• 7 مئی, 2024

پُر اسرار معالج

خاکسار کے ایک عزیز مکرم منصور احمد صاحب شیزان فیکٹری میں پروڈکشن مینیجر تھے اور اب ریٹائر ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ رونما ہونے والا ایک واقعہ سنایا جس نے مجھے حیران کردیا۔ میر اجی چاہا کہ قارئین الفضل آن لائن کو بھی بتاؤں تاکہ وہ بھی اپنے اپنے ذوق کے مطابق میری حیرانی میں حصہ دار بن جائیں۔

مجھے یاد نہیں کہ پہلی بارکب انہوں نے یہ پُراسرار بات مجھے سنائی تھی لیکن 2014ء میں جب وہ جلسہ سالانہ میں شرکت کیلئے برطانیہ آئے اور حسب معمول ہمارے ہاں ایڈنبرا بھی آئے تو میں نے انہیں اس روئداد کو ایک دفعہ پھر دہرانے کیلئے کہا اور اُن کے سامنے ہی ان کی طرف سے اپنی ڈائری میں درج کرلیا جو اسوقت قارئین کی خدمت میں پیش ہے:
’’اندازاً 1987ء کی بات ہے، موسم گرما کی ایک رات تھی۔ میں لاہور اپنے مکان واقع حاجی سٹریٹ (نزد شیزان فیکٹری) کی چھت پر سویا ہوا تھا کہ قریباً نصف رات کے بعد میرے ایک ہاتھ کی درمیانی انگلی میں شدید تکلیف ہوئی جیسے سوئی چبھنے سے ہوتی ہے (یہ یاد نہیں کہ دایاں ہاتھ تھا یا بایاں)۔ درد کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ کسی کیڑے نے وغیرہ نے مجھے کاٹا ہے یا ڈنک مارا ہے۔ میں نے روشنی کرکے دیکھا تو انگلی پر چھوٹا سا سیاہ رنگ کا نشان تھا۔ بقیہ رات معمولی سا درد ہوتا رہا جیسے ٹیکہ لگنے کے بعد ہوتا ہے۔ صبح اٹھنے پر درد ختم ہوچکا تھا، انگلی پر نہ کوئی سوجن تھی اور نہ ہی تکلیف لیکن سیاہ رنگ کا چھوٹا سا نشان کوئی چار پانچ دن رہا اور پھر غائب ہوگیا۔

بہرحال صبح اٹھنے کے بعد میں شیزان فیکٹری اپنے دفتر گیا اور کاغذات دیکھنے کیلئے عینک لگائی تو مجھے لکھائی دھندلی دھندلی دکھائی دی۔ میری عینک کا نمبر 1.25تھا۔ میں نے عینک اتاری اور اس کے شیشے صاف کرنے لگا تو میں نے دیکھا کہ مجھے بغیر عینک کے کاغذات کی لکھائی صاف نظر آرہی ہے۔ میں حیران ہوا۔ میری عینک دور اور نزدیک کیلئے ایک ہی تھی اسلئے اب مجھے نہ ہی دور کی نظر کیلئے اور نہ ہی قریب کی نظر کیلئے عینک کی ضرورت تھی۔ یہ کیفیت 1999ء تک یعنی قریباً گیارہ سال جاری رہی پھر جاکر عینک کی ضرورت پڑی۔ پھر بھی عینک کا نمبر 0.75 تھا جو پہلی عینک سے بہت بہتر تھا۔ 2011ء میں میری ایک آنکھ کا موتیا کا آپریشن ہوا اور دوسال بعد دوسری آنکھ کا۔ اب میری عینک کا نمبر دوبارہ 1.25 پر آگیا ہے۔

میں سوچتا ہوں اگر کاٹنے والا یہ کیڑا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ٹیکہ لگانے والا یہ محسن کِرم پکڑا جاتا اور ماہرین طِب کے علم میں لایا جاتا تو یقیناً سارے ملک بلکہ پوری دُنیا بھر میں اُس کی فیملی کی تلاش شروع ہوجاتی، اُن کو لیبارٹریز کی زینت بنایا جاتا، اُن پرریسرچ ہوتی اور مخلوقِ خدا اُس سے فائدہ اٹھاتی۔ ممکن ہے آئندہ کسی جگہ اِس نوعیت کا خوشگوار حادثہ پھر رونما ہو اور دنیا ایک نادر ٹیکہ سے روشناس ہو۔‘‘

دراصل اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ نظام قدرت اس قدر وسیع ہے کہ انسان اسکے احاطہ کا تصّور بھی نہیں کرسکتا۔ جتنی عقل اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے اُس کو پوراپورا استعمال کرلینے کے بعد بھی وہ کائنات کے نظام کو شائد اتنا ہی سمجھ سکا ہے جتنا آٹے میں نمک۔ لیکن ذرا ٹھہریں! اُردو کا یہ محاورہ یہاں کام نہیں آئے گا بلکہ شائد کوئی بھی مثال یا محاورہ کام نہ آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور انسان کی سوچ کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں بنتی۔ اللہ تعالیٰ کے سچے مسیحِ موعود علیہ السلام نے درست فرمایا:

کیا عجب تُونے ہر اک ذرہّ میں رکھے ہیں خواص
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا
تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں
کس سے کُھل سکتا ہے پیچ اس عُقدہِ دشوار کا

(دُرِّثمین)

(حفیظ الرحمٰن واحد۔ ایڈنبرا، سکاٹ لینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ