• 8 مئی, 2024

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً (كتاب الإيمان حصہ 3) (قسط 5)

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً
كتاب الإيمان حصہ 3
قسط 5

سوال: نئے مسلمان کے سابقہ اعمال کا معاملہ کیسے ہوگا؟

جواب: رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ جب کوئی بندہ کامل یقین کے ساتھ مسلمان ہو جائے، تو اللہ اس کے سابقہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے، جتنا کہ اس نے کیا ہے۔

سوال: جو نیکی مداومت کے ساتھ ہو اس کا کیا درجہ ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ کو وہی عمل سب سے زیادہ پسند ہے جس کو مداومت سے کیا جائے۔

حضرت عائشہؓ نے اپنے پاس بیٹھی ایک عورت کی کثرتِ عبادت کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا ٹھہر جاؤ۔ پہلے یہ سنو کہ تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہیں طاقت ہے۔

اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ ثواب دینےسے نہیں اکتاتا، مگر تم عمل کرتے ہوئے اکتا جاؤ گے، اور اللہ کو دین کا وہی عمل زیادہ پسند ہے جس کی ہمیشہ پابندی کی جا سکے۔ یعنی انسان بآسانی اورخوشی سے بجا لاتا رہے۔
سوال:کس حد تک ایمان نجات کا موجب بنے گا؟

آپ ؐ نے فرمایا جس شخص نے لَاِ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کہہ لیا اور اس کے دل میں، جَو، برابر بھی ایمان ہے تو وہ ایک نہ ایک دن دوزخ سے ضرور نکلے گا۔ اور دوزخ سے وہ شخص بھی ضرور نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ کےبرابر خیر ہے۔ اور دوزخ سے وہ بھی نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں اک ذرہ برابر بھی خیر ہے انسؓ نے رسول اللہ ؐ سے ’’خير‘‘ کی جگہ ’’ايمان‘‘ کا لفظ روایت کیا ہے۔

سوال: ایک یہودی کو قرآن کریم کی کس آیت پہ بڑا رشک آیا؟

جواب: ایک یہودی نے حضرت عمرؓ سے کہا اے امیرالمؤمنین! تمہاری کتاب (قرآن) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس (کے نزول کے) دن کو یوم عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے جواب دیا اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدہ: 4) آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو خوب جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس وقت آپ ؐ عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔یعنی اس دن ہماری دو عیدیں تھیں۔ ایک جمعہ کے دن کی عید دوسری یومِ عرفہ کی عید۔

سوال: کونسی چیزیں ایک مسلمان کے لئے لازم ہیں؟

جواب: حضورؐ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہےدن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا ہے، اور رمضان کے روزے رکھنا۔ زکوٰۃ ادا کرنا۔ جس نے ان امور پر پابندی کی وہ اپنی مراد کو پہنچ گیا۔یہی چیزیں ایک مسلمان کے لئے لازم ہیں۔

سوال: کیا جنازے اور تدفین کے لئے جانا موجب ثواب ہے؟

جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کوئی ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز اورتدفین سے فراغت ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔ ہر قیراط اتنا بڑا ہو گا جیسے احد کا پہاڑ۔ اور جو شخص جنازے پر نماز پڑھ کرتدفین سے پہلے لوٹ جائے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔

تو تجہیز و تکفین اور تدفین تک تمام مراحل میں شمولیّت ثواب کا موجب ہے۔

سوال: مؤمن کو کس بات سے خائف رہنا چاہیئے؟

جواب: مومن کو اپنے اعمال کے ضائع ہونے سے ڈرنا چاہیئے، کہیں بے خبری میں کسی غلطی سے ضائع نہ ہوجائیں۔ صحابہؓ اور تابعینؒ ہمیشہ خائف رہتے کہیں ان کےاقوال اور اعمال میں نفاق کی ملونی تو نہیں ہورہی۔

حسن بصری ؒ کا قول ہے، نفاق سے وہی ڈرتا ہے جو ایماندار ہوتا ہے اور اس سے نڈر وہی ہوتا ہے جو منافق ہے۔ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت بھی شاہد ہے: وَلَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ (آل عمران: 136). اور اپنے برے کاموں پر جان بوجھ کر وہ اڑا نہیں کرتے۔

سوال: کسی مسلمان کوگالی دینا اور قتل کردینا کتنا بڑا گناہ ہے؟

جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان کو قتل کردینا کفر ہے۔

سوال: شب قدر کے پانے کے لئے حضورؐ کا کیا ارشاد ہے؟

جواب: حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا، میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے۔ تو وہ میرے دل سے اٹھا لی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔ اب تم شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو۔

سوال: جبریلؑ کا حضورؐ سے سوالات کرنے کا واقعہ کیا ہے؟

جواب: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے۔ کہ آپؐ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اللہ کے حضور حاضر ہونے پر اور اس کے رسولوں پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔

پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ فرض ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔
پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔

پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا البتہ میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔

وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی، اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے یعنی گڈریا ٹائپ لوگ مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے، قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَیُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ ۚ وَیَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ ؕ وَمَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا ؕ وَمَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ (لقمان: 35) ىقىناً اللہ ہى ہے جس کے پاس قىامت کا علم ہے اور وہ بارش کو اتارتا ہے اور جانتا ہے کہ رِحموں مىں کىا ہے اور کوئى ذى روح نہىں جانتا کہ وہ کل کىا کمائے گا اور کوئى ذى روح نہىں جانتا کہ کس زمىن مىں وہ مَرے گا ىقىناً اللہ دائمى علم رکھنے والا (اور) ہمىشہ باخبر ہے۔

پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے جو لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے۔

سوال: وہ چیزیں جو حلال یا حرام کے لحاظ سے واضح نہ ہوں ان کے بارے کیا حکم ہے؟

جواب: آپ ؐ نے فرمایا حلال اور حرام تو واضح ہیں، اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ والی ہیں جن کو زیادہ لوگ نہیں جانتے کہ حلال ہیں یا حرام۔ پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔ اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو شاہی چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ قریب ہے کہ وہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائےاور شاہی مجرم قرار پائے۔

سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔ پس ان سے بچو۔

سوال: حضورؐ نے جسم کے کس ٹکڑا کو اصلاح اور بگاڑ کاذریعہ قرار دیا ہے؟

جواب: حضورؐ نے فرمایا: سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔

سوال: حضورؐ نے وفد عبدالقیس کو کن باتوں کی نصیحت فرمائی؟

جواب: آپ ؐ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، ایمان لانے کا مطلب ہے کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کرنا۔

سوال: نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ پر ثواب کیسے مرتّب ہوگا؟

جواب: عمل میں ہی ایمان ہے اور ایمان میں، وضو، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ اور سارے احکام آ گئے ہیں۔

اور اللہ نے فرمایا: قُلۡ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ۔ یعنی عَلىٰ نِيَّتِهٖ۔ اے پیغمبر! کہہ دے کہ ہر کوئی اپنے طریق یعنی اپنی نیت پر عمل کرتا ہے۔ اور ہر آدمی اگر ثواب کی نیت سے اللہ کا حکم سمجھ کر اپنے گھر والوں پر خرچ کر دے تو اس میں بھی اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ اور جب مکہ فتح ہو گیا تو نبی کریم ؐ نے فرمایا تھا کہ اب ہجرت کا سلسلہ ختم ہو گیا لیکن جہاد اور نیت کا سلسلہ باقی ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایا عمل نیت ہی سے صحیح ہوتے ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا۔ پس جس کسی کی ہجرت اللہ کے لئے یا شادی اور دنیا کمانے کےلئے اسی کے مطابق ہی اجر کا مستحق ٹھہرے گا۔

سوال: کون سا خرچ ثواب کا موجب ہے؟

جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تُو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی ثواب ملے گا کہ تُو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے۔

سوال: دین سے کیا مراد ہے؟

جواب: نبی کریم ؐ کا یہ فرمانا کہ دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہے۔اللہ نے فرمایا: اِذَا نَصَحُوۡا لِلّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ (التوبہ: 91) جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے مخلص ہوں۔(تو دیندار ہیں)۔

(مختار احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ