• 25 اپریل, 2024

نظرىں فلک کى جانب ہىں خاک پر جبىں ہے

ہر ایک ہے ہراساں یہ دَور نکتہ چیں ہے
ہر دل میں ہے تکدّر، آلودہ ہر جبیں ہے
ناپختہ ہر عمل ہے، لرزیدہ ہر یقیں ہے
وصلِ صنم کا خواہاں شاید کوئی نہیں ہے
’’فکروں سے دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے
جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے‘‘
آنکھوں میں سیلِ گریہ، سینہ دھواں دھواں ہے
ہر نفس مضطرب ہے ہر آنکھ خونچکاں ہے
ہونٹوں پہ مسکراہٹ، دل مہبطِ فغاں ہے
فُرقت میں یاں تڑپتا انبوہِ عاشقاں ہے
غربت میں واں پریشاں اک دلرُبا حسیں ہے
’’جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے‘‘
اک دَورِ پُرسکوں کا آغاز چاہتی ہوں
لَے ہو طرب کی جس میں وہ ساز چاہتی ہوں
نظرِ کرم ہی میرے دمساز چاہتی ہوں
میں تیرے لفظ کُن کا اعجاز چاہتی ہوں
سب کی ہے تو ہی سنتا اِس بات کا یقیں ہے
’’جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے‘‘
انسانی لغزشوں سے میں ماورا نہیں ہوں
ماحول سے علیحدہ ربُ الوریٰ نہیں ہوں
لیکن میں تجھ سے غافل میرے خدا نہیں ہوں
میں بے عمل ہوں بیشک پر بے وفا نہیں ہوں
نظریں بھٹک رہی ہیں پر دل میں تُو مکیں ہے
’’جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے‘‘
میں مانتی ہوں میرا خالی ہے آبگینہ
نہ آہِ صبح گاہی نہ زاریٔ شبینہ
تسلیم کا سلیقہ نہ پیار کا قرینہ
پر میری جان میرا شق ہو رہا ہے سینہ
اب اس میں تابِ فکر و رنج و محن نہیں ہے
’’جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے‘‘
بے چین ہو کے کوئی دن رات رو رہا ہے
وہ اپنی سجدہ گاہیں ہر دم بھگو رہا ہے
دامانِ صاف اپنے اشکوں سے دھو رہا ہے
تو جانتا ہے سب کچھ یاں جو بھی ہورہا ہے
ہے روح بھی فسردہ دل بھی بہت حزیں ہے
’’جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے‘‘
کرب و بلا کے لمحے بڑھتے ہى جار ہے ہىں
سوز و گداز مىرا سىنہ جلا رہے ہىں
ىہ ناگ وسوسوں کے پل پل ڈرا رہے ہىں
سب صبر و ضبط مىرا کىوں آزما رہے ہىں
کچھ اس کا بھى تدارک تُو ربّ عالمىں ہے
’’جو صبر کى تھى طاقت وہ مجھ مىں اب نہىں ہے‘‘
ذوقِ دعا کو مىرے رنگِ ثبات دے دے
جامِ لقا پلا دے، آبِ حىات دے دے
ىہ تو نہىں مىں کہتى کُل کائنات دے دے
فکروں سے تلخىوں سے بس تو نجات دے دے
نظرىں فلک کى جانب ہىں خاک پر جبىں ہے
’’جو صبر کى تھى طاقت وہ مجھ مىں اب نہىں ہے‘‘

(صاحبزادى امۃ القدوس صاحبہ)
(تضمىن برمصرع حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 نومبر 2020