• 30 اپریل, 2024

مومن بننے کے لئے کیا لوازمات ہیں؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ اپنی صفتِ مومن کے تحت امن دینے والا ہے اور اپنے انبیاء کی تصدیق کرنے والا ہے، ان کی تائید میں نشانات و معجزات دکھانے والا ہے۔ اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء پر ایمان لے آئے تو وہ اپنی مخلوق کو ہر شر سے امن میں رکھتا ہے اور دنیا و آخرت میں ان ایمان لانے والوں کو طمانیت قلب عطا فرماتا ہے، اپنے انعامات سے نوازتا ہے اور اپنے مومن بندوں کو اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرتا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے فیض پانے کے لئے مومن بننا ہوگا۔ مومن بننے کے لئے کیا لوازمات ہیں ؟ کون کون سی شرائط ہیں جن پر پورا اتر کر ایک انسان حقیقی مومن بن سکتا ہے؟ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ مومن کی مختلف خصوصیات بیان فرمائی ہیں کہ ایک مومن بندہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے فیض پانے کے لئے ایمان کے مدارج طے کرتے ہوئے ان باتوں کو اپنائے گا تو وہ حقیقی مومن کہلائے گا اور فیض پانے والا ہوگا۔

قرآن کریم کے شروع میں ہی مومن کی تعریف کا بیان شروع ہو گیا ہے۔ فرمایا اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ:5-4) مومن کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان لانے والا ہے۔ اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ نمازوں کو قائم کرنے والا ہے۔ تیسری بات اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا ہے یا جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں ان کے مطابق خرچ کرنے والا ہے۔ چوتھی خصوصیت، آنحضرتﷺ پر جو تعلیم اتری، اللہ تعالیٰ کی شریعت اتری اس پر ایمان لانے والا اور پانچویں یہ کہ پہلے انبیاء پر ایمان لانے والا اور چھٹی بات یہ کہ آخرت پر یقین کرنے والا ہے۔ یعنی وہ باتیں جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ہوں گی۔ ان پر یقین کرنا۔

پہلی بات یا خصوصیت جو ایک مومن کی بیان فرمائی گئی ہے وہ غیب پر ایمان ہے، اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کہ وہ سب قدرتوں والاہے۔ جب یہ کامل ایمان ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اپنے وجود کا پتہ ایک سچے مومن کو مختلف طریقوں سے دیتا ہے۔ اسی طرح فرشتوں پر ایمان ہے، مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان ہے، یہ سب ایمان کی مثالیں ہیں۔ پھر غیب پر ایمان یہ ہے کہ ہر حالت میں اپنے ایمان کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا۔ نیک اعمال جو کرنے ہیں وہ کسی کو دکھانے کے لئے نہیں کرنے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہر حالت میں مجھے دیکھ رہا ہے، ان پرعمل کرنا ہے۔ دشمنوں کا خوف یا کسی قسم کی روک یا نفسانی لالچیں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے نہ روکیں۔ یہ ایمان کی مضبوطی کی پہلی شرط ہے۔

مومن ہونے کے لئے دوسری اہم شرط نمازوں کا قیام ہے۔ نمازوں کا قیام یہ ہے کہ ایک توجہ کے ساتھ اپنی نمازوں کی نگرانی رکھنا، ان میں باقاعدگی اختیار کرنا کیونکہ اگر نمازوں میں باقاعدگی نہیں ہے، کبھی پڑھی کبھی نہ پڑھی، کبھی نیند آرہی ہے تو عشاء کی نماز ضائع ہو گئی اور بغیر پڑھے سوگئے، کبھی گہری نیند سورہے ہیں تو فجر کی نماز پر آنکھ نہ کھلی۔ بعض لوگ نمازچھوڑ دیتے ہیں حالانکہ اگر وقت پر آنکھ نہیں بھی کھلی تو جب بھی آنکھ کھلے فجر کی نماز پڑھنی چاہئے۔ سورج نکلے پڑھیں گے تو گھر والوں کے سامنے بھی شرمندگی ہوگی یا اپنے آپ کو احساس ہوگا اور ضمیرملامت کرے گا کہ اتنی دیر سے نماز پڑھ رہاہوں اور پھر اگلے دن اس احساس سے ایک مومن وقت پر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھرکام کرنے والے ہیں، کام کی وجہ سے ظہر اور عصر کی نمازیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن تو وہ لوگ ہیں جو نمازوں کا قیام کرتے ہیں اور قیام کس طرح کرتے ہیں، عَلٰی صَلَا تِھِمْ دَآئِمُوْنَ (المعارج:24) اپنی نمازوں پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ اس میں باقاعدگی رکھتے ہیں، یہ نہیں کہ کبھی نماز ضائع ہو گئی توکوئی حرج نہیں بلکہ آگے فرمایا کہ عَلٰی صَلَا تِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (المعارج:35) نمازوں کی حفاظت پر کمربستہ رہتے ہیں۔ انسان جتنی کسی عزیز چیز کی حفاظت کرتا ہے، وہ نمازوں کی حفاظت عزیز ترین شے سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ ایک مومن نمازوں کی حفاظت اس سے بھی زیادہ توجہ سے کرتا ہے۔ اگر نماز ضائع ہو جائے تو بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ حالت ہوگی تو تب ایمان میں مضبوطی آئے گی۔ پھر باقاعدہ نماز پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا (النساء:104)۔ یقینا نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے اور حقیقی مومن وہی ہیں جو نماز وقت پر ادا نہ ہوسکے تو بے چین ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک شخص کی ایک دن فجر کی نماز پر آنکھ نہیں کھلی، نماز قضاء ہوگئی، اس کا سارا دن اس بے چینی میں اور رو رو کر اور استغفار کرتے ہوئے گزرا۔ لگتا تھا کہ یہ غم اسے ہلاک کر دے گا، اگلے دن نماز کا وقت آیا، اس کو آواز آئی کہ اٹھو اور نماز پڑھو۔ اس نے پوچھا کون ہو تم؟ اس نے کہا مَیں شیطان ہوں۔ پوچھا کہ شیطان کا کیا کام ہے نماز کے لئے جگانے کا؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل تم نے جو رورو کر اپنی حالت بنائی تھی اور جتنا استغفار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے تم کو کئی گنا نماز کا ثواب دے دیا۔ میرا تو مقصد یہ تھا کہ تم ثواب سے محروم ہوجاؤ گے تو بجائے اس کے کہ تم کئی گنا ثواب لو اس سے بہترہے کہ مَیں تمہیں خود ہی جگا دوں اور تم تھوڑا ثواب حاصل کرو، اتنا ہی جتنا نماز کا ملتا ہے۔ نہیں تو پھر رو رو کے وہی حالت کرو گے اور پھر زیادہ ثواب لے جاؤ گے تو میرا مقصد تو پورا نہیں ہوگا۔ تو یہ نمازیں چھوڑنے والوں کا درد ہوتا ہے۔

پھر ایک مومن کی نمازوں کی شان نمازپڑھتے ہوئے پوری توجہ کے ساتھ پڑھنا ہے۔ ایک مومن کو باجماعت نماز پڑھنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ قیام نماز اس وقت مکمل ہوگا جب باجماعت نماز کی طرف توجہ ہوگی۔ اس لئے حتی الوسع باجماعت نماز کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس لئے حدیث میں آیا ہے کہ باجماعت نماز کا ثواب ستائیس گنا تک ہے۔

(مسلم کتاب الصلوٰۃ باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ حدیث نمبر 1362)

پھر ایک مومن کی ایک یہ شان ہے کہ نہ صرف خود نمازوں کا اہتمام کرے بلکہ دوسروں کو بھی تلقین کرتا رہے۔ جماعتی نظام بھی ایک خاندان کی طرح ہے۔ اس میں ہر ایک کو اپنے ساتھ اپنے بھائی کی بھی فکر کرنی چاہئے۔ جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے، اپنے عزیزوں کے لئے بھی پسند کرنی چاہئے۔ یہ ثواب کمانے اور نیکی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ لیکن پیار سے توجہ دلانی چاہئے۔ جس کو توجہ دلائی جارہی ہو اس کوبھی بُرا نہیں منانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْعَلَیْھَا (سورۃ طٰہٰ :133) اور تُو اپنے اہل کو نماز کی تلقین کرتا رہ اور خود بھی نماز پر قائم رہ۔ پس جہاں ماں باپ، بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کو نماز کی تلقین کرنی چاہئے وہاں پر ہر احمدی کو دوسرے احمدی کو بھی پیار سے اور نظام جماعت جو اس کام پرمامور ہے ان کو بھی دوسروں کو نمازوں کی طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئے۔ یہی چیز ہے جو مومنین کی جماعت کو مضبوطی عطاکرتی ہے۔ یہی چیز ہے جس سے بندے اور خدا کے درمیان ایک تعلق قائم ہوتا ہے جو بندے کو خدا کے قریب کرتا ہے اور یہ تعلق اس لئے نہیں کہ دنیاوی مقاصد حاصل کرنے ہیں بلکہ اصل مقصد روحانیت میں ترقی کرنا اور خدا کا قرب پانا ہے۔ پس جب اس مقصد کے حصول کے لئے ایک دوسرے کو توجہ دلارہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو سمیٹنے والے بن رہے ہوں گے اور جماعتی مضبوطی بھی پیدا ہورہی ہوگی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے شرط وہی لگائی کہ خود بھی نمازوں کی طرف توجہ کرو۔ اپنے عمل کی شرط ضروری ہے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ جولائی 2007ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 نومبر 2020