میں تھک چکا ہوں اب مجھے آرام چاہیے
سورج کے ڈوبنے کو فقط شام چاہیے
جب پر ہجوم شہر میں تنہائیاں ڈسیں
اپنے جنوں کو دار سر عام چاہیے
دو حوصلے کو داد کہ مرتا ہوں بار بار
ظالم کو میرا خون صبح و شام چاہیے
خود ڈوب کر سبھی کو کنارے لگا دیا
یہ ہی مرے خلوص کو انعام چاہیے
میں عمر بھر کا ساتھ نہیں مانگتا، مگر
بس دو گھڑی کا ساتھ ہی دو گام چاہیے
منزل تو بات دور کی ہے میرے ہمسفر!
یادوں میں تیرے پیار کی اک شام چاہیے
میں انجمن سے اٹھ کے چلا جاؤں تو مگر
یاروں کو میرے نام کا ہم نام چاہیے
(محمد امجد خان۔ آسٹریلیا)