• 27 اپریل, 2024

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 11)

کتاب، تعلیم کی تیاری
(قسط 11)

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھےکئے جارہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

اصل رازق خدا تعالیٰ ہے۔ وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا۔ وہ ہر طرح سے اور ہر جگہ سے اپنے پر توکل کرنے والے شخص کے لیے رزق پہنچاتا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور توکل کرے میں اس کے لیے آسمان سے برساتا اور قدموں میں سے نکالتا ہوں۔ پس چاہیئے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ360 ایڈیشن 1984ء)

جو شخص جرأت کے ساتھ گناہ، فسق وفجور اور معصیت میں مبتلا ہوتاہے وہ خطرناک حالت میں ہوتاہے۔ خدا تعالیٰ کا عذاب اس کی تاک میں ہوتاہے۔ اگر بار بار اللہ کریم کا رحم چاہتے ہوتو تقویٰ اختیار کرو اور وہ سب باتیں جو خداتعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں چھوڑ دو۔ جب تک خوفِ الٰہی کی حالت نہ ہو تب تک حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتا۔ کوشش کرو کہ متقی بن جاؤ۔ جب وہ لوگ ہلاک ہونے لگتے ہیں جوتقویٰ اختیار نہیں کرتے تب وہ لوگ بچالئے جاتے ہیں جو متقی ہوتے ہیں۔ ایسے وقت اُن کی نافرمانی انہیں ہلاک کر دیتی ہے اور اُن کا تقویٰ انہیں بچا لیتاہے۔ انسان اپنی چالاکیوں شرارتوں اور غداریوں کے ساتھ اگر بچنا چاہے تو ہر گز نہیں بچ سکتا۔ کوئی انسان بھی نہ اپنی جان کی حفاظت کر سکتاہے نہ مال واولاد کی حفاظت کرسکتاہے اور نہ ہی کوئی اور کامیابی حاصل کر سکتاہے۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوشید ہ طور پر ضرور تعلق رکھنا چاہیئے اور پھر اس تعلق کو محفوظ رکھنا چاہیئے۔ عقلمند انسان وہی ہے جو اس تعلق کو محفوظ رکھتاہے اور جو اس تعلق کو محفوظ نہیں رکھتا وہ بے وقوف ہے جو اپنی چترائی پر نازاں ہے وہ ہلاک کیا جائے گا اور کبھی بامراد اور کامیاب نہیں ہوگا۔ دیکھو یہ زمین و آسمان اورجو کچھ اُن میں نظر آرہا ہے اتنا بڑا کارخانہ کیا یہ خدا تعالیٰ کے پوشیدہ ہاتھ کے سوائے چل سکتاہے؟ ہرگز نہیں۔

یاد رکھو جو امن کی حالت میں ڈرتا ہے وہ خوف کی حالت میں بچایا جاتاہے اور جو خوف کی حالت میں ڈرتا ہے۔ تو وہ کوئی خوبی کی بات نہیں۔ ایسے موقعہ پر تو کافر مشرک بے دین بھی ڈرا کرتے ہیں۔ فرعون نے بھی ایسے موقعہ پر ڈر کر کہا تھا اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ وَ اَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (یونس:91) اس سے صرف اتنا فائدہ اسے ہوا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرا بدن تو ہم بچالیں گے مگر تیری جان کو اب نہیں بچائیں گے۔ آخر خدا تعالیٰ نے اس کے بدن کو ایک کنارے پر لگادیا۔ ایک چھوٹے سے قد کا وہ آدمی تھا۔ غرض جب گناہ اور معصیت کی طرف انسان ترقی کرتاہے تو پھر لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ (الاعراف:35) والا معاملہ ہوتا ہے۔ جب اجل کی بلا آجاتی ہے تو پھر آگے پیچھے نہیں ہواکرتی۔ انسان کو چاہیئے کہ پہلے ہی سے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ369-370 ایڈیشن 1984ء)

میں سچ سچ کہتاہوں کہ جو سچے دل سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے خدا تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتاہے۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس سے یہ جوہر پیدا ہوتا ہے۔ یہ لوگ ملک و ملت کے دشمن ہیں۔ ان کی صحبت سے بچنا چاہیئے۔ گورنمنٹ کے ہم مسلمانوں پر بہت بڑے احسان ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اس کی شکرگذاری کے لیے ہر وقت تیار رہیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ376 ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

پورے طور پر تزکیہ نفس تھوڑے ہی شخصوں کو حاصل ہوتاہے۔ اکثر لوگ جو نیک ہوتے ہیں وہ بسبب کمزوری کے کچھ نہ کچھ خرابی اپنے اندر رکھتے ہیں اور ان کے دین میں کوئی حصہ دنیوی ملونی کا بھی ہوتاہے۔ اگر انسان اپنے سارے امو رمیں صاف ہو اور ہر بات میں پوری طرح تزکیہ نفس رکھتا ہو وہ ایک قطب اور غوث بن جاتاہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ350-351 ایڈیشن 1984ء)

پس راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو۔ کوٹھڑی کے دروازے بند کر کے تنہائی میں دعا کرو کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اپنا معاملہ صاف رکھو خدا کا فضل تمہارے شامل حال ہو جو کام کرو نفسانی غرض سے الگ ہو کر کرو تا خدا تعالیٰ کے حضور اجر پاؤ۔

حضرت علیؓ کی نسبت روایت ہے کہ ایک کافر نے جس پر قابو پاچکے تھے ان کے منہ پر تھوکا تو آپ نے چھوڑ دیا۔ اس نے پوچھا یہ کیوں؟ تو فرمایا اب میرے نفس کی بات درمیان میں آگئی۔ اس نے جب دیکھا کہ یہ لوگ نفسانی کاموں سے اس قدر الگ ہیں تو مسلمان ہوگیا۔ ایسے ایسے عملی نمونوں سے وہ کام ہوسکتا ہے جو کئی تقریریں اور وعظ نہیں کرتے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ358-359 ایڈیشن 1984ء)

جب کوئی مصائب میں گرفتار ہوتاہے تو قصور آخر بندے کا ہی ہوتاہے خدا تعالیٰ کا تو قصور نہیں۔ بعض لوگ بظاہر بہت نیک معلوم ہوتے ہیں اور انسان تعجب کرتا ہے کہ اس پر کوئی تکلیف کیوں وارد ہوئی یا کسی نیکی کے حصول سے یہ کیوں محروم رہا لیکن دراصل اس کے مخفی گناہ ہوتے ہیں جنہوں نے اس کی حالت یہاں تک پہنچائی ہوئی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ بہت معاف کرتا ہے اور درگذر فرماتا ہے۔اس واسطے انسان کے مخفی گناہوں کا کسی کو پتہ نہیں لگتا۔ مگر مخفی گناہ دراصل ظاہر کے گناہوں سے بدتر ہوتے ہیں۔ گناہوں کا حال بھی بیماریوں کی طرح ہے بعض موٹی بیماریاں ہیں ہر ایک شخص دیکھ لیتا ہے کہ فلاں بیمار ہے مگر بعض ایسی مخفی بیماریاں ہیں کہ بسا اوقات مریض کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مجھے کوئی خطرہ دامنگیر ہو رہا ہے۔ ایسا ہی تپ دق ہے کہ ابتداء میں اس کا پتہ بعض دفعہ طبیب کو بھی نہیں لگ سکتا یہاں تک کہ بیماری خوفناک صورت اختیار کرتی ہے ایسا ہی انسان کے اندرونی گناہ ہیں جو رفتہ رفتہ اسے ہلاکت تک پہنچا دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے رحم کرے۔ قرآن شریف میں آیا ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰٮہَا (الشمس: 10) اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔ لیکن تزکیہ نفس بھی ایک موت ہے۔ جب تک کہ کل اخلاق رذیلہ کو ترک نہ کیا جاوے تزکیہ نفس کہاں حاصل ہوسکتا ہے۔ ہر ایک شخص میں کسی نہ کسی شرّ کا مادہ ہوتا ہے وہ اس کا شیطان ہوتا ہے۔ جب تک کہ اس کو قتل نہ کرے کام نہیں بن سکتا۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ280-281 ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

ہماری جماعت کو چاہیئے کہ کوئی امتیازی بات بھی دکھائے۔ اگر کوئی شخص بیعت کرکے جاتا ہے اور کوئی امتیازی بات نہیں دکھاتا۔ اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہے جیسا پہلے تھا اور اپنے عیال و اطفال سے پہلے کی طرح ہی پیش آتا ہے تو یہ اچھی بات نہیں۔ اگر بیعت کے بعد بھی وہی بد خلقی اور بدسلوکی رہی اور وہی حال رہا جو پہلے تھا تو پھر بیعت کرنے کا کیا فائدہ؟ چاہیئے کہ بیعت کے بعد غیروں کو بھی اور اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں کو بھی ایسا نمونہ بن کر دکھاوے کہ وہ بول اُٹھیں کہ اب یہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔

خوب یاد رکھو کہ صاف ہو کر عمل کرو گے تو دوسروں پر تمہارا ضرور رُعب پڑے گا۔ آنحضرت ﷺ کا کتنا بڑا رُعب تھا۔ ایک دفعہ کافروں کو شک پیدا ہوا۔ کہ آنحضرت ﷺ بد دُعا کریں گے تو وہ سب کافر مل کر آئے اور عرض کی کہ حضور بد دُعا نہ کریں۔ سچے آدمی کا ضرور رُعب ہوتا ہے۔ چاہیئے کہ بالکل صاف ہو کر عمل کیا جاوے اور خدا کے لیے کیا جاوے تب ضرور تمہارا دوسروں پر بھی اثر اور رُعب پڑے گا۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ374 ایڈیشن 1984ء)

میں تو یہ جانتا ہوں۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کیا چوروں میں باہم وفاداری کے تعلقات نہیں ہوتے۔ ایک خود پھنس جاتا ہے مگر دوسرے کو بچانا چاہتا ہے۔ کنجریوں میں بھی ناپاک تعلقات کے رنگ میں ہمدردی اور ایثار کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مگر کیا ان باتوں میں کوئی خوبی ہو سکتی ہے۔؟ اس لئے کہ ان تعلقات کی بناء خدا تعالیٰ کیلئے نہیں ہوتی۔ سچا اور پاک تعلق جو ہوتا ہے اس کے نمونے اسلام میں پاؤ گے کیونکہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر جو محبت ہوتی ہے وہ صرف اسلام ہی میں ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ377 ایڈیشن 1984ء)

اصل بات یہ ہے کہ ظلم کا نتیجہ ہمیشہ خراب ہوتا ہے۔ وہ اپنی پہلی بیوی پر بہت کچھ سختی کرتے ہیں اور یہ کام خدا تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ بہت دفعہ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے ان کو نصیحت کی۔ مگر وہ سمجھتے نہیں۔ میں نے کنایتاً کئی دفعہ ان کو جتایا ہے مگر انہوں نے کوئی خیال نہیں کیا۔ مگراس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔ ضرور ہے کہ وہ کسی دن اپنے کام سے پچھتائیں اور میری بات کو سمجھیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ360 ایڈیشن 1984ء)

(اس مائدہ کے لیے مکرم محمد اظہر منگلا اور مجیب الرحمٰن آف گھانا نے مدد کی۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ