پاک وصاف سینے میں پاکیزہ دل کی اہمیت
’’انسان کا سینہ بیت اللہ اور دل حجراسود ہے‘‘
(ارشادمسیح موعودؑ)
حج کےدنوں میں یہ اتفاق ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ ملفوظات کے مطالعہ کے دوران ایک ایسا ارشاد خاکسار کی نظروں سے گزرا، جو حج کے مضمون کے حوالہ سے تربیت و اصلاح اور معلومات کے اضافہ کے لئے بہترین ارشاد ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’انسان کا سینہ بیت اللہ ہے اور دل حجر اسود‘‘۔ آپ بھی اس پُر معارف ارشاد سے برکت حاصل کریں، حضور علیہ السلام اس عنوان کے تحت بیان فرماتے ہیں:
’’یہ بات بحضورِ دل یادرکھو کہ جیسے بیت اللہ میں حجرِاسود پڑا ہواہے اسی طرح قلب سینہ میں پڑاہوا ہے۔ بیت اللہ پر بھی ایک زمانہ آیا ہوا تھا کہ کفار نے وہاں بُت رکھ دیئے تھے۔ ممکن تھا کہ بیت اللہ پریہ زمانہ نہ آتا۔ مگر نہیں اللہ نے اس کو ایک نظیر کے طورپر رکھا۔ قلبِ انسانی بھی حجرِ اسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ ماسویٰ اللہ کے خیالات وُہ بُت ہیں جو اس کعبہ میں رکھے گئے ہیں۔ مکہ معظمہ کے بتوں کا قلع قمع اُس وقت ہوا تھا جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزارقدوسیوں کی جماعت کے ساتھ وہاں جاپڑے تھے اور مکہ فتح ہوگیا تھا۔ ان دس ہزار صحابہؓ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھاہے اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی۔ انسانی قویٰ بھی ایک طرح ملائکہ ہی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ یَفْعَلُوْنَ مَایُوْمَرُوْنَ۔
(النحل:51)
اسی طرح پرانسانی قویٰ کا خاصہ ہے کہ جو حکم ان کو دیا جائے، اُس کی تعمیل کرتے ہیں۔ ایسا ہی تمام قویٰ اور جوارح حکمِ انسانی کے نیچے ہیں۔ پس ماسوِیٰ اللہ کے بتوں کی شکست اور استیصال کے لئے ضروری ہے کہ اُن پر اسی طرح سے چڑھائی کی جائے۔ یہ لشکر تزکیہ ٔ نفس سے تیارہوتا ہے اور اسی کو فتح دی جاتی ہے جو تزکیہ کرتا ہے ؛ چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے:
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا ۪ۙ﴿۱۰﴾
(الشمس: 10)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر قلب کی اصلاح ہوجاوے، تو کل جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اور یہ کیسی سچی بات ہے آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں، زبان وغیرہ جس قدر اعضاء ہیں، وہ دراصل قلب کے ہی فتویٰ پر عمل کرتے ہیں۔ ایک خیال آتا ہے، پھر وُہ جس عضو کے متعلق ہو وُہ فوراً اس کی تعمیل کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
غرض اس خانہ کو بتوں سے پاک و صاف کرنے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے اور اس جہاد کی راہ میں تمہیں بتاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں۔ اگر تم اس پر عمل کروگے، توان بتوں کو توڑ ڈالوگے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ173۔172 ایڈیشن 2016ء)
عنوان بالا میں دو الفاظ ’’بیت اللہ‘‘ اور ’’حجر اسود‘‘ کا اسلامی تعلیمات اور تشریحات سے یہاں احاطہ کرنا ضروری ہے۔ تا سینہ اور دل کے ساتھ بیت اللہ اور حجر اسود کی جو مماثلت اور مشابہت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے اس کو سمجھنا آسان ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بکہ (مکہ مکرمہ)، بیت اللہ (خانہ کعبہ) اور اس کے طواف کے ذکر میں قرآن کریم میں جو فرمایا ہے۔ اور اس کی برکات اور بلند مقام کاذکر ملتا ہے۔ اس کوآیات قرآنی کی روشنی میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔
1۔ مکہ کی آبادی کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درج ذیل دعائیں جو سورۃ البقرہ میں بیان ہوئی ہیں۔
وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارۡزُقۡ اَہۡلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ قَالَ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیۡلًا ثُمَّ اَضۡطَرُّہٗۤ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ۔
(البقره: 127)
’’اور جب ابراہیم نے کہا کہ اے میرے ربّ! اس کو ایک پُرامن اور امن دینے والا شہر بنا دے اور اس کے بسنے والوں کو جو اُن میں سے اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لائے ہر قسم کے پھلوں میں سے رزق عطا کر۔ اس نے کہا کہ جو کفر کرے گا اسے بھی میں کچھ عارضی فائدہ پہنچاؤں گا۔ پھر میں اُسے آگ کے عذاب کی طرف جانے پر مجبور کردوں گا اور (وہ) بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘
2۔ مکہ کو ’’ام القری‘‘ اور ’’بلد امین‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ۔
(الانعام: 93)
اور یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے اتارا۔ اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس کے سامنے ہے تاکہ تُو بستیوں کی ماں اور اس کے اردگرد بسنے والوں کو ڈرائے۔ اور وہ لوگ جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس (کتاب) پر ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نماز پر ہمیشہ محافظ رہتے ہیں۔
وَ ہٰذَا الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ۔
(التین: 4)
اور اس امن والے شہر کی۔
3۔ خانہ کعبہ کی اولین تعمیر انسان کو تہذیب و تمدن سکھانے کا ذریعہ بنی۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔
(آل عمران: 97)
یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بکہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے۔
(الفضل آن لائن14،17 جولائی 2021ء)
اس میں قریش کی تعمیر کے ذکر میں رکن کی بنیاد کے وقت پتھر پر لکھے بعض مکتوبات کا ذکر کیا ہے۔ ایک مکتوب میں لکھا تھا ’’یہ اللہ کا عزت والا گھر ہے۔ اور اس میں رہنے والوں کا رزق عبادت ہے۔ اس کے اہل میں سے کوئی اس کی بے حرمتی نہیں کرے گا یعنی اس کی حرمت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گا‘‘
(ابن ہشام، جلد اول صفحہ195)
4۔ بیت اللہ کے بارے میں متقیوں اور روحانیت سے معمور رہنے کی (سورۃالطور میں) پیش گوئی کی گئی ہے۔
(تعارف سورۃ الطورترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ صفحہ951)
5۔ بیت حرام کے حقیقی مستحق اور والی مومن ہی رہے ہیں۔
وَ مَا لَہُمۡ اَلَّا یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُمۡ یَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ مَا کَانُوۡۤا اَوۡلِیَآءَہٗ ؕ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ۔
(الانفال: 35)
اور آخر اُن میں کیا بات ہے جو اللہ انہیں عذاب نہ دے جبکہ وہ حرمت والی مسجد سے لوگوں کو روکتے ہیں حالانکہ وہ اس کے (حقیقی) والی نہیں۔ اس کے (حقیقی) والی تو متقیوں کے سوا اور کوئی نہیں لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔
6۔ بیت اللہ کا عمرہ اور حج میں طواف، اللہ تعالیٰ کی خاطر کرو۔
وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡٝ فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَۃِ اِلَی الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الۡحَجِّ وَ سَبۡعَۃٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡ ؕ تِلۡکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ اَہۡلُہٗ حَاضِرِی الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ۔
(البقرہ: 197)
اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔ پس اگر تم روک دیئے جاؤ تو جو بھی قربانی میسر آئے (کر دو) اور اپنے سروں کو نہ منڈاؤ یہاں تک کہ قربانی اپنی (ذبح ہونے کی) مقررہ جگہ پر پہنچ جائے۔ پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو کچھ روزوں کی صورت میں یا صدقہ دے کر یا قربانی پیش کرکے فدیہ دینا ہوگا۔ پس جب تم امن میں آجاؤ تو جو بھی عمرہ کو حج سے ملا کر فائدہ اٹھانے کا ارادہ کرے تو (چاہئے کہ) جو بھی اسے قربانی میں سے میسر آئے (کر دے)۔ اور جو (توفیق) نہ پائے تو اسے حج کے دوران تین دن کے روزے رکھنے ہوں گے اور سات،جب تم واپس چلے جاؤ۔ یہ دس (دن) مکمل ہوئے۔ یہ (اوامر) اُس کے لئے ہیں جس کے اہل خانہ مسجد حرام کے پاس رہائش پذیر نہ ہوں۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔
7۔ حج اور عمرہ کے دوران کوئی لڑائی جھگڑا نہیں۔ کوئی قتل و غارت نہیں
(سورۃ البقرہ آیت 198،192)
واف کرنے والوں میں اتفاق و ا تحاد نظر آتا ہے۔ ہزاروں زبان بولنے والے مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والوں میں کوئی نفرت حسد نہیں۔
وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوۡہُمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوۡکُمۡ فِیۡہِ ۚ فَاِنۡ قٰتَلُوۡکُمۡ فَاقۡتُلُوۡہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ۔
اور (دورانِ قتال) انہیں قتل کرو جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے تمہیں انہوں نے نکالا تھا۔ اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ اور ان سے مسجد حرام کے پاس قتال نہ کرو یہاں تک کہ وہ تم سے وہاں قتال کریں۔ پس اگر وہ تم سے قتال کریں تو پھر تم اُن کو قتل کرو۔ کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے۔
اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕؔ۔۔۔۔۔ ۫ وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔
(البقرہ: 198)
حج چند معلوم مہینوں میں ہوتا ہے۔ پس جس نے ان (مہینوں) میں حج کا عزم کرلیا تو حج کے دوران کسی قسم کی شہوانی بات اور بدکرداری اور جھگڑا (جائز) نہیں ہوگا۔ اور جو نیکی بھی تم کرو اللہ اسے جان لے گا ……… اور مجھ ہی سے ڈرو اے عقل والو۔
8۔ زادِ راہ جمع کرتے رہو بہترین زاد راہ تقویٰ ہے وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی۔
(البقرہ: 198)
اور زادِ سفر جمع کرتے رہو۔ پس یقیناً سب سے اچھا زادِ سفر تقویٰ ہی ہے۔
9۔ حج کی تعیین اور گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہونے کا حکم۔
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ؕ وَ لَیۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ ظُہُوۡرِہَا وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنِ اتَّقٰیۚ وَ اۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ اَبۡوَابِہَا ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔
(البقرہ: 190)
وہ تجھ سے پہلی تین رات کے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ یہ لوگوں کے لئے اوقات کی تعیین کا ذریعہ ہیں اور حج (کی تعیین) کا بھی۔ اور نیکی یہ نہیں کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑوں سے داخل ہوا کرو بلکہ نیکی اسی کی ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ اور گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
10۔ طواف بیت اللہ کے وقت کی دعائیں:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
(البقرہ: 202)
’’اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا میں بھی حَسَنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حَسَنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔’’نیز رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔
(البقرہ: 128)
’’اے ہمارے ربّ! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقینا ًتو ہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔‘‘
11۔ بیت اللہ کو اہل مکہ نے صنم کده بنا رکھا تھا اور 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز اپنی چھڑی سے توڑڈ الا اور ایک روایت کے مطابق بیت اللہ کے بت توڑ کر جگہ صاف کرنے کا ارشاد فرمایا اور جب بتوں سے یہ مبارک عمارت پاک صاف ہوئی تب آپؐ اندر داخل ہوئے۔
12۔ بیت اللہ کے نواح میں زمزم کا چشمہ ہے جو اپنے پاک و صاف پانی سے دوسروں کو زندگی بخشنے کے کام آتا ہے۔
13۔ بیت اللہ پر جونہی پہلی نگاہ پڑے تو جو دعا کی جائے قبول ہوتی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے یہ دعا کی ’’اے خدا! میں جو بھی دعا کروں، اسے قبول فرما۔‘‘
14۔ کعبہ کے معنیٰ بلندی کے ہیں۔ اور اس کے دروازے زمین سے بلند رکھ کر بنائے گئے تھے تاکہ خانہ کعبہ باہر کی آلائش، گندگی اور سیلابی پانی سے محفوظ رہے۔
15۔ اور بے شمار احکامات میں سے ایک خصوصی حکم اس گھر کا طواف کرنے والوں کے لئے یہ ہے۔
وَ اِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمۡنًا ؕ وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ وَ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَالۡعٰکِفِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ۔
(البقرہ: 126)
اور جب ہم نے (اپنے) گھر کو لوگوں کے بار بار اکٹھا ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا۔ اور ابراہیم کے مقام میں سے نماز کی جگہ پکڑو۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک و صاف بنائے رکھو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس گھر کو بتوں سے صاف کرو۔ فرمایا ۔۔۔۔۔۔ (البقرہ: 126) یعنی میرے گھر کو فرشتوں کے لئے پاک کرو۔انسان کا دل خدا کا گھر ہے یہ خدا کا گھر اس وقت کہلائے گا اور اس وقت فرشتوں کا طواف گاہ بنے گا جب یہ اوہام باطلہ و عقائد فاسدہ سے بالکل پاک و صاف ہو۔ جب تک انسان کا دل صاف نہ ہو اس کی عملی حالت درست نہیں ہو سکتی‘‘
(ملفوظات جلد10 صفحہ74-75 حاشیہ)
جہاں تک حجر اسود کی اہمیت و افادیت اور فضیلت و برکات کا تعلق ہے۔ یہ سیاہ رنگ کا پتھر ہے جو کعبہ کے کونے میں مشرقی جانب دروازہ کے قریب ہے۔ جس کو طواف کے دوران اگر ممکن ہو تو بوسہ لیا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنه نے ایک دفعہ دوران طواف اس متبرک پتھر کا بوسہ لیتے ہوئے اسے مخاطب ہو کر فرمایا تھا۔اے حجر اسود! تُو تو محض ایک پتھر ہے۔ میں تمہیں ہر گز بوسہ نہ دیتا اگر میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ کرتے نہ دیکھا ہوتا۔ تعمیر کعبہ کے وقت قریش مکہ میں اس پتھر پرکو نصب کرنے پر جھگڑا ہو گیا ہر کسی کی خواہش تھی کہ ہمارے قبیلہ کا سردار اس پتھر کو اٹھا کر مقررہ جگہ پر رکھے۔جھگڑا جب طول پکڑنے لگا تو یہ تجویز پیش ہوئی کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے مسجد کے دروازے سے داخل ہوگا ہم اس سے فیصلہ کروائیں گے۔ قریش مکہ نے اگلےروز جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو باب شیبہ کے پاس کھڑے پایا۔ تو وہ بول اٹھے کہ یہی ہمارے امین ہیں ہم اسی کے فیصلہ پر راضی ہیں چنانچہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفید چادر زمین پر بچھائی اور خود اس متبرک پتھر کو اٹھا کر چادر میں رکھا اور چاروں قبائل کے ایک ایک سرکردہ شخص کو دعوت دی کہ وہ چادر کے چاروں کونے پکڑ کر اس پتھر کو اوپر اٹھائیں۔اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر کو اپنے دست مبارک سے مقررہ جگہ پر نصب فرما دیا اور یوں یہ قضیہ حل ہوا۔
بیت اللہ اور حجر اسود
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیت اللہ اور حجر اسود کی خصوصیات اس کا بلند مقام و مرتبہ نیز اس سے ملنے والے دروس کا ذکر خاکسار نے اوپر کیا ہے۔ان تمام کو سینہ اور دل پر اپلائی کریں تو یہ خلاصہ سامنے آتا ہے کہ جس طرح بیت اللہ کی تعمیر کے وقت جو دعائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیں ان کو حزرجان بنانا ہوگا۔اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھم االسلام کو خانہ کعبہ کی ظاہری و باطنی صفائی کا حکم ہے۔اسی طرح ہم سب کو اپنے سینوں کو اخلاق سئیہ اور رسومات و بدعات جیسے بتوں سے پاک و صاف کرنا ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو ہمارا طریق بعینہٖ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا تھا، آج کل کے فقراء نے کئی بدعتیں نکال لی ہیں یہ چلّے اور درود و وظائف جو انہوں نے رائج کر لیے ہیں ہمیں ناپسند ہیں۔ اصل طریق اسلام قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرنا اور نماز توجہ کے ساتھ پڑھنا اور دعائیں توجہ اور انابت الی اللہ سے کرتے رہنا۔
(ملفوظات جلد10 صفحہ107)
بیت اللہ امن کا ذریعہ ہے بلد امین میں قائم ہے۔ اس کے حقیقی مستحق اور والی مومن ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کا سینہ امن کی قیام گاہ ہونا چاہیے۔ ہماری طرف سے اپنے لیے بھی امن کا پیغام ہو اور دوسروں کے لئے بھی امن و سلامتی اور شانتی کا پیغام بن جائے۔ ہم نماز کے بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ دونوں اطراف کہتے ہیں یہ دراصل سلامتی کا پیغام ہے جو ہم اپنے دائیں اور بائیں اطراف بسنے والوں کو دیتے ہیں۔
انہیں لڑائی جھگڑے اور تکرار سے اجتناب کرتے رہنا چاہیے۔ ہم نمازیں پڑھیں اپنے اللہ سے مضبوط تعلق رکھیں کہ ہمارا سینہ روحانیت اور نورانیت سے معمور ہو۔ ہم نیکیوں، خوبیوں کا خزانہ بطور زاد راہ رکھیں۔یہی زاد تقوی کا ہے۔ جو ہمارا ورثہ ہے اور ہمارے سینے اس سے منور ہوں۔ ہم ان دروازوں سے داخل ہو ں جن کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے قرآن اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بیان فرمائی ہے۔ یہ در اصل اخلاق حسنہ اور نیکیوں کے دروازے ہیں۔ ہمارے سینوں سے روحانی اخلاقی پانی کے ایسے چشمے پھوٹنے چاہئیں جس کے مصفیٰ پانی سے ہم اپنے سینوں کو دھوئیں اور یہی پانی دوسروں کی صفائی و پاکیزگی کا باعث بننا چاہیے۔ الغرض ہمارے سینے ایسے پاک و صاف ہوں کہ ان کے طاقچوں میں دل بصورت حجراسود کے ہو۔ حضور علیہ السلام نے درست فرمایا کہ انسان کا سینہ بیت اللہ اور دل حجر اسود ہے۔ آپؑ کے اس ارشاد کو جو اس ضمن میں خاکسار نے آغاز میں بیان کیا ہے، لے کر اپنے سینوں کو بیت اللہ اور دلوں کو حجر اسود بنانے کی کوشش میں لگے رہنا چاہیے۔
(ابو سعید)