• 7 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 60)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 60

لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا خیال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ کسی شخص کو ٹھوکر نہ لگے۔ ایک دفعہ حضرت صفیہؓ بنت حُیی کے ساتھ آپؐ باہر کسی جگہ جارہے تھے تو راستہ میں دو شخص ملے، جن کے متعلق آپ کو شبہ تھا کہ شاید اُن کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی عورت کے ساتھ رات کے وقت کہاں جا رہے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو ٹھہرا لیا اور فرمایا۔ دیکھو! یہ میری بیوی صفیہؓ ہیں۔ اُنہوں نے کہا یارسول اللہ! ہمیں آپ پر بدظنی کا خیال پیدا ہی کس طرح ہو سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ شیطان انسان کے خون میں پھرتا ہے میں ڈرا کہ تمہارے ایمان کو ضعف نہ پہنچ جائے۔

(دیباچہ تفسیر القرآن از حضرت مصلح موعودؓ)

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ پر رحم فرمائے اور انہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 3 مارچ 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ورق‘‘ مسجد نبوی کی بڑی ساری تصویر اور خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون من و عن وہی ہے جو اس سے قبل والے اخبار کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔

دنیا انٹرنیشنل نے اپنی مارچ کی اشاعت میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’اتنی ہی ضرورت آج بھی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کی 11 فروری کے حوالہ سے راجہ نصر اللہ خان صاحب نے جو ایک شذرہ انہیں بھجوایا تھا جس میں انہوں نے ایک وسیع المطالعہ صحافی جناب غلام اکبر صاحب کے کالم ’’شناخت‘‘ مطبوعہ نوائے وقت میں لکھا گیا ہے۔ اس مضمون کے کچھ حصہ قارئین کی دلچسپی کی خاطر لکھتا ہوں۔

’’ترقی کے تمام سچے دعوؤں کے باوجود انسان آج بھی اپنی ان جبلتوں کا قیدی ہے جن جبلتوں نے ہزار ہا سال پہلے کرۂ ارض کو حق و باطل اور عدل و جبر کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ کا میدان بنایا تھا۔ جو جنگ ابراہیم علیہ السلام و نمرود، موسیٰؑ و فرعون، عیسٰیؑ وہیروڈ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم و قریشانِ مکہ کے درمیان ہوئی تھی۔ وہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ اگر ہم اپنے آس پاس نظریں دو ڑائیں تو ہمیں ابوجہل بھی ملیں گے، ابولہب بھی ملیں گے، عتبہ، امیہ اور شیبہ بھی ملیں گے اور عبداللہ بن ابّی تو بے حساب ملیں گے۔ پھرہم کس دلیل کی بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کے دور کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت نہیں؟

مضمون نگار اور کالم نگار نے لکھا کہ کیوں نہ ہم حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وہ الفاظ یاد کریں جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کی خبر پر اہل مدینہ سے کہے تھے۔ ’’لوگو! اگر آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب اس دنیا میں موجود نہیں۔ لیکن اگر آپ کو عشق رسول اللہ اور ان کے دین سے ہے تو وہ تاقیامت زندہ رہے گا۔‘‘

انہوں نے مزید لکھا کہ مطلب اس بات کا یہ ہے کہ جو پیغام محمدصلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اور جو انقلاب انسانی معاشرے میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بپا کیا تھا وہ پیغام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس لئے زندہ رہے گا کہ جب تک دنیا میں ظلم و بے انصافی موجود ہے، وحشت و درندگی کا راج ہے، اور بداعمالی اور بدکرداری کا دور دورہ ہے، محمدی ؐ انقلاب کی ضرورت نہ تو مٹے گی اور نہ ہی کم ہوگی۔

انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ لوگ کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب Mohammad , Prophet For Our Time (ہمارے عہد کا پیغمبر) ضرور پڑھیں۔ اس کتاب کے دیباچہ میں وہ لکھتی ہیں کہ ساتویں صدی کے Arabia میں جو واقعات رونما ہوئے، ان کی مماثلت مجھے آج کے دور میں نظر آتی ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوئی مذہبی عقیدہ نافذ نہیں کر رہے تھے۔ وہ لوگوں کے دل و دماغ تبدیل کررہے تھے۔ انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ دور جہالت کی اصطلاح کا تعلق تاریخ کے کسی دور سے نہیں، اس ذہنی حالت سے تھا جو قتل و غارت ظلم و جبر اور وحشت و بربریت کی وجہ بنی ہوئی تھی۔ میں دعویٰ سے کہہ سکتی ہوں کہ آج کی دنیا (مغرب ہو یا مشرق) اسی حالت کی شکار ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم زمان و مکان کی قید سے آزاد شخصیت کا نام ہے۔ جتنی ضرورت ساتویں صدی کی دنیا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی اتنی ہی ضرورت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آج کی دنیا کو بھی ہے۔‘‘

(نوائے وقت 11 دسمبر 2010ء کالم نمبر3-4)

خاکسار کو موصوفہ کی ساری باتوں سے اتفاق ہے لیکن یہ بات تو بہت ہی خوبصورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے دل اور دماغ تبدیل کرنے آئے تھے۔ یہی آپؐ کی بعثت کا مقصد ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت عربوں کی کیا حالت تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو نے اس قوم کو گندے گوبر کی طرح پایا لیکن جب وہ تیری صحبت میں آئے تیری تربیت میں آئے تو تُو نےانہیں ایک چمکتے ہوئے سونے کی ڈلی کی طرح بنا دیا وہ کندن بن گئے۔ اس میں کیا شک ہے کہ جو روحانی انقلاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے جو کسی اور کے حصہ میں نہیں آیا اور نہ ہی آسکتا ہے۔

آج بھی اسی انقلاب کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اس وقت تھی۔ کیوں کہ وہی عربوں جیسی جاہلیت آج بھی پائی جاتی ہے۔ وہی قتل و غارت وہی بدسکونی آج کے دور میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ایک طرف تو نوائے وقت یہ لکھتا ہے کہ آج کے دور میں بھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف 1974ء میں فیصلہ کیا گیا کہ کوئی بھی مصلح، ریفارمر اور مذہبی رہنما کسی رنگ اور کسی طرز پر نہیں آسکتا۔ تو پھر انقلاب کیسے آئے گا۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ شائد آج کامولوی یہ انقلاب لے آئے۔

پس آئیے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی انقلاب کی طرف آج واقعی مسلمان اس بات کے محتاج ہیں کہ ان کے لئے ’’کوئی مسیحا بنے خدا کے لئے‘‘ صادق آرہی ہے۔ اس زمانے کے مولوی میں تو وہ روحانیت ہی نہیں کہ ایسا انقلاب لاسکے اور جس نے آنا ہے اس کے آنے کا قانون نے دروازہ بند کر دیا ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 4 مارچ 2011ء میں صفحہ 11 پر پورے صفحہ پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ فرمودہ 28 جنوری 2011ء حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ کی ہیڈ لائن یہ ہیں۔

’’خدا تعالیٰ سے انتہائی قرب پاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کی نجات، محبت الٰہی اور شفاعت کا مقام ملا‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت للعالمین اور آپؐ سے محبت کو اپنی محبت قرار دیا‘‘

’’صبر و تحمل، برداشت، عفو اور مستقل مزاجی سے اسلام کا، محبت اور امن کا پیغام پھیلانا ہے‘‘

اس خطبہ جمعہ میں حضور انور نے حدیث قدسی لَوْ لاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکْ بیان فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مقام کی نشاندہی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے افضل اور تاقیامت تمام زمانوں کے لئے مبعوث ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت پاتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و احسان، پیار، عفو اور صبر سے دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا جس نے لوگوں کے دلوں پر قبضہ کیا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء سے لوگوں کے سلوک کا جو طریق چلا آرہا ہے۔ اے نبی! تجھ سے بھی ہوگا لیکن تو نے صبر و تحمل، برداشت، عفو اور مستقل مزاجی سے یہ کام کرتے چلے جانا ہے۔ حتی الوسع سختی سے پرہیز کرنا ہے۔

بے ہودہ لوگوں پر، ایذاء دہی پر صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھاتا چلاجاکہ اسلام کا، محبت اور امن کا پیغام اسی طرح پھیلنا ہے۔ پس تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر، آخر کار کامیاب وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہوتا ہے۔

فرمایا: پس جہاں تک انبیاء کے مخالفین کی پکڑ کا سوال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے یہی سلوک سب سے بڑھ کر دکھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ ان کا نام و نشان مٹا دیا۔

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان کے نظارے اور خدا تعالیٰ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کا سلوک دکھاتا چلا جائے اور ہم حقیقی رنگ میں قرآنی تعلیم کو بھی اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہوں۔ (آمین)

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 4 تا 10 مارچ 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’اتنی ہی ضرورت آج بھی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ گذشتہ اخبار کے حوالہ سے پہلے آچکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔

انڈیا ٹربیون نے اپنی اشاعت 4 مارچ 2011ء میں مکرم عبدالغفار صاحب (نومسلم احمدیہ) کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان یہ دیا ہے کہ
’’مسلمان تو صرف امن کے لئے ہے اور جہادیوں کی وجہ سے اسلام کی حقیقی امن اور اس کی خوبصورت تعلیم اوجھل ہوگئی ہے‘‘

یہ مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار میں شائع ہوچکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 10 مارچ 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’اتنی ہی ضرورت آج بھی ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون اس سے قبل دنیا انٹرنیشنل کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔

دنیا انٹرنیشنل کی اشاعت 11مارچ 2011ء میں خاکسار کا مضمون بعنوان ’’صلح و صفائی اور امن و آشتی کی گم شدہ جنتیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون بھی قبل ازیں نیویارک عوام اور پاکستان ایکسپریس کے حوالہ سے پہلے گذرچکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 11 مارچ تا 17 مارچ 2011ء میں صفحہ12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’عالم اسلام کے لئے دعائیں اور قیام خلافت کی تحریک‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ خاکسار نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ عالم اسلام اس وقت بہت ساری بے چینیوں کا شکار ہے۔ لیبیا، مراکش، تیونس، مصر، عراق، انڈونیشیا، ایران، شام، پاکستان۔ مَیں کس کس ملک کانام لوں۔ دل ان سب کی حالت دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے۔ اور بار بار یہ سوچ ابھرتی ہے کہ ان مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے۔ یہ اپنے ہی لوگوں، اپنے ہی بھائیوں اور ہم وطنوں کے خون کے پیاسے کیوں ہوگئے ہیں۔ یہ کلمہ گو، کلمہ پڑھنے والوں ہی کو کیوں قتل کر رہے ہیں۔ ان کے دل اتنے بے رحم کیوں ہوئے ہیں۔ ان میں اتنی بےحسی آخر کیوں ہے؟ کیا اسلام نے انہیں ہر قسم کی بُرائی، قتل و غارت، خون بہانے کی چھٹی دے دی ہے۔ اسلام نے بتایا ہے کہ انسان کو احسن تقویم بنایا گیا ہے۔ اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے عزت و تکریم عطا فرمائی ہے۔ لیکن پھر یہ بھی بتایا ہے کہ اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے اسفل السافلین بھی کر دیا ہے۔ یعنی بدتر۔ اس سے زیادہ بدتری اور کیا ہوگی جس کا نظارہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دار تو نہیں۔ وہ تو اس پر رحم فرماتا ہے جو اپنے آپ کو رحم کے قابل بناتا ہے۔ جب بغداد میں لڑائی ہورہی تھی اور ہلاکو خاں سب کو قتل و غارت کر رہا تھاتو ایک بزرگ نے دعا کی کہ:
اے اللہ! مسلمانوں پر رحم فرما۔ اور ان کو بچا لے۔ تو اس بزرگ کو الہام ہوا۔ ’’اے کافرو! اِن فاجر اور فاسق لوگوں کو قتل کرو۔‘‘

فاسق و فاجر سے مراد مسلمان ہی ہیں۔ یعنی مسلمانوں کو خوب مارو۔

خدا تعالیٰ نے تو فرما دیا ہے کہ اللہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ بیمار پڑ گیا۔ ہر قسم کا علاج کرایا گیا مگر شفاء نہ ہوئی۔ کسی نے کہا یہاں ایک بزرگ ہیں ان سے دعا کرائیں جب انہیں کہاگیا تو انہوں نے کہا میں تو دعا کروں گا۔ مگر وہ بے شمار لوگ جو بے قصور اس بادشاہ نے جیلوں میں ڈالے ہوئے ہیں ان کی بددعائیں بھی تو جاری ہیں۔ پھر اکیلے کی دعا کیا کام کرے گی۔ چنانچہ بادشاہ نے ان سب کی رہائی کا حکم دیا اور بادشاہ تندرست ہوگیا۔

خاکسار نے لکھا کہ ہمارے امام سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے گذشتہ جمعہ تمام عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک کی ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے خاص طور پر زور دیا کہ دعاؤں سے تمام اہل اسلام اور مسلمانوں کی مدد کریں۔ آپ نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ مسلمانوں کی لیڈر شپ میں بھی تقویٰ ہونا چاہیئے اور یہ سب کچھ تقویٰ کی کمی کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے۔ جواب لوگ لیڈر بن جاتے ہیں تو وہ نہ ہی حقوق اللہ ادا کرتے ہیں اور نہ ہی حقوق العباد۔ لوگوں سے خدا خوفی بالکل ختم ہوگئی ہے۔

خاکسار نے مزید لکھا کہ کچھ عرصہ سے اخبارات میں خلافت کے بارے میں بھی لکھا جارہا ہے کہ موجودہ بحرانوں کاحل خلافت کا قیام ہے۔ دو سال قبل انڈونیشیا میں بھی ایک لاکھ مسلمان جمع ہوئے اور انہوں نے اپنے جلسے میں خلافت کے حق میں نعرے لگائے اور تقریریں کیں۔ ہندوستان میں بھی یہ تحریک خلافت کے قیام کی اٹھی تھی۔ اور اس کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً یہ تحریک قیام خلافت کی اٹھتی رہتی ہے۔ لیکن افسوس کیوں مسلمان ابھی تک خلافت کو قائم نہیں کر سکے۔ مضامین بھی لکھے جارہے ہیں جس میں کہا جارہا ہے کہ قیام خلافت کے لئے لوگ اٹھ کھڑےہوں اور زور لگائیں۔

خاکسار نے لکھا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان بحرانوں سے خلافت ہی نکال سکتی ہے۔ یہ تو بالکل درست ہے۔ لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور زور لگائیں۔ یہ طریق غلط ہے نہ پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ آئندہ اس طریق سے خلافت قائم ہوسکے گی۔ لوگ خلافت کو قائم نہیں کرتے اور نہ ہی لوگوں کے زور لگانے سے یا چاہنے سے کوئی خلیفہ بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو عالم اسلام سب اکٹھا ہو کر ایسا کر سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا۔ کیوں؟ اس لئے کہ خلیفہ بنانا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر وہ بن بھی گیا تو وہ سیاسی خلیفہ ہوگا لوگوں کے ووٹ سے بنے گا اور وہ اس کو کسی وقت معزول بھی کر سکتے ہیں پھر۔

اصل بات یہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ اور اس بات پر سورۃ النور کی آیت 56 شاہد و ناطق ہے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ انعام خلافت ان کو دیا جاتا ہے جو اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔ اب سو چیں پاکستان میں کتنے اعمال صالحہ بجا لانے والے ہیں؟ اخبارات اور T.V دیکھ لیں ایک حشر برپا ہے۔ تقویٰ کی کمی ہے۔ عبادات کی روح نہیں ہے۔ لوگوں کے حقوق مارے جارہے ہیں۔ ہر نیکی کا جنازہ نکل گیا ہے۔ اور باقی دنیا کے مسلم ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ پھر خلافت کیسے قائم ہوگی!

ایک امام دوسری مسجد کے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو قائل نہیں۔ پھر ایک کی خلافت کو کون مان لے گا؟

پھر جو طریق خلافت کے قیام کا خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اس سے تو انحراف ہے۔ پھر خلافت کیسے قائم ہوگی۔ وہ دروازہ جس کے ذریعہ خلافت نے آنا ہے اس کو تو مسلمان بند کر چکے ہیں اور وہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ اسلام کی پہلی تین صدیاں ٹھیک رہیں گی اس کے بعد جابر و ظالم حکمران بن جائیں گے پھر خدا تعالیٰ خلافت علیٰ منھاج النبوۃ قائم فرمائے گا۔ گویا پیشگوئی آخری زمانے سے تعلق رکھتی ہے کہ جب مسیح موعود اور امام مہدی آئے گا تو ان کی وفات کے بعد خلافت جاری ہوگی۔ پس خلافت خدا کا انعام ہے۔ خدا ہی اسے جاری کرے گا۔ اپنی کوششوں سے خلافت نہیں آسکتی۔ اور نہ آئے گی مسلمان اس کو آزماچکے ہیں۔ خدائی قاعدہ اور خدائی تدبیر کو چھوڑ کر خلافت کا قیام عبث ہے۔

اس کے بعد خاکسار نے جماعت احمدیہ کا عقیدہ لکھا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہی مسیح و مھدی نے آنا ہے۔ کوئی باہر سے نہ آئے گا یعنی بنی اسرائیلی نبی حضرت عیسیٰ تشریف نہیں لائیں گے کیوں کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ‘‘۔ پس قرآن پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ جوش کی بجائے ہوش سے کام لیں۔ ہمارے پیارے رسول زندہ رسول ہیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے بلند مقام ختم نبوت پر فائز ہیں کہ ان کی پیروی میں اللہ تعالیٰ کئی عیسیٰ بنا سکتا ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 11 مارچ 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’عالم اسلام کے لئے دعائیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے نفس مضمون بالکل وہی ہے۔

پاکستان جنرل نے اپنی اشاعت 11 مارچ 2011ء میں صفحہ2 پر پورے صفحہ پر 12 رنگین تصاویر کے ساتھ ہمارے جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر دی۔ تصاویر میں 3 تصاویر سامعین کی ہیں۔ ایک میں ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں عاصم انصاری صاحب تقریر کر رہے ہیں اور سٹیج ٹیبل پر خاکسار، ایک غیر مسلم مہمان، مولانا نسیم مہدی صاحب، مکرم ڈاکٹر حمید الرحمٰن صاحب۔ ایک تصویر میں ایک خادم تقریر کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں برادر علیم ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ ایک میں مہمان تقریر کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں مولانا نسیم مہدی صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں امجد محمود خان صاحب کا تعارف کرا رہے ہیں۔ صرف تصاویر ہی ہیں اور ہیڈ لائن یہ ہے کہ جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس بیت الحمید چینو میں منعقد ہوئی اس موقع پر لی گئی چند تصاویر۔

ڈیلی بلیٹن نے اپنی اشاعت 12 مارچ میں ایک خبر شائع کی ہے اور اس اخبار نے لکھا ’’دہشت گردی سے متعلق ایوان زیر سماعت کی تنقید اور امام کا جواب‘‘۔ یہ خبر خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ جس کے نیچے لکھا کہ امام شمشاد اے ناصر آف مسجد بیت الحمید چینو۔

خبر کا ماحصل یہ ہے۔ مقامی احمدیہ کمیونٹی نے اس ہفتے شہر میں ہونے والی دہشت گردی کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے پینل کے خلاف سخت رویے کا اظہار کیاہے۔ کیونکہ نیویارک کے ریپبلکن پیٹرکنگ جس نے اس مقدمہ کی سماعت کرنی تھی کا کہنا ہے کہ امریکی مسلم کمیونٹی، دہشت گردی کے خلاف بولنے کے لئے خاطر خواہ کوشش نہیں کر رہی اور پولیس کی مدد کرنے سے بھی گریزاں ہے۔

اوبامہ انتظامیہ کو تشویش ہے کہ جو لوگ بھی القاعدہ کے خلاف بیانات دیتے ہیں اس میں وسیع تر مفاد کے پیش نظر صرف اس بات کا اظہار ہونا ہے کہ امریکہ اسلام کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔

چینو میں موجود مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے بھی انتظامیہ کے ان خدشات کی تصدیق کی ہے جو کہ انہیں ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مقدمہ کی سماعت کے بارہ میں لاحق ہیں۔

امام شمشاد نے کہا کہ پیڑکنگ کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہیئے کہ اس طرح کا بیان اس کے مقاصد کے لئے مضر ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بہت سے لوگ جنہوں نے ان کی حمایت اور مدد کا سوچا ہوگا اب وہ اس کے مقاصد کے بارے میں بہت شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔

امام شمشاد نے پیٹر کنگ کے حالیہ تبصرے پر خاص طور پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے امریکہ کو مسلم برادری کی طرف سے ایک حقیقی خطرہ قرار دیا ہے حالانکہ انہیں پہلے تحقیقات کرنا چاہیئے تھی کہ اس کی تہہ میں اصل کیا بات ہے۔ امام شمشاد نے مزید کہا کہ ان کے بیان نے تمام مسلمانوں کو ہر ممکن خطرہ کے طور پر شامل کرلیا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے بے سوچے سمجھے بیانات ہی مسلمانوں کو اس کے مقصد کی حمایت کرنے سے روکتے ہیں۔

کنگ نے یہ بھی کہا کہ شہر میں ہونے والی دہشت گردی القائدہ کی ہی طرف سے ہوئی ہے اور یہ ان کی حکمت عملی کا حصّہ ہے کہ وہ امریکہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

امام شمشاد نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ یہ ان امریکی مسلمانوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے اور پھر یہ کہ اگر مسٹر کنگ کی اجتماعی سماعت کا اصل مقصد تمام امریکی مسلمانوں کو متاثر کر رہا ہے یا پھر بڑے پیمانے پر اسلام پر حملہ کرنا ہے تو ایسی سماعت بہت ہی گمراہ کن ہے اور اسے فوری طور پر روکنا چاہیئے۔ اس کے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے۔

ڈیلی بلٹن نے 12 مارچ 2011ء میں صفحہA13 پر ہمارا مختصر اشتہار شائع کیا ہے جس میں اسلام کے تحت، ہماری مسجد کا نام اور ایڈریس اور فون نمبر دیا گیا ہے نیچے مسجد میں روزانہ ہونے والے پروگرام کی تفصیل لکھی ہوئی ہے مثلاً روزانہ پانچ نمازیں، درس القرآن اور درس الحدیث، فری لیکچر اسلام پر، اسلامی تعلیمات پر سنڈے کلاس، جمعہ اور خطبہ انگریزی میں، ہفتہ وار ریڈیو پروگرام، قرآن کریم مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ میسر ہیں، اور جماعت کی ویب سائٹ بھی دی ہوتی ہے۔

(باقی آئندہ بروز بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ