• 19 اپریل, 2024

خدا کا پاک ہونا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر اللہ تعالیٰ کے واحد اور لاشریک ہونے کے بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں کہ
‘‘شرکت از روئے حصر عقلی چار قسم پر ہے۔ کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کبھی فعل میں اور تاثیر میں۔ سو اس سورۃ میں …’’ (یعنی سورۃ اخلاص میں) ‘‘… ان چار قسموں کی شرکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دو یا تین نہیں اور وہ صمد ہے یعنی اپنے مرتبہ وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور ہالک الذّات ہیں …’’ آگے بعض الفاظ مشکل آئیں گے میں مختصراً ان کی وضاحت کر دوں گا۔

فرمایا کہ ‘‘… جو اس کی طرف ہر دم محتاج ہیں اور وہ لَمْ یَلِدْ ہے یعنی اس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اس کا شریک ٹھہر جائے اور وہ لَمْ یُوْلَدْ ہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اس کا شریک بن جائے اور وہ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اس سے برابری کرنے والا نہیں تا باعتبار فعل کے اس کا کوئی شریک قرار پاوے۔ سو اس طور سے ظاہر فرما دیا کہ خدئے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اور منزہ ہے اور وحدہ لا شریک ہے۔’’

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ518، حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

آپ نے اس میں فرمایا کہ شرکت یا شریک ہونا عقل کی رو سے چار قسم پر منحصر ہے یعنی تعداد میں۔ ایک تو کسی کی شرکت ہو سکتی ہے، کوئی کسی کا شریک ہو سکتا ہے جب تعداد میں اس کے مطابق ہو۔ ایک دو تین چار پانچ ہوں۔ دوسرے مرتبہ اور مقام میں۔ تیسرے نسب یا خاندان میں۔ چوتھے کسی کام کے کرنے کی طاقت میں اور اس کے اثرات قائم کرنے میں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان چاروں قسم کے شرک سے پاک ہے۔ یہاں اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کھول کر بتا دیا کہ وہ احد ہے۔ وہ اپنے عدد میں ایک ہے۔ دو تین چار نہیں۔ نہ اس کے برابر کوئی ہو سکتا ہے۔ وہ صمد ہے یعنی وہی ہے جس کی ضرورت ہر وقت مخلوق کو ہے۔ جب بھی کسی چیز کی احتیاج ہو، کسی چیز کی ضرورت ہو تو اسی کی طرف جایا جاتا ہے اور جایا جانا چاہئے۔ یا وہی ہے جو اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی طرف جایا جائے۔ کوئی اور وجود ضرورت پوری کرنے کے لئے اس کا ہم پلہ نہیں ہے۔ اس کے برابر نہیں ہے۔ وجہ کیا ہے؟ کوئی وجود برابر کیوں نہیں ہے جو ضرورتیں پوری کر سکے؟ یہاں آپ نے وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس کے علاوہ ہر چیز وجود میں آ سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ ہمیشہ سے ایک ہی ہے اور رہے گا اور پھر ہر چیز کو فنا ہے۔ ایک وقت میں ختم ہو جائے گی، ہلاک ہونے والی ہے۔ یعنی ہر وجود جو مخلوق ہے اس کے ساتھ پیدائش بھی ہے اور فنا بھی لیکن خدا تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ پس بوجہ پیدا ہونے اور ہلاک ہونے کے باقی مخلوق عارضی ہے۔ کچھ وقت کے لئے ہے اور جو عارضی اور کچھ وقت کے لئے ہو وہ اپنی ضروریات کے تمام سامان مہیا نہیں کر سکتا، نہ کسی کو مہیا کروا سکتا ہے۔ پس جو تمام سامان مہیا نہ کر سکے اسے خود ایک خدا کی ضرورت ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ میں نے اپنی مخلوق کی زندگی قائم رکھنے کے لئے سامان مہیا کئے ہیں۔ وہی ہے جس پر انحصار کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہئے۔ پس یہ وجہ ہے اور تفصیل سے صمد کے یہ معنی ہیں۔ پھر نسب کی بات کی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ یَلِدْ اس کا کوئی بیٹا نہیں۔ وَلَمْ یُوْلَد اور اس کا کوئی باپ نہیں۔ پس نسب، نسل سے وہ بالا ہے۔ لہٰذا اس کا کوئی شریک ہو نہیں سکتا۔ پھر چوتھی بات اللہ تعالیٰ کے متعلق فرماتا ہے کہ لَمْ یَکُن لَّہٗ کُفُوًا اَحَد۔ اس کے کاموں میں کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں۔ پس جب برابری کرنے والا نہیں تو نہ ہی خدا تعالیٰ جیسے کوئی کام کر سکتا ہے۔ نہ ہی کام کے نتائج اور اثرات پیدا کرنا کسی کے بس میں ہے یا ہو سکتا ہے۔ یہ عام دنیا دار بھی جو اپنے کاموں کا نتیجہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میں نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ اس کے بھی جو نتائج پیدا ہو رہے ہوتے ہیں یہ نتائج پیدا کرنا اس کے بس میں نہیں ہے بلکہ قانون قدرت کے تحت انسان کو اس کی محنت کا صلہ مل رہا ہوتا ہے جو محنت وہ کرتا ہے۔ وہ رب بھی ہے اور رحمان بھی ہے۔ اس کی ربوبیت اور رحمانیت کا فیض انسان کو مل رہا ہوتا ہے۔ پس کتنا بدقسمت ہے وہ انسان جو بجائے اپنے خدا کے اس احسان کے اس کے قریب ہو، اس کے آگے جھکے، اکثریت ان میں سے دور ہٹتی چلی جاتی ہے۔

(خطبہ جمعہ 18؍ اپریل 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 ستمبر 2020