو خاکسار اس کو چائلڈ سپشلسٹ کے پاس لے کرگیا اس نے دوا دی اس میں ایک دوائی5mg کی تھی جو میڈیکل سٹور والے 500mg کی دے دی۔ میں دورہ پر تھا بیگم نے بتایا کہ بچہ بے ہوش ہے اورمجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی میں واپس آیا بیٹے کو ہسپتال لے کر گیا ٹیسٹ کیے گیے خیر ڈاکٹروں نے مایوسی کااظہار کیا اس پر بہت ہی پریشانی ہوئی۔ پریشانی کیا ایک پہاڑ گر پڑا مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں۔ اسی عالم میں لندن پرائیویٹ سیکرٹری آفس فون کیا اورعرض کیا کہ ابھی حضور انورکی خدمت میں پیش کریں کہ یہ معاملہ ہے۔ دوران فون ہی محترم منیر جاوید صاحب نے فرمایا کہ ہولڈ کریں کچھ دیر بعد جب آپ واپس آےٴ تو بتایا حضور انور نے فرمایا ہے کہ ڈاکٹرز خدا تو نہیں اللہ تعالیٰ فضل کرے گا آپ اطلاع دیتے رہیں یا ہم پوچھ لیں گے نمبر دے دیں۔ اسکے بعد دو تین دفعہ لندن بات ہوئی شام کو جب بات ہوئی تومحترم منیر جاوید صاحب نے فرمایا کہ بچے کا کیا حال ہے میں نے کہا وہی کیفیت ہے اس پر وہ کہنے لگے کہ آپ بچے سے دور ہیں؟ میں نے کہا جی میں تھوڑا دور ہوں تو کہنے لگے کہ پاس جائیں اور بتائیں۔ میں پاس گیا تو بیٹا ہوش میں تھا اور ماں کی گود میں تھا خاکسار نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور فون کر کے بتایا تو محترم منیر جاوید صاحب کہنےلگے مجھے حضورانورکے پوچھنے سےمعلوم ہو گیا تھا کہ بچہ ہوش میں ہے اس لیے میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ بچے سے دور ہیں پھر حضور انورکی شفقت سے بچے کو لے کر لندن حضور کے پاس گیا حضور انور نے بچے کو اٹھایا بہت دعائیں دیں اور چاکلیٹس عطا فرمائیں۔

جن کو خلافت کا سائبان میسر نہیں وہ کیا جانیں کہ خلافت کی نعمت کیا ہے۔ اس کی برکات کیا ہیں۔ جو اس شجر سایۂ دار کے نیچے رہتے ہیں وہی اس کے فیوض سے حصہ پا سکتے ہیں۔ اور ہم وہ لوگ ہیں جو روز اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم پر یہ سایہ تا ابد قائم رکھے۔ آمین

(ظفر اقبال احمد ساہی۔ مبلغ سلسلہ سینیگال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ